وہ اردو اشعار جن میں فارسی گو شعراء کا ذکر ہے

حسان خان

لائبریرین
کہی تعریف میں جو بیت تجھ ابرو کی سودا نے
خراج و باج لیتی ہے وہ دیوانِ ہلالی سے
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
۔۔۔۔
انوری سعدی و خاقانی و مدّاح ترا
رتبۂ شعر و سخن میں ہیں بہم چاروں ایک
ایک ڈنکا ہے اب اقلیمِ سخن میں ان کا
رکھتے ہیں زیرِ فلک طبل و علم چاروں ایک
سخن و نطق زبان اور فصاحت ان کی
سن کے سحباں کہے یہ لا و نعم چاروں ایک
عیب بیں ہو کے جو دیکھے کوئی ان کے اشعار
آنکھیں اس شخص کی اور گوشِ اصم چاروں ایک
جوہری ہووے جو بازارِ سخن کا سو کہے
قدر و قیمت میں ہیں باہم یہ رقم چاروں ایک
ہجو گر ان کی ہو منظور کسی شاعر کو
کر جدا ایک کو ان سے کہے ہم چاروں ایک
۔۔۔۔
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
(تضمین)
ہذیاں ہے سخن دانیِ سحباں مرے نزدیک
سب ہیچ ہیں خاقانی و خاقاں مرے نزدیک
ہر مشکلِ دشوار ہے آساں مرے نزدیک

اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے

(امیر اللہ تسلیم لکھنوی)
 

طالب سحر

محفلین
تحسین کے تحفے مجھے صائبؔ دیتا
شاباش مجھے عرفیؔ یا طالبؔ دیتا
خط کی مرے داد آج جو زندہ ہوتے
یا شاہجہاںؔ دیتا یا غالبؔ دیتا

-- صادقین
 

حسان خان

لائبریرین
۔۔۔۔
غرض میں دیکھ کے یہ تنگ چشمیِ گردوں
شبِ گذشتہ اسی فکر بیچ مرتا تھا
کدھر کو جاؤں میں تا دل کرے مرا واشد
ووہیں خیال میں قدسی کا یہ سخن گذرا
'دمے بہ بزمِ حریفاں شگفتہ شو چوں قدح
کہ جاں برائے تو دارد در آستیں مینا'
یہ سن کے مژدۂ جاں بخش میکدے کی طرف
چلا میں گھر سے نپٹ خوش ہو یہ غزل پڑھتا
۔۔۔۔
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
سعدی کی روحِ پاک کی خاطر ہے شیرگاہ
دیواں کا ہر ورق یہ مرے بہ ز بوستاں
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
ہے سخن سنج اک جوانِ متیں
فخرِ صائب جو وہ کرے تحسیں
رات جا کر میں اُس کی خدمت میں
اُسے دیکھا تو تھا نپٹ غمگیں
میں جو پوچھا سبب کہا مت پوچھ
خُبث کرنا کسو کا خوب نہیں
نہ کچھ اس سے حصول دنیا کا
نہ کچھ اس سے بر آوے مطلبِ دیں
لیکن اے یار تجھ سے کہتا ہوں
مل کے گو تجھ پہ سب کریں نفریں
داغ ہوں ان سے اب زمانے میں
بزمِ شعرا کے ہیں جو صدر نشیں
یعنی سودا و میر و قائم و درد
لے ہدایت سے تا کلیم و حزیں
کیا غرور و دماغ کیا نخوت
کون سا کِبر ہے جو اُن میں نہیں
الخ
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
جب کہے موردِ تحسین میں اکثر اشعار
کہا استاد نے مجھ سے مرے سن کر اشعار
اے پسر چار نصائح میں کروں ہوں اُن کو
کر کے تحویلِ دل اپنے تو کہا کر اشعار
ہیں جو خاقانی و فردوسی و سعدی مشہور
کیا عجب ہے کہے ان کے جو برابر اشعار
۔۔۔۔۔۔۔
اس نصائح کی سند پھر ز کلام عرفی
لا کے وہ میرے لیے بہ ز جواہر اشعار
لگے فرمانے کہ استاد اُنہوں کا سن کر
ویسے شعروں کو کہے تھا نہ کہا کر اشعار
مرتبہ شعر کا زنہار نہ سمجھے گا تو
فائدہ کیا جو کرے داخلِ دفتر اشعار
اِس طرح کی جو سنی طعن و تعرض اُن نے
اور کے نام سے اپنے پڑھے اکثر اشعار
آفریں آفریں ہر شعر پہ دے کر استاد
بولا یہ خوب پڑھے تو نے سراسر اشعار
سن کے تحسین یہ عرفی نے کی استاد سے عرض
میرے ہی گذرے تھے یہ میری زباں پر اشعار
پڑھ کے نام اپنے سے تھا موردِ نفریں ورنہ
کسی دیواں میں نہیں ان سے تو بہتر اشعار
الخ
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
ایک ہجویہ مخمس سے اقتباس:
عُرس میں جا میرزا بیدل کے تو با شد و مد
شعرِ ناموزون و پوچ اس رات کو پڑھتا تھا جد
کہتے تھے سن سن کے تیرے حق میں سب یوں نیک و بد
چوں کلاغ امشب کہ مغزِ سامعاں را می خورد
ایں لعیں در بزم طرحِ شور و غوغا ریختہ
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
سنا جاتا ہے فنِ شعر میں بھی اتنی ہے قابل
سبق اُس سے پڑھیں اس وقت ہوں گر میرزا بیدل
۔۔۔۔
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
ایک ہجویہ مخمس کا بند:
لفظوں سے اُن کے یہ معنی نہ ہوں مفہوم کہیں
آفریں کرنے میں وقفہ ہو تو ہوں چیں بہ جبیں
گورِ عرفی سے طلب کرتے ہیں جا کر تحسیں
زلف و عارض کے جو ساماں میں کریں یہ تضمیں
شب شود نیم رخ و روز شود مستقبَل
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
(تضمین)
کھلے ہے سودا پہ رازِ نہفتۂ حافظ
کہ سن کے لوٹے ہے شعرِ شگفتۂ حافظ
غرض عجب ہیں یہ دُرہائے سفتۂ حافظ
'بر آسماں چہ عجب گر ز گفتۂ حافظ
سماعِ زہرہ بہ رقص آورد میسحا را'
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
سودا بہ جہاں اپنی زبانی تو ہے
آفاق میں خاقانیِ ثانی تو ہے
گو نطق کا ہرچند نہیں تو خالق
پر نطق کا خلاقِ معانی تو ہے
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
نہیں ہیں سعدی و جامی، مگر ہے یاد اُن کی
ذہین چھوڑ کے جا یادگار دُنیا میں
(سید غلام مصطفیٰ 'ذہین')
 

حسان خان

لائبریرین
روحِ سعدی ہو گئی ہو گی خوشی سے باغ باغ
آج پڑھنے کے لیے اُس کو گلستاں چاہیے
(امام بخش ناسخ)
 

حسان خان

لائبریرین
نصیر الدین نصیر گولڑوی کی نظم 'عظمتِ عقلِ انسانی' کا ایک بند:
غالب و مومن و فردوسی و میر و سعدی
حافظ و رومی و عطار و جنید و شبلی
خسرو و جامی و خیام و انیس و عرفی
آدم و یونس و یحییٰ و نبی اور ولی
اِن کی گفتار کی پرواز کی سرحد تو ہے
غایتِ جنبشِ لب ہائے محمد تو ہے
(نصیر الدین نصیر گولڑوی)
 
Top