عاطف ملک
محفلین
ٹھوکر لگی جو آیا کسی کی نگاہ میں
کنکر پڑا ہو تھا کہیں کوئی راہ میں
قتلِ انا کے راستے دشوار تھے مگر
ان سے بھی ہم گزر ہی گئے تیری چاہ میں
وہ اور ہی کسی کے ستم کی تھی داستاں
تم ہم سے ہوگئے ہو خفا خوامخواہ میں
سر تم نے اس کے در پہ جھکایا تھا کس لیے
ہے فرق قتل گاہ میں اور سجدہ گاہ میں
اس نے بھی خواہشوں کو مری اہمیت نہ دی
مجھ سے بھی رہ گئی تھی کمی کچھ نباہ میں
آواز اب نہ دیجیے گا، جا رہے ہیں ہم
اک آرزو چھپی سی تھی اس انتباہ میں
عاطفؔ کو بھی نصیب ہوں دو پل سکون کے
اے موت، تو ہی آکے اسے لے پناہ میں
(عاطفؔ ملک)
دسمبر ۲۰۱۸
کنکر پڑا ہو تھا کہیں کوئی راہ میں
قتلِ انا کے راستے دشوار تھے مگر
ان سے بھی ہم گزر ہی گئے تیری چاہ میں
وہ اور ہی کسی کے ستم کی تھی داستاں
تم ہم سے ہوگئے ہو خفا خوامخواہ میں
سر تم نے اس کے در پہ جھکایا تھا کس لیے
ہے فرق قتل گاہ میں اور سجدہ گاہ میں
اس نے بھی خواہشوں کو مری اہمیت نہ دی
مجھ سے بھی رہ گئی تھی کمی کچھ نباہ میں
آواز اب نہ دیجیے گا، جا رہے ہیں ہم
اک آرزو چھپی سی تھی اس انتباہ میں
عاطفؔ کو بھی نصیب ہوں دو پل سکون کے
اے موت، تو ہی آکے اسے لے پناہ میں
(عاطفؔ ملک)
دسمبر ۲۰۱۸
آخری تدوین: