مظہر آفتاب
محفلین
نام ور ادیب ، دانش ور ، سفر نامہ نگار اور کالم نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ لوگ جتنا کم پڑھیں گے ہم لکھاری اتنے ہی محفوظ رہیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’ہیرالڈ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے انٹرویو میں کیا ۔ یہ انٹرویو معروف ماہر تعلیم اور نقاد ناصر عباس نیئر نے کیا ہے ۔ مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ معاشرہ اس وقت انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے ۔ حکمران طبقے کو تو پرواہ ہی نہیں کہ ان کے بارے میں کیا لکھا جا رہا ہے ۔ وہ تو بس بیرون ملک اپنی جائدادوں کے بارے میں فکر مند ہیں ۔ یہ معاشرہ لکھاری کے مد مقابل آ چکا ہے ۔اب آپ ایک لفظ لکھتے ہیں اور پورا معاشرہ آپ کا دشمن بن جاتا ہے …… یہ شکر کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ مطالعے سے دل چسپی نہیں رکھتے، وہ نہیں جانتے کہ میں نے اپنے ناولوں میں کیا لکھا ہے ۔ نائن الیون کے بعد سامنے آنے والے انگلش رائٹرز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم انگلش رائٹرز کی صلاحیتوں کا موازنہ اردو میں لکھنے والوں کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ وہ جو پنجابی میں لکھتے ہیں، بالکل مختلف صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کسی بھی لکھاری کے کام کو کمتر نہیں بناتا۔ اگر بلھے شاہ کا اردو شاعروں سے موازنہ کیا جائے تو تمام بڑے نام ان کے سامنے بونے لگیں گے، اس لیے نہیں کہ بلھے شاہ زیادہ اہلیت رکھتا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کی زبان زیادہ اہلیت کی حامل تھی۔ میرا ماننا ہے کہ پنجابی، اردو اور انگریزی سے زیادہ طاقت ور زبان ہے۔
پنجابی اردو سے بڑی زبان ہے ، بلھے شاہ کے سامنے اردو کے بڑے نام بونے لگتے ہیں : مستنصر حسین تارڑپنجابی اردو سے بڑی زبان ہے ، بلھے شاہ کے سامنے اردو کے بڑے نام بونے لگتے ہیں : مستنصر حسین تارڑ
پنجابی اردو سے بڑی زبان ہے ، بلھے شاہ کے سامنے اردو کے بڑے نام بونے لگتے ہیں : مستنصر حسین تارڑپنجابی اردو سے بڑی زبان ہے ، بلھے شاہ کے سامنے اردو کے بڑے نام بونے لگتے ہیں : مستنصر حسین تارڑ