ووٹنگ: "مروجہ جہیز ایک لعنت"

آپ کے خیال میں عنوان کے مطابق بہترین مضمون کس نے لکھا ہے؟

  • خرم شہزاد خرم

    Votes: 5 13.9%
  • سارہ خان

    Votes: 16 44.4%
  • ادریس آزاد

    Votes: 1 2.8%
  • ایم بلال

    Votes: 1 2.8%
  • حجاب

    Votes: 5 13.9%
  • عندلیب

    Votes: 8 22.2%

  • Total voters
    36
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .
چار ہفتے قبل ہم بھی رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جہیز اور بارات کے بغیر سب کام ہو گیا۔ اس پر کتنے نمبر ملیں گے؟ :smile3:

اللہ آپ کی ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے بھرپور کردے ۔ اور اپنی جناب میں آپ کے نمبروں میں بے حساب اضافہ فرمائے اتنا کہ کسی اور نمبر کی حاجت ہی نہ رہے ۔ ویسے بھی اگر جہیز سے بیٹیوں کے گھر بستے تو شاید دنیا میں کہیں بھی گھر اجڑتے نہیں ۔ بہر حال دل چاہا کومینٹ کر دیا ابھی جا کر مضامین پڑھتا ہوں اور رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔
 

زیک

مسافر
ووٹ تو میں نے دے دیا مگر کچھ باتیں ذہن میں ہیں تو لکھ رہا ہوں۔

جہیز کے موضوع کے حوالے سے کئ اچھے مضامین ہیں مگر کچھ میں معاشرت کی بجائے مذہب پر زیادہ زور دیا گیا۔ مذہب یقینا معاشرے کا حصہ ہے اور اس کا ذکر شاید ضروری بھی تھا مگر یہ ذکر کچھ مضمون‌نگار بہتر انداز میں کر سکے اور کچھ نے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ زور دیا اور یہ واضح نہ کر سکے کہ جہیز معاشرے کے لئے کیوں برا ہے۔ مذہب پر انحصار کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آپ کا مضمون ان لوگوں کے لئے convincing نہیں رہتا جو اس مذہب کو نہ مانتے ہوں۔ کچھ اسی طرح کا مسئلہ میڈیا والے مضامین میں ہوا تھا کہ مضمون‌نویس پاکستان کے میڈیا پر پوری توجہ کئے ہوئے تھے اور اس لئے غیرپاکستانی یا پاکستانی میڈیا کو فالو نہ کرنے والے کے لئے مضمون کا کوئ مزا نہ تھا۔

دوسری بات مضامین کے عنوان کے انتخاب پر۔ کیا یہ ضروری ہے کہ عنوان میں لوگوں کو ایک خاص رائے کی طرف ہی لایا جائے؟ پچھلا عنوان میڈیا کے منفی اثرات پر تھا اور اب جہیز کی لعنت پر۔ میری اردو کمزور ہے اور وقت بھی نہیں ملا ورنہ میرا موڈ تھا کہ میڈیا کے مثبت اثرات اور جہیز کی خوبیوں پر مضامین لکھوں۔ :p
 
زکریا بھائی مذہبی اور معاشرتی جھکاؤ والی بات واقعئی سبھی مضامین کو ایک ساتھ رکھنے پر واضح نظر آتی ہے۔ پر میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پچھلے مضمون کی بنسبت اس بار یہ اثر کافی کم رہا۔ اور امید ہے کہ دھیرے دھیرے معدوم ہو جائے گا۔

اور عنوان کے تعلق سے یہ کہوں گا کہ امید لگائے بیٹھے رہیئے ان شاء اللہ ماوراء بٹیا آپ کو بھی موقع ضرور دینگی۔

ویسے آپ کوئی اچھی اردو والا/والی ہم خیال تلاش لیں اور اپنی سوچ کا انپٹ فراہم کر کے بہترین اردو کے قالب میں ڈھال لیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ مضمون نویسی کے شرایط میں کہیں اس بات سے منع کیا گیا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
ووٹ تو میں نے دے دیا مگر کچھ باتیں ذہن میں ہیں تو لکھ رہا ہوں۔

جہیز کے موضوع کے حوالے سے کئ اچھے مضامین ہیں مگر کچھ میں معاشرت کی بجائے مذہب پر زیادہ زور دیا گیا۔ مذہب یقینا معاشرے کا حصہ ہے اور اس کا ذکر شاید ضروری بھی تھا مگر یہ ذکر کچھ مضمون‌نگار بہتر انداز میں کر سکے اور کچھ نے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ زور دیا اور یہ واضح نہ کر سکے کہ جہیز معاشرے کے لئے کیوں برا ہے۔ مذہب پر انحصار کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آپ کا مضمون ان لوگوں کے لئے Convincing نہیں رہتا جو اس مذہب کو نہ مانتے ہوں۔ کچھ اسی طرح کا مسئلہ میڈیا والے مضامین میں ہوا تھا کہ مضمون‌نویس پاکستان کے میڈیا پر پوری توجہ کئے ہوئے تھے اور اس لئے غیرپاکستانی یا پاکستانی میڈیا کو فالو نہ کرنے والے کے لئے مضمون کا کوئ مزا نہ تھا۔

دوسری بات مضامین کے عنوان کے انتخاب پر۔ کیا یہ ضروری ہے کہ عنوان میں لوگوں کو ایک خاص رائے کی طرف ہی لایا جائے؟ پچھلا عنوان میڈیا کے منفی اثرات پر تھا اور اب جہیز کی لعنت پر۔ میری اردو کمزور ہے اور وقت بھی نہیں ملا ورنہ میرا موڈ تھا کہ میڈیا کے مثبت اثرات اور جہیز کی خوبیوں پر مضامین لکھوں۔ :p

یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہم صرف تنزلی کی طرف ہی کیوں دیکھتے ہیں ۔ دنیا میں اگر کچھ چیزیں معاشرے کی ضرورت اور رسوم کا حصہ ہیں تو ان میں کئی مثبت پہلو بھی ہونگے ۔ بات صرف یہ ہے کہ ان کا اطلاق کن اصولوں اور ضابطوں کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے ۔ اگر ان میں کسی قسم کی مثبت اصطلاحی تبدیلیاں ممکن ہیں تو پھر ان کا بھی ذکر ضروری ہے ۔ تاکہ ایسی رسوم اور ذرائع کو مفید بنانے کا بھی سوچا جاسکے ۔ جس طرح میڈیا کو ہم ختم نہیں کرسکتے مگر اس میں کئی اصطلاحی تبدیلیاں لاکر ، اس کو معاشرے کے لیئے مفید بنایا جاسکتا ہے اسی طرح جہیز کی رسم کو بھی معاشرے میں کچھ اس طرح متعارف کرایا جا ئے کہ اس کی افادیت ضرورت ، نمود و نمائش اور اسراف کے بجائے محبت اور تعلقات میں مثبت روی کا ذریعہ بنے ۔ چاہے یہ جہیز تحائف کی شکل میں ایک دوسرے سے برابری کی شراکت پر کیا جائے ۔ کیونکہ اس رسم کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ میں ، آپ اور چند لوگ اس سے تائب ہوسکتے ہیں مگر ہمارا پورا معاشرہ اس رسم میں جکڑا ہوا ہے ۔ کیوں نہ اس جہیز کو کوئی ایسی نئی شکل دی جائے جونہ صرف اس رسم کے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو بلکہ کسی غریب کے لیئے اس کی متاعِ زندگی کسی اور کے حوالے کرنے کے ازالے کا بھی سبب بنے ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں نے ابھی تمام مضامین نہیں پڑھے ۔ اس لیئے ووٹ نہیں دیا ۔ جلد ہی اپنا حق رائے دہی میں استعمال کروں گا ۔ ;)
 

