بڑے دل کے مالک وہ ہیں جنہوں نے استطاعت رکھتے ہوئے بھی میری گزارش کو شرف قبولیت بخشا اور اپنی بیٹی کے نکاح پر ہر قسم کی خرافات سے پرپیز کی۔ماشاءاللہ، آپ تو پھر بہت بڑے دل کے مالک ہیں۔
بڑے دل کے مالک وہ ہیں جنہوں نے استطاعت رکھتے ہوئے بھی میری گزارش کو شرف قبولیت بخشا اور اپنی بیٹی کے نکاح پر ہر قسم کی خرافات سے پرپیز کی۔ماشاءاللہ، آپ تو پھر بہت بڑے دل کے مالک ہیں۔
چار ہفتے قبل ہم بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔ اللہ کی توفیق سے جہیز اور بارات کے بغیر سب کام ہو گیا۔ اس پر کتنے نمبر ملیں گے؟
ووٹ تو میں نے دے دیا مگر کچھ باتیں ذہن میں ہیں تو لکھ رہا ہوں۔
جہیز کے موضوع کے حوالے سے کئ اچھے مضامین ہیں مگر کچھ میں معاشرت کی بجائے مذہب پر زیادہ زور دیا گیا۔ مذہب یقینا معاشرے کا حصہ ہے اور اس کا ذکر شاید ضروری بھی تھا مگر یہ ذکر کچھ مضموننگار بہتر انداز میں کر سکے اور کچھ نے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ زور دیا اور یہ واضح نہ کر سکے کہ جہیز معاشرے کے لئے کیوں برا ہے۔ مذہب پر انحصار کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ آپ کا مضمون ان لوگوں کے لئے Convincing نہیں رہتا جو اس مذہب کو نہ مانتے ہوں۔ کچھ اسی طرح کا مسئلہ میڈیا والے مضامین میں ہوا تھا کہ مضموننویس پاکستان کے میڈیا پر پوری توجہ کئے ہوئے تھے اور اس لئے غیرپاکستانی یا پاکستانی میڈیا کو فالو نہ کرنے والے کے لئے مضمون کا کوئ مزا نہ تھا۔
دوسری بات مضامین کے عنوان کے انتخاب پر۔ کیا یہ ضروری ہے کہ عنوان میں لوگوں کو ایک خاص رائے کی طرف ہی لایا جائے؟ پچھلا عنوان میڈیا کے منفی اثرات پر تھا اور اب جہیز کی لعنت پر۔ میری اردو کمزور ہے اور وقت بھی نہیں ملا ورنہ میرا موڈ تھا کہ میڈیا کے مثبت اثرات اور جہیز کی خوبیوں پر مضامین لکھوں۔
سعود بھیا، نئے موضوع کے لیے پوچھا تھا۔ کسی نے تب رائے نہیں دی۔ صرف آپ نے دی۔اور عنوان کے تعلق سے یہ کہوں گا کہ امید لگائے بیٹھے رہیئے ان شاء اللہ ماوراء بٹیا آپ کو بھی موقع ضرور دینگی۔
اس پوائینٹ کی طرف میں بھی توجہ دلانا چاہ رہی تھی کہ جو بھی موضوع دیا جائے اس کے نتیجہ کو اپنی طرف سے فکس نہ کر دیا جائے۔ جیسا کہ ہمارے کالج کے زمانے میں تقریری یا تحریری مقابلہ جو ہوتا تھا تو عنوان اس طرح دیا جاتا تھا کہ عنوان کی موافقت یا مخالفت دونوں میں بولنا/لکھنا ممکن ہوتا تھا۔ اور اکثر اوقات میں اور میری چھوٹی بہن یہ کرتی تھیں کہ وہ اگر عنوان کی موافق میں تقریر کرتیں تو میں مخالفت میں۔
مقابلوں کے انعقاد کے پیچھے اساتذہ کی یہ سوچ کارفرما ہوتی تھی کہ طلباء ہر طریقے سے اپنے ذہن کو سوچنے کے قابل بنائیں۔
آج ووٹ دینے کا آخری دن ہے۔
ٹوٹل 34 ووٹس