فہیم
لائبریرین
خود ہم نے صبح 7 بجے کی تجویز رکھی باوجود اس کے کہ ہم عام دنوں میں آفس جانے کو بھی 11 بجے جاگتے ہیں۔ لیکن محفلین ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے اتنی جلد بازی نہیں رکھتے تھے اور ان کے نردیک چھٹی والے دن اتنی جلدی جاگنا کوئی اچھا عمل نہیں تھا۔ اس لیے پروگرام اتفاقِ رائے سے 9 بجے پر طے پایا اور دو ایک بار مقام تبدیل کرنے کے بعد بہادر آباد پر سب نے اتفاق بھی کرلیا۔
اب اصول کے مطابق ہم جیسے کاہل انسان کو رات کو جلدی سو جانا چاہیے تھا تاکہ سینئر ہونے کے ناطے ہم وقت کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے سسرے جونیئرز کو سمجھا سکیں کہ پابندیِ وقت کی کیا اہمیت ہے۔ لیکن اگر ہم جلدی سو جاتے تو "ڈیڈپول" کا دوسرا پارٹ کس نے دیکھنا تھا جو اچھے پرنٹ میں اسی دن ہاتھ لگا تھا۔
ڈھائی بجے کے بعد جاکر سونے لیٹے اور دماغ میں سینئر! سینئر کی صدا لگاتے سوئے اور اسی کی بدولت صبح وقت پر اٹھ کر ملاقات کی تیاری پکڑی اور مقررہ وقت پر گھر سے نکل لیے۔
راستے میں فاخر رضا صاحب کی کال آئی کہ وہ پہنچے ہوئے ہیں اور انتظار کی ظالم گھڑیاں خالی پیٹ کے ساتھ کاٹ رہے ہیں۔ ہم نے بہت بزرگانہ انداز میں تسلی دی کہ ہم بس آنے والے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کتنا "پہنچے" ہوئے ہیں۔
جلدی ہی ہم بھی مقررہ جگہ پر "پہنچے" ہوؤں میں شمار ہوگئے۔ فاخر صاحب کو کال کی کہ اب آپ اکیلے ہی نہیں جو پہنچی ہوئی شخصیت ہیں، آپ سے زیادہ سینئر پہنچی ہوئی شخصیت بھی آچکی ہے۔ انہوں نے بجائے یہ کہ خود دوڑے چلے آتے ہمیں ہی آگے بڑھ آنے کا مفت مشورہ دے ڈالا۔
ذرا آگے چلے تو خلیل الرحمٰن صاحب دکھائی دیئے جنہیں ہم نے محفل کے اوتار کی بدولت پہچان لیا۔ ہم بہت ادب سے آگے بڑھے اور نہایت گرم جوشی سے ان سے معانقہ فرمایا اور ارد گرد نظریں گھمائیں کہ کوئی لونڈا لفاڑا دکھائی دے۔ پر پھر آہستہ آہستہ ہماری سینئریارٹی صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھتی گئی اور ہم خود کو ہی لونڈا لونڈا سا فیل کرنے لگے۔
سب سے پہلے ایک نہایت باوقار شخیت نے مسکراتے چہرے کے ساتھ فاخر رضا کے نام سے تعارف کرایا اور ہم نے دل ہی دل میں خود کو برا بھلا سب کہہ ڈالا۔ اگلے نمبر پر کاؤ بوائے ہیٹ پہنے ایک بابا جی نے اپنا تعارف امین صدیقی کے نام سے کرایا اور ایسا کرایا کہ ہمیں بس امین صدیقی نام ہی سمجھ آیا اور ہم اچھا، جی، خوشی، ناشتہ، پتہ نہیں کیا کیا بڑ بڑاتے رہے۔ تیسرے نمبر پر ایک باریش اور قدرے جوان شخصیت نے سید عمران کے نام سے تعارف کرایا۔ تھوڑی جان میں جان پڑی کہ چلو کوئی تو ہے جو ہم سے بہت زیادہ سینئر نہیں ہے۔
ابھی یہ ملاقات چل ہی رہی تھی کہ خالد چوہدری صاحب کی بھی آمد ہوگئی۔ ان کو پہلے دیکھ رکھا تھا پر جب وہ گاڑی سے اتر کر آئے تو باوجود اس کے کہ خود ہم 5 فٹ 10 انچ کا قد رکھتے ہیں ہمیں ان سے ٹھیک طرح سے معانقہ کرنے کے لیے ایک چھوٹے اسٹول کی کمی بہت فیل ہوئی۔
پھر جب خالد بھائی سب سے جھک جھک کر گلے مل چکے تو طے ہوا کہ بجائے کسی ریستوران کے اندر بیٹھ کے ناشتہ کرنے کے کھلی فضا میں لگی ٹیبلز اور کرسیوں کو عزت بخشی جائے۔ تو محفل پھر ادھر ہی جم پڑی۔
سکون سے بیٹھ جانے کے بعد ہلکی پھلکی گفتگو شروع ہوئی تو ہمیں خیال آیا کہ اکمل زیدی بھائی کو کال کی جائے ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور ہماری جیسے ہی عمر کے ہونگے تو ہم نے انہیں کال گھمائی اور معلوم ہوا کہ وہ نجانے کب سے ملک ہوٹل کی ایک ٹیبل پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ نہ کوئی آرڈر کرتے ہیں نہ کرسی چھوڑتے ہیں اور اب ہوٹل کے بیروں نے انہیں شک کی نگاؤں سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم سب تو کھلی فضا میں ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لے رہے ہیں تو وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھے اور بات کرتے ہوئے ہی ہماری بتائی ہوئی سمت چلنا شروع ہوگئے۔ ہم نے اپنی جاسوس والی نگاؤں سے دور سے ہی تاڑ لیا کہ یہ بندہ ہی ہے جو فون پکڑے ہکا بکا سا لگ رہا ہے تو ان کو کہا کہ دیکھیں ہم ہاتھ ہلا رہے ہیں بس اسی کو دیکھ سیدھے دوڑے آئیں۔ پر جب وہ تھوڑا قریب پہنچے تو ہائیں! یہ کیا۔ یہ تو میر انیس ہیں۔ موصوف جلدی جلدی وہاں پہنچے ہاں ہوں کرکے جلدی جلدی میں سب سے گلے ملے کہ ملک ہوٹل سے ہی نہاری کی خوشبو دماغ اور لوگوں کے بوٹیاں بھبوڑنے کا منظر آنکھوں میں قید کر کے آئے تھے ایک کرسی پر قبضہ کرلیا۔
اور آتے ہیں بس متلاشی نظروں سے نہاری کو تلاشنے لگے۔ لیکن جلد ہی ان کے ارمانوں پر دھوپ لگی اوس برس گئی۔ لیکن ہم نے انہیں تسلی دی کہ نہاری نہ ہوئی تو کیا ہوا۔ پائے تو ہیں۔ اور ساتھ ہی ہم نے ان سے پوچھ بھی لیا کہ کیا وہ ایک اور محفلین میر انیس کے بھائی وغیرہ تو نہیں ہیں؟
کچھ دیر بعد عدنان اکبر بھائی کی آمد بھی یقینی ہوگئی۔ اور پھر سب اول طعام بعد کلام کی کہاوت کی عملی تصویر بن گئے۔
بس جی آگے کا احوال تو آپ سب کو معلوم ہی ہے۔ اور ابھی رات کے 3 بج چکے ہیں اور میں ترکش کافی کا کڑوا کسیلا کپ بھی پورا کر چکا ہوں۔ تو اب اجازت۔
لیکن اپنے تاثرات ضرور بیان کروں گا کہ میں ملاقات میں خلیل بھائی کی شفقت اور دوستانہ مزاج سے بہت متاثر ہوا کہ آپ ان کے ساتھ گھنٹوں بھی گزار دیں تو نہ آپ کو تھکاوٹ محسوس ہو اور نہ کوئی بوریت۔ خوش گفتار اور بہت پیار ی شخصیت۔
فاخر رضا بھائی بہت با وقار اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں۔ انتہائی صاف آواز اور دھیمہ لہجا ساتھ میں گفتگو کرنے کا فن۔ کسی کو بھی گرویدہ کرلینے والے انسان۔
امین صدیقی بھائی ایرانی بلوچ ہونے کے باوجود بالکل مغلیہ دور کے کسی اردو دان کی طرح اردو پر اور اسے بولنے پر عبور رکھتے ہیں۔ صاف شفاف آواز اور پھر اس میں گلو گاری کہ آپ بس سنتے جائیں۔ حتٰی کے جب وہ پارک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے تھے تو ڈرنک سرو کرنے والا ایک بندہ بھی ان کے گانوں کو عقیدت سے سننے جارہا تھا۔
سید عمران بھائی اور اکمل زیدی بھائی اپنے بر جستہ جملوں کی باعث نوک جھونک کے ماہرین میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اور خالد بھائی بقول عمران بھائی کے "کانٹا مارنے میں"
احمد بھائی سے تو پہلے ہی کافی ملاقاتیں تھیں وہ آج بھی اتنے ہیں جوان ہیں جتنے سالوں پہلے تھے۔
عدنان بھائی بہت دھیمی اور نفیس طبیعت کے انسان لگے کہ انہوں نے بولنے سے زیادہ سننے پر توجہ دی۔
کوئی رہ تو نہیں گیا؟ پتہ نہیں کیا کچھ لکھ مارا ہے نیند میں اور پوسٹ کرنے کو ابھی انٹرنیٹ بھی نہیں۔
میں چلا سونے
ٹاٹااااا
اب اصول کے مطابق ہم جیسے کاہل انسان کو رات کو جلدی سو جانا چاہیے تھا تاکہ سینئر ہونے کے ناطے ہم وقت کی پوری طرح پابندی کرتے ہوئے سسرے جونیئرز کو سمجھا سکیں کہ پابندیِ وقت کی کیا اہمیت ہے۔ لیکن اگر ہم جلدی سو جاتے تو "ڈیڈپول" کا دوسرا پارٹ کس نے دیکھنا تھا جو اچھے پرنٹ میں اسی دن ہاتھ لگا تھا۔
ڈھائی بجے کے بعد جاکر سونے لیٹے اور دماغ میں سینئر! سینئر کی صدا لگاتے سوئے اور اسی کی بدولت صبح وقت پر اٹھ کر ملاقات کی تیاری پکڑی اور مقررہ وقت پر گھر سے نکل لیے۔
راستے میں فاخر رضا صاحب کی کال آئی کہ وہ پہنچے ہوئے ہیں اور انتظار کی ظالم گھڑیاں خالی پیٹ کے ساتھ کاٹ رہے ہیں۔ ہم نے بہت بزرگانہ انداز میں تسلی دی کہ ہم بس آنے والے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کتنا "پہنچے" ہوئے ہیں۔
جلدی ہی ہم بھی مقررہ جگہ پر "پہنچے" ہوؤں میں شمار ہوگئے۔ فاخر صاحب کو کال کی کہ اب آپ اکیلے ہی نہیں جو پہنچی ہوئی شخصیت ہیں، آپ سے زیادہ سینئر پہنچی ہوئی شخصیت بھی آچکی ہے۔ انہوں نے بجائے یہ کہ خود دوڑے چلے آتے ہمیں ہی آگے بڑھ آنے کا مفت مشورہ دے ڈالا۔
ذرا آگے چلے تو خلیل الرحمٰن صاحب دکھائی دیئے جنہیں ہم نے محفل کے اوتار کی بدولت پہچان لیا۔ ہم بہت ادب سے آگے بڑھے اور نہایت گرم جوشی سے ان سے معانقہ فرمایا اور ارد گرد نظریں گھمائیں کہ کوئی لونڈا لفاڑا دکھائی دے۔ پر پھر آہستہ آہستہ ہماری سینئریارٹی صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھتی گئی اور ہم خود کو ہی لونڈا لونڈا سا فیل کرنے لگے۔
سب سے پہلے ایک نہایت باوقار شخیت نے مسکراتے چہرے کے ساتھ فاخر رضا کے نام سے تعارف کرایا اور ہم نے دل ہی دل میں خود کو برا بھلا سب کہہ ڈالا۔ اگلے نمبر پر کاؤ بوائے ہیٹ پہنے ایک بابا جی نے اپنا تعارف امین صدیقی کے نام سے کرایا اور ایسا کرایا کہ ہمیں بس امین صدیقی نام ہی سمجھ آیا اور ہم اچھا، جی، خوشی، ناشتہ، پتہ نہیں کیا کیا بڑ بڑاتے رہے۔ تیسرے نمبر پر ایک باریش اور قدرے جوان شخصیت نے سید عمران کے نام سے تعارف کرایا۔ تھوڑی جان میں جان پڑی کہ چلو کوئی تو ہے جو ہم سے بہت زیادہ سینئر نہیں ہے۔
ابھی یہ ملاقات چل ہی رہی تھی کہ خالد چوہدری صاحب کی بھی آمد ہوگئی۔ ان کو پہلے دیکھ رکھا تھا پر جب وہ گاڑی سے اتر کر آئے تو باوجود اس کے کہ خود ہم 5 فٹ 10 انچ کا قد رکھتے ہیں ہمیں ان سے ٹھیک طرح سے معانقہ کرنے کے لیے ایک چھوٹے اسٹول کی کمی بہت فیل ہوئی۔
پھر جب خالد بھائی سب سے جھک جھک کر گلے مل چکے تو طے ہوا کہ بجائے کسی ریستوران کے اندر بیٹھ کے ناشتہ کرنے کے کھلی فضا میں لگی ٹیبلز اور کرسیوں کو عزت بخشی جائے۔ تو محفل پھر ادھر ہی جم پڑی۔
سکون سے بیٹھ جانے کے بعد ہلکی پھلکی گفتگو شروع ہوئی تو ہمیں خیال آیا کہ اکمل زیدی بھائی کو کال کی جائے ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور ہماری جیسے ہی عمر کے ہونگے تو ہم نے انہیں کال گھمائی اور معلوم ہوا کہ وہ نجانے کب سے ملک ہوٹل کی ایک ٹیبل پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ نہ کوئی آرڈر کرتے ہیں نہ کرسی چھوڑتے ہیں اور اب ہوٹل کے بیروں نے انہیں شک کی نگاؤں سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ہم سب تو کھلی فضا میں ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لے رہے ہیں تو وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھے اور بات کرتے ہوئے ہی ہماری بتائی ہوئی سمت چلنا شروع ہوگئے۔ ہم نے اپنی جاسوس والی نگاؤں سے دور سے ہی تاڑ لیا کہ یہ بندہ ہی ہے جو فون پکڑے ہکا بکا سا لگ رہا ہے تو ان کو کہا کہ دیکھیں ہم ہاتھ ہلا رہے ہیں بس اسی کو دیکھ سیدھے دوڑے آئیں۔ پر جب وہ تھوڑا قریب پہنچے تو ہائیں! یہ کیا۔ یہ تو میر انیس ہیں۔ موصوف جلدی جلدی وہاں پہنچے ہاں ہوں کرکے جلدی جلدی میں سب سے گلے ملے کہ ملک ہوٹل سے ہی نہاری کی خوشبو دماغ اور لوگوں کے بوٹیاں بھبوڑنے کا منظر آنکھوں میں قید کر کے آئے تھے ایک کرسی پر قبضہ کرلیا۔
اور آتے ہیں بس متلاشی نظروں سے نہاری کو تلاشنے لگے۔ لیکن جلد ہی ان کے ارمانوں پر دھوپ لگی اوس برس گئی۔ لیکن ہم نے انہیں تسلی دی کہ نہاری نہ ہوئی تو کیا ہوا۔ پائے تو ہیں۔ اور ساتھ ہی ہم نے ان سے پوچھ بھی لیا کہ کیا وہ ایک اور محفلین میر انیس کے بھائی وغیرہ تو نہیں ہیں؟
کچھ دیر بعد عدنان اکبر بھائی کی آمد بھی یقینی ہوگئی۔ اور پھر سب اول طعام بعد کلام کی کہاوت کی عملی تصویر بن گئے۔
بس جی آگے کا احوال تو آپ سب کو معلوم ہی ہے۔ اور ابھی رات کے 3 بج چکے ہیں اور میں ترکش کافی کا کڑوا کسیلا کپ بھی پورا کر چکا ہوں۔ تو اب اجازت۔
لیکن اپنے تاثرات ضرور بیان کروں گا کہ میں ملاقات میں خلیل بھائی کی شفقت اور دوستانہ مزاج سے بہت متاثر ہوا کہ آپ ان کے ساتھ گھنٹوں بھی گزار دیں تو نہ آپ کو تھکاوٹ محسوس ہو اور نہ کوئی بوریت۔ خوش گفتار اور بہت پیار ی شخصیت۔
فاخر رضا بھائی بہت با وقار اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں۔ انتہائی صاف آواز اور دھیمہ لہجا ساتھ میں گفتگو کرنے کا فن۔ کسی کو بھی گرویدہ کرلینے والے انسان۔
امین صدیقی بھائی ایرانی بلوچ ہونے کے باوجود بالکل مغلیہ دور کے کسی اردو دان کی طرح اردو پر اور اسے بولنے پر عبور رکھتے ہیں۔ صاف شفاف آواز اور پھر اس میں گلو گاری کہ آپ بس سنتے جائیں۔ حتٰی کے جب وہ پارک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے تھے تو ڈرنک سرو کرنے والا ایک بندہ بھی ان کے گانوں کو عقیدت سے سننے جارہا تھا۔
سید عمران بھائی اور اکمل زیدی بھائی اپنے بر جستہ جملوں کی باعث نوک جھونک کے ماہرین میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اور خالد بھائی بقول عمران بھائی کے "کانٹا مارنے میں"
احمد بھائی سے تو پہلے ہی کافی ملاقاتیں تھیں وہ آج بھی اتنے ہیں جوان ہیں جتنے سالوں پہلے تھے۔
عدنان بھائی بہت دھیمی اور نفیس طبیعت کے انسان لگے کہ انہوں نے بولنے سے زیادہ سننے پر توجہ دی۔
کوئی رہ تو نہیں گیا؟ پتہ نہیں کیا کچھ لکھ مارا ہے نیند میں اور پوسٹ کرنے کو ابھی انٹرنیٹ بھی نہیں۔
میں چلا سونے
ٹاٹااااا