وہ سورتیں/آیات جنہیں حفظ یا تلاوت کرنے کی فضیلت احادیث میں آئی ہے

ام اویس

محفلین
سورة الفلق اور سورة الناس یعنی المعوذتین کی فضیلت

۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقبہ بن عامر سے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں کچھ خبر ہے کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی مثل نہیں دیکھی، یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس

۱- انہی کی ایک روایت میں ہے کہ تو رات، انجیل اور زبور اور قرآن میں بھی ان سورتوں جیسی کوئی دوسری سورت نہیں ۔

۳- حضرت عقبہ بن عامر ہی کی روایت ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو معوذتین پڑھائی اور پھر مغرب کی نماز میں انہی دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا کہ ان دونوں سورتوں کو سونے اور بیدار ہونے کے وقت پڑھا کرو۔

۴- اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو ہر نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

۵- اور حضرت عائشہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی بیماری پیش آتی تو یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کر کے سارے بدن پر پھیر لیتے تھے، پھر جب مرض وفات میں آپ کی تکلیف بڑھی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کردیتی تھی آپ اپنے تمام بدن پر پھیر لتے تھے۔ میں یہ کام اس لئے کرتی تھی کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا بدل میرے ہاتھ نہیں ہو سکتے تھے۔

۶- حضرت عبداللہ بن حبیب سے روایت ہے کہ ایک رات تیز بارش اور سخت اندھیری تھی۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپ کو پا لیا تو آپ نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں، آپ نے فرمایا، قل ہو اللہ احد اور معوذتین پڑھو، جب صبح ہو اور جب شام ہو تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لیے ہر تکلیف سے امان ہوگا۔
 

ام اویس

محفلین
سورۃ الکافرون پڑھنے کی فضیلت۔

فروہ بن نوفل نے اپنے والد (سیدنا نوفل رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) فرمایا: کیا چیز تم کو (میرے پاس) لے کر آئی؟ عرض کیا: میں اس لئے حاضر ہوا کہ آپ مجھ کو کوئی ایسی چیز یاد کرا دیں جو میں سوتے وقت پڑھ لیا کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بستر پر لیٹ جاؤ تو «﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾» پڑھ لو اور اس کے اختتام پر سو جاؤ کیونکہ یہ سورت شرک سے براءت ہے۔“ (یعنی شرک سے بری کرنے والی ہے)۔
(ابو داؤد، ترمذی والنسائی)
۱- حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ فجر کی سنتوں میں پڑھنے کے لئے دو سورتیں بہتر ہیں سورة الکافرون اور سورة الاخلاص۔

۲- متعدد صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صبح کی سنتوں میں اور بعد مغرب کی سنتوں میں بکثرت یہ دو سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ہے۔

۳- بعض صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمیں کوئی دعا بتا دیجئے جو ہم سونے سے پہلے پڑھا کریں، آپ نے قل یا ایھا الکفرون پڑھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ یہ شرک سے براءت ہے۔

۴- حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاجس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ جب سفر میں جاؤ تو وہاں تم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوشحال اور با مراد رہو اور تمہارا سامان زیادہ ہوجائے؟ انہوں نے عرض کیا، بے شک یا رسول اللہ میں ایسا ہی چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ آخر قرآن کی پانچ سورتیں سورة الکافرون، سورة النصر، سورة الاخلاص، سورة الفلق اور سورة الناس پڑھا کرو اور ہر سورة کو بسم اللہ سے شروع کرو اور بسم اللہ ہی پر ختم کرو۔ حضرت جبیر فرماتے ہیں کہ اس وقت میرا حال یہ تھا کہ سفر میں اپنے دوسروں ساتھیوں کے مقابلے میں غریب اور خستہ حال ہوتا تھا۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم پر عمل کیا میں سب سے بہتر حال میں رہنے لگا۔

۵- حضرت علی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچھونے کاٹ لیا تو آپ نے پانی اور نمک منگایا اور یہ پانی کاٹنے کی جگہ لگاتے جاتے تھے اور قل یا ایھا الکافرون قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس پڑھتے جاتے تھے۔
 

