نوید ناظم
محفلین
وہ مکاں جس کو بنانے میں زمانے لگ گئے تھے
لوگ جب آئے تو آتے ہی گرانے لگ گئے تھے
وہ ہمیں ہر شخص کے اندر دکھائی دے رہا تھا
اس لیے ہم بھی ہر اک کو دکھ سنانے لگ گئے تھے
کون سا گھُن ہے جو اندر سے تمھیں یوں کھا گیا ہے
ہم کو تو پھر بھی چلو کچھ غم پرانے لگ گئے تھے
ہاتھ کیوں ہیں خاک آلود اس کے پیچھے بات یہ ہے
دل کی اک خواہش کو مٹی میں دبانے لگ گئے تھے
ہم کو ان لکنت زدہ لوگوں نے مارا اس لیے تھا
کیوں کہ ان کے بیچ میں ہم گنگنانے لگ گئے تھے
دیر سے آنے کی رضواں معذرت، در اصل یوں ہے
ہم پر اک بارِ امانت تھا، اُٹھانے لگ گئے تھے
شعر کہنے لگ گئے عہدِ وفا مشکل لگا جب
وعدہ کرنے والے شعروں کو نبھانے لگ گئے تھے
لوگ جب آئے تو آتے ہی گرانے لگ گئے تھے
وہ ہمیں ہر شخص کے اندر دکھائی دے رہا تھا
اس لیے ہم بھی ہر اک کو دکھ سنانے لگ گئے تھے
کون سا گھُن ہے جو اندر سے تمھیں یوں کھا گیا ہے
ہم کو تو پھر بھی چلو کچھ غم پرانے لگ گئے تھے
ہاتھ کیوں ہیں خاک آلود اس کے پیچھے بات یہ ہے
دل کی اک خواہش کو مٹی میں دبانے لگ گئے تھے
ہم کو ان لکنت زدہ لوگوں نے مارا اس لیے تھا
کیوں کہ ان کے بیچ میں ہم گنگنانے لگ گئے تھے
دیر سے آنے کی رضواں معذرت، در اصل یوں ہے
ہم پر اک بارِ امانت تھا، اُٹھانے لگ گئے تھے
شعر کہنے لگ گئے عہدِ وفا مشکل لگا جب
وعدہ کرنے والے شعروں کو نبھانے لگ گئے تھے