ایک تفصیلی انٹرویو
اسامہ سَرسَری: کاشف عمران صاحب! آپ ہیں کون؟
محترم دوستو ،
اپنا ابتدائی تعارف تو پہلے ہی دن کراو دیا تھا۔
اسامہ سَرسَری: وہ تو بہت سرسری سا تھا، کچھ تفصیلی تعارف عنایت ہوجائے۔
تو پھر پوچھیے ، ہم حاضر ہیں۔
اسامہ سَرسَری: اپنے بچپن کے کچھ واقعات پر مختصر سی روشنی ڈالیے۔
میری بے رنگ زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اسکول کے زمانے میں اردو کی کتابوں میں دی گئی نظمیں اچھی لگتی تھیں۔ مگر اصل دلچسپی عمرو عیار، انسپکٹر جمشید، عمران + ایکس ٹُو، ٹارزن کی کہانیوںوغیرہ میں ہوتی تھی۔آس پاس کا ماحول بھی یہی تھا۔
اسامہ سَرسَری: یہ سب کہانیاں بشمول تاوان،دیوتا،بازی گر ہم نے بھی پڑھی ہیں ، اس میں کیا کمال کیا آپ نے، جس طرح کراچی شہر میں ہمیں یہ چیزیں بسہولت حاصل ہوگئیں یقینا آپ کو بھی اپنے علاقے میں ہوگئی ہوگی؟
جی نہیں، جناب! ہم بلوچستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ ہم تو گھر میں اردو بولتے تھے۔ مگر وہاں کے اکثر لوگوں کی اردو سے کوئی خاص شناسائی نہ تھی۔اسکول کا حال بھی وہی تھا جو بلوچستان اور اندرونِ سندھ کےسرکاری اسکولوں کا ہوتا ہے۔ سارا بچپن گلی ڈنڈا، فٹبال، کرکٹ، کنچےوغیرہ کھیلنے میں گزرا۔
اسامہ سَرسَری: ارے ، تو پھر شاعری جیسا فن تمھارے اندر کیسے آگیا؟
اصل میں میٹرک کے امتحان کے بعد فراغت کے دنوں میں (کہ میٹرک کا رزلٹ پانچ چھ ماہ بعد آتا تھا) ایک دن ایک رشتے کی خالہ کے ہاں ردی کے سامان میں "دیوانِ غالب" ہاتھ لگا۔ پڑھا تو مزہ آیا۔ اُسی کو دن رات کا ساتھی بنا لیا۔ پھر گھر میں پڑی "ضربِ کلیم" پر ہاتھ صاف کیے۔ اس دوران رزلٹ بھی آ گیا۔کچھ نقل (رواج یہی تھا ، ٹیچر بھی نقل کرنے میں مدد دیتے تھے تا کہ بچے بورڈ کے امتحان میں پاس ہو کر ان کی جان چھوڑیں) اور کچھ "تیزیِ طبع" کی بدولت نمبر اچھے آ گئے۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب، پھر آپ نے کیا کیا؟
میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کرنے کوئٹہ چلا آیا اور ایک اچھے سے کالج میں داخلہ لے لیا۔
اسامہ سَرسَری: ہمم ممم۔۔۔ وہاں کا معیارِ تعلیم کیسا پایا؟
وہاں کا معیارِ تعلیم بہت بلند اور ٹیچر کافی قابل اور محنتی تھے۔
اسامہ سَرسَری: پھر تو آپ نے وہاں بھی اپنے خوب جوہر دکھائے ہوں گے؟
آپ کا گمان اپنی جگہ، مگر تیز طرارمحنتی لڑکوں سے مقابلہ کرنا مجھ "شاعرالوجود" کے بس کی بات نہ تھی۔ان حالات میں اصل پڑھائی میں خاک دل لگنا تھا۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا، تو آپ نے اس کا حل نکالا؟
میں نے کالج کی عظیم الشان لائبریری میں دستیاب کلاسیکل شعراء کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔کیا کلیاتِ میر اور کیا کلیاتِ سودا۔ سب پڑھ ڈالیں۔ اس دوران تُک بندی بھی شروع کر دی۔کچھ دن مزاحیہ شعر لکھنے کی کوشش کی پھر سنجیدہ موضوعات کی طرف مائل ہو گیا۔
اسامہ سَرسَری: مگر شاعری صرف دواوین کا مطالعہ کرنے سے تو نہیں آتی، عروض کی خاردار جھاڑیوں کو آپ نے کیسے پار کیا؟
بچوں کے ماہنامہ "نونہال" میں علمِ عروض پر ایک سلسلہ چھپتا تھا ۔ وہاں سے تقطیع کا ہنر سیکھا اور جلد ہی وزن میں شعر کہنے کے قابل ہو گیا۔
اسامہ سَرسَری: اور پڑھائی؟
انٹر کا نتیجہ تو وہی نکلتا جو ان حالات میں نکلنا تھا۔ میں سائنس کے تمام مضامین میں "امتیازی نمبروں سے فیل" ہوا۔ حد یہ کے اردو تک میں بمشکل تمام پاس ہو کر یہ ثابت کیا کہ ممتحن حضرات کالج کے لڑکوں کی فی البدیہہ شاعری سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔
اب ٹرین پوری طرح پٹری سے اتر چکی تھی۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ ایک تعلیمی ادارے میں ہونے کے باوجود پڑھائی سے کورے تھے، کیا آپ کو اس کا بالکل دکھ نہیں ہورہا تھا؟
مگر شاعری میں (اپنی نظر میں) "استاد" ہو چکا تھا۔ فارسی میں تو شروع سے ہی کچھ شُد بُد تھی کہ آس پاس 'دری' اور 'دہواری' (فارسی کے دو لہجے ہیں) بولنے والے موجود تھے۔ اسی بنا پر حافظ، سعدی اور عطار وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کر چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: صرف شاعری سے تو زندگی کی دکان نہیں چلتی نا دوست! اس کے علاوہ آپ نے کچھ نہیں سیکھا؟
میں نے کچھ ماہ ویلڈنگ کا کام سیکھا اور خوب مہارت حاصل کرلی۔
اسامہ سَرسَری: پھر۔۔۔۔
پھر آنکھوں میں شدید خارش کے سبب اسے چھوڑ کر ایک ترکھان کی شاگردی اختیار کی۔ اسی دوران گرتے پڑتے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایف اے (اردو ایڈوانس، انڈین ہسٹری، اکنامکس) کا امتحان بمشکل پاس کیا۔ترکھانی میں دو تین ماہ میں ہی اچھا خاصا استاد ہو گیا تھا۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب۔۔۔یعنی کہیں تو جمے۔
مگر طبیعت کی تلوّن مزاجی نے وہاں بھی دم لینے نہ دیا۔ بارہ جماعتیں پاس کر لینے کی بعد جی میں سمائی کہ کچھ نیا کیا جائے۔
اسامہ سَرسَری: یعنی کچھ محبت وحبت۔۔۔۔۔
نہیں۔۔ پولٹری فارم کھولنے کا خیال آیا (مرغیوں سے ازلی محبت ہے اور انھیں ساری زندگی اشرف المخلوقات کا درجہ دیتا رہا ہوں۔ ذبح کرنے سے پہلے معافی بھی مانگتا ہوں)۔
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ شیخ چلی کے راستے پر چل پڑے۔
مگر مطلوبہ رقم دستیاب نہ ہونے کے سبب یہ خیال، خیال ہی رہا۔
اسامہ سَرسَری: وہی تو کہہ رہا ہوں، شیخ چلی نے کونسا مرغیوں کا کاروبار شروع کردیا تھا۔
پولٹری فارم تو نہ کھل سکا مگر "کچھ اور" کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی۔ نتیجہ؟ ایک اور قلابازی ۔ یعنی ترکھانی چھوڑ، ایک مدرسے میں جا کر فارسی، عربی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔
اسامہ سَرسَری: اوہ۔۔۔ تو اب ملا بننے چل دیے، یعنی شیخ چلی نہ بن سکے، ملادوپیازہ بننے ٹھان لی۔ واہ ، پھر کیا ہوا؟
دنوں ہفتوں میں علمِ صَرف میں سارے مدرسے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اساتذہ سوال کرنے سے قبل مجھے جواب دینے سے منع کر دیتے تھے کہ کچھ دوسرے شاگردوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے۔ غرض چند ماہ میں ہی تین چار سال کا کورس مکمل کر چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: اس عرصے میں اپنی عصری تعلیم کو کچھ بڑھایتے۔
بالکل جناب! اسی زمانے میں بی اے کا امتحان بھی پرائیویٹ پاس کیا۔