الشفاء

لائبریرین
آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا رات کو اپنے اوپر آخری تین سورتوں کا دم۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بستر پر تشریف لاتے تو دونوں ہتھیلیاں (دعا کی طرح) جمع کرتے پھر سورۃ اخلاص، سورۃالفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں پڑھ کر ان میں پھونکتے اور اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو جہاں تک ہوسکتا بدن پر مل لیتے۔ پہلے سر اور چہرے پر پھر جسم کے اگلے حصے پر اور یہ عمل تین مرتبہ کرتے۔

(صحیح بخاری، جلد سوم، رقم 9، ترمذی، جلد دوم، رقم 1326)
 

شکیب

محفلین
سورہ رحمٰن کی فضیلت
١.. قرآن کی زینت
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ ہرچیزکے لیے حسن ( وجمال وزینت وخوبصورتی ) ہے اور قرآن کا حسن ( وجمال وزینت وخوبصورتی ) س۔۔ورة الرحمن ہے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب فضائل القرآن)

Abdullah ibn Mas’ud (R.A.) reported that Muhammad (S.A.W.) said, "Everything has an adornment, and the adornment of the Qur’an is Surah ar Rahman" [Bayhaqi in Shuab al Eiman].

٢.. جنات کے آگے تلاوت
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم ( ایک دفعہ ) اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے پس آپ نے سورة الرحمن اول سے آخرتک تلاوت فرمائی ، صحابہ کرام خاموش سنتے رہے ، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میں نے سورة الرحمن جنات کے اوپر پڑهی وه جواب دینے میں تم سے زیاده اچهے تهے ، میں جب بهی ( فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ) پڑهتا تو وه ( جنات ) کہتے لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ ، فَلَكَ الْحَمْدُ . یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی بهی نعمت کو نہیں جهٹلاتے تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں
(سنن الترمذي » كتاب تفسير القرآن)
 

ام اویس

محفلین
سورة الفلق اور سورة الناس یعنی المعوذتین کی فضیلت

۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقبہ بن عامر سے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں کچھ خبر ہے کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی مثل نہیں دیکھی، یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس

۱- انہی کی ایک روایت میں ہے کہ تو رات، انجیل اور زبور اور قرآن میں بھی ان سورتوں جیسی کوئی دوسری سورت نہیں ۔

۳- حضرت عقبہ بن عامر ہی کی روایت ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو معوذتین پڑھائی اور پھر مغرب کی نماز میں انہی دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا کہ ان دونوں سورتوں کو سونے اور بیدار ہونے کے وقت پڑھا کرو۔

۴- اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو ہر نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

 

ام اویس

محفلین
سورة الفتح کی فضیلت
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال مکہ فتح ہوا اپنی راہ میں سورۂ فتح پڑھی یعنی «اِنَّا فَتَحْنَا» اپنی سوری پر آواز دوہراتے گئے اپنی قرأت میں۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے گھیر لیں گے تو میں صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت تم کو سناتا۔
صحیح مسلم 1853
 

ام اویس

محفلین
سورة الفلق اور سورة الناس یعنی المعوذتین کی فضیلت

۵- اور حضرت عائشہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی بیماری پیش آتی تو یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کر کے سارے بدن پر پھیر لیتے تھے، پھر جب مرض وفات میں آپ کی تکلیف بڑھی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کردیتی تھی آپ اپنے تمام بدن پر پھیر لتے تھے۔ میں یہ کام اس لئے کرتی تھی کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا بدل میرے ہاتھ نہیں ہو سکتے تھے۔

صحیح بخاری ۔ 5016
 

ام اویس

محفلین
سورة البینہ کی فضیلت:

حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنہ سے فرمایا:’’اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں تمہارے سامنے سورت ’’ لَمْ یَكُنِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ‘‘پڑھوں ۔حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنہ نے عرض کی: اللّٰہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟

نبی کریم صلی الله وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ہاں (یہ سن کر) حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنہ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے۔
البخاری۔ 4959
 

ام اویس

محفلین
سورة اعلٰی ،الغاشیہ ، الکافرون اور الاخلاص کی فضیلت:

۱- صحیح مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے: حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عید الفطر،عید الاضحی اور جمعہ کی نماز میں ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ اور ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِ‘‘ پڑھا کرتے تھے اور جب عید جمعہ کے دن ہوتی تو دونوں نمازوں میں ان سورتوں کی تلاوت فرماتے تھے۔

(2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں جس کا مفہوم ہےکہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ دوسری رکعت میں ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ‘‘ اورتیسری رکعت میں ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔

(3) مسند احمد میں ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس سورت ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ سے محبت فرماتے تھے۔

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1)

اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے۔
 

ام اویس

محفلین
سورة التین کی فضیلت:

بخاری شریف کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے، حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے عشاء کی نماز میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ’’ وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُون ‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا،میں نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ اچھی آواز کے ساتھ قراء ت کرتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔
البخاری۔ 7546
 

ام اویس

محفلین
سورة الشمس کی فضیلت:
احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز میں ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘ اور اس کے مشابہ سورتیں پڑھا کرتے تھے اور کبھی صحابہ رضوان الله اجمعین کو فجر کی نماز پڑھائی تو اس میں ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘ اور ’’ وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ‘‘ کی تلاوت فرمائی۔

سنن ماجہ کی ایک طویل حدیث مبارکہ ہے جس میں حضرت معاذ کے اس واقعہ کا بیان ہے جب انہوں نے عشاء کی نماز میں سورة بقرہ پڑھائی اور اس بات کی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم نے«سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاها» اور «والليل إذا يغشى» کے ساتھ امامت کیوں نہ کرائی؟
البخاری ۔6106
 

سیما علی

لائبریرین

حضور ﷺ کو کوثر عطا کیے جانے کی تخصیص کا بیان۔۔​

سورۂ کوثر کی فضیلت

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہم میں تشریف فرما تھے، اچانک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اُونگھ آ گئی (جو کہ نزولِ وحی کی کیفیات میں سے ایک کیفیت تھی)، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اُٹھایا تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ہنسایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ابھی مجھ پر یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی: {بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّہے)o بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہو گاo} پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کوثر وہ نہر ہے جس کا میرے ربّ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اِس میں خیر کثیر ہے، وہ ایک حوض ہے جس پر میری اُمت کے لوگ قیامت کے دن پانی پینے کے لیے آئیں گے، اِس کے برتن ستاروں (کی تعداد) کے برابر ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین

سورہ قریش کی فضیلت​

سورۃ قریش بھی بہت برکت ہے۔ کلام پاک کی ایک ایسی صورۃ اگر آپ سورہ قریش ایک دفعہ پڑھیں گے تو اگرکھانے کے اندرزہربھی ملا ہوگا تو وہ اثر نہیں کرے گا۔ کھانا فوڈ پوائزن نہیں بنے گااوروہ کھانا بیماری نہیں بنے گا، صحت بنے گا۔وہ کھانا اسے گناہوں کی طرف مائل نہیں کرے گا۔​

نیکی کاذریعہ بنے گااورجو دوسری دفعہ سورہ قریش پڑھے گا اللہ پاک جل شانہ اس کو ایسا دسترخوان سدا دیتا رہے گا ، بہترین، اچھے سے اچھا عطا فرماتے رہیں گے ظاہر ہے روزی سکھی ہوگی تو دسترخوان اچھا ہوگا اور جو تیسری مرتبہ سورہ قریش پڑھے گا اللہ اس کی سات نسلوں کو بھی لاجواب کھانے دسترخوان لاجواب کھانے دسترخوان رزق دیتے رہیں گے۔آپ بھی آج سے ہی یہ پڑھیں زندگی میں تبدیلی آپ خود محسوس کریں گے۔ ایک مرتبہ
حضرت ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! میں اپنے بستر پر سوتاہوں تو اپنے گھر میں چکی چلنے کی آوا زجیسی آواز سنتاہوں اورشہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی بھنبھناہٹ سنتا ہوں اور بجلی کی چمک جیسی چمک دیکھتاہوں.پھر جب میں گھبرا کر اور مرعوب ہوکر سراٹھاتاہوں تو مجھے ایک (کالا)سایہ نظر آتاہے جو بلند ہوکر میرے گھر کے صحن میں پھیل جاتا ہے پھر میں اس کی طرف مائل ہوتاہوں اوراس کی جلد چھوتا ہوں تو اس کی جلد سیہہ( ایک جانور ہے جس کے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں )کی جلد کی طرح معلوم ہوتی ہے .وہ میری طرف آگ کے شعلے پھینکتا ہے میرا گمان ہوتا ہے کہ وہ مجھے بھی جلادے گا اورمیرے گھر کو بھی .تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابو دجانہ !تمہارے گھرمیں رہنے والا برا(جن) ہے رب کعبہ کی قسم !اے ابو دجانہ! کیا تم جیسے کو بھی کوئی ایذا دینے والا ہے ؟‘‘پھر فرمایا:’’ تم میرے پاس دوات اورکاغذ لے آؤ.‘‘ جب یہ دونوں چیزیں لائی گئیں تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کو حضرتِ سیِّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیا اور فرمایا:’’اے ابوالحسن! جو میں کہتا ہوں لکھو .‘‘حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:’’ کیا لکھوں ؟‘‘حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ھٰذَا کِتَابٌ مِّنْ مُحَمَّدِ رَّسُوْلِ اللّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo اِلٰی مَنْ یَّطْرُقُ الدَّارَ مِنَ العُمَّارِ وَالزُّوَّارِ اِلَّا طَارِقًا یَّطْرُقُ بخَیْرِ اَمَّا بَعْد فَاِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَاعَۃً فَاِنْ کُنْتَ عَاشِقًا مُّوْلِعًا اَوْفَاجِرًا فَہٰذَا کِتَابٌ یَّنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُوْنَ مَاتَمْکُرُوْنَ o اُتْرُکُوْا صَاحِبَ کِتَابِیْ ھٰذَا وَانْطَلِقُوْا اِلٰی عَبَدَۃِ الْأَصْنَامِ وَاِلیٰ مَنْ یَّزْعَمُ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَلَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَo کُلُّ شَیْ ئٍ ھٰالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ حٰمٓ لَایُنْصَرُوْنَ حٓمٓ عٓسٓقٓ تَفَرَّقَ اَعْدَ ائُ اللّٰہِ وَبَلَغَتْ حُجَّۃُ اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللّٰہِ الْعَلِّیِ الْعَظِیْمِ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے اس خط کو لیا اورلپیٹ لیا اوراپنے گھر لے گیا اوراپنے سرکے نیچے رکھ کر رات اپنے گھر میں گزاری تو ایک چیخنے والے کی چیخ سے ہی میں بیدار ہوا جو یہ کہہ رہا تھا:’’ اے ابو دجانہ !لات وعزی کی قسم ان کلمات نے ہمیں جلاڈالا تمہیں تمہارے نبی کا واسطہ اگر تم یہ خط مبارک یہاں سے اٹھا لو تو ہم تیرے گھر میں کبھی نہیں آئیں گے .‘‘اورایک روایت میں ہے کہ ہم نہ تمہیں ایذا دیں گے نہ تمہارے پڑوسیوں کو اورنہ اس جگہ پر جہاں یہ خط مبارک ہوگا. حضرت ابودجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہفرماتے ہیں : ’’ میں نے جواب دیا مجھے میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے واسطہ کی قسم میں اس خط کو یہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گا جب تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے اس کی اجازت نہ حاصل کرلوں . حضرت ابو دجانہ فرماتے ہیں رات بھر جنوں کی چیخ وپکار اور رونا دھونا جاری رہا .جب صبح ہوئی تو میں نے نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ادا کی اورحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی جو میں نے رات میں جنوں سے سنی تھی اورجو میں نے جنوں کو جواب دیا تھا . حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ اے ابو دجانہ !(وہ خط اب تم )جنوں سے اٹھا لو قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ نبی بناکر بھیجا وہ جن قیامت تک عذاب کی تکلیف پاتے رہیں گے.‘‘
(دلائل النبوۃ،کتاب جماع ابواب نزول الوحی…الخ،ج۷،ص۱۱۸)
 
Top