وہ کلاہِ کج ، وہ قبائے زر ،سبھی کچھ اُتار چلا گیا

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی آپ نے تو سیروں خون بڑھادیا ! یہ آپ کی محبت ہے !
ویسے آپ بھی آج کل بہت کم نظرآتے ہیں ۔ کبھی کبھی کچھ عنایت کیا کیجئے ۔ اللہ تعالیٰ زندگی کو آسان بنائے اور آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔
جی بس ان دنوں کچھ مصروفیات ایسی ہیں کہ محفل پر آنا کم کم ہی ہوتا ہے اور جب آتا ہوں تو بھی سامنے کی دو چار پوسٹس پڑھ کے چلا جاتا ہوں۔
کوشش کروں گا کہ کچھ پیش کر سکوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ کیا اچھی غزل ہے۔
مطلع میں البتہ مجھے ایک خیال آیا۔
جب کوئی دیوانہ وار بھاگے گا، تو اسے یہ ہوش کب ہو گا کہ خلعتِ فاخرہ اتارے!!
 

امان زرگر

محفلین
کمال کے خیالات اور اس پر مزید کہ الفاظ کا انتخاب بہت اعلٰی ہے، اندازِ بیاں صوفیانہ لگا۔ متفاعلن کی تکرار نے لطف دوبالا کر دیا۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔۔۔
 
وہ کلاہِ کج ، وہ قبائے زر ،سبھی کچھ اُتار چلا گیا
ترے در سے آئی صدا مجھے ، میں دِوانہ وار چلا گیا

کسے ہوش تھا کہ رفو کرے یہ دریدہ دامنِ آرزو
میں پہن کے جامۂ بیخودی سرِ کوئے یار چلا گیا

مری تیزگامئ شوق نے وہ اُڑائی گرد کہ راستہ
جو کھلا تھا میری نگاہ پر وہ پسِ غبار چلا گیا

نہ غرورِ عالمِ آگہی ، نہ جنون و جذبۂ بیخودی
مئے عشقِ خانہ خراب کا ہر اک اعتبار چلا گیا

تری کائناتِ جمال میں جو عطائے دستِ مجال تھا
مرے شوقِ افسوں طراز کا وہی اختیار چلا گیا

میں ادا کروں کہ قضا کروں ، اسی کشمکش میں بسر ہوئی
یونہی سجدہ گاہِ حیات سے میں گناہگار چلا گیا

ترے آستاں سے گلہ نہیں ، دلِ سوختہ ہی عجیب ہے
کبھی بے سکون ٹھہر گیا ، کبھی بے قرار چلا گیا

تری جلوہ گاہِ نیاز میں، ہے کوئی تماشۂ آرزو !
کبھی تابِ دید نہ آسکی ،کبھی انتطار چلا گیا

مجھے کاروبارِ وفا ملا ، وہ متاعِ صبر و غنا ملی
مرے دن ظہیرؔ بدل گئے ، غمِ روزگار چلا گیا

ظہیرؔ احمد ۔ ۔۔۔۔ ۲۰۱۷

لاجواب۔ با کمال۔ خوبصورت
 

فاخر رضا

محفلین
سلام
بہت ہی خوبصورت غزل ہے
بہت کم ایسی شاعری پڑھنے کو ملتی ہے جسے بار بار پڑہیں اور ہر دفعہ ایک نئی بات سمجھ آئے
آخری نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ یہ غزل ہے مگر حمد بھی ہے۔ یہ کچھ عشق حقیقی کی طرف زیادہ جھکی ہوئی محسوس ہوئی۔ شاید یہ پڑھنے والے کا مزاج بھی ہو مگر لگا ایسا ہی۔ ساتھ ہی آپ نے بھی صوفیانہ رنگ کا اعتراف کیا ہے۔
اب استاد محترم نے جو فرمایا کہ کسے ہوش رہتا ہے خلعت فاخرہ اتارنے کا۔ بات یہ ہے کہ جب محبوب حقیقی کی نیاز میں حاضری ہوتی ہے تو سب کچھ اتار کر بغیر سلا کفن نما احرام ہی پہنا جاتا ہے اور جب جہان فانی سے جاتے ہیں تو بھی سب کچھ اتار کر وہی بغیر سلا اصل کفن۔ جتنا بھی وفور محبت ہو تب بھی آداب عشق تو ملحوظ رکھنے ہی پڑتے ہیں۔ عشق میں دیوانہ وار دوڑنے کے باوجود انسان دیوانہ نہیں ہوتا۔ اسی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے اور اسی کی مرضی کے تابع رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں اور خدا نے زمزم کا اہتمام کردیا۔ یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ پانی کی تلاش میں تھیں یا خدا کو پکار رہی تھیں۔ وہ پیاس زمزم کی تھی یا عشق کی آگ تھی۔
اب جو اپنی مرضی سے اس دنیا میں پہن لے اس کے نصیب کی بات ہے۔
دل چاہتا ہے کہ ہر ہر شعر پر تبصرہ کروں مگر شاید اتنا اشارہ ہی کافی ہے۔
خدا آپ کو خوش رکھے اور آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ کیا اچھی غزل ہے۔
مطلع میں البتہ مجھے ایک خیال آیا۔
جب کوئی دیوانہ وار بھاگے گا، تو اسے یہ ہوش کب ہو گا کہ خلعتِ فاخرہ اتارے!!

