ووٹ کو عزت دو

جان

محفلین
اِس بات کے باوجود کہ نواز شریف صاحب ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کا کردار ادا کرتے رہے اور اس حوالے سے کافی بدنام بھی رہے، ان کا بیانیہ کافی حد تک زور پکڑ چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بظاہر اُن کے مخالفین کو یہی 'سسٹم' سہولتیں فراہم کرنے میں مصروف ہے؛ کم ازکم نون لیگ کی طرف سے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کی حد تک یہ تاثر ضرور قائم کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے عوام نظریات کی بنیاد پر کم ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی تو بہرصورت یہی کوشش رہے گی کہ نون لیگ میں بڑی دراڑ ڈالی جائے اور آئندہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں اس جماعت کی نشستوں کی تعداد کو ایک سو سے کم رکھا جائے۔ عام انتخابات کے بعد سینٹ کے چیئرمین کی طرح کا ایک مسکین وزیراعظم سامنے آ جائے تاہم عوام کا موڈ اور مزاج کافی مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر آنچ زیادہ لگ گئی اور ایک جماعت کے ساتھ امتیازی برتاؤ روا رکھا گیا اور نواز شریف صاحب بھی ڈٹ گئے تو معاملات بگڑنے کا احتمال زیادہ ہے۔ اس لیے ایک اور این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جس کے مطابق نواز شریف صاحب کی مقدمات سے گلوخلاصی کرائی جائے گی اور شہباز کو پرواز کا موقع دیا جائے گا تاہم نگران سیٹ اپ کے قیام کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پاس کھل کھیلنے کے کافی مواقع ہوں گے اور این آر او کی عدم دستیابی پر نواز شریف صاحب کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہے گا اور تب اصل معرکہ بپا ہو گا؛ اس وقت صف بندی کا عمل جاری ہے۔ ہماری دانست میں اسٹیبلشمنٹ روایتی انداز میں این آر او کی طرف ہی جائے گی کیوں کہ عام انتخابات کےبعد اگر نون لیگ اپوزیشن میں چلی گئی تو احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست دان پتے کھیلنے میں ماہر ہو تو اس کی کئی سیاسی زندگیاں ہوتی ہیں۔ نواز شریف صاحب کے پاس اب بھی بہت سے کارڈز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اس صورت حال میں عمران خان صاحب اور آصف علی زرداری صاحب کا کردار کیا رہتا ہے۔ اگر یہ دو پارٹیاں مل جائیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نون لیگ کو پچھاڑ سکتی ہیں تاہم پوسٹ الیکشن اتحاد کی صورت میں بھی عمران خان صاحب خسارے میں رہیں گے۔ ممکن ہے کسی تیسری جماعت کا وزیراعظم سامنے آ جائے جسے اسٹیبلشمنٹ کی اشیربادحاصل ہو۔
این آر او آئے گا، ضرور آئے گا اگر خان نے حکومت میں آ کر اسٹیبلشمنٹ سے راہیں جدا کرنے کا سوچا۔
 

