ٹیڈ-ایکس ایچ یو پی ایونٹ: اوریا مقبول جان کی اردو زبان،علمی ترقی،ثقافت اور طرزِ حکومت پر گفتگو

عمران ارشد

محفلین
اگر آپ یوٹیوب پر ہوتے ہیں اور سنجیدہ و دلچسپ مواد دیکھتے ہیں تو آپ ٹی ای ڈی ( ٹیڈ ) سے ضرور واقف ہوں گے ۔ اگرنہیں ہیں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ ٹیڈ ایک ایسا فورم جس کے تحت "پھیلائے جانے کےقابل خیالات (ideas worth spreading) کو پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی ای ڈی ایونٹ سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے جس میں مشہور و معروف، اپنے شعبے کے ماہر اور منفرد شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔​
ٹی ای ڈی-ایکس ایسے ایونٹ ہوتے ہیں ٹیڈ کے مرکزی خیال کے تحت آزادانہ طور پہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے چار مختلف ایونٹس منعقد ہو چکے ہیں جن میں عمران خان، اسد عمر،عارف حسن،مسرت مصباح،جاوید چودھری،محمد مالک اور اوریا مقبول جان اور دیگر کئی معروف شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔​
اوریا مقبول جان کی یہ ویڈیو ٹیڈ-ایکس ایچ یو پی ایونٹ کی ہے جو ہجویری یونیورسٹی، لاہور میں منعقد ہوا۔​
اوریا مقبول جان معروف کالم نگار، ڈرامہ نگار، شاعر اور بیوروکریٹ ہیں۔اپنی اس گفتگو میں اوریا مقبول جان ہماری اردو سے بےاعتنائی،علمی و ذہنی پستی، انگریز اور انگریزی کی غلامی پر اظہارِ خیال کرتے ہیں​
آپ بھی سنیئے۔ اور اپنے خیالات کا اظہار کیجئے۔​
 

دوست

محفلین
ایران، فرانس وغیرہ کبھی بھی کثیر السان نہیں رہے۔ ہم ہیں۔
کوئی بھی زبان سیکھنے کا مطلب اس کا کلچر اپنانا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں انگریزی پچھلے 200 برس سے ہے، کم و بیش اردو جتنی عمر ہے اس کی۔ وہ عمر جب سے اردو کو 'اردو' کہنا شروع ہوئے لوگ۔ یہاں کی انگریزی یہاں کی زبان اور کلچر کی آئینہ دار ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ انگریز کلچر آ جاتا ہے یہ غلط بات ہے۔ کوئی بھی بات سو فیصد درست نہیں ہوتی اور یہ بھی نہیں ہے۔
رہی بات تعلیمی اور تخلیقی صلاحیتوں کی، تو اس کے لیے تعلیمی نظام درست کرنا پڑے گا۔ یہاں یہ پتا نہیں کیوں لوگ بھول جاتے ہیں کہ اردو مادری زبان نہیں مادری زبان پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، ہندکو، سرائیکی ہے۔ اگر تعلیم دینی ہے تو ان زبانوں میں دی جائے پھر۔ ایران، فرانس، چین، جاپان کی مثالیں ایسے دی جاتی ہیں جیسے وہ اور اہم ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ وہ یک لسانی ہم کثیر السان ہمارا ان کا تقابل ہی کوئی نہیں۔
زبان کا نفاذ ایک سیاسی معاملہ ہوتا ہے۔ایران، فرانس، چین، جاپان کے پاس اردو بنگالی جھگڑا نہیں تھا، ان کے پاس ہر صوبے کی مادری زبان الگ نہیں تھی۔ اس لیے وہ اپنی زبان کو پروموٹ کر سکے۔ یا ان کی حکومتیں اتنی سخت تھیں، چینی حکومت سختی سے چینی زبان کے منڈیرین لہجے کو پروموٹ کرتی ہے۔ فرانس میں کچھ علاقائی زبانیں موجود تھیں، لیکن فرانسیسی اتنی پرانی اور اتنی اسٹیبلشڈ زبان تھی کہ قومی سطح پر کئی صدیوں سے غالب تھی۔ اردو تو انگریزی کے ساتھ اپنا سفر شروع کر رہی ہے دو سو سال قبل۔ اس سے پہلے فارسی آفیشل زبان تھی، پھر انگریزی ہو گئی۔ حیدر آباد دکن جیسی محدود کوششیں اردو کو آفیشل زبان کا درجہ دلوانے کے لیے ابتدائی اقدامات تھیں، لیکن ان کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ نتیجتاً اردو صرف روزمرہ، شعر و ادب آرٹس وغیرہ کی زبان رہ گئی۔ یا ان نچلے درجے کے شعبوں میں رہی جہاں یہ 1860 کے اردو ہندی جھگڑے سے استعمال ہو رہی تھی۔ کچہری، پٹواری، تھانہ پرچہ کاٹنا وغیرہ۔ بقیہ کام فارسی کی جگہ انگریزی لکھت پڑھت نے کرنا شروع کر دیا۔ اردو کو کبھی آفیشل زبان کا درجہ دلوانے کے لیے پالیسی سازی ہی نہیں کی گئی۔
اردو کے خیر خواہوں کے پاس بار بار استعمال شدہ دلائل ہوتے ہیں جنہیں وہ ایک ہی سانس میں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو یہ نظر نہیں آتا کہ اردو علاقائی زبانوں کے دم گھٹتے وجودوں پر کھڑی ہے۔ بس انگریزی نظر آتی ہے انہیں۔ حالانکہ ان کی معیشت آدھے سے زیادہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کی محتاج ہے۔ اور وہاں اکثر و بیشتر (اگرچہ ہمیشہ نہیں) انگریز ی سے پالا پڑتا ہے۔
جذباتیت بے شمار، پالیسی سازی نِل۔ اگر لسانی پالیسی بنا لی جائے تو یہ ساری جذباتیت جھاگ کی طرح بیٹھ جائے۔ پر یہ کام کیا ہی کیوں جائے۔
 

