وہ مکاں جس کو بنانے میں زمانے لگ گئے تھے

نوید ناظم

محفلین
وہ مکاں جس کو بنانے میں زمانے لگ گئے تھے
لوگ جب آئے تو آتے ہی گرانے لگ گئے تھے

وہ ہمیں ہر شخص کے اندر دکھائی دے رہا تھا
اس لیے ہم بھی ہر اک کو دکھ سنانے لگ گئے تھے

کون سا گھُن ہے جو اندر سے تمھیں یوں کھا گیا ہے
ہم کو تو پھر بھی چلو کچھ غم پرانے لگ گئے تھے

ہاتھ کیوں ہیں خاک آلود اس کے پیچھے بات یہ ہے
دل کی اک خواہش کو مٹی میں دبانے لگ گئے تھے

ہم کو ان لکنت زدہ لوگوں نے مارا اس لیے تھا
کیوں کہ ان کے بیچ میں ہم گنگنانے لگ گئے تھے

دیر سے آنے کی رضواں معذرت، در اصل یوں ہے
ہم پر اک بارِ امانت تھا، اُٹھانے لگ گئے تھے

شعر کہنے لگ گئے عہدِ وفا مشکل لگا جب
وعدہ کرنے والے شعروں کو نبھانے لگ گئے تھے
 

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب ماشاءاللہ
بہت اچھے خیالات غزل میں پروئے ہیں. ذرا مشکل بحر چن لی ہے بھائی آپ نے.
بہت شکریہ جناب ! جی ہاں اس بحر کی بابت درست فرمایا آپ نے۔ فاعلات میں محترم یعقوب آسی صاحب یوں فرماتے ہیں۔۔۔
'' بحرِ رمل مثمن: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن- یہ بھی تیسرے دائرے کی اصلی بحر کی توسیع ہے- اس کا شماریہ 334 ہے۔ 1985، 1986 میں ہمیں یہی بتایا گیا تھا کہ بحرِ رمل مثمن مقبول نہیں ہے- اور اس وقت اس بحر میں کثیرالمقدار شاعری دستیاب ہے-''
آپ ہی کا یہ شعر بھی وہاں درج ہے۔۔۔
''خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں سے
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے''
 
Top