انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں فرق کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ اس طرح ہے کہ بعض نبیوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا بھیا
ڈھیروں دعائیں !!!!
حضرت ابو سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم)
اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔
اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت بیان کی ہے؛ اس لیے کہ آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بے ہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بے ہوش ہوجانے والوں میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بے ہوش ہی نہیں ہوں گے، حال آں کہ مجھ پر بے ہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے : " تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو"۔
مشكاة المصابيح (3/ 1591)
لیکن دوسری طرف خود قرآن پاک میں ارشاد ہے : ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﴾ [البقرة: 253]
یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، نیز خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :"عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر". (سنن الترمذي ۔5/ 30 یعنی میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں ،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔
تو ان دونوں قسموں کی نصوص میں علماء کرام نے مندرجہ ذیل طریقوں سے تطبیق دی ہے:
1۔۔ آپ ﷺ نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آں حضرت ﷺ کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ،اور آپ کو اپنے تمام انبیاء سے افضل ہونے کا علم نہیں تھا، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آں حضرت ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ ﷺ کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے، لیکن یہ توجیہ زیادہ قوی نہیں ہے۔
2۔۔آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ تمام انبیاءِ کرام سے افضل ہیں اور ان کے سردار ہیں، لیکن آپ ﷺ نے تواضع ، عاجزی اور انکساری کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا تھا۔
3۔۔ نفسِ نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو، کیوں کہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، خصائص وصفات کے لحاظ سے افضل اور مفضول ہونے سے انکار نہیں ہے، جیسا کہ خود سورۂ بقرہ میں مؤمن کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه﴾ [البقرة: 285] یعنی ہم کسی نبی اور رسول کے درمیان فرق نہیں کرتے اور یہ نہیں کرتے کہ خدا کے سچے نبیوں میں ایک کو مانیں اور دوسرے کا انکار کریں۔
4۔۔ یایہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے ، یہ جواب سب سے قوی ہے، اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ بلا شبہ انبیاء اور رسولوں کے درمیان فرقِ مراتب ہے ، انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، اور اسی طرح تمام انبیاء کے درمیان فضیلت دینے کی ممانعت بھی مذکور ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی کو اس طرح دوسرے نبی پر فضیلت دینا ممنوع ہے کہ جس سے دوسرے نبی کی تنقیص لازم آتی ہو، اسی طرح ایسے موقع پر فضیلت دینے کی ممانعت کی گئی جب کہ مسئلہ مجادلہ اور مناظرہ کی شکل اختیار کرلے ، کیوں کہ ایسی صورت میں احتیاط کے باوجود انسان بے قابو ہوکر دوسرے پیغمبر کے متعلق ایسی باتیں کہہ جائے گا جو ان کی توہین کا سبب بنے گی، اور پیغمبر کی توہین کفر ہے۔
(2) اور خاص کر یونس علیہ السلام کا ذکر فرما یا جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام ابن متی سے بہتر ہوں ۔" ( بخاری ومسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ کہے کہ میں یونس ابن متی سے بہتر ہوں تو یقیناً وہ جھوٹا ہے ۔
اس جملہ کے دو مطلب ہیں:
(1) کوئی عام شخص اپنے بارے میں کہے وہ یونس علیہ سے بہتر ہے، اس صورت میں یہ جائز نہ ہونا بالکل ظاہر ہے کی کسی بھی امتی کے لیے ایسا کہنا قطعاً جائز نہیں۔
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی آپ ﷺ کو ان پر فضیلت دے، اس صورت میں اس کی وہی توجیہات ہیں جو گزشتہ سطور میں ذکر ہوئیں ہیں ،اور ان روایات میں خصوصیت کے ساتھ حضرت یونس علیہ السلام کا جو ذکر ہے، یہ صرف اس لیے ہے کہ جو شخص بھی یونس علیہ السلام کے حالات اور واقعات کا مطالعہ کرے اس کے دل میں آپ کی ذاتِ اقدس کی تنقیص کا پہلو نہ آئے کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذا پہنچائی تو یونس علیہ السلام ان کو عذاب سے ڈرا کر غصہ میں قوم کو چھوڑ کر نکل گئے اور کشتی میں جابیٹھے تھے، لہٰذا ان کا یہ طرزِ عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا درست ہے، لیکن آں حضرت ﷺ نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔ لہذا ان کی عظمت کے اس پہلو کو نمایاں کرکے تنقیص کے اس خدشہ کا سدباب کیا۔
فتح الباري لابن حجر (6/ 452)
انبیاء میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دینا | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن