گبر اور ٹیکس دینے سے انکاری تاجر
14/07/2019 عدنان خان کاکڑ
حکومت ڈنڈے کے زور پر ہماری غیر تحریری معیشت کو یکلخت ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور تاجر ملک گیر ہڑتالیں کر کے اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف بھی یہ کوشش کر چکے ہیں مگر جب ملک کی معیشت اچانک جامد ہو گئی اور سرمایہ دار ملک سے بھاگ کر کینیڈا، دبئی اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اپنا کاروبار منتقل کرنے لگا تو پھر جنرل مشرف نے اپنی مہم ترک کی۔ گبر سنگھ کے انداز میں حکومت ایک دو مرتبہ تو ٹیکس وصول کر سکتی ہے، مگر نتیجہ یہ ہو گا کہ سرمایہ دار کسی ایسے ملک کا رخ کرے گا جہاں گبر سنگھ نہ ہو خواہ ٹیکس کی شرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا نتیجہ معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
معاملہ یہ ہے کہ کام کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ یکلخت انقلابی تبدیلی تباہی لاتی ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے لئے ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پہلے ٹیکس سسٹم کو مکمل اوور ہال کرنے اور ٹیکس پیئر فرینڈلی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ بابو فرینڈلی ہے اور ٹیکس پیئر کو اتنی مشکل میں گرفتار کرتا ہے کہ بابو اس سے رشوت لے سکے۔ ٹیکس سسٹم اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ کاروباری آدمی چاہے جتنی ایمانداری سے بھی ٹیکس دے رہا ہوں، اس کے کاغذات میں سقم نکل آئے گا۔
میں دہائیوں سے نہایت ایمانداری سے اپنا ٹیکس دینے اور اس بات پر جلنے کڑھنے کے باوجود کہ مجھ سے بہت زیادہ امیر کاروباری افراد ٹیکس کیوں نہیں دیتے، اس وقت تاجروں کے موقف کو زیادہ درست سمجھتا ہوں۔
پہلے ٹیکس سسٹم کی چند مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ تاجروں کے لئے یہ مشکلات اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اگر آپ بلڈنگ شیئر کر رہے ہیں اور کرایہ نامہ آپ کی چھوٹی سی کمپنی کے نام پر نہیں ہے تو آپ ایف بی آر میں رجسٹر ہو کر اپنا ٹیکس نمبر نہیں لے سکتے؟ جبکہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو تو آپ اپنی کمپنی کے پتے کی تصدیق کے لئے محض بجلی گیس وغیرہ کا بل دے کر اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔ بعد میں بینک کورئیر کے ذریعے ایک خط اس پتے پر بھیج کر دہری تصدیق کر لیتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا تو آسان ہے لیکن ٹیکس نمبر لینا مشکل؟ اچھا آپ یہ سوچتے ہیں کہ چلو میں اپنے رہائشی گھر کے پتے پر ٹیکس میں رجسٹر ہو جاتا ہوں۔ اب آپ کو علم ہوتا ہے کہ ایف بی آر والے مکان کی رجسٹری اور اگر مکان پر کوئی قرضہ ہے تو اس کے مکمل کاغذات لئے بغیر آپ کو ٹیکس سسٹم میں رجسٹر کرنے سے انکاری ہیں۔ پھر این ٹی این لیتے وقت آپ کی پانچ چھوٹی چھوٹی سی کمپنیاں رجسٹر ہیں تو آپ کو اپنے ذاتی ٹیکس نمبر سمیت چھے فون سمز چاہئیں ورنہ آپ ٹیکس کے لئے رجسٹر نہیں ہو سکتے۔
کیا آپ نے ایف بی آر یا پی آر اے کی سائٹ پر جا کر اپنا سالانہ یا ماہانہ ٹیکس خود فائل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کر کے دیکھیں۔ بہت کچھ پتہ چلے گا۔ میں اکاونٹنگ سے واقف ہونے اور کمپیوٹر ایکسپرٹ ہونے کے باوجود اپنا ٹیکس خود فائل نہیں کر سکتا ہوں۔ حالانکہ میری انکم ٹرانزیکشن بہت سادہ ہوتی ہیں اور سال میں بہت کم۔ اس آن لائن فارم کو سادہ کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟
میں نہایت ایمانداری سے پورا ٹیکس 1996 سے ادا کر رہا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ایماندار آدمی کے لئے ٹیکس سسٹم عذاب ہے۔ کاغذ پورے کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ میں ایک سادہ اور ایماندار آدمی کی حیثیت سے سوچتا ہوں کہ چلو مجھے سہولتیں نہ ملیں خیر ہے۔ میں ٹیکس کو ملک کے غریبوں کے لئے صدقہ خیرات یا ملک کے لئے اپنی فرض وغیرہ سمجھ کر ادا کرنے کے لئے راضی خوشی تیار ہوں۔ ایسے میں میں کیسے کسی کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہو جاؤ؟
مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر ایمانداری کے باوجود جب مجھے سال میں دو مہینے مفت کی ٹینشن رہتی ہے اور اپنا کام چھوڑ کر جب مجھے ٹیکس کے کاغذ تیار کرنے پڑتے ہیں اور پھر عجیب و غریب چیزیں بھگتنی پڑتی ہیں تو پھر میں اس سے تنگ آتا ہوں۔ مجھے چپ کر کے سکون سے اپنا کام کرنے دیں اور میرے لئے ٹیکس ادا کرنا آسان بنائیں۔ مجھے اچھی بھلی رقم اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کو ادا کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود مفت کی ٹینشنیں سر پر سوار ہوتی ہیں۔ پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آدمی ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہی نہ ہو۔ چار پیسے بھی بچیں گے اور بندہ سکون سے اپنا کام بھی کرے گا؟ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے تاجروں کا یہی موقف اور خوف ہے کہ وہ ایک چنگل میں پھنس جائیں گے اور پھر اپنے کاروبار کی بجائے اس کی ٹینشن زیادہ لیں گے۔
حکومت کا پہلا ہدف ہی سسٹم کو سادہ کرنا ہونچا چاہیے تاکہ ٹیکس پیئر کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اتنا سادہ کہ ایک عام آدمی سہولت سے بے خوف ہو کر ریٹرن جمع کروا سکے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ جو رجسٹر ہو جاتے ہیں ٹیکس سسٹم ان کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور ان سے کسی بھی طریقے سے مزید رقم نکلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک خاص حد سے کم آمدنی والے فرد یا کمپنی کا تو آڈٹ کال ہی نہیں ہونا چاہیے اور کاغذات کی ریکوائرمنٹ سادہ ترین ہونی چاہیے جو پوری کرنا آسان ہو۔
کیا آپ کو علم ہے کہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، خواہ اس کا سالانہ ٹرن اوور ایک لاکھ سے بھی کم ہو، پندرہ ہزار سے اوپر رقم ادا کرتے وقت چیک استعمال کرنے اور ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کی پابند ہے۔ چیک مارکیٹ میں ظاہر ہے قبول نہیں کیا جاتا۔ اب وہ کمپنی مجبور ہو کر 20 ہزار کیش دے گی اور ٹیکس والوں کا پھر جرمانہ بھگتے گی کہ میاں چیک سے پیمنٹ کیوں نہیں کی؟
کتنی چھوٹی کمپنیاں ہیں جو سال کے دس لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ تک کماتی ہیں۔ کیا ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ تیس چالیس ہزار ماہانہ والا ایک اکاونٹنٹ رکھیں اور ٹیکس کنسلٹنٹ اس کے علاوہ ہو؟ کیا ان کے لئے سلیب بنا کر سسٹم کو سادہ نہیں کیا جا سکتا؟ جو کمپنی جتنا زیادہ کماتی ہے اس کے لئے ریکوائرمنٹ سخت کرتے جائیں لیکن چھوٹے کاروبار کے لئے جتنی ممکن ہو آسانیاں فراہم کریں۔ ان کا معیشت میں یہ حصہ ہی بہت ہے کہ وہ لوگوں کو ملازمتیں دے کر بہت سے گھروں کے چولہے روشن رکھتی ہیں۔
شناختی کارڈ کی شرط سے میں متفق ہوں اور عرصے سے اس کا حامی ہوں۔ میں کسی کو پیمنٹ کرتے وقت اس کا ودہولڈنگ ٹیکس کیوں کاٹوں؟ اسے اس کی نیٹ پیمنٹ کروں اور اس سے شناختی کارڈ والی رسید لوں۔ آگے ایف بی آر اس سے ٹیکس لے۔ اب اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ میں دفتر کے مالک کو کرایہ ادا کرتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ ٹیکس میں آپ رجسٹر ہیں اور یہ آپ کا مسئلہ ہے آپ خود بھگتیں، سو اس کا ودہولڈنگ ٹیکس بھی مجھے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ یا میں جب بازار سے کوئی چیز خریدتا ہوں تو پھر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر میرے پاس رسید پر ان کا شناختی کارڈ نمبر ہو گا تو دوسرے لوگوں کا انکم ٹیکس مجھے نہیں دینا پڑے گا۔ لیکن شناختی کارڈ کی شرط کو لاگو کرتے وقت یہ تو اطمینان دلایا جائے کہ آپ سے صرف ٹیکس لیں گے، آپ کی زندگی کو اتنا عذاب نہیں کریں گے کہ آپ کاروبار کرنے کی بجائے کاغذ پورے کرتے رہیں۔
تاجروں اور کاروباری افراد سے مل کر ایسا سسٹم بنایا جانا چاہیے جو ان کے لئے آسان ہو، بجائے اس کے کہ وہ ٹیکس اور اکاونٹنگ کے ماہرین کا کام آسان کرے۔ ٹیکس کولیکٹر کو اپنے کاغذوں پر محنت کرنے دیں، وہ اس کی اچھی تنخواہ لیتے ہیں، ٹیکس پیئر کی ریٹرن کو آسان بنا کر اسے سکون سے اپنے کاروبار پر فوکس کرنے دیں۔
سیلز ٹیکس کا سسٹم بھی بہت عجیب و غریب ہے۔ سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے 30 جنوری کو اپنے کلائنٹ کو انوائس دی ہے تو آپ 10 فروری تک اسے فائل کریں اور 15 فروری تک اس انوائس پر جو بھی ٹیکس بنا ہے وہ جمع کروائیں۔ سروسز میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ نے آج جو انوائس دی ہے اس کی ادائیگی تین چار مہینے بعد ہو گی۔ یعنی اس انوائس کے بدلے آپ کو رقم نہیں ملی مگر آپ نے اس کا ٹیکس جمع کروانا ہے۔ اب اگر ایک سروسز والے شخص کے پاس جیب میں فالتو پیسے نہیں ہیں تو وہ یہ ایڈوانس سیلز ٹیکس ادا نہیں کر سکتا اور جرمانے اور پیشیاں بھگتے گا۔ ورنہ وہ دس لاکھ کی انوائیس دینے سے پہلے کہیں سے ادھار پکڑ کر یہ یقینی بنائے کہ اس کے پاس ایک لاکھ ساٹھ ہزار موجود ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہے کہ انوائس کی تاریخ کی بجائے ادائیگی کی تاریخ کے حساب سے یہ سیلز ٹیکس ادا کیا جائے؟
یہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی بات تھی۔ تاجروں کے مسائل اس سے بہت زیادہ ہیں۔ انہیں سٹاک، سیلز پرچیز اور نہ جانے کس کس پر کیا کیا پیچیدگی بھگتنی پڑتی ہے۔ مجھے بھی بہت غصہ چڑھتا