عبدالقیوم چوہدری
محفلین
گو اس زمرے کو استعمال کرتے ہوئے میں یہ کتھا پیش کر رہا ہوں ورنہ یہ سارا ’سفر نامہ‘ دو گھنٹے سے بھی کم وقت پر محیط ہے۔
ہوا یہ کہ مجھے ایک درمیانے سے ’صاحب‘ (یعنی نا چھوٹا افسر نا بڑا افسر ) سے ملنے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں جانا تھا۔ لگ بھگ گیارہ بجے انھیں کال کیا تو وہ کہنے لگے ’میں تو آج ٹیکسلا آیا ہوا ہوں اور سارا دن یہیں گزرنا ہے، آپ چاہیں تو مجھے یہیں مل سکتے ہیں‘۔ یہ سن کر میرا تو وہ حال ہوا جو کسی بلی کے بھاگوں وغیرہ کا کس محاورے میں ذکر ہے۔ ان کا موجودہ محل وقوع جانا تو علم ہوا کہ صاحب |UET ٹیکسلا میں دن بِتا رہے ہیں۔
کچھ ہی دیر میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ وہاں جا پہنچا اور ان سے ملاقات کر لی۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد واپسی شروع ہوئی تو راستے میں ٹیکسلا میوزیم کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے اس عزیز سے پوچھا کہ ’کیا اس نے میوزیم دیکھ رکھا ہے‘، بولے ’نہیں۔۔ یا شاید کہیں بچپن میں دیکھا ہو‘۔ پھر پوچھا ’ اگر وقت ہے تو پھر سے دیکھ لیں‘ ۔۔ بولے، ’دیکھ لیتے ہیں‘۔ اور ہم نے وہیں رک جانے کا فیصلہ کیا۔ موٹر سائیکل سٹینڈ پر لگائی اور اندر جا گھسے۔
اندر جاتے ہی بائیں ہاتھ ٹکٹ گھر ہے۔ دو ٹکٹ مانگے اور مالیت پوچھی۔ جواب آیا 40 روپے۔ میز پر رقم رکھی، ٹکٹ اٹھائے اور آگے نکل لیے۔ سامنے یہ عمارت موجود تھی۔
گوگل امیج
اندر داخل ہوئے تو دائیں طرف ایک صحتمند خاتون کرسی پر بیٹھی دکھائی دیں۔ ان کے پاس سے گزر کر تین چار قدم ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ مقامی لب و لہجے میں آواز آئی ’ ٹِکُٹ کِیندے نیں!‘ ۔۔ میں نے جواب دیا ’جی آ‘۔ جواباً بولیں ’ماں تکاؤ دا‘۔۔ ہم نے جھٹ واسکٹ کی جیب سے نکال کر حوالے کیے۔ انھوں نے بغیر دیکھے انھیں تقریباً درمیان سے پھاڑا اور پھر سے ہمارے ہاتھ میں تھما دئیے۔ ہم دوبارہ سے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگ گئے۔
کوئی دو سال قبل آخری چکر لگا تھا تو یہ علم ہوا کہ میوزیم کے اندر تصویر بنانا منع ہے۔ اس بار اندر گھومتے پھرتے لوگوں کو سامنے سمٹ بھی اور چوری چھپے بھی تصاویر بناتے دیکھا تو کچھ دیر تو سوچتا اور گھومتا ہی رہا کہ بناؤں یا نہ بناؤں ۔۔۔۔ لیکن پھر ایک طرف کا چکر کاٹ کر واپس اسی خاتون کے قریب پہنچے تو دریافت کیا ’فوٹو کِھچ سکنے آں‘ تو بولیں۔۔۔ اُنج تے جازت نئی، پر چَمُک (فلیش) بند کر کے تے آواز بند کر کے پاویں بنا کینو‘ ۔۔ اس وقت تک آدھے سے زیادہ میوزیم گھوم چکے تھے سو جو بنا پائے وہ حاضر خدمت ہیں۔
ہوا یہ کہ مجھے ایک درمیانے سے ’صاحب‘ (یعنی نا چھوٹا افسر نا بڑا افسر ) سے ملنے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں جانا تھا۔ لگ بھگ گیارہ بجے انھیں کال کیا تو وہ کہنے لگے ’میں تو آج ٹیکسلا آیا ہوا ہوں اور سارا دن یہیں گزرنا ہے، آپ چاہیں تو مجھے یہیں مل سکتے ہیں‘۔ یہ سن کر میرا تو وہ حال ہوا جو کسی بلی کے بھاگوں وغیرہ کا کس محاورے میں ذکر ہے۔ ان کا موجودہ محل وقوع جانا تو علم ہوا کہ صاحب |UET ٹیکسلا میں دن بِتا رہے ہیں۔
کچھ ہی دیر میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ وہاں جا پہنچا اور ان سے ملاقات کر لی۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد واپسی شروع ہوئی تو راستے میں ٹیکسلا میوزیم کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے اس عزیز سے پوچھا کہ ’کیا اس نے میوزیم دیکھ رکھا ہے‘، بولے ’نہیں۔۔ یا شاید کہیں بچپن میں دیکھا ہو‘۔ پھر پوچھا ’ اگر وقت ہے تو پھر سے دیکھ لیں‘ ۔۔ بولے، ’دیکھ لیتے ہیں‘۔ اور ہم نے وہیں رک جانے کا فیصلہ کیا۔ موٹر سائیکل سٹینڈ پر لگائی اور اندر جا گھسے۔
اندر جاتے ہی بائیں ہاتھ ٹکٹ گھر ہے۔ دو ٹکٹ مانگے اور مالیت پوچھی۔ جواب آیا 40 روپے۔ میز پر رقم رکھی، ٹکٹ اٹھائے اور آگے نکل لیے۔ سامنے یہ عمارت موجود تھی۔
اندر داخل ہوئے تو دائیں طرف ایک صحتمند خاتون کرسی پر بیٹھی دکھائی دیں۔ ان کے پاس سے گزر کر تین چار قدم ہی آگے بڑھے ہوں گے کہ مقامی لب و لہجے میں آواز آئی ’ ٹِکُٹ کِیندے نیں!‘ ۔۔ میں نے جواب دیا ’جی آ‘۔ جواباً بولیں ’ماں تکاؤ دا‘۔۔ ہم نے جھٹ واسکٹ کی جیب سے نکال کر حوالے کیے۔ انھوں نے بغیر دیکھے انھیں تقریباً درمیان سے پھاڑا اور پھر سے ہمارے ہاتھ میں تھما دئیے۔ ہم دوبارہ سے آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگ گئے۔
کوئی دو سال قبل آخری چکر لگا تھا تو یہ علم ہوا کہ میوزیم کے اندر تصویر بنانا منع ہے۔ اس بار اندر گھومتے پھرتے لوگوں کو سامنے سمٹ بھی اور چوری چھپے بھی تصاویر بناتے دیکھا تو کچھ دیر تو سوچتا اور گھومتا ہی رہا کہ بناؤں یا نہ بناؤں ۔۔۔۔ لیکن پھر ایک طرف کا چکر کاٹ کر واپس اسی خاتون کے قریب پہنچے تو دریافت کیا ’فوٹو کِھچ سکنے آں‘ تو بولیں۔۔۔ اُنج تے جازت نئی، پر چَمُک (فلیش) بند کر کے تے آواز بند کر کے پاویں بنا کینو‘ ۔۔ اس وقت تک آدھے سے زیادہ میوزیم گھوم چکے تھے سو جو بنا پائے وہ حاضر خدمت ہیں۔