عرفی

محفلین
مقبول سیاست دان ہونا شاید کوئی بڑا جرم ہے۔ یہی سزا بھٹو کو بھی دی گئی تھی۔ تاہم، ان باتوں کو جانے دیجیے۔ ہم کہہ چکے، نواز شریف صاحب کو جیل بھجوا دیجئے۔ تاہم، احتساب سب کا اور بلاامتیاز ہونا چاہیے۔ آپ ہمیں کھینچ تان کر شریف خاندان پر لے آتے ہیں حالانکہ ہمارے اصل اندیشے یہ نہیں ہیں۔ ہمیں ملکی مفاد عزیز ہے۔
معذرت کے ساتھ اس فورم پر بھی اختلاف میں بعد قطبین صاف نظرآرہا ہے۔ یعنی اصطبلشمنٹ کے سیاست میں مداخلت کے سبھی مخالف لیکن اس سے ن ش کو فائدہ نہ ہوجائے اس لئے اب جو ھو رہا ہے وہ ٹھیک ہے جب عمران پر کوئی زیادتی ہوئی تب دیکھیں گے۔ تو پھر 70 سال کے تقسیم کرو الو بناؤ اور غیرآئینی طور پر مرئی اور غیر مرئی حکومت کرو کا طریق چلتا رہےگا۔ میرے عزیزو قانون کی حکمرانی تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ آپ اپنے بدترین مخالف کے حقوق پر آنچ آئے پر بھی کھڑے ھو جائیں قطع نظر کے اسکے نظریات یا اسکا ماضی کیا ہے۔ اوپر بہت سے دوستوں نے لکھا ہےکہ نوازشریف خلائی مدد سے آتے رہے ہیں سو ان کو نقص عہد کی سزا مل رہی ہے۔ واہ واہ آفرین ہے بھئی یعنی کرپشن کی وجہ نہیں بلکہ وچ ہنٹ بھی ہو تو جائز ہے اس لئے کے یہ خود بھی انکا ہی بندہ تھا۔ ساری دنیا میں مضبوط ترین کنٹرولنگ نظاموں کے اندر سے کوئی بغاوت کرتا ہے تو نظام بدل جانے کی امید ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مقدمات اتنی برق رفتاری سے چلنا سازش نہیں بلکہ ترجیح کسی چڑیا کا نام بے۔ آپ میں کوئی بھی شخص خواہ وہ پیغمبرانہ حد تک نیک ہے دل پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کہہ دے کہ اگر آپ پر آپکا کوئی مخالف کوئی کیس بنا دے تو آپ ایسا ٹرائل چاہیں گے جیسا نوازشریف کا ہو رہا ہے یعنی میڈیا ٹرائل بذریعہ عدلیہ اور عدالتی ٹرائل بزریعہ حریف اور متحرب مفادات کے حامل افسران اور قاضیوں کا کھلےبندوں پری ججمنٹ اوراستہزائیہ کلمات اور اپنے اختیارات سے تجاوز اسکی مخالف ججمنٹس میں مگر خوفزدہ رویہ اسکےحق میں جاتے مسائل میں مثلا حسین نواز تصویر لیک۔ ہرگز نہیں میں تو اپنے کسی کمینے دشمن کےلئے بھی ایسے قانونی پراسس کی حمائت نہیں کر سکتا
اب رھا ان لوگوں کا مسئلہ کہ جو کہتے ہیں جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ انہاں تے پیڑھ۔ تو میرے بھائیو بہنو یہی تو پری ججمنٹ ہوتی ہے۔ اگر مجھے کسی 'دیگر' ذرائع سے یہ خبر بھی ھو کہ کسی نے ٹیکس چوری کیا ہے تو میں اسکو اسکےٹرائل میں جج کے طور پر استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ عدالتی ٹرائل صرف اللہ کے لئےنہیں عوام الناس کے لئے ھوتا ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ ھوتا نظر بھی آئے اسیلئے اگر میں نے کبھی کسی مؤکل کا کیس و کیل کے طور پر لڑا ھو یا اسکا کاروباری شریک رہا ہوں تو میں جج نہیں بنوں گا اس کے کیس میں صرف اسلئے نہیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ دیرینہ رفاقت میں رعائت نہ کردوں بلکہ اس لئے زیادہ کہ میری رسائی اس معلومات تک رہی جو اس مدعا علیہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں میری رائے کو متاثر کر سکتی ہیں۔ یہاں پتہ نہیں جج حضرات کو اسکا ادراک نہیں یا دانستہ طور پر اصطبلشمنٹ کے دست و بازو بنےہوئے ہیں۔ خود TV کےپروگراموں کو دیکھکر رائے بناتے ہیں اور اسکا ذکر ہر روز ڈھٹائی سے اپنے ریمارکس میں کرتے ہیں سبجیوڈسی کا کانسپٹ بھی اس مقدمہ کے لئے ترک کر دیا گیا ہے۔ ایک مضحکہ خیز ترین تبصرہ جو ثاقب نثار سے منسوب کیا گیا موصوف فرماتے ہیں عدلیہ کے خلاف باتیں کرنے والوں کے لئے کوئی سکیورٹی نہیں۔ واہ واہ یہ اگر واقعی اسنےکیا ہے تو کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو پراپر فورم میں اسکا اپنا احتساب ہوچکا ہوتا۔ یعنی ذاتی عناد اور ادارہ جاتی عناد کو قانونی سمجھ رہا ہے اور اسپر فیصلہ کرےگا۔ حرف آخر اگر ایک سیریل کلر کا بھی ٹرائل ھو رہا ہو تو اسکے قانونی حقوق ختم نہیں ہوسکتے یہاں تو سبھی جانتے ہیں حکم عدولی کا مسئلہ ہے۔ اگر عدالت میں سزا کے اعلان کے بعد بھی ایک ریپسٹ یا قاتل کو بھی نفرت کی وجہ سے پولیس والا ایک تھپٹر مار کر کہے کہ چل جیل میں اور وہی جج جس نے ابھی ابھی اسکو پھانسی کی سزا دی ہے وہیں اس پولیس والے کی نہ صرف بازپرس کرے گا بلکہ پورا سسٹم اس زیادتی کے خلاف پولیس والے پر مقدمہ چلائے گا۔ تو بھائی اسی وجہ سے وہ قومیں کفر کے باوجود آگے ہیں۔ یہاں تو فقط شک پر ہجوم خود ہی مارنا اور لاش کو جلانا اور مُسلہ کرنا جائز سمجھتا ہے۔ یہاں وزیراعظم تمامتر جلال شاھی کے باوجود سسٹم کے ذریعےنہیں قوت بازو سے بکری کےبچےکیطرح کھینچ نکالا جاسکتا ہے مگر سرعام قانون توڑنے اور ججوں کی ماں بہن کو ناگفتہ بہ حالات سے گزارنےکی کیفیات بیان کرنے واالا سرکاری پروٹوکول اور حفاظت لیتا ہے بلکہ خود ایک لاکھ آن کیمرہ اور چیلے چا ٹے 1000 فی کس غریب ملک کے خزانے سے وصول پاتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی بلکہ اسپر بات کرنے پر غائب ھونے کا خدشہ اسکے وکٹمز کوبھی خاموش رکھتا ہے ، تو کیسی ترجیحات والی چڑیا ہے ہماری۔ بھائی یہ وچ ہنٹ اور حکم عدولی پر عبرت کا نشان بنانے کا قصہ بے۔ پرانے پرانے کیس اگر صحیح نیت سےبھی کھولے جا رہےہوں تو فیئر ٹرائل کے منافی ہوتے ہیں اور ڈبل جیپرڈی کسی آئینی وقانونی انتظام میں جائز نہیں ہوتی ہے۔
 
یہ تو ہوتا دکھائی رہا ہے۔ خان صاحب حکومت میں بھی آئیں گے، اور اسٹیبلشمنٹ سے مناقشہ بھی ہو گا۔
مجھے جھگڑا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ خان خود حاشیہ بردار ہے اور تین چار بڑے (ترین، قریشی وغیرہ) بھی اسٹیبلشمنٹ کو پیارے ہیں۔ بہت زیادہ چوڑی ٹائٹ نا کی تو زرداری صاحب کی طرح 5 سال گزارنے دیں گے۔ البتہ پنجاب میں پھر سے ن لیگی حکومت بننے کے چانسز ہیں اور اصل پھڈا یہاں ہوا کرے گا۔
 

یاز

محفلین
مجھے جھگڑا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ خان خود حاشیہ بردار ہے اور تین چار بڑے (ترین، قریشی وغیرہ) بھی اسٹیبلشمنٹ کو پیارے ہیں۔ بہت زیادہ چوڑی ٹائٹ نا کی تو زرداری صاحب کی طرح 5 سال گزارنے دیں گے۔ البتہ پنجاب میں پھر سے ن لیگی حکومت بننے کے چانسز ہیں اور اصل پھڈا یہاں ہوا کرے گا۔
جھگڑا ہونا اٹل ہے۔ یہ وقت ثابت کرے گا، اور بہت جلد کرے گا۔
 

جان

محفلین
مجھے جھگڑا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ خان خود حاشیہ بردار ہے اور تین چار بڑے (ترین، قریشی وغیرہ) بھی اسٹیبلشمنٹ کو پیارے ہیں۔ بہت زیادہ چوڑی ٹائٹ نا کی تو زرداری صاحب کی طرح 5 سال گزارنے دیں گے۔ البتہ پنجاب میں پھر سے ن لیگی حکومت بننے کے چانسز ہیں اور اصل پھڈا یہاں ہوا کرے گا۔
پنجاب کی تقسیم بھی اسی لیے حب جنوبی پنجاب میں نہیں بلکہ بغض نواز شریف میں کرنے کی کوششیں ہیں۔
 

عرفی

محفلین
جھگڑا ہونا اٹل ہے۔ یہ وقت ثابت کرے گا، اور بہت جلد کرے گا۔
اگرچہ جھگڑے عام حالات کو احسن نہیں کہا جا سکتا اور اللہ سے معجزاتی مدد کی دعا کرکے توقع کرنی چاہیئے کہ سارے فریق آئین پر رضامند ہوجائیں۔ ورنہ یہ جھگڑا ھونا اک خیر مستور ہوگا ان شاء اللہ۔ نوازشریف سے برا سلوک بھی خیر مستور بے اول اس لئے کہ مکافات عمل کچھ سکھا دیتا ہے اگر وہ دل سے اصطبلیت کی سیاست سے تائب ہوا ہو اور خفیہ ڈیل کی جائے کھل عام مسائل حل کر لئے جائیں اور فوج سیاست میں دخل در معقولات سے باز آجائے۔ انکو کئی پرا نے جرائم پر IMMUNITY دینی ہوگی اگر صلح صفائی سے کام ھو جائے تو۔ جی ہاں کچھ لوگوں کے لئے یہ بار ناقابل پہنہیں ہوگی کہ جب سچائی بتاؤ اور آگے بڑھ جاؤ واقعی رو بعمل ہوگیا تو اسٹبلشمنٹ کےجرائم دیکھکر عوام یہ گنگنا اٹھیں گے۔ اور اصطبل میں اتنا گند ہے ان لوگوں کا گند دیکھا تو میں سیاستدانوں کا گند بھول گیا۔ بڑے قومی جرائم میں حالیہ فوجی قیادت کا دوش نہیں مگر چونکہ ادارہ ملکپر اپنی غیرقانونی گرفت چھوڑنا نہیں چاھتا اس ئے ابھی اسکا امکان نہیں ہے اسی لئے جھگڑا ہوگا مگر اللہ نہ کرے کہ کسی بڑےقومی سا نحہ کے بعد ہمیں ہوش آ ئے۔ اس گلےسٹرے انتظام سے جان چھڑائی ضروری ہے کیونکہ عوامی نمائیندوں کے پاس حقیقی اختیار ہو تو ارتقاء کے عمل سے چیزیں بہتر ہو جاتی ہیں جبکہ فوجی کھلی یاچھپی آمریت میں سقوط ڈھاکہ بھی بے ضمیروں کو جگا نہیں سکتا اور سانحہ کارگل کمینوں کو پورا ادارے کی عزت کا کارڈ کھیلکر حکومت میں لے آتا ہے۔ تاہم دونوں دفع امریکہ کو ھم سے بڑا کام درپیش تھا اور اب بھی ہے۔ پہلے روس پھر اسلامسٹس اور اب ایران کو کچلنےکے لئے کرائے کے ٹٹو درکار ہیں۔ لہذا ن ش کو تھپکی دی جائے کہ چڑھ جا رام سولی پہ اور کسی جاہ کے لالچی فوجی جنرل کو سبز اشارہ دیا جاسکتا ہے تو آپ بتائیں کہ اوپن کمیونیکیشن فوج اور سیاستدانوں میں ضروری ہے کہ نہیں؟ یہاں پہ بہت خدشہ ہےکہ ضروری نہیں کہ coAs ہی مارشل لاء لگائے۔ اسکو نکالنے کی نوبت لائی جا سکتی ہے اور اگر PM نے نکلا تو اسکا جواز بنا کے Takeover جیسے 1998 میں ہوا۔ مگر GRS بچے رہےاور GQB ابتک اس سے بچے رہےہیں۔ اگر ن ش بغاوت نہ کرتا تو حالات جوں کے توں رہتے۔ ش ش وزیراعظم کےطور پر فوج کو دل سےقبول ہے عمران جیسے لونڈیہار پن والا سیاستدان کیوں استعمال کریں؟ مگر چھوٹے صوبوں کے باغی لیڈران کے برعکس پنجابی لیڈر پر غداری کا لیبل لگانا آسان نہیں اور اگر دوسرے اصطبل مخالف سیاستانوں نے پرانے سکور برابر کرنےکی بجائے پختگی و بلوغت کا ثبوت دیا تو اصل تبدیلی آئےگی ، عمران کو تو اصطبل تبدیلی روکنےکے لئے استعمال کر رہا ہے اور اس نرگسیت کےشکار انسان کو احساس ہی نہیں گویا ماضی میں ریٹ بڑھانے کے لئے اصطبلانہ پالیسیوں کا ناقد بنا تھا۔ یوں تو نوازشریف نے 1993 میں بھی ڈیکٹیشن نہیں لوں گا کہا تھا مگر اس وقت تک خارجہ پالیسی اور انڈو افغان پالیسی پر اختلاف واضع نہ تھا۔ جب کارگل کمیشن کا ارادہ کیا تو پھانسی ہوتے ہوتے بچا اب کہ بھی مسائل بڑے ہیں اور چند جنرلز کو انفرادی طور پر حکومت کی پالیسی کے خلاف غیرقانونی طور پر متوازی پالیسی چلانے اور ریاست کے لئے نقصان دہ ثابت ہو جائے والے افعال پر کٹہرے میں لانے کی منصوبہ بندی ہے۔ مگر ہائے رے سیاست انکے خلاف فوج سے لڑائی کا الزام ہے لہذا سيانوں نےکہا کہ پہلے کچھ کارگردگی اور ترقیاتی کام تو کر لو تو تبھی عوام ساتھ دیگی لہذا قربانی کےبکرے ہر اختلاف پر قربان کئے گئے مگر پھر بھی اصطبل آخر میں شاہ کو بھی لےگیا مگر انکے ترقیاتی کاموں سےبھی زیادہ کبڑے کو یہ لات راس آگئی نتجہ کیا ہوتا ہے وقت بتائے گا مگر الیکشن ھونےکی گارنٹی نوازشریف کے اقتدار میں نہ آنے کی صورتحال ہی ہو گی وگرنہ حالیہ سروے اور ایجنسیوں کی رپورٹ التواء کے اشارے دے رہے ہیں۔ جو لوگ QB کے جمہوریت پسند ہونے کا راگ الاپنے میں مشغول ہیں وہ ملوث یا معصوم یا خوفزدہ ہیں جمہوریت پسند وہ نہیں جو بس Takeover نہ کرے مگر کمزور و نا اھل ججوں اورکٹھ پتلی سیاستدانوں کی مدد سے جمہوریت کا دوسرے لفظوں میں لوگوں کے اختیار حکومت بذریعہ نمائیندگان کا ہرروز بلادکار کرے۔ بہانہ چاھے قومی سلامتی کا ھو سٹرٹیجک گہرائی بھارت دشمنی کا ہو حقیقی جمھوریت پسند اپنی رائے دیتا ہے دلائل دیتا ہے پھر جسکا اختیار ہے اسکے فیصلے پر عمل کرتا ہے ' جاھل اور پرچیوں سے پڑھ کے امريکی صدر سے بات کرنے والے' کو حقارت سے ذلیل کر کے نکالتا نہیں اور نہ ایککانٹے کو النو کے لئے دوسرے کانٹے کے خلد ف کاروائی ضمیر فروش ججوں سے رکوا تا ہے یا نہ اس سے تجاہل عارفانہ اختیار کرتاہے۔ اصطبل اور اسکے اندر رکھے کرائے کے گھوڑ وں کے زریعے حکومت چلانا ملک کے لئے اس سےکہیں زیادہ نقصان دہ بےجتنا کہ کسی ناتجربہ کار اور بد عنواں سیاستدان کا چلا نا
 

فرقان احمد

محفلین
معذرت کے ساتھ اس فورم پر بھی اختلاف میں بعد قطبین صاف نظرآرہا ہے۔ یعنی اصطبلشمنٹ کے سیاست میں مداخلت کے سبھی مخالف لیکن اس سے ن ش کو فائدہ نہ ہوجائے اس لئے اب جو ھو رہا ہے وہ ٹھیک ہے جب عمران پر کوئی زیادتی ہوئی تب دیکھیں گے۔ تو پھر 70 سال کے تقسیم کرو الو بناؤ اور غیرآئینی طور پر مرئی اور غیر مرئی حکومت کرو کا طریق چلتا رہےگا۔ میرے عزیزو قانون کی حکمرانی تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ آپ اپنے بدترین مخالف کے حقوق پر آنچ آئے پر بھی کھڑے ھو جائیں قطع نظر کے اسکے نظریات یا اسکا ماضی کیا ہے۔ اوپر بہت سے دوستوں نے لکھا ہےکہ نوازشریف خلائی مدد سے آتے رہے ہیں سو ان کو نقص عہد کی سزا مل رہی ہے۔ واہ واہ آفرین ہے بھئی یعنی کرپشن کی وجہ نہیں بلکہ وچ ہنٹ بھی ہو تو جائز ہے اس لئے کے یہ خود بھی انکا ہی بندہ تھا۔ ساری دنیا میں مضبوط ترین کنٹرولنگ نظاموں کے اندر سے کوئی بغاوت کرتا ہے تو نظام بدل جانے کی امید ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مقدمات اتنی برق رفتاری سے چلنا سازش نہیں بلکہ ترجیح کسی چڑیا کا نام بے۔ آپ میں کوئی بھی شخص خواہ وہ پیغمبرانہ حد تک نیک ہے دل پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ کہہ دے کہ اگر آپ پر آپکا کوئی مخالف کوئی کیس بنا دے تو آپ ایسا ٹرائل چاہیں گے جیسا نوازشریف کا ہو رہا ہے یعنی میڈیا ٹرائل بذریعہ عدلیہ اور عدالتی ٹرائل بزریعہ حریف اور متحرب مفادات کے حامل افسران اور قاضیوں کا کھلےبندوں پری ججمنٹ اوراستہزائیہ کلمات اور اپنے اختیارات سے تجاوز اسکی مخالف ججمنٹس میں مگر خوفزدہ رویہ اسکےحق میں جاتے مسائل میں مثلا حسین نواز تصویر لیک۔ ہرگز نہیں میں تو اپنے کسی کمینے دشمن کےلئے بھی ایسے قانونی پراسس کی حمائت نہیں کر سکتا
اب رھا ان لوگوں کا مسئلہ کہ جو کہتے ہیں جنہاں کھادیاں گاجراں ڈھڈ انہاں تے پیڑھ۔ تو میرے بھائیو بہنو یہی تو پری ججمنٹ ہوتی ہے۔ اگر مجھے کسی 'دیگر' ذرائع سے یہ خبر بھی ھو کہ کسی نے ٹیکس چوری کیا ہے تو میں اسکو اسکےٹرائل میں جج کے طور پر استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ عدالتی ٹرائل صرف اللہ کے لئےنہیں عوام الناس کے لئے ھوتا ہے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ ھوتا نظر بھی آئے اسیلئے اگر میں نے کبھی کسی مؤکل کا کیس و کیل کے طور پر لڑا ھو یا اسکا کاروباری شریک رہا ہوں تو میں جج نہیں بنوں گا اس کے کیس میں صرف اسلئے نہیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ دیرینہ رفاقت میں رعائت نہ کردوں بلکہ اس لئے زیادہ کہ میری رسائی اس معلومات تک رہی جو اس مدعا علیہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں میری رائے کو متاثر کر سکتی ہیں۔ یہاں پتہ نہیں جج حضرات کو اسکا ادراک نہیں یا دانستہ طور پر اصطبلشمنٹ کے دست و بازو بنےہوئے ہیں۔ خود TV کےپروگراموں کو دیکھکر رائے بناتے ہیں اور اسکا ذکر ہر روز ڈھٹائی سے اپنے ریمارکس میں کرتے ہیں سبجیوڈسی کا کانسپٹ بھی اس مقدمہ کے لئے ترک کر دیا گیا ہے۔ ایک مضحکہ خیز ترین تبصرہ جو ثاقب نثار سے منسوب کیا گیا موصوف فرماتے ہیں عدلیہ کے خلاف باتیں کرنے والوں کے لئے کوئی سکیورٹی نہیں۔ واہ واہ یہ اگر واقعی اسنےکیا ہے تو کوئی ترقی یافتہ ملک ہوتا تو پراپر فورم میں اسکا اپنا احتساب ہوچکا ہوتا۔ یعنی ذاتی عناد اور ادارہ جاتی عناد کو قانونی سمجھ رہا ہے اور اسپر فیصلہ کرےگا۔ حرف آخر اگر ایک سیریل کلر کا بھی ٹرائل ھو رہا ہو تو اسکے قانونی حقوق ختم نہیں ہوسکتے یہاں تو سبھی جانتے ہیں حکم عدولی کا مسئلہ ہے۔ اگر عدالت میں سزا کے اعلان کے بعد بھی ایک ریپسٹ یا قاتل کو بھی نفرت کی وجہ سے پولیس والا ایک تھپٹر مار کر کہے کہ چل جیل میں اور وہی جج جس نے ابھی ابھی اسکو پھانسی کی سزا دی ہے وہیں اس پولیس والے کی نہ صرف بازپرس کرے گا بلکہ پورا سسٹم اس زیادتی کے خلاف پولیس والے پر مقدمہ چلائے گا۔ تو بھائی اسی وجہ سے وہ قومیں کفر کے باوجود آگے ہیں۔ یہاں تو فقط شک پر ہجوم خود ہی مارنا اور لاش کو جلانا اور مُسلہ کرنا جائز سمجھتا ہے۔ یہاں وزیراعظم تمامتر جلال شاھی کے باوجود سسٹم کے ذریعےنہیں قوت بازو سے بکری کےبچےکیطرح کھینچ نکالا جاسکتا ہے مگر سرعام قانون توڑنے اور ججوں کی ماں بہن کو ناگفتہ بہ حالات سے گزارنےکی کیفیات بیان کرنے واالا سرکاری پروٹوکول اور حفاظت لیتا ہے بلکہ خود ایک لاکھ آن کیمرہ اور چیلے چا ٹے 1000 فی کس غریب ملک کے خزانے سے وصول پاتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی بلکہ اسپر بات کرنے پر غائب ھونے کا خدشہ اسکے وکٹمز کوبھی خاموش رکھتا ہے ، تو کیسی ترجیحات والی چڑیا ہے ہماری۔ بھائی یہ وچ ہنٹ اور حکم عدولی پر عبرت کا نشان بنانے کا قصہ بے۔ پرانے پرانے کیس اگر صحیح نیت سےبھی کھولے جا رہےہوں تو فیئر ٹرائل کے منافی ہوتے ہیں اور ڈبل جیپرڈی کسی آئینی وقانونی انتظام میں جائز نہیں ہوتی ہے۔
آپ کا ایک مراسلہ ایک کالم کے برابر ہے۔ فرصت سے پڑھ کر ہی جواب دیا جا سکے گا۔
 

عرفی

محفلین
پنجاب کی تقسیم کا "لارا" زیادہ موزوں ہے۔
بغض نوازشریف میں تقسیم بھی قبول ہے۔ بات یہ ہے کہ لارا یا نعرہ نہیں حقیقت میں حکمرا نوں کو موافق ہے کیا تاریخ نے ون یونٹ جیسا ناانصافی پر مبنی انتظام نہیں دیکھا۔ کیا تاریخ نے کالے ناٹے لوگوں کو حکمرانی سے دور رکھنے کے چکر میں اپنے بدترین د شمن سے بدترین شکست نہیں دیکھی۔ اتنے بڑے ساغم پر کسیکا مؤاخذہ تو درکنار کیا کسی نے اس سے سبق ھی سیکھا جواب ایک ٹکا سا نہ ہے۔ جنوبی پنجاب بنانا ہے بنا لیں جنوبی سندھ اور ہری پور ہزارہ صوبہ پوٹوھار صوبہ اور جنوبی KP جسمیں بلوچستان کا پشتون علاقہ ھے۔ مگر کرنا تو وہ ہے جو انکو سوٹ کر ے جنکے ہاتھ میں استرا ہے جسےمرضی کا ٹیں پیٹیں
العلم عنداللہ
 
Top