وہ سانحہ جو گیا گزر ، میری جاں پہ سخت ترین تھا .... رہنمائی فرمائیں

یہ میری پہلی غزل ہے ... الله رحم ..کرے :)
آپ حضرات سے اس کوشش کی ایک علمی اور تفصیلی پوسٹ مارٹم رپورٹ دستیاب ہے ...:p

وہ سانحہ جو گیا گزر ، میری جاں پہ سخت ترین تھا
مرے زخم سارے کھلا گیا ، وہ بہار غم کا امین تھا

وہ یاد گم گشتہ رہ کے نقش ، جنھیں ذہن سے میں نہ مٹا سکا
مری جبیں پہ ابھریں گے ایک دن ، مجھے اس پہ پورا یقین تھا

خد و خال سے جو ہوا عیاں ، میری تشنگی کا وہ تھا بیاں
وہی ابھرا چہرہ پہ درد جو ،کہیں دل میں گوشہ نشین تھا

رہ مشکلاں کو مختصر تو نہ کر سکے میرے ولولے
مرا ہر قدم/ پل رہ دوستاں میں ، مگر اک ساعت مبین تھا
اس مصرع میں بہت الجھا رہا ... سو ایسے ہی یہاں پیش کر دیا ہے .... قدم لکھوں یا کہ پل استمعال کروں یا کچھ اور ..

مرے رقص تمّنا کو مختصر تو نہ کر سکی زنجیر جُنوں
شمع زندگی کو اے کاشف ، وه صبا کا جھونکا حسین تھا
یہاں بھی دونوں مصرعے مضمون میں بیٹھہ نہیں رہے ہیں ..

رہنمائی فرمائیں
 
پہلے اس آہنگ کا تعین کیوں نہ کر لیا جائے، جس میں آپ کا قاری اس کاوش کو پڑھنے کی کوشش کرے گا۔ قریب ترین شعر یہ نکلتا ہے:
خد و خال سے جو ہوا عیاں ، میری تشنگی کا وہ تھا بیاں
وہی ابھرا چہرہ پہ درد جو ،کہیں دل میں گوشہ نشین تھا


اس کے دوسرے مصرعے میں ذرا سی لفظی تبدیلی کر کے دیکھے
خد و خال سے جو ہوا عیاں ، میری تشنگی کا وہ تھا بیاں
وہ جو درد چہرے پہ چھا گیا،کہیں دل میں گوشہ نشین تھا

اب ہم شعر پڑھتے میں اس کو یوں ’’ادا کریں گے‘‘:
خ د ۔ خا ۔ ل ۔ سے ۔ ج ہ ۔ وا ۔ ع ۔ یا ۔ م ر ۔ تش ۔ ن ۔ گی ۔ ک و ۔ تا ۔ ب ۔ یا
و ج ۔ در۔ د۔ چہ ۔ ر پ ۔ چا ۔ گ ۔ یا ۔ ک ہ ۔ دل ۔ م ۔ گو ۔ ش ن ۔ شی ۔ ن ۔ تا
(اس میں ہم نے نون غنہ نہیں لکھا، بولنے میں لے آئیے۔ ھ بھی نہیں لکھی، وہ بھی بولنے میں لے آئیے)

اگر آپ اس کو یوں پڑھ لیتے ہیں تو پھر اسی آہنگ پر باقیوں کو بھی پڑھئے۔ اگر نہیں پڑھ سکتے تو پھر کوشش کیجئے، پھر کوشش کیجئے۔ شارے شعر اس آہنگ پر پورے اترنے چاہئیں، نہیں اترتے تو آپ کا قاری آپ کی اس کوشش کو ’’پڑھی ان پڑھی‘‘ کر کے گزر جائے گا۔

مضامین پر بعد میں بات کریں گے۔
 
آسی صاحب آپ کے مفید مشوروں کا بہت بہت شکریہ . میں ایک بار پھر سے کوشش کرتا ہوں..
انشا الله جلد ہی ان اغلاط کو دور کر کےدوبارہ حاضر ہوتا ہوں
 
آسی صاحب آپ کے مشوروں کے مطابق کوشش کی ہے .
پتہ نہیں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں ۔
آپ کی اصلاح کیا گیا گیا شعر اورباقی اشعار میری اپنی ترمیم کے ساتھ غزل میں اب کچھ یوں ہیں ...
رہنمائی فرمائیں

