ٹیپو سلطان

نیلم

محفلین
ٹیپو سلطان تاریخ اسلام کا وہ لازوال کردار ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا ۔ مسلم مورخ سچ لکھتا ہے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ہے۔ تاریخ عالم شاید ہی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی۔ ٹیپو سلطان شہید نا صرف ایک مردِ مجاہد تھا بلکہ حقیقی معنیٰ میں حضرت اقبال کا وہ مردِ مومن تھا جو عالِم بھی تھا اور عابد بھی۔ ایک جری سپاہی اور بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی۔ ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما بھی تھا اور عوام دوست قائد بھی۔ سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور مسلمانانِ ہند تقسیم ہو رہے تھے۔ ٹیپو سلمان نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے شیطان جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے گا تو پھر مغربی طاقتوں کا ہندوستان پر قبضہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہو کر اعلان کردیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ہلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ہے۔ اور پھر مئی 1799 ء 29 ذی قعدہ 1213 ہجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے اپنے طاﺅس نامی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا ۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار چند مقامات پر گر چکی تھی ۔ سلطان نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ جا کر غسل کیا۔ یاد رہے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگا تھا ۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتا رہا۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترا ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھاکہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ ٹیپوسلطان نے سپاہیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے تو معلوم ہوا کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہو گیا ہے اور انگریزی فوج سلطنت کے غداروں کی مدد سے بلا روک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوا چند جانثاروں کو ساتھ لیا اورقلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھا۔ ٹیپو سلطان کے باہر نکلتے ہی غدار ِ ملت میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آسکیں۔ اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ءامت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر ٹیپو شہید کہلایا، مگر اس غداری کی سزا میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی۔ اس کی تفصیل تاریخ دان صاحب حملات حیدری نے جن الفاظ میں بیان کی ہے وہ ہو بہو پیش کر رہا ہوں ۔”میرصادق نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آکر دربانوں کو کہاکہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کرلینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک سپاہی ملازم سلطانی آ کر اسے لعن طعن کرنے لگا کہ اے روسیاہ ،راندہ درگاہ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ تو سلطان دین پرور محسن عالی گوہر , ٹیپو کو دشمنوں کے جال میں پھنسانے کے بعد اپنی جان کیسے بچا لئے جاتا ہے کھڑا رہ ،روسیاہی کے کاجل سے اپنا منہ تو کالا کر لے ۔یہ کہتا ہوا کمال طیش سے ایک ہی وار میں اس کو آب تیغ سے شربت اجل پلا گھوڑے کی زین سے زمین پر مار گرایا۔ اس بدبخت میر صادق کی لاش چاردن تک گلنے سڑنے کے بعد قلعے کے دروازے پر بغیر کفن کے دفن کر دی گئی۔ آج بھی لوگ آتے جاتے قصداً اس ننگ آد م ، ننگ دین، ننگ وطن مردود کی قبر پر تھوکتے ،پیشاب کرتے اور ڈھیر کے ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں ’’ افسوس صد افسوس کہ آج کے ننگ وطن، ننگِ آدم ، ننگ ِ دین غداروں نے ابھی تک میر صادق کے عبرت ناک انجام سے نہ کوئی سبق سیکھا ہے نہ ہی سیکھیں گے۔ (فاروق درویش) —
 
ٹیپو سلطان کی وصیّت
تُو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول​
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول​
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز​
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول۔۔۔​
کھویا نہ جا صنم کدہِ کائنات میں۔۔۔​
محفل گداز! گرمیءِ محفل نہ کر قبول​
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے​
شرکت میانہِ حق و باطل نہ کر قبول۔۔​
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے​
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول​
 

نیلم

محفلین
DF36A83A.jpg
 

محب اردو

محفلین
ٹیپو سلطان کا آخری سفر
غلام نبی بٹ
ڈیوک آف ولنگٹن کی سپاہ ایک خونریز معرکہ میں سرنگا پٹنم فتح کرچکی تھیں مگر ڈیوک آف ولنگٹن کو ابھی تک اپنی فتح کا یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹنم کے میدان میں جمع ہونے والے محب وطن شہیدوں کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے، رات کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا آسمان نے بھی ٹیپو سلطان کی شکست پر جو اسکے اپنے بے ضمیر درباریوں‘ اور لالچی وزیروں کی وجہ سے ہوئی اپنا چہرہ شب کی تاریکی میں چھپا لیا تھا‘ اتنے میں چند سپاہی ولنگٹن کے خیمے میں آئے‘ انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ انہوں نے اسے ٹیپو سلطان کی شہادت اور اسکی نعش برآمد ہونے کی اطلاع دی۔ یہ نعش سلطان کے وفاداروں کے ڈھیر کے نیچے دبی ملی۔ جنرل ولنگٹن خوشی سے حواس باختہ ہوکر سلطان کی نعش کے پاس پہنچا تو وہ نعش وفاداروں کے جمگھٹ میں ایسی پڑی تھی جیسے بُجھی ہوئی شمع اپنے گرد جل کر مرنے والے پروانوںکے ہجوم میں ہو‘ جنرل نے سلطان کے ہاتھ میں دبی اسکی تلوار سے اسے پہچان کر اسکی شناخت کی۔ یہ تلوار آخر وقت تک سلطان ٹیپو کے فولادی پنجے سے چھڑائی نہ جا سکی۔ اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی“ اور اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔ اس وقت غلام علی لنگڑا، میر صادق اور دیوان پورنیا جیسے غدارانِ وطن خوف اور دہشت دل میں چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھا رہے تھے، اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی‘ جوں ہی قبر مکمل ہوئی لحد بن گئی تو آسمان پھٹ پڑا اور سلطان میسور کی شہادت کے غم میں برسات کی شکل میں آنسوﺅں کا سمندر بہہ پڑا۔ قبر پر شامیانہ تانا گیا محل سے لیکر قبر تک جنرل ولنگٹن کے حکم پر سلطان میسور کا جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا۔ فوجیوں کے دو رویہ قطار نے کھڑے ہوکر ہندوستان کے آخری عظیم محبِ وطن بہادر جنرل اور سپوت کے جنازے کو سلامی دی۔ میسور کے گلی کوچوں سے نالہ و آہ شیون بلند ہو رہا تھا، ہر مذہب کے ماننے والے لاکھوں شہری اپنے عظیم مہربان سلطان کیلئے ماتم کر رہے تھے اور آسمان بھی انکے غم میں رو رہا تھا۔ جنرل ولنگٹن کے سپاہ نے آخری سلامی کے را¶نڈ فائر کئے اور میسور کی سرزمین نے اپنے ایک عظیم سعادت مند اور محب وطن فرزند کو اپنی آغوش میں ایک مادر مہربان کی طرح سمیٹ لیا۔ اس موقع پر سلطان کے معصوم چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی۔ آج بھی ہندوستان کے ہزاروں باسی روزانہ اس عظیم مجاہد کی قبر پر بلا کسی مذہب و ملت کی تفریق کے حاضر ہو کر سلامی دیتے ہیں۔
حوالہ
 

محب اردو

محفلین
جو لڑا تھا سپاہیوں کی طرح ہندوستان میں ایسا بادشاہ نہ ہوا
روح تو ہوگئی تن سے جدا مگر ہاتھ تلوار سے جدا نہ ہوا ۔
 

