مہوش علی
لائبریرین
ابتک ہمارے سامنے دو پراجیکٹز ایسے چلیں ہیں جن میں بہت سے ممبرز نے مل کر بہ یک وقت ایک ہی کتاب پر کام کیا ہے۔
1۔ کلامِ غالب
2۔ زاویہ
زاویہ بہت بڑی کتاب ہے اور اگر ہم میں سے کسی کو بھی اکیلے ٹائپ کرنا پڑتا تو مشکل پڑ جاتی۔ مثلاً
1۔ اگر ایک ہی ممبر پوری کتاب پر کام کر رہا ہے تو وہ بور ہو کر کام بند کر سکتا ہے۔
مگر ٹیم کی صورت میں جب اعجاز اختر صاحب پوچھ گچھ فرماتے رہے، تو ممبرز بھی ایکٹو رہے۔ اسی طرح شمشاد، زاویہ کو مکمل کروانے کا سہرا آپ کے سر ہے (ورنہ آپ کی ٹیم کا ایک ممبر تو کتاب کی ضخامت کی وجہ سے دل چھوڑ بیٹھا تھا\تھی )
2۔ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اُسے چھوٹے چھوٹے کئی پراجیکٹ مکمل کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی، مگر اگر ایک بڑا پروجیکٹ دے دو تو وہ پریشان ہو جاتا ہے (اگرچہ کہ اُن چھوٹے پروجیکٹز کا کام اُس ایک بڑے پروجکیٹ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو)۔
یعنی، ہر چھوٹے پروجیکٹ کا کامیابی کے ساتھ مکمل ہونا اُس کے شوق کو برقرار رکھتا ہے اور نئے کام کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔
3۔ میری ناقص رائے میں، کتاب کو ڈیجیٹائز کرنے میں نہ صرف ٹائپنگ ٹیم کی صورت میں کی جائے، بلکہ پروف ریڈنگ تک کے لیے ٹیم کی صورت میں کام ہو۔
پروجیکٹ گٹنبرگ کی کامیابی کا راز بھی شاید یہ ہے کہ وہ پروف ریڈنگ کے لیے کتاب ایک ممبر کو نہیں پکڑاتے، بلکہ ہر ممبر دس سے پندرہ صفحے پروف ریڈ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بہت سے ممبرز ایک ہی کتاب پر کام کریں۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ کتاب کو پہلے سکین کیا جائے۔
دیکھئیے، مجھے علم ہے کہ کتاب کو سکین کرنا بذاتِ خود بہت بور کام ہے اور پاکستان میں سکینرز بھی چھوٹے ہیں اور آہستہ سپیڈ پر کام کرتے ہیں۔
یہ سب دشواریاں ایک طرف، لیکن دوسری طرف یہ چیزیں ذہن میں رہیں کہ:
۔ کتاب کو دیکھ کر ٹائپ کرنا کافی دشوار کام ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ کے پاس کتاب تصویری صورت میں موجود ہے، تو ٹائپ کرنے کی ٹیکنیک یہ ہے کہ اوپر کی آدھی سکرین پر تصویری صفحہ ہو، جبکہ نیچے کی آدھی سکرین، یا اس سے بھی کم میں ٹیکسٹ ایڈیٹر ہو۔
(پروجیکٹ گٹنبرگ میں انہوں نے یہی ٹیکنیک استعمال کی ہوئی ہے)۔
مجھے بھی جب کوئی چیز ٹائپ کرنی ہوتی ہے، تو میں یونہی کرتی ہوں۔ اور سو فیصدی یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اس طرح نہ صرف ٹائپ کرنے کی سپیڈ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے، بلکہ ٹائپو کی غلطیاں بھی خود بخود بہت کم ہو جاتی ہیں۔
2۔ کتابوں کو سکین کرنے کی دوسری اہم وجہ پروف ریڈینگ ہے۔ (میں پہلے ہی ایک دوسرے تھریڈ میں پروجیکٹ گٹنبرگ کے حوالے سے روشنی ڈال چکی ہوں۔)
بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ ٹائپ کرتے ہوئے بہت سی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، جنہیں اصل کتاب سے دیکھے بغیر ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس لیے پروف ریڈر کے پاس اوریجنل کتاب، یا اُس کا ڈیجیٹل امیج ہونا بہت ضروری ہے۔
کتاب اگر سکین صورت میں ہوگی تو اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ممبرز مل کر ایک کتاب کی پروف ریڈنگ ایک دن کے اندر ہی مکمل کر دیا کریں گے۔
