اِس بات کے باوجود کہ نواز شریف صاحب ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کا کردار ادا کرتے رہے اور اس حوالے سے کافی بدنام بھی رہے، ان کا بیانیہ کافی حد تک زور پکڑ چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بظاہر اُن کے مخالفین کو یہی 'سسٹم' سہولتیں فراہم کرنے میں مصروف ہے؛ کم ازکم نون لیگ کی طرف سے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کی حد تک یہ تاثر ضرور قائم کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے عوام نظریات کی بنیاد پر کم ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی تو بہرصورت یہی کوشش رہے گی کہ نون لیگ میں بڑی دراڑ ڈالی جائے اور آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں اس جماعت کی نشستوں کی تعداد کو ایک سو سے کم رکھا جائے۔ عام انتخابات کے بعد سینٹ کے چیئرمین کی طرح کا ایک مسکین وزیراعظم سامنے آ جائے تاہم عوام کا موڈ اور مزاج کافی مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر آنچ زیادہ لگ گئی اور ایک جماعت کے ساتھ امتیازی برتاؤ روا رکھا گیا اور نواز شریف صاحب بھی ڈٹ گئے تو معاملات بگڑنے کا احتمال زیادہ ہے۔ اس لیے ایک اور این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کے مطابق نواز شریف صاحب کی مقدمات سے گلوخلاصی کرائی جائے گی اور شہباز کو پرواز کا موقع دیا جائے گا تاہم نگران سیٹ اپ کے قیام کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پاس کھل کھیلنے کے کافی مواقع ہوں گے اور این آر او کی عدم دستیابی پر نواز شریف صاحب کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہے گا اور تب اصل معرکہ بپا ہو گا؛ اس وقت صف بندی کا عمل جاری ہے۔ ہماری دانست میں اسٹیبلشمنٹ روایتی انداز میں این آر او کی طرف ہی جائے گی کیوں کہ عام انتخابات کےبعد اگر نون لیگ اپوزیشن میں چلی گئی تو احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست دان پتے کھیلنے میں ماہر ہو تو اس کی کئی سیاسی زندگیاں ہوتی ہیں۔ نواز شریف صاحب کے پاس اب بھی بہت سے کارڈز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس صورت حال میں عمران خان صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کا کردار کیا رہتا ہے۔ اگر یہ دو پارٹیاں مل جائیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نون لیگ کو پچھاڑ سکتی ہیں تاہم پوسٹ الیکشن اتحاد کی صورت میں بھی عمران خان صاحب خسارے میں رہیں گے۔ ممکن ہے کسی تیسری جماعت کا وزیراعظم سامنے آ جائے جسے اسٹیبلشمنٹ کی اشیربادحاصل ہو۔