ادب دوست
معطل
استاد قمر جلالوی کی غزل کا ایک شعر ایسا برجستہ لگا گویا شعر نہ ہو کوئی آپس کی باچیت ہو رہی ہو ۔
نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آجائے
وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آجائے
کچھ نا چیز نے بھی جسارت کی ، اساتذہ کرام سے اصلاح اور تبصرے کی درخواست ہے ۔ دیگر احباب بھی اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔
اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے
میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے
جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے
لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے
سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے
مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے
کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی
اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے
گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے
نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آجائے
وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آجائے
کچھ نا چیز نے بھی جسارت کی ، اساتذہ کرام سے اصلاح اور تبصرے کی درخواست ہے ۔ دیگر احباب بھی اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔
اگر ناکامیِ دل پر کوئی الزام آجائے
میری خوئے ملامت کو ذرا آرام آجائے
جنوں زادوں کا صحرا سے اگر پیغام آجائے
لبِ دریا سے بھی واپس یہ تشنہ کام آجائے
سبھی کردار بوجھل ہو گئے میری کہانی کے
الہٰی جتنی جلدی ہو سکے انجام آجائے
مگر تم دیکھ لو ! حالت ہمارے جیسی ہوتی ہے
جب اپنی آئی پر یہ گردشِ ایام آجائے
کہ پھر تو داد دینی چائیے محرومیِ دل کی
اگر مقتل سے بھی ، عاشق کوئی ناکام آجائے
گواہی آخری ہچکی پہ دے دوں ؟ تم نہیں قاتل
یہ جاں ویسے بھی جانی ہے ، کسی کے کام آجائے