بہت بہت شکریہ اعجاز بھائی ! مجھے خوشی ہے کہ غزل آپ کو پسند آئی ۔
مطلع کے بارے مین آپ کے اشکال کا جواب کسی حد تک تو فاخر رضا نے دیدیا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اس غزل کا مجموعی رنگ عشقِ حقیقی کا ہے ۔ مطلع میں خلعتِ فاخرہ کا تو کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ کلاہِ کج استعارہ ہے غرور، نخوت اور تکبر کا ۔ اور قبائے زر (لباس) ایک عمومی استعارہ ہے رئیسانہ طرزِ زندگی اور تعیش کا ۔ ’’سبھی کچھ اتار چلا گیا‘‘ میں سبھی کچھ کے الفاظ ظاہر کر رہے ہیں کہ صرف کلاہِ کج اور قبائے زر نہیں بلکہ اور بہت کچھ چھوڑ دیا گیا ۔ دیوانے کو جب اذنِ حضوری ملتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی دوانہ وار جائے آدابِ حضوری نہیں بھولے گا ۔ یہ تو شاید بھول جائے کہ کیا پہن کر جانا ہے لیکن یہ نہیں بھولے گا کہ کس حلیے میں نہیں جانا ہے ۔ ہاتھ مار کر دستار گرانا اور قبا نوچنا نہیں بھولے گا ۔
اعجاز بھائی امید ہے کہ اب مطلع آپ کو پسند آئے گا۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کمال کے خیالات اور اس پر مزید کہ الفاظ کا انتخاب بہت اعلٰی ہے، اندازِ بیاں صوفیانہ لگا۔ متفاعلن کی تکرار نے لطف دوبالا کر دیا۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔۔۔

ماشاءاللہ بہت خوب ہے: )

لاجواب۔ با کمال۔ خوبصورت

بہت بہت شکریہ دوستو! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ آپ تمام لوگوں کو خوش رکھے ۔ اپنی امان میں رکھے ۔ آمین ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سلام
بہت ہی خوبصورت غزل ہے
بہت کم ایسی شاعری پڑھنے کو ملتی ہے جسے بار بار پڑہیں اور ہر دفعہ ایک نئی بات سمجھ آئے
آخری نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ یہ غزل ہے مگر حمد بھی ہے۔ یہ کچھ عشق حقیقی کی طرف زیادہ جھکی ہوئی محسوس ہوئی۔ شاید یہ پڑھنے والے کا مزاج بھی ہو مگر لگا ایسا ہی۔ ساتھ ہی آپ نے بھی صوفیانہ رنگ کا اعتراف کیا ہے۔
اب استاد محترم نے جو فرمایا کہ کسے ہوش رہتا ہے خلعت فاخرہ اتارنے کا۔ بات یہ ہے کہ جب محبوب حقیقی کی نیاز میں حاضری ہوتی ہے تو سب کچھ اتار کر بغیر سلا کفن نما احرام ہی پہنا جاتا ہے اور جب جہان فانی سے جاتے ہیں تو بھی سب کچھ اتار کر وہی بغیر سلا اصل کفن۔ جتنا بھی وفور محبت ہو تب بھی آداب عشق تو ملحوظ رکھنے ہی پڑتے ہیں۔ عشق میں دیوانہ وار دوڑنے کے باوجود انسان دیوانہ نہیں ہوتا۔ اسی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے اور اسی کی مرضی کے تابع رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بی بی حاجرہ پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑ رہی تھیں اور خدا نے زمزم کا اہتمام کردیا۔ یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ وہ پانی کی تلاش میں تھیں یا خدا کو پکار رہی تھیں۔ وہ پیاس زمزم کی تھی یا عشق کی آگ تھی۔
اب جو اپنی مرضی سے اس دنیا میں پہن لے اس کے نصیب کی بات ہے۔
دل چاہتا ہے کہ ہر ہر شعر پر تبصرہ کروں مگر شاید اتنا اشارہ ہی کافی ہے۔
خدا آپ کو خوش رکھے اور آپ اسی طرح لکھتے رہیں۔

