وہ کلاہِ کج ، وہ قبائے زر ،سبھی کچھ اُتار چلا گیا
ترے در سے آئی صدا مجھے ، میں دِوانہ وار چلا گیا
کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو
میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا
مری تیزگامئ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ
جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا
نہ غرورِ عالمِ آگہی ، نہ جنون و جذبۂ بیخودی
مئے عشقِ خانہ خراب کا ہر اک اعتبار چلا گیا
تری کائناتِ جمال میں جو عطائے دستِ مجال تھا
مرے شوقِ افسوں طراز کا وہی اختیار چلا گیا
میں ادا کروں کہ قضا کروں ، اسی کشمکش میں بسر ہوئی
یونہی سجدہ گاہِ حیات سے میں گناہگار چلا گیا
ترے آستاں سے گلہ نہیں ، دلِ سوختہ ہی عجیب ہے
کبھی بے سکون ٹھہر گیا ، کبھی بے قرار چلا گیا
تری جلوہ گاہِ نیاز میں، ہے کوئی تماشۂ آرزو !
کبھی تابِ دید نہ آسکی ،کبھی انتطار چلا گیا
مجھے کاروبارِ وفا ملا ، وہ متاعِ صبر و غنا ملی
مرے دن ظہیرؔ بدل گئے ، غمِ روزگار چلا گیا
ظہیرؔ احمد ۔ ۔۔۔۔ ۲۰۱۷