اسامہ سَرسَری: چلو شکر مدرسے میں تو جمے آپ۔
ہاہاہاہا۔۔۔ بُرا ہو سرِ سودائے جنوں کا۔ مدرسے سے بھی تنگ آیا اور ایک دن چپ چاپ کتابوں کا بکس سر پر رکھے دوسروں کے جاگنے سے پہلے وہاں سے بھاگ لیا۔
"سبھی سوئے پڑے تھے کہ ترے کوچے سے ہم نکلے"
اسامہ سَرسَری: ارے۔۔۔ مدرسہ بھی ۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ پھر۔۔۔؟
ایک مرتبہ پھر نئی منزلوں کی تلاش تھی۔ اب آپ "گیس" کریں کہ میں نے کیا کیا ہو گا؟
اسامہ سَرسَری: اب آپ نے ہمارے خیال میں علمِ نجوم و قیافہ سیکھنا شروع کردیا ہوگا۔ کیونکہ کل آپ کے کلام میں لفظ قیافی بہت نظر آیا ہے اگرچہ اس کا مطلب کچھ اور تھا اور ٹائپنگ کی غلطی تھی، بہرحال یہ تو ہماری قیافے بازی ہے، آپ بتائیں کیا یہی کیا یا کچھ اور؟
جی ، آپ کا جو بھی جواب ہے غلط ہی ہوگا۔ میں نے یہ کیا کہ سر سے صافہ اتارا اور بازار سے سن گلاسز اور جینز کی دو پتلونیں لے لایا۔ داڑھی پر مشین پھروائی۔ کرتہ شلوار اتار، پتلون میں گھسا۔
اسامہ سَرسَری: انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ یعنی ملادوپیازہ سے آپ مسٹر بین بن گئے، اس سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا تھا اب؟
اب مدرسے کے سارے جاسوس مل کر بھی میرا سراغ نہ لگا پاتے۔
اسامہ سَرسَری: تو آپ کو ایسا کیا تیر مارنا تھا پھر جو آپ چھپتے پھر رہے تھے؟
پھر میں نے یونیورسٹی جا کر "ایم اے انگریزی ادب" میں داخلہ لے لیا۔
اسامہ سَرسَری: زبردست۔۔ یعنی ۔۔۔
ان دنوں طبیعت کی جولانی عروج پر تھی۔ شیکسپئر سے لے کر ملٹن، اور سپنسر سے لے کر کیٹس، سب کو پڑھا۔ چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی،جیمز جوائس، ڈی ایچ لارنس پر بھی ہاتھ صاف کیے۔ ساتھ میں مشقِ سخن بھی جاری تھی۔
اسامہ سَرسَری: آپ تو اب تک اچھے بھلے شاعر بن گئے ہوں گے؟
اس وقت تک میں خود کو غالب اور میر سے کم کوئی رتبہ نہ دیتا تھا (بعد میں پتہ چلا سب شاعرتمام عمر اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں! خرابی ہو دنیا والوں کی کہ مان کر نہیں دیتے)۔ لیکن یہاں پھر وقت نے میرے ساتھ وہی کیا جو اس کی عادت ہے۔ یعنی ایک سال گزر چکا تھا اور امتحان سر پر کھڑے تھے۔
اسامہ سَرسَری: تو کیا ہوا آپ تو بہت ذہین تھے، مدرسے میں سب کو پیچھے چھوڑدیتے تھے، یہاں بھی ٹینشن والی کیا بات تھی؟
میں تو سارا سال "آؤٹ آف کورس" چیزیں پڑھتا رہا تھا۔ یا الٰہی، اب کیا کروں! پاس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسامہ سَرسَری: تو فیل آنے سے تمھاری زندگی میں کیا فرق پڑنے والا تھا؟
اگر فیل ہوتا (جو کہ ہونا ہی تھا!) تو عزت خاک میں مل جاتی۔ میں سوچنے لگا کہ وہ بھی جو میری شاعری کی وجہ سے مجھ سے دبتے تھے لہرا لہرا کر اپنا رزلٹ کارڈ مجھے دکھائیں گے اور میرا تماشا لگائیں گے۔
اسامہ سَرسَری: ارے لڑکوں کی ایسی کی تیسی۔۔۔ ایک مایہ ناز ادیب کسی جگہ ہو تو وہاں کی لڑکیاں تو اس پر ہر حال میں مرتی ہیں۔