وہ سا نحہ جو گزر گیا ، میری جاں پہ سخت ترین تھا
مرے زخم سارے گیا کھلا ، وہ بہار غم کا امین تھا

گم گشتہ نقش رہ یار کے نہ جنھیں کبھی میں بھلا سکا
وہ جبیں پہ ابھریں گے ایک دن ، مجھے اس پہ پورا یقین تھا

خد و خال سے جو ہوا عیاں ، میری تشنگی کا وہ تھا بیاں
وہ جو درد چہرے پہ چھا گیا، کہیں دل میں گوشہ نشین تھا

کم تو رہ عشق میں کر سکے ، نہ کبھی درمیان کے فاصلے
یہ یاد ہے رہ دوستاں ، ہاں سفرجاذب و حسین تھا

رقص جُنوں کی تو سحر تک ، شمع زندگی بھی نہ جا سکی
یوں رہ مشکلاں میں اے کاشف ، وه صبا کا جھونکا مبین تھا
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی کی بات سمجھے نہیں، انہوں نے اس کی بحر سمجھانے کی کوشش کی تھی شاید، بہر حال ایک بار میں بتا دوں کہ یہ وہی بحر ہے
خبر اےتحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
ارکان کے مطابق
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اب تقطیع کریں
وہ سا نحہ جو گزر گیا ، میری جاں پہ سخت ترین تھا

پہلا ٹکڑا تقطیع نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا درست ہے۔ پہلا اگر یوں ہو
وہ جو سانحہ تھا، گزر گیا
و جو سانحہ۔۔ متفاعلن
تَ گزر گیا ۔۔ متفاعلن
اسی طرح باقی اشعار کی بھی کوشش کریں
 
یا پھر یہ:
کئی دن سلوک وداع کا مرے درپئے دلِ زار تھا
کبھو درد تھا، کبھو داغ تھا، کبھو زخم تھا، کبھو وار تھا

یا پھر یہ:
ترے بعد کوزہ فروش نے مجھے طاقچے میں سجا دیا
جہاں ٹوٹ جانے کا خوف تھا، مجھے رات بھر مرے کوزہ گر

:( :( :(
 
اسلام اعلیکم
میں اپنی پوری کوشش کے بعد بھی بس یہ چار اشعار ہی لکھ پایا ہوں -
اور وہ رہنمائی کے باوجود کچھ ایسے اچھے بھی نہیں ہیں
شاید یہ بحر ( بحر کامل مثمن سالم ۔۔۔ متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن ) مشکل ہے یا مجھے ایسا لگا -
مقطع بھی ٹھیک نہیں ہو پایا .. بہرحال اگلی غزل میں کسی حد تک آسان بحر لے کر چلونگا -

وہ جو سانحہ تھا، گزر گیا ، میری جاں پہ سخت ترین تھا
مرے زخم سارے گیا کھلا ، وہ بہار غم کا امین تھا

گم گشتہ نقش رہ یار کے ، جنہیں میں کبھی نہ بھلا سکا
جبیں پر ابھریں گے ایک دن ، مجھے اس پہ پورا یقین تھا

خد و خال سے جو ہوا عیاں ، میری تشنگی کا وہ تھا بیاں
وہ جو درد چہرے پہ چھا گیا،کہیں دل میں گوشہ نشین تھا

رہ عشق میں تو کم کر سکے ، نہ جو درمیان کے فاصلے
دل بے خبر تجھے یا د ہے ، وہ جَفا جوُ کون حسین تھا
 
میں نئے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ :
ابتدا ہی سے بحور کے تجربوں میں نہ پڑیں۔ جو بحر فطری طور پر آپ کو مانوس لگے بلکہ نئے لکھنے والوں کے لئے اتنی مانوس لگے کہ از خود پھوٹتی چلی آئے، اس میں شروع کیجئے۔ کوئی کمی بیشی رہ جائے تو اس کو بعد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اس لئے کہ ابتدا میں مضامین مفاہیم اور زبان کے معاملات بحسن و خوبی نبھائے جا سکیں۔ جوں جوں پختہ ہوتے جائیے، آگے بڑھتے جائیے۔ اور یہ فیصلہ کوئی اور نہیں آپ خود کریں گے کہ مجھے کب آگے بڑھنا ہے اور کس طرف اور کتنا بڑھنا ہے۔

خوش رہئے۔
 
Top