۔۔۔۔
انوری سعدی و خاقانی و مدّاح ترا
رتبۂ شعر و سخن میں ہیں بہم چاروں ایک
ایک ڈنکا ہے اب اقلیمِ سخن میں ان کا
رکھتے ہیں زیرِ فلک طبل و علم چاروں ایک
سخن و نطق زبان اور فصاحت ان کی
سن کے سحباں کہے یہ لا و نعم چاروں ایک
عیب بیں ہو کے جو دیکھے کوئی ان کے اشعار
آنکھیں اس شخص کی اور گوشِ اصم چاروں ایک
جوہری ہووے جو بازارِ سخن کا سو کہے
قدر و قیمت میں ہیں باہم یہ رقم چاروں ایک
ہجو گر ان کی ہو منظور کسی شاعر کو
کر جدا ایک کو ان سے کہے ہم چاروں ایک
۔۔۔۔
(مرزا محمد رفیع سودا)