بہت بہت شکریہ فاخر ! اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے اور امن و امان مین رکھے ۔ میری طرف سے اعجاز بھائی کے لئے مطلع کی تشریح کا بھی بہت شکریہ ! اعجاز بھائی اساتذہ میں سے ہیں اور بہت مصروف آدمی ہیں ۔ رات دن اردو کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور انہوں نے اپنے ذمہ کئی کام لگا رکھے ہیں ۔ یہاں آتے ہیں تو اکثر جلدی میں ہوتے ہیں ۔ سو ایسا ممکن ہے کہ کبھی کبھار کسی شعر تک نہ پہنچ سکیں ۔ کوئی بڑی بات نہیں ۔ بہرحال آپ کا بہت شکریہ!
 

فاخر رضا

محفلین
السلام علیکم۔ بھائی ذرہ نوازی ہے۔ آپ کے اشعار اتنے اچھے ہیں کہ تبصرہ کئے بغیر نہیں رہا گیا۔ یہ بات استاد کو بھی معلوم ہے کہ میں اساتذہ سے بے ادبی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ایک عام بات یہ ہے کہ صوفیا جو اصل میں صوفیا رہے ہیں، ہمیشہ شریعت کے پابند رہے ہیں۔ ان کے ہاں کسی بھی طرح شریعت کا لحاظ نہ رکھنا بارگاہِ حق میں بے ادبی کے مترادف ہے۔
ان کا عشق بندگی کی حد کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اور یہ عشق (بندگی والا عشق) صرف خدا ہی کے لئے جائز سمجھتے ہیں۔ شاید اسی لئے ان کی لوگوں سے نہیں بن پاتی۔ ان کے مرید تو ہوتے ہیں مگر دوست کم ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ دوستی دو طرفہ ہوتی ہے اور مریدی یک طرفہ۔ عاشق اپنے عشق میں ہی رہتا ہے اور مرید عاشق کے عشق میں۔ ایک طرف عبادت ہورہی ہوتی ہے اور دوسری طرف شرک۔ کہا دونوں کو عشق ہی جاتا ہے۔ پھر جب عقدہ کھلتا ہے تو صرف اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے۔ پیر اور مرید ختم ہوجاتے ہیں۔
کعبہ کے گرد پروانوں کا چکر لگانا اور اس آگ میں جلنے کی آرزو جس میں ابراہیم علیہ السلام کود گئے تھے۔ کیا منظر ہوتا ہے۔ خد اسب کو زیارت نصیب کرے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پوری غزل ہی لا جواب۔۔۔ لیکن ہائے ہائے!!! اس شعر نے تو ظالم میری جان ہی نکال دی تھی۔۔۔
آہ تو ایسی کھینچی آپ نے کہ۔۔۔
لمحہ بھر کو دم رُک گیا تھا!!!
:whew::whew::whew:
دیکھیئے اس شعر میں چھپی آہ ۔ :) سید عمران
جہاں کسی کی جان نکلتی وہاں ہم نے ایک آہ کھینچ کر کام چلالیا ۔ :)
 

بافقیہ

محفلین
دیکھیئے اس شعر میں چھپی آہ ۔ :) سید عمران
جہاں کسی کی جان نکلتی وہاں ہم نے ایک آہ کھینچ کر کام چلالیا ۔ :)
ایک حقیقت ضرور ہے شاید میری بات سے اتفاق کرنے والے کم ہوں کیوں کہ ایسے لوگ ہی نایاب ہیں۔
پسند آنے والے اشعار پر رک جانا ایک فطری بات ہے۔ لیکن اگر پسندیدہ اشعار پر آپ کی کیفیت غیر ہونے لگے تو سمجھیں کہ جناب باذوق ہیں۔۔۔ ہم نے اپنے یہاں بعضے اشخاص دیکھے ہیں کہ ایسے اچھل پڑتے ہیں اور آپے سے نکل جاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو جنون کا اندیشہ ہونے لگتا ہے۔۔۔ میرے چند دنوں کا تجربہ میری تائید کرتا ہے کہ محفل پر ایسے کافی اشخاص ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں ۔ جس کے باعث محفل کی رونق ہے۔۔۔
 
Top