لڑکیوں کی نظر میں تو خاص طور پر کوئی عزت ہی نہ رہے گی۔ ویسے بھی وہ بیچاری سارا سال مجھ سے نوٹس مانگتی رہیں۔ سب سمجھتے تھے کہ میں کمینہ ہوں اور اپنے نوٹس چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ "گولڈ میڈل" لے سکوں۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیا ہوا تھا کہ میری سب تیاری مکمل ہے۔ مگر اب کیا ہو گا۔ روزِ حساب آ پہنچا تھا۔
"مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ"۔
اسامہ سَرسَری: مگر آپ نے کچھ تو کیا ہوگا؟
مرتا کیا نہ کرتا۔ سو بار کی آزمائی ترکیب پھر آزمائی۔ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر یونیورسٹی سے بھی بھاگ لیا۔
اسامہ سَرسَری: اوہ۔۔۔ بڑا انوکھا حل ہے آپ کے پاس ہر پریشانی کا۔۔۔ خیر۔۔۔ آپ کے دماغ پر تو بڑا بوجھ ہوگا اس وقت۔
اب تک ناکامیوں اور بھاگنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ طبعیت پر چنداں بوجھ نہ پڑتا تھا۔ "ایم اے انگریزی ادب" کا انجام تو خیر سے وہی ہوا جو اس سے پہلے ویلڈنگ، ترکھانی، فارسی و عربی اور کھِلنے سے پہلے اجڑنے والے باغ المعروف بہ "کاشف عمران اینڈ کمپنی پولٹری فارم" کا ہو چکا تھا۔
اسامہ سَرسَری: تو آپ کوئی اچھا سا روزگار تلاش کرکے شادی کرلیتے۔
ہاہاہاہاہ۔۔۔۔اس وقت کوائف نامہ کچھ یوں بنتا تھا:
عمر : 23 سال
تعلیم : بی اے سیکنڈ ڈویژن
تجربہ: ویلڈنگ 3 ماہ۔ ترکھانی 4 ماہ۔
اضافی کوائف: شاعری اور باتیں بنانے کا فن، فارسی، عربی سے سرسری واقفیت، علم تجوید و قرائت میں کچھ دسترس۔
کمزوریاں: 1: سوائے شاعری کے آج تک ہر کام ادھورا چھوڑاہے ۔ 2: جسمانی کمزوری کہ بچپن سے جوانی تک بیمار ہی رہا۔
سفارش: ندارد
رشوت کے لیے پیسہ: ندارد
اسامہ سَرسَری: یعنی آپ کو نوکری تلاش کے باوجود نہ ملی۔
اب اس کوائف نامہ کے ساتھ کیا نوکری ملتی۔ مگر میں نےاٹھارہ سو ماہوار کی ایک نوکری ڈھونڈ ہی لی۔ قریب کے ایک پرائیویٹ انگلش اسکول میں ٹیچنگ کی اسامی نکلی۔ آپ پھر "گیس" کریں کہ اسامی کس پوسٹ کی ہو گی؟ چلیے میں ہی بتا دیتا ہوں۔ عربی ٹیچر! انٹرویو میں بھانت بھانت کے مولوی حضرات آئے تھے۔ سب ایک ہی کمرے میں بیٹھے انٹرویو دے رہے تھے۔ پوچھے سوالات کے سب نے تقریبًا ایک سے غلط جوابات دیے۔میچ ٹائی ہوتے دیکھ کر پرنسپل صاحب نے فیصلہ کیا کہ آخری معرکہ قرات کے میدان میں ہو گا۔ سب نےباری باری اپنی مرضی کی سورتیں سنائیں۔ میرا نمبر آخر میں آیا۔ باقیوں کے حالات میں دیکھ چکا تھا۔اب میں نے لحنِ داودی میں سورۃ فاتحہ کچھ اس انداز میں سنائی کہ باقی تمام امیدواروں کے منہ لٹک گئے۔ ادھر پرنسپل صاحب کا چہرہ کِھل سا گیا۔ مجھے سلیکٹ کر لیا گیا۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکول کو عربی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عربی ٹیچر تو بس محکمہءِ تعلیم کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا گیا تھی۔ اصل ضرورت تو قاری کی تھی کہ جس سے تلاوت کروا کر اور بچوں کوتلاوت سکھا کر آس پاس کی آبادی اور والدین کو بتایا جا سکے کہ:
"اسکول ہٰذا میں جدید انگلش تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام ہے"۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب، یعنی ماضی کا شیخ چلی نمبر 2 اور ملادوپیازہ نمبر2 اب حال کا قاری کاشف عمران بن چکا تھا، پھر کیا ہوا قاری صاحب!
