وہ طریقہ کار جس سے چہرے پر ڈِمپل کا حصول ممکن

محمداحمد

لائبریرین
وہ طریقہ کار جس سے چہرے پر ڈِمپل کا حصول ممکن

کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسکراتے ہوئے چہرے پر پڑنے والے گڑھے یا ڈِمپل اچھے لگتے ہیں؟
5be855ba831f2.jpg

لیکن ایسا کیوں ہے کہ آخر بہت کم لوگوں کے چہروں پر یہ ڈِمپل مسکراہٹ کے دوران نظر آتے ہیں۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حوالے سے سائنس خود بھی کوئی واضح رائے نہیں رکھتی بلکہ منقسم ہے۔

ویسے آپ نے کبھی غور کیا ہو تو واقف ہوں گے کہ اکثر چھوٹے بچوں کے گالوں یہ گڑھا مسکراتے ہوئے نظر آتا ہے تاہم جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ڈِمپل غائب ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ بچپن میں چہرے پر موجود چربی غائب ہونا ہے۔

ویسے تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ڈِمپل جینیاتی اثر کے باعث ہوتے ہیں، یعنی اگر والدین کے چہروں پر یہ ڈمپل ہوں تو بچے کی خوبصورتی بھی اس سے بڑھ جاتی ہے۔

آسان الفاظ میں یہ ڈِمپل منہ کے ارگرد دیگر افراد کے مقابلے میں مسلز مختصر ہونے کی وجہ سے نمایاں ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں جب کوئی مسکراتا ہے تو چھوٹا سا گڑھا گوشت میں پڑجاتا ہے۔

مگر کیا ایسے افراد جن کے ڈِمپل نوجوانی میں نہ ہو مگر عمر بڑھنے کے ساتھ چہرے پر یہ گڑھا نمایاں ہوجائے تو کیا یہ ممکن ہے؟

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ جو بچے آئس لولی کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں ڈِمپل بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس عمل کو Cryolipolysis یا چربی منجمند ہونا کہا جاتا ہے، جس کے دوران چربی کے ٹشوز ٹھنڈے درجہ حرارت کے باعث مرجاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق آئس پیکس اور ٹھنڈی ہوا سے بھی ایسے اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے محققین نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ شدید سرد درجہ حرارت کے حوالے سے چربی دیگر جسمانی ٹشوز کے مقابلے میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہے۔

تاہم اگر آپ اس طریقہ کار یعنی آئس لولی یا آئس پیک کو استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو یہ اتنا آسان نہیں بلکہ کافی مشکل کام ہے اور بچوں میں ہی اس کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس طریقہ کار کو ابھی بڑے پیمانے پر آزمایا نہیں گیا تو کچھ کہنا مشکل ہے کہ جوانی یا درمیانی عمر میں یہ کس حد تک کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس خبر کو کس زمرے میں لگائیں۔

ویسے بھی ہر زمرے میں ہماری ایک آدھ پوسٹ تو ہونی ہی چاہیے۔ اس میں غالباً نہیں تھی۔

کچھ دوستوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے خبر کے ساتھ منسلکہ تصویر بھی چپکا دی ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
چاند پر کھڈے ڈالنے والی بات ہے، ویسے ڈمپل سے تو ہمارے ذہن میں فوری طور پر ڈمپل کپاڈیا کا نام ہی آتا ہے لیکن شاید ان محترمہ کے ڈمپل پڑتے ہی نہیں۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
چاند پر کھڈے ڈالنے والی بات ہے، ویسے ڈمپل سے تو ہمارے ذہن میں فوری طور پر ڈمپل کپاڈیا کا نام ہی آتا ہے لیکن شاید ان محترمہ کے ڈمپل پڑتے ہی نہیں۔ :)

ہاہاہاہا۔۔۔!