بلال

محفلین
دوست بھائی یا تو روزے کا اثر ہے یا کچھ اور ہے کیونکہ میں تین دفعہ آپ کی باتیں پڑھ چکا ہوں مگر سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نتیجہ کیا نکالنا چاہ رہے ہو۔ بھائی ہو سکے تو آسان الفاظ میں دو ٹوک نتیجہ سمجھائیے۔
آپ نے کہا
اردو مادری زبان نہیں مادری زبان پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، ہندکو، سرائیکی ہے۔ اگر تعلیم دینی ہے تو ان زبانوں میں دی جائے پھر
فرض کریں کہ پاکستانی مادری زبان میں تعلیم نہیں دینا چاہتے، یا کوئی بھی دوسری وجہ ہے تو پھر اردو میں تعلیم مناسب رہے گی یا انگریزی میں؟
ایران، فرانس، چین، جاپان کی مثالیں ایسے دی جاتی ہیں جیسے وہ اور اہم ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ وہ یک لسانی ہم کثیر السان ہمارا ان کا تقابل ہی کوئی نہیں۔
اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ اعدادوشمار کچھ اور ہی کہتے ہیں یا پھر مجھے کثیر السان کی تعریف ہی نہیں آتی۔
کسی کو یہ نظر نہیں آتا کہ اردو علاقائی زبانوں کے دم گھٹتے وجودوں پر کھڑی ہے۔ بس انگریزی نظر آتی ہے انہیں۔
بات ٹھیک ہے تو پھر کیا علاقائی زبانوں کا گلا دبا کر انگریزی کو کھڑا کیا جائے یا پھر اردو کو رہنے دیا جائے؟ یا پھر انگریزی و اردو کا گلا دبا کر علاقائی زبانوں کو کھڑا کیا جائے؟

بھائی اک پاکستان (نظریہ) کے نام پر چلے تھے تو لوگ زمین کے ٹکڑوں کو نظریے بناتے ہوئے سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی وغیرہ بن گئے۔ پھر ایک زبان کے نام پر چلے تو وہیں پر یہی حال ہو رہا ہے۔ بھائی دکھ تو انہیں بھی بہت ہوا تھا جنہوں نے اس سرزمین کو پاک و ہند میں تقسیم ہوتے دیکھا تھا مگر کچھ پانے کے لئے کچھ کھونے والے فارمولے پر چلے اور قربانیاں دیں۔ کم از کم مجھے تو بہت دکھ ہوتا ہے، جب پنجابی ہی اپنے بچوں کو پنجابی نہیں سیکھاتے مگر بھائی اگر پورا موجودہ ملک ایک زبان کے گرد جمع ہو جائے تو پھر قومی یکجہتی کے نام پر قربانی تو دینی پڑے گی۔ باقی بھائی جان یہ میری رائے ہے جوکہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ شاید آپ کو یاد ہو تو میں نے اس موضوع پر اپنی سوچ لکھی تھی اور اپنی سوچ کے مطابق حل بھی لکھیں تھے کہ کیا کرنا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ حل ٹھیک نہ ہوں، مگر آپ تو لسانیات کے طالب علم ہیں، لہٰذا آپ جذباتی باتیں کرنے کی بجائے کوئی حل پیش کرو کہ یہ ہوا تھا، ایسا ہو گا لہٰذا ہمارے لئے یہ فائدہ مند ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کوئی ایک حل بتاؤ تاکہ اس طرف چلا جائے۔ دو کشتیوں کی سواری پہلے تو ٹانگیں چیرے گی پھر پانی میں غرق کرے گی، لہٰذا بہتر ہے کہ دلائل کے ساتھ مسئلے کا حل بتاؤ نہیں تو پھر بلال جیسے جو بہتر سمجھیں گے وہ کرتے رہیں گے کیونکہ میں آج تک پاکستان کے جس بھی علاقے میں گیا ہوں، مختلف جگہوں پر مختلف زبانیں ساتھ چھوڑ جاتی تھیں، نہیں ساتھ چھوڑتی تو اک ”اردو“۔
 

عثمان

محفلین
اوریا مقبول جان نے حسب دستور اور حسب توقع اسے اردو کی ترویج و ترقی کی بجائے "اسلام اور مغرب" کا رنگ دینے کی کوشش ہے۔ ارتقاء لسان ایک حقیقت ہے۔ انسانی آبادیاں بھی اس وقت سے ہجرت کر رہی ہیں جب سے انسان زمین پر آباد ہے۔
موصوف ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "کوئی چین چھوڑ کر نہیں گیا۔" بندہ پوچھے کہ یہ جو دنیا بھر میں "چائنا ٹاؤن" نظر آتے ہیں یہ کہاں سے آئے ؟
لوگوں کو ایک اور مغالطہ یہ ہے کہ برین ڈین قوم کے لئے نقصان دہ ہے۔ بالکل غلط! یقین نہ آئے تو چین اور بھارت کی ترقی اور عالمی سطح پر ان کا اثر نفوذ ملاحضہ کیجیے جس میں ایک بالواسطہ کردار تارکین وطن کا بھی ہے۔

انگریزی ایک ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک اہم حصہ رکھتی ہے۔ اسے مغرب مغرب کے نعروں سے آپ اپنے معاشرے سے نکال باہر نہیں کرسکتے۔

بلال بھائی ، پاکستانی کثیر السان اس طرح ہیں کہ پاکستانی آبادی میں کم از کم چھ سات زبانیں بطور مادری زبان کے مقبول ہیں۔ اور یہ مقامی آبادیوں کی زبانیں ہیں۔
جبکہ فرانس میں فرینچ کے علاوہ دوسری زبانیں ماضی قریب میں ہجرت کرنے والے تارکین وطن کی ہیں۔ جو فرینچ معاشرے میں باآسانی فرانسیسی زبان اپنا لیتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
فرانس اور اکثر یورپی ممالک تاریخی طور پر یک لسان رہے ہیں۔ وہاں کثیر السان آبادیاں مہاجروں کی وجہ سے ہوئیں، یا پھر کچھ علاقوں میں صدیوں سے علاقائی زبانیں چلتی آ رہی ہیں۔ فرانس کے ایک علاقے میں باسک، برطانیہ میں آئرش، ویلش وغیرہ۔ لیکن وہاں مجموعی تاثر ہمیشہ یک لسانیت کے حق میں رہا اور دوسری زبانوں کو دبا کر ایک زبان کو پروموٹ کیا جاتا رہا۔ یعنی معیاری زبان۔ آج کے یورپ کی بھی بات کر لیں تو وہاں معیاری زبان پر ہی توجہ دی جاتی ہے، تارک وطن آبادیاں اسکول میں مادری زبان بہت تھوڑے عرصے کےلیے سیکھتی ہیں۔ خیر بات تاریخی تناظر میں کہی گئی تھی۔ جاپان کے سلسلے میں اگر کوئی دوسری زبان بولی جاتی ہو تو فرمائیے گا۔ چین میں کچھ علاقائی زبانیں موجود ہیں تاہم عرض کر چکا ہوں کہ سخت حکومتیں بھی ہیں، جیسا کہ چین کی جو منڈیرین کو ہی فروغ دیتی ہے، کینٹونیز بھی نہیں جو چینی کا ہی ہانگ کانگ و اطراف کا لہجہ ہے۔
میں نے بالکل جذباتی ہو کر بات نہیں کی۔ آج کے بچے کو ضیائی تالیف کہہ کر اس کی تعریف پوچھیں وہ جواب میں یہ پوچھے گا کہ یہ ہوتا کیا ہے؟ فوٹو سنتھی سز اس کو سمجھ میں آ جائے گا۔ جب ایک زبان کے ذریعے دوسری زبان (ترجمے) میں منتقل کر کے تعلیم دی جائے تو پھر سب کچھ مشکل ہی لگے گا۔ یہ مشکل ہمیں لگتا ہے جنہوں نے کسی اور طرح سے سائنس پڑھی تھی۔ جو بچے آج پڑھ رہے ہیں انگریزی کے لیبل کے ساتھ (اصطلاحات انگریزی) ان کے لیے یہ ویسا نہیں جو ہمیں لگتا ہے۔ جب لیبل اور چیز کے مابین براہ راست تعلق ہوتا ہے تو کوئی بھی زبان ہو فرق نہیں پڑتا۔ اعلی درجے کا جتنا بھی علم ہے وہ ہمارے روزمرہ کی زبان یا اصطلاحات نہیں ہوتا۔ جس مشکل کی بات کی جاتی ہے وہ ہے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا۔ جو ہمارے بچوں کو نہیں آتا انگریزی میں، اور اس کا قصور وار بھی سراسر تعلیمی نظام ہے جہاں رٹا لگوایا جاتا ہے۔ ورنہ لکھنے کی صلاحیتیں بڑھانے پر توجہ دی جائے تو ایسا بھی نہ ہو۔
میں نے لسانی پالیسی سازی کی بات کی تھی۔ میرا خیال ہے وہیں بات کلیئر ہو گئی تھی۔ میں کسی زبان کو مارنے جِلانے کی بات نہیں کر رہا۔ پالیسی سازی کریں، ہر زبان کو اس کا حق ملے۔ اردو قومی سطح پر، مقامی زبانیں صوبائی سطح پر۔ اور انگریزی عالمی سطح کے لیے وقف رکھی جائے۔
 

دوست

محفلین
اور آخری بات، پنجابی اردو کے سب سے بڑے مامے ہیں۔ سارے پنجاب اردو قبول کر رہا ہے اور پھر بھی انہیں اردو مرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ عجیب طُرفہ تماشا ہے۔ جب بھی "اپنی" زبان کی بات کریں گے تو اردو کی بات کریں گے۔
 
میں بھی اسے ایک ہفتہ قبل شئیر کرنے لگا تھا لیکن مجھے معلوم تھا یہاں پر ایک ہنگامہ برپا ہو جائے گا اردو کے نام پر۔اور انگریزی پر طرح کی تاویلیں آئیں گی نتیجہ یہی نکلا:)
اگر آپ یوٹیوب پر ہوتے ہیں اور سنجیدہ و دلچسپ مواد دیکھتے ہیں تو آپ ٹی ای ڈی ( ٹیڈ ) سے ضرور واقف ہوں گے ۔ اگرنہیں ہیں تو آپ کو بتاتا چلوں کہ ٹیڈ ایک ایسا فورم جس کے تحت "پھیلائے جانے کےقابل خیالات (ideas worth spreading) کو پیش کیا جاتا ہے۔ ٹی ای ڈی ایونٹ سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے جس میں مشہور و معروف، اپنے شعبے کے ماہر اور منفرد شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔​
ٹی ای ڈی-ایکس ایسے ایونٹ ہوتے ہیں ٹیڈ کے مرکزی خیال کے تحت آزادانہ طور پہ منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے چار مختلف ایونٹس منعقد ہو چکے ہیں جن میں عمران خان، اسد عمر،عارف حسن،مسرت مصباح،جاوید چودھری،محمد مالک اور اوریا مقبول جان اور دیگر کئی معروف شخصیات اپنے خیالات کا اظہار کر چکی ہیں۔​
اوریا مقبول جان کی یہ ویڈیو ٹیڈ-ایکس ایچ یو پی ایونٹ کی ہے جو ہجویری یونیورسٹی، لاہور میں منعقد ہوا۔​
اوریا مقبول جان معروف کالم نگار، ڈرامہ نگار، شاعر اور بیوروکریٹ ہیں۔اپنی اس گفتگو میں اوریا مقبول جان ہماری اردو سے بےاعتنائی،علمی و ذہنی پستی، انگریز اور انگریزی کی غلامی پر اظہارِ خیال کرتے ہیں​
آپ بھی سنیئے۔ اور اپنے خیالات کا اظہار کیجئے۔​
 

عمران ارشد

محفلین
کوئی بھی زبان سیکھنے کا مطلب اس کا کلچر اپنانا نہیں ہوتا۔
بالکل۔ کلچر کا فروغ میڈیا کا کام ہے۔

جب لیبل اور چیز کے مابین براہ راست تعلق ہوتا ہے تو کوئی بھی زبان ہو فرق نہیں پڑتا۔ اعلی درجے کا جتنا بھی علم ہے وہ ہمارے روزمرہ کی زبان یا اصطلاحات نہیں ہوتا۔ جس مشکل کی بات کی جاتی ہے وہ ہے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا۔ جو ہمارے بچوں کو نہیں آتا انگریزی میں، اور اس کا قصور وار بھی سراسر تعلیمی نظام ہے جہاں رٹا لگوایا جاتا ہے۔ ورنہ لکھنے کی صلاحیتیں بڑھانے پر توجہ دی جائے تو ایسا بھی نہ ہو۔
مطلب اگر معیاری نصاب ہو تو زبان سے فرق نہیں پڑتا؟؟ میں نہیں مانتا! میں نہیں مانتا!میں تو اس سوچ کا حامی ہوں کہ اگر ترقی ہوگی تو قومی (یا مقامی) زبان ہی سے ہوگی۔ ہزاروں میل دور سے آئی زبان سے بہتری ممکن نہیں۔

پالیسی سازی کریں، ہر زبان کو اس کا حق ملے۔ اردو قومی سطح پر، مقامی زبانیں صوبائی سطح پر۔ اور انگریزی عالمی سطح کے لیے وقف رکھی جائے۔ پالیسی سازی کریں، ہر زبان کو اس کا حق ملے۔ اردو قومی سطح پر، مقامی زبانیں صوبائی سطح پر۔ اور انگریزی عالمی سطح کے لیے وقف رکھی جائے۔
یہی مسئلے کا حل ہے۔ لیکن عالمی سطح پر انگریزی کیوں؟؟ ہم گونگے ہیں کیا؟؟ عالمی سطح پر اردو ہی استعمال کی جائے۔
 

عمران ارشد

محفلین
اوریا مقبول جان نے حسب دستور اور حسب توقع اسے اردو کی ترویج و ترقی کی بجائے "اسلام اور مغرب" کا رنگ دینے کی کوشش ہے۔ ارتقاء لسان ایک حقیقت ہے۔ انسانی آبادیاں بھی اس وقت سے ہجرت کر رہی ہیں جب سے انسان زمین پر آباد ہے۔
اردو کی ترویج و ترقی الگ نقطہ ہے اور اسلام اور مغرب الگ۔ مجھے تو نہیں لگا کہ اوریا مقبول جان نے ان دونوں کو ایک کہا ہو۔
حضور، ہجرت کی کوئی وجہ بھی ہوتی ہے۔ اور میرے خیال میں سب سے بڑی وجہ دانہ پانی ہی ہے۔

انگریزی ایک ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک اہم حصہ رکھتی ہے۔ اسے مغرب مغرب کے نعروں سے آپ اپنے معاشرے سے نکال باہر نہیں کرسکتے۔
انگریزی کی صرف اتنی ضرورت ہے کہ اس زبان میں موجود علم کو ہم اپنی زبان میں منتقل کر سکیں۔ اس سے زیادہ کیا ضرورت ہے؟؟ اور ہماری تاریخ میں اتنا اہم حصہ بھی نہیں رکھتی جتنا اہم حصہ ہم اسے دیتے ہیں۔
 
بات یہ ہے کہ انگریزی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں مگر اسے حواسوں پر سوار کرنے کی جو رسم ہے اصل میں اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے اور اب تو بہت بڑھتی جا رہی ہے۔

علاقائی زبانوں کو بھی فروغ دینا چاہیے مگر ایک زبان جو کہ پوری قوم سمجھتی اور بولتی ہے اور جس میں مسلسل کام بھی ہوا ہے اور جسے سیکھنا تمام پاکستانیوں کے لیے ازحد آسان ہے اسے فروغ کیوں نہ دیا جائے۔

انگریزی کی تعلیم حاصل کرنا اور پھر اس میں مہارت حاصل کرنا ایک بہت بڑے متوسط کے لیے مشکل اور غریب طبقہ کے لیے تو انتہائی مشکل ہے ۔ اس چیز کو ذہن میں رکھ کر ہی آپ ملک اور قوم کے مستقبل کی تعلیمی زبان کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں انگریزی کا قطعی مخالف نہیں، کیونکہ اگر انگریزی کی نعمت نہ ہوتی تو میں اپنے بہت سے عزیز غیر ملکی دوستوں سے تکلم کرنے سے محروم رہ جاتا، اور بہت سا علم میری دسترس سے باہر رہتا۔ البتہ میں اس بات سے بالکل غیر متفق ہوں کہ زبان کا کلچر سے کوئی تعلق نہیں، زبان ہی ثقافت و تہذیب کا سب سے بڑا مخزن اور نمائندہ ہوتی ہے۔ جس طرح اردو سے اردو کا انفرادی کلچر علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح انگریزی سے انگریزیت اور مغربیت کو جدا کر پانا ناممکن ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
میرے ذاتی خیال میں پاکستان کے لیے سب سے بہتر لسانی پالیسی یہ ہو سکتی ہے:

اردو اور انگریزی: سرکاری زبانیں
اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو، شنا، بروشاسکی، براہوی اور فارسی: قومی زبانیں
اردو: بین الصوبائی رابطے کی زبان
اردو یا مادری زبان: ابتدائی تعلیم کا میڈیم
انگریزی: ثانوی اور اعلی تعلیم کا میڈیم
اردو کالج تک لازمی مضمون
اسکول اور کالج میں اردو کے علاوہ پاکستان کی کوئی قومی زبان بطور مضمون پڑھنا لازم ہو
 

محمد مسلم

محفلین
ویسے اگر تھوڑی سی ہمت کریں تو اردو انگلش کے پائے کی علمی زبان بن سکتی ہے، بس ہماری کم ہمتی بھی اور ذہنی مرعوبیت بھی اس میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
 
Top