سال سے کچھ کم عرصہ اس اسکول میں قرات سکھائی اور خانہ پری کے لیے عربی پڑھائی۔ بچوں میں اصل شہرت داستان گو کی حیثیت سے پائی کہ فری کلاسوں میں جا کر کہانیاں سناتا تھا۔ کئی بچے بلکہ استانیاں بھی ہاف ٹائم میں قرائت سیکھنے کے بہانے میری کلاس میں آ دھمکتیں اور میری چٹخارے دار باتوں کے مزے لیتیں۔
اسامہ سَرسَری: ہاہاہاہا۔۔۔ بچوں نے تو آپ کا نام قاری کہانی رکھ دیا ہوگا۔ لیکن ہم اس موقع پر آپ کو ”قاری استانیاں“ کے نام سے یاد کریں گے۔
ایسا قاری سب نے پہلی بار دیکھا تھا جس کے تھیلے میں کہانیوں اور مزے مزے کی حکایتوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ تھا۔
اسامہ سَرسَری: اب میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ یہاں جم گئے، بلکہ میرا سوال اب یوں ہے کہ یہاں سے آپ نے کب راہِ فرار اختیار کی؟
سال کے اختتام پر اسکول چھوڑا اور ایک دو ماہ بعدصوبائی سول سروس کے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری افسر بن گیا (یہ سب کیسے ہوا، ذکر پھر کبھی)۔ تین سال صوبائی حکومت میں نوکری کی۔ پھر وفاقی حکومت میں آ گیا۔
اسامہ سَرسَری: یہاں پھر وہی سوال۔۔۔کب چھوڑا؟
تقریبًا پانچ سال بعد حسبِ عادت، متعدد محکمے بدلنے کے باوجود، اس کام سے بھی سخت اکتا گیا۔
اسامہ سَرسَری: کمال ہے، یہاں کراچی میں بے روزگار بہت ہیں اور وہاں آپ کے پاس روزگار کی کوئی کمی نہیں، اب کونسی نوکری تلاش کی آپ نے؟
نوکری ترک کی اور پروگرامنگ کر کے پیٹ کے دوزخ کا انتظام کرنے لگا۔
اسامہ سَرسَری: ارے یہ تمھاری زندگی میں پروگرامنگ کہاں سے آ ٹپکی؟
یہ قصہ کہ پروگرامنگ کب اور کیسے سیکھی، اپنی ذات میں خود ایک داستان ہے۔ زندگی رہی اور آپ دوستوں نے چاہا تو اس کا ذکر پھر مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔
اسامہ سَرسَری: واہ جی ۔۔۔۔ شیخ ، ملا ، شاعر ، قاری ، افسر ، پروگرامر صاحب۔ آگے فرمائیے۔
اب پروگرامنگ کرتے ہوئے دو برس بیت چکے۔ابتدا میں فری لانسر کے طور پر کچھ چھوٹے موٹے پراجیکٹ کیے۔ آج کل اپنےہی ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں۔
اسامہ سَرسَری: بہت خوب ، یعنی تاحال پروگرامر ہیں، اس کے بعد۔۔۔۔ چلے جانے دیجیے۔۔ یہ بتائیے یہاں کیسے بھول پڑے۔
چند دن پہلے کچھ فراغت نصیب ہوئی تو اپنی پرانی شاعری نکال کر دیکھی۔ پڑھ کر مزہ آیا۔ سوچا اس کوچے سے پھر گزر کر دیکھتے ہیں۔
اسامہ سَرسَری: اب مزید سوال۔۔۔۔
اسامہ سَرسَری: اچھا ٹھیک ہے ، اللہ آپ کے ساتھ آسانی اور سہولت والا معاملہ فرمائے، آمین، خوش رہیے اور سب خوش رہنے دیجیے۔