ماوراء

محفلین
اور عنوان کے تعلق سے یہ کہوں گا کہ امید لگائے بیٹھے رہیئے ان شاء اللہ ماوراء بٹیا آپ کو بھی موقع ضرور دینگی۔
سعود بھیا، نئے موضوع کے لیے پوچھا تھا۔ کسی نے تب رائے نہیں دی۔:( صرف آپ نے دی۔:)
اس بار باقی سب ہی بتائیں گے کہ کیا موضوع ہونا چاہیے۔ اور نتائج کے کچھ دن بعد نیا مقابلہ شروع کریں گے۔
 

عندلیب

محفلین
اس پوائینٹ کی طرف میں بھی توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ جو بھی موضوع دیا جائے اس کے نتیجہ کو اپنی طرف سے فکس نہ کر دیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے کالج کے زمانے میں تقریری یا تحریری مقابلہ جو ہوتا تھا تو عنوان اس طرح دیا جاتا تھا کہ عنوان کی موافقت یا مخالفت دونوں میں بولنا/لکھنا ممکن ہوتا تھا۔ اور اکثر اوقات میں‌ اور میری چھوٹی بہن یہ کرتی تھیں کہ وہ اگر عنوان کی موافق میں تقریر کرتیں تو میں مخالفت میں۔ ;)
مقابلوں کے انعقاد کے پیچھے اساتذہ کی یہ سوچ کارفرما ہوتی تھی کہ طلباء ہر طریقے سے اپنے ذہن کو سوچنے کے قابل بنائیں۔
 

ارتضی حسن

محفلین
جہیز

سلام علیکم
بہت اچھا موضوع اور بہت اچھی کاوش، کسی نے اسکو سوشل سائنسز کے پوائنٹ آف ویو سے دیکھا اور کسی نے خالص مذھبی مسئلہ بنا کر بعض نے جہیز کو مکروہ قرار دیا اور بعض نے لعنت، میری ناقص رائے کے مطابق آخری دو آرٹیکل خصوصا بہن عندلیب کا آرٹیکل جامع اور مختصر تھا اور دین اور مذھب سے تعلق کو صحیح بیان کیا گیا البتہ یہ امتیاز بہن حجاب کے آرٹیکل میں بھی تھا لیکن بہن عندلیب نے زیادہ بہتر تجزیہ کا ایسے سلسلے جاری رہنا چاہیں اور تمام ممبران کو اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا چاہیے کتنا اچھا ہوتا کہ آخرمیں ہر موضوع کے متعلق اس فیلڈ کا ایکسپرٹ صحیح نقطہ نگاہ کو بیان کرتا تاکہ معلومات میں صحیح اضافہ ہوتا
والسلام
سید ارتضی حسن رضوی
 

ماوراء

محفلین
رائے شماری بند ہونے میں صرف تین دن باقی ہیں۔ اور ابھی تک صرف 27 ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ حالانکہ پچھلے مقابلہ میں 68 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
 
اس پوائینٹ کی طرف میں بھی توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ جو بھی موضوع دیا جائے اس کے نتیجہ کو اپنی طرف سے فکس نہ کر دیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے کالج کے زمانے میں تقریری یا تحریری مقابلہ جو ہوتا تھا تو عنوان اس طرح دیا جاتا تھا کہ عنوان کی موافقت یا مخالفت دونوں میں بولنا/لکھنا ممکن ہوتا تھا۔ اور اکثر اوقات میں‌ اور میری چھوٹی بہن یہ کرتی تھیں کہ وہ اگر عنوان کی موافق میں تقریر کرتیں تو میں مخالفت میں۔ ;)
مقابلوں کے انعقاد کے پیچھے اساتذہ کی یہ سوچ کارفرما ہوتی تھی کہ طلباء ہر طریقے سے اپنے ذہن کو سوچنے کے قابل بنائیں۔

اپیا معاملہ یہ ہے کہ اس طرح کے عنوان عموماً ڈیبیٹ کا تاثر چھوڑتے ہیں۔ اور تب بہترین انتخاب اس بات پر نہیں ہوتا کہ مثبت پہلو کو اپنایا گیا ہے یا منفی بلکہ جو بھی منتخب کیا گیا اس کو کتنی خوبی سے برتا گیا۔ کتنے مضبوط اور واضح دلائل دئیے گئے۔

لیکن ایسے مقابلوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کا حیطہ عموماً طویل ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بہترین کا انتخاب عام رائے شماری سے ہونے کی صورت میں لوگ اکثر ان میں بہتر تلاشیں گے جس کا موقف وہی ہو جو ان کا اپنا ہے۔ جبکہ اس کے بالمقابل پہلے سے متعین موضوع پر ووٹنگ ٹرانسپیرینٹ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ان مسائل کے باوجود ایسے دو ایک مقابے اور ہو جائیں تو محفل اس قابل ہو جائے گی کہ ڈیبیٹ کو ہوسٹ کیا جا سکے۔ ابھی کے لئے پبلک ڈیمانڈ پر ایک بار کسی موضوع کے موافق اور دوسری بار اس کے مخالف عنوانات دیے جا سکتے ہیں۔

اسے میرا مشورہ گردانا جائے۔ قطعی فیصلہ احباب کی رائے سے ہی لیا جا سکتا ہے۔
 

شاہ حسین

محفلین
تمام شرکاء مقابلہ نے بہترین انداز میں شرکت کی ۔
میں اپنی رائے دے چکا ہوں جو کہ مخفی ہے اور رہے تو بہتر ہے کیوں کہ سب نے ہی اچھا لکھا ہے
 

شاہ حسین

محفلین
محترمہ سارہ خان ہم دعا کرتے ہیں یہ کامیابی آپ کی لئے نئی راہی متیّن کرے -
آپ سمیت تمام احباب نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا -
پر آپ کا ترتیب دیا ہوا مضمون جو سب پر سبقت لے گیا واقی اس لائق تھا کہ اسے اوّل ٹھرایا جائے-
خط ان کا بہت خوب عبارت بہت اچّھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 

ماوراء

محفلین
نتائج تو اب آپ سب دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایک بار پھر میں اعلان کرتی چلوں۔۔۔

1۔ سارہ خان ۔ 16 ووٹس
2۔ عندلیب ۔ 8 ووٹس
3۔ حجاب ۔ 5 ووٹس
4۔ خرم شہزاد خرم ۔ 5 ووٹس
5۔ ادریس آزاد ۔ 1 ووٹ
6۔ ایم بلال ۔ 1 ووٹ


یوں آج کے پہلی تین پوزیشنز لینے والے مضامین کچھ یوں ہیں:

1۔ سارہ خان ۔ 16
1stjf2.gif

2۔ عندلیب ۔ 8
2ndau0.gif

3۔ حجاب ۔ 5
3rdbr6.gif

3۔ خرم شہزاد خرم ۔ 5
3rdbr6.gif


میری طرف سے جیتنے والوں کو بہت مبارک باد۔ البتہ اس بار پہلے سے کم لوگوں نے مقابلہ میں حصہ لیا اور ووٹ بھی کم لوگوں نے دئیے۔
 

سارہ خان

محفلین
میرے لکھے ہوئے مضمون کو سب سے زیادہ ووٹ ملے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔ :) مجھے اتنی زیادہ توقع نہیں تھی ۔۔ ذاتی طور پر مجھے حجاب اور عندلیب سسٹر کا مضمون زیادہ اچھا لگا تھا ۔۔۔ :) عندلیب سسٹر ، حجاب اور خرم آپ لوگوں کو میری طرف سے بہت مبارک ۔۔:happy:

جن لوگوں نے میرے مضمون کو پسند کیا اور ووٹ دینے کے قابل سمجھا ان سب کا بہت بہت شکریہ ۔۔:)
 
Top