محب اردو

محفلین
ٹیپو سلطان’’میزائل ٹیکنالوجی کا بانی‘‘
اہم جنگی ہتھیار جسے آج کل ہم ’’میزائل ‘‘ کہتے ہیں ٹیپو سلطان کی فوج کا اہم ہتھیار تھے ۔ یہ اس وقت جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار تھے اور اس کی نقشہ گری سے لے کر تیاری تک کا سہرا خود ٹیپو سلطان کے سر جاتا ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ٹیپو سلطان ایک ماہر جنگی ڈیزائنر بھی تھے اور سمندری جہازوں کے نقشے اور ماڈ ل خود تیار کرتے تھے ۔
میزائل سازی کی ابتدا ء تاتاری جنگجو خان اعظم چنگیز خان کے دور سے کر چکے تھے مگر یہ میزائل زیادہ مہلک صلاحیت نہ رکھتے تھے اسے دشمنوں پر آتش بازی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا پھر تاتار نسل کے مسلم جنگجو امیر تیمور نے بارود کے ساتھ ملا کر استعمال کیا اور اس کی ہلاکت خیزی میں مزید اضافہ کیا ۔ مگر میزائل کی موجودہ شکل و صورت اس کی ساخت اور استعمال کی جو تکنیک اس کے ابتدائی تصور اور اور اس کی تیاری کی سہرا شیرِ میسور ٹیپو سلطان کے سر جاتا ہے ۔ جس نے نہایت مہارت سے اسکو جنگی ہتھیار کی شکل و صورت دے اسے اس دور کے مطابق جدید خطوط پر ڈھالا اور دشمن کے خلاف موثر ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کیا ۔ اس سے ہم شیر میسور کی اعلیٰ ذہنی و حربی صلاحیتوں کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔
ریاست میسور میں میزائل سازی کی صنعت نے اسے اردگرد کی ریاستوں سے ممتاز کر دیا تھا میزائل سازی کی صنعت میں ٹیپو سلطان کو خاص طور پر اپنے فرانسیسی جنگی ماہرین کی معاونت بھی حاصل رہی ہو گی اسی وجہ سے اس دور میں ٹیپو سلطان کی حربی صلاحیت برصغیر کے دیگر سہل پسند اور پالکی میں بیٹھ کر جنگ پر جانے والے نوابوں اور مہاراجوں سے کئی گنا زیادہ بہتر تھی ۔ ریاست میسور کے چار شہروں میں ’’تارا منڈل‘‘ کے نام سے اسلحہ سازی کے کارخانے قائم تھے ج میں میزائل ، توپیں اور اعلیٰ قسم کی بندوقیں تیار کی جاتی تھیں ۔ علاوہ ازیں بحری جہازوں کی صنعت سازی میں میسور کو بلند مقام حاصل تھا ۔ کیونکہ ٹیپو سلطان خود ان کے نقشے بنانے کا ماہر تھا اور بحری جہازوں کو سمندر میں مقناطیسی چٹانوں سے بچانے کے لیے لوہے کی بجائے تانبے کے استعمال کا سہرا بھی شیر میسور کے سر جاتا ہے۔
سلطان ٹیپو کے تیار کردہ میزائل سیدھی تلوار کی طرح فولادی نوکدار ہوائی کی بناوٹ کے تھے جن کے اندرونی حصے میں بارود بھرا جاتا ۔ میزائل کی دُم میں فیتہ لگا ہوتا جسے بوقت ضرورت آگ لگائی جاتی تو یہ تیزی سے اپنے ہدف کی طرف پرواز کرتا ۔ یہ میزائل 2کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ عہد ماضی میں انہیں ’’اُڑتی تلواریں‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔ جب یہ اڑتی تلواریں درجنوں کی تعداد میں دشمنوں پر برستیں تو بڑی تباہی مچ جاتی ۔ اس لیے ’’کشون ‘‘ کے نام سے علیحدہ بریگیڈ قائم تھا جس میں 15سو سے 2ہزار تک تربیت یافتہ فوجی مامور تھے ۔
حوالہ
 

ام اویس

محفلین
یاد رہے کہ ٹیپوسلطان نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف کئی جنگیں جیتی تھیں، وہ 1799 میں چوتھی برطانیہ ، میسور جنگ میں شہید ہوئے تھے، انہیں مقامی سطح پرراکٹ کی تیاری کا اعزاز حاصل ہے جس پر برطانوی ماہرین نے ریسرچ کے بعد ایک رپورٹ بھی تیار کی تھی جو اس وڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے۔

 
Top