بلاوجہ گوگل سرچ پر مجبور کر دیا۔

وہاں غالباً چاہِ ذقن ہے (یا جو بھی اسے کہتے ہیں)

بلکہ پتہ نہیں وہ بھی ہے کہ نہیں اور ہم ہی "کنفیوز" ہو گئے ہیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہاہاہاہا۔۔۔!
بلاوجہ گوگل سرچ پر مجبور کر دیا۔
وہاں غالباً چاہِ ذقن ہے (یا جو بھی اسے کہتے ہیں)
بلکہ پتہ نہیں وہ بھی ہے کہ نہیں اور ہم ہی "کنفیوز" ہو گئے ہیں۔ :)
چاہ ذقن تو محض ٹھوڑی کے گڑھے کو کہا جائے گا (مثلاََ جاوید شیخ صاحب :) ) ،گالوں کے لیے کو ئی اور اصطلاح ہونی چاہیئے۔
 
وہ طریقہ کار جس سے چہرے پر ڈِمپل کا حصول ممکن

کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسکراتے ہوئے چہرے پر پڑنے والے گڑھے یا ڈِمپل اچھے لگتے ہیں؟
5be855ba831f2.jpg

لیکن ایسا کیوں ہے کہ آخر بہت کم لوگوں کے چہروں پر یہ ڈِمپل مسکراہٹ کے دوران نظر آتے ہیں۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حوالے سے سائنس خود بھی کوئی واضح رائے نہیں رکھتی بلکہ منقسم ہے۔

ویسے آپ نے کبھی غور کیا ہو تو واقف ہوں گے کہ اکثر چھوٹے بچوں کے گالوں یہ گڑھا مسکراتے ہوئے نظر آتا ہے تاہم جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ڈِمپل غائب ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ بچپن میں چہرے پر موجود چربی غائب ہونا ہے۔

ویسے تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ڈِمپل جینیاتی اثر کے باعث ہوتے ہیں، یعنی اگر والدین کے چہروں پر یہ ڈمپل ہوں تو بچے کی خوبصورتی بھی اس سے بڑھ جاتی ہے۔

آسان الفاظ میں یہ ڈِمپل منہ کے ارگرد دیگر افراد کے مقابلے میں مسلز مختصر ہونے کی وجہ سے نمایاں ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں جب کوئی مسکراتا ہے تو چھوٹا سا گڑھا گوشت میں پڑجاتا ہے۔

مگر کیا ایسے افراد جن کے ڈِمپل نوجوانی میں نہ ہو مگر عمر بڑھنے کے ساتھ چہرے پر یہ گڑھا نمایاں ہوجائے تو کیا یہ ممکن ہے؟

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ جو بچے آئس لولی کھانے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں ڈِمپل بننے کا امکان بڑھ جاتا ہے، اس عمل کو Cryolipolysis یا چربی منجمند ہونا کہا جاتا ہے، جس کے دوران چربی کے ٹشوز ٹھنڈے درجہ حرارت کے باعث مرجاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق آئس پیکس اور ٹھنڈی ہوا سے بھی ایسے اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے محققین نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ شدید سرد درجہ حرارت کے حوالے سے چربی دیگر جسمانی ٹشوز کے مقابلے میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہے۔

تاہم اگر آپ اس طریقہ کار یعنی آئس لولی یا آئس پیک کو استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو یہ اتنا آسان نہیں بلکہ کافی مشکل کام ہے اور بچوں میں ہی اس کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس طریقہ کار کو ابھی بڑے پیمانے پر آزمایا نہیں گیا تو کچھ کہنا مشکل ہے کہ جوانی یا درمیانی عمر میں یہ کس حد تک کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔

ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس خبر کو کس زمرے میں لگائیں۔

ویسے بھی ہر زمرے میں ہماری ایک آدھ پوسٹ تو ہونی ہی چاہیے۔ اس میں غالباً نہیں تھی۔

کچھ دوستوں کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے خبر کے ساتھ منسلکہ تصویر بھی چپکا دی ہے۔ :)
بھیا سب خیریت ہے نا آج کل آپ بڑے منفرد موضوعات پر دھاگے بنا رہیے ہیں ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بھئی گوگل کی نظر میں ہم اور آپ مختلف ہیں کیا ؟ :)

ارے ہمارا مطلب یہ تھا کہ جو علم (یا غلط فہمی) ہمیں گوگل امیج سرچ کے بعد حاصل ہوا وہ آپ کو بھی ہو جاتا۔

غلط فہمی کا امکان اس لئے ہے کہ ہم وارث بھائی کی مذکورہ محترمہ کو پہچانتے نہیں ہیں۔ اور گوگل امیج سرچ میں دوسرے نتائج ملاتے ہوئے کچھ زیادہ احتیاط نہیں کرتا۔

سب کچھ ہی بتانا پڑ گیا۔ :smirk:
 
Top