مثال کے طور پر فردوسِ بریں آج بھی پروف ریڈنگ کی محتاج ہے۔ لیکن اگر اسی کتاب کے ہر باب کو ایک ایک ممبر پر بانٹ دیا جاتا، تو وہ ایک گھنٹے کے اندر اندر پروف ریڈنگ مکمل کر کے کتاب فائنل صورت میں یہاں پیش کر سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ سکین کتابوں کو کہاں Host کیا جائے۔
اس کا جواب تو زکریا ہی بہتر دے سکتے ہیں۔
ویسے جگہ اور بینڈ وڈتھ کی پرابلم ہو رہی ہو تو منصور رانا صاحب اور اردو سینٹر کی چوپال وغیرہ بھی شاید ہماری مدد کر سکیں۔
(امید مجھے یہی ہے کہ یہ پرابلم نہیں ہو گی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کتاب کو ممبرز کے درمیان کیسے بانٹا جائے؟
اس کے لیے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اردو وکی کے آ جانے کے بعد یہ کام کافی آسان ہو جائے گا۔
میرے ذہن میں اس کے متعلق ابھی کوئی خاص تجویز نہیں ہے۔ آپ لوگوں کے ذہن میں کوئی بہتر تجویز ہو تو آپ دے سکتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا سیٹ اپ ممکن ہے کہ کتاب کا سکین شدہ صفحے آدھی اوپر والی سکرین پر نمودار ہو، اور باقی آدھے صفحے پر (یا اس سے کم پر ٹیکسٹ ایڈیٹر نمودار ہو)۔
یہ ممکن تو ہونا چاہیئے۔ مگر ٹیکنیکی اعتبار سے اس کا جواب زکریا یا شارق یا نبیل ہی دے سکیں گے۔
ایک دیسی طریقہ یہ ہےکہ:
1۔ ویب براؤزر، جس میں کتاب کے صفحے کا امیج کھلا ہوا ہو، اُس ونڈو کی اونچائی کو آدھا کر کے سکرین کے اوپر رکھ دیا جائے
۔ اور دوسرا پروگرام (مثلا اردو ایڈیٹر، یا بیبل پیڈ، یا اردو ویب پیڈ وغیرہ) اس کی ونڈو کی اونچائی کو بھی آدھا کر کے سکرین کے نیچے حصے میں رکھ دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ سکین شدہ کتابوں کا حصول کیسے ممکن ہے۔
۔ شاکر کی اس پوسٹ سے مجھے بہت تقویت ملی ہے کہ اُن کی رسائی ایک لائیبریری تک ہے جہاں تیس ہزار کے قریب اردو کتابیں موجود ہیں۔
میرے خیال میں، اردو لائیبریری پروجیکٹ کے ممبرز وہی نہ ہوں جو کہ ٹائپ کر سکتے ہوں، بلکہ لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ کتابیں سکین کر کے بھی لائبریری پروجیکٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
[ آخر میں سکین اور ٹائپنگ کا ایک موازنہ۔
سکین کرنا بے شک بوریت والا کام ہے، مگر ٹائپ کرنا اُس سے کم از کم دس گنا زیادہ بوریت کا کام ہے۔
ایک تین سو صفحات کی کتاب کو تین سے پانچ گھنٹے میں سکین کیا جا سکتا ہے، لیکن اسی کتاب کو ٹائپ کرنے کے لیے کم از کم دو ہفتے مسلسل کام کرنا پڑے گا۔
۔ سکین کرنے کا کام کوئی بھی Layperson کر سکتا ہے، جو کہ بہت بڑی تعداد میں ہمیں مل سکتے ہیں۔ مثلا ہم اپنی چھوٹے بہن بھائیوں سے ہی مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند بنیادی کام مزید ہمارے سامنے یہ ہیں:
1۔ کسی سوفٹ ویئر کی مدد سے تمام اردو کتابوں کی لسٹ بنانا (جو انہیں موضوعات، ٹائیٹل اور مصنف کے ناموں کے حساب سے زمرہ بندی کر کے ظاہر کر سکتا ہو)۔
2۔ اسی سوفٹ ویئر کی مدد سے برق شدہ کتب کو زمرے کے حساب سے فرنٹ اینڈ پر قارئین کے سامنے پیش کرنا۔
3۔ اسی سوفٹ ویئر کی مدد سے اُن کتابوں کی لسٹ پیش کرنا جو کہ سکین شدہ حالت میں نیٹ پر اپلوڈ کی جا چکی ہیں۔ (ساتھ میں ان سکین شدہ کتب کا لنک وغیرہ بھی ہونا چاہیے)۔
۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
مجھے یقین ہے کہ آصف اردو لغت کی طرز پر لائیبریری کے لیے بھی ایسا ڈیٹا بیس سوفٹ ویئر تیار کر سکتے ہیں۔
1۔ کلامِ غالب
2۔ زاویہ
زاویہ بہت بڑی کتاب ہے اور اگر ہم میں سے کسی کو بھی اکیلے ٹائپ کرنا پڑتا تو مشکل پڑ جاتی۔ مثلاً
1۔ اگر ایک ہی ممبر پوری کتاب پر کام کر رہا ہے تو وہ بور ہو کر کام بند کر سکتا ہے۔
مگر ٹیم کی صورت میں جب اعجاز اختر صاحب پوچھ گچھ فرماتے رہے، تو ممبرز بھی ایکٹو رہے۔ اسی طرح شمشاد، زاویہ کو مکمل کروانے کا سہرا آپ کے سر ہے (ورنہ آپ کی ٹیم کا ایک ممبر تو کتاب کی ضخامت کی وجہ سے دل چھوڑ بیٹھا تھا\تھی )
2۔ انسانی فطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اُسے چھوٹے چھوٹے کئی پراجیکٹ مکمل کرنے میں مشکل پیش نہیں آتی، مگر اگر ایک بڑا پروجیکٹ دے دو تو وہ پریشان ہو جاتا ہے (اگرچہ کہ اُن چھوٹے پروجیکٹز کا کام اُس ایک بڑے پروجکیٹ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو)۔
یعنی، ہر چھوٹے پروجیکٹ کا کامیابی کے ساتھ مکمل ہونا اُس کے شوق کو برقرار رکھتا ہے اور نئے کام کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔
3۔ میری ناقص رائے میں، کتاب کو ڈیجیٹائز کرنے میں نہ صرف ٹائپنگ ٹیم کی صورت میں کی جائے، بلکہ پروف ریڈنگ تک کے لیے ٹیم کی صورت میں کام ہو۔
پروجیکٹ گٹنبرگ کی کامیابی کا راز بھی شاید یہ ہے کہ وہ پروف ریڈنگ کے لیے کتاب ایک ممبر کو نہیں پکڑاتے، بلکہ ہر ممبر دس سے پندرہ صفحے پروف ریڈ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بہت سے ممبرز ایک ہی کتاب پر کام کریں۔
اس کا واحد حل یہ ہے کہ کتاب کو پہلے سکین کیا جائے۔
دیکھئیے، مجھے علم ہے کہ کتاب کو سکین کرنا بذاتِ خود بہت بور کام ہے اور پاکستان میں سکینرز بھی چھوٹے ہیں اور آہستہ سپیڈ پر کام کرتے ہیں۔
یہ سب دشواریاں ایک طرف، لیکن دوسری طرف یہ چیزیں ذہن میں رہیں کہ:
۔ کتاب کو دیکھ کر ٹائپ کرنا کافی دشوار کام ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ کے پاس کتاب تصویری صورت میں موجود ہے، تو ٹائپ کرنے کی ٹیکنیک یہ ہے کہ اوپر کی آدھی سکرین پر تصویری صفحہ ہو، جبکہ نیچے کی آدھی سکرین، یا اس سے بھی کم میں ٹیکسٹ ایڈیٹر ہو۔
(پروجیکٹ گٹنبرگ میں انہوں نے یہی ٹیکنیک استعمال کی ہوئی ہے)۔
مجھے بھی جب کوئی چیز ٹائپ کرنی ہوتی ہے، تو میں یونہی کرتی ہوں۔ اور سو فیصدی یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اس طرح نہ صرف ٹائپ کرنے کی سپیڈ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے، بلکہ ٹائپو کی غلطیاں بھی خود بخود بہت کم ہو جاتی ہیں۔
2۔ کتابوں کو سکین کرنے کی دوسری اہم وجہ پروف ریڈینگ ہے۔ (میں پہلے ہی ایک دوسرے تھریڈ میں پروجیکٹ گٹنبرگ کے حوالے سے روشنی ڈال چکی ہوں۔)
بہت دفعہ ایسا ہوتا کہ ٹائپ کرتے ہوئے بہت سی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں، جنہیں اصل کتاب سے دیکھے بغیر ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
اس لیے پروف ریڈر کے پاس اوریجنل کتاب، یا اُس کا ڈیجیٹل امیج ہونا بہت ضروری ہے۔
کتاب اگر سکین صورت میں ہوگی تو اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ممبرز مل کر ایک کتاب کی پروف ریڈنگ ایک دن کے اندر ہی مکمل کر دیا کریں گے۔
مثال کے طور پر فردوسِ بریں آج بھی پروف ریڈنگ کی محتاج ہے۔ لیکن اگر اسی کتاب کے ہر باب کو ایک ایک ممبر پر بانٹ دیا جاتا، تو وہ ایک گھنٹے کے اندر اندر پروف ریڈنگ مکمل کر کے کتاب فائنل صورت میں یہاں پیش کر سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ایک سوال یہ بھی ہے کہ سکین کتابوں کو کہاں Host کیا جائے۔
اس کا جواب تو زکریا ہی بہتر دے سکتے ہیں۔
ویسے جگہ اور بینڈ وڈتھ کی پرابلم ہو رہی ہو تو منصور رانا صاحب اور اردو سینٹر کی چوپال وغیرہ بھی شاید ہماری مدد کر سکیں۔
(امید مجھے یہی ہے کہ یہ پرابلم نہیں ہو گی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کتاب کو ممبرز کے درمیان کیسے بانٹا جائے؟
اس کے لیے لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اردو وکی کے آ جانے کے بعد یہ کام کافی آسان ہو جائے گا۔
میرے ذہن میں اس کے متعلق ابھی کوئی خاص تجویز نہیں ہے۔ آپ لوگوں کے ذہن میں کوئی بہتر تجویز ہو تو آپ دے سکتے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسا سیٹ اپ ممکن ہے کہ کتاب کا سکین شدہ صفحے آدھی اوپر والی سکرین پر نمودار ہو، اور باقی آدھے صفحے پر (یا اس سے کم پر ٹیکسٹ ایڈیٹر نمودار ہو)۔
یہ ممکن تو ہونا چاہیئے۔ مگر ٹیکنیکی اعتبار سے اس کا جواب زکریا یا شارق یا نبیل ہی دے سکیں گے۔
ایک دیسی طریقہ یہ ہےکہ:
1۔ ویب براؤزر، جس میں کتاب کے صفحے کا امیج کھلا ہوا ہو، اُس ونڈو کی اونچائی کو آدھا کر کے سکرین کے اوپر رکھ دیا جائے
۔ اور دوسرا پروگرام (مثلا اردو ایڈیٹر، یا بیبل پیڈ، یا اردو ویب پیڈ وغیرہ) اس کی ونڈو کی اونچائی کو بھی آدھا کر کے سکرین کے نیچے حصے میں رکھ دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ سکین شدہ کتابوں کا حصول کیسے ممکن ہے۔
۔ شاکر کی اس پوسٹ سے مجھے بہت تقویت ملی ہے کہ اُن کی رسائی ایک لائیبریری تک ہے جہاں تیس ہزار کے قریب اردو کتابیں موجود ہیں۔
میرے خیال میں، اردو لائیبریری پروجیکٹ کے ممبرز وہی نہ ہوں جو کہ ٹائپ کر سکتے ہوں، بلکہ لوگوں کو دعوت دی جائے کہ وہ کتابیں سکین کر کے بھی لائبریری پروجیکٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔
[ آخر میں سکین اور ٹائپنگ کا ایک موازنہ۔
سکین کرنا بے شک بوریت والا کام ہے، مگر ٹائپ کرنا اُس سے کم از کم دس گنا زیادہ بوریت کا کام ہے۔
ایک تین سو صفحات کی کتاب کو تین سے پانچ گھنٹے میں سکین کیا جا سکتا ہے، لیکن اسی کتاب کو ٹائپ کرنے کے لیے کم از کم دو ہفتے مسلسل کام کرنا پڑے گا۔
۔ سکین کرنے کا کام کوئی بھی Layperson کر سکتا ہے، جو کہ بہت بڑی تعداد میں ہمیں مل سکتے ہیں۔ مثلا ہم اپنی چھوٹے بہن بھائیوں سے ہی مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند بنیادی کام مزید ہمارے سامنے یہ ہیں:
1۔ کسی سوفٹ ویئر کی مدد سے تمام اردو کتابوں کی لسٹ بنانا (جو انہیں موضوعات، ٹائیٹل اور مصنف کے ناموں کے حساب سے زمرہ بندی کر کے ظاہر کر سکتا ہو)۔
2۔ اسی سوفٹ ویئر کی مدد سے برق شدہ کتب کو زمرے کے حساب سے فرنٹ اینڈ پر قارئین کے سامنے پیش کرنا۔
3۔ اسی سوفٹ ویئر کی مدد سے اُن کتابوں کی لسٹ پیش کرنا جو کہ سکین شدہ حالت میں نیٹ پر اپلوڈ کی جا چکی ہیں۔ (ساتھ میں ان سکین شدہ کتب کا لنک وغیرہ بھی ہونا چاہیے)۔
۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
مجھے یقین ہے کہ آصف اردو لغت کی طرز پر لائیبریری کے لیے بھی ایسا ڈیٹا بیس سوفٹ ویئر تیار کر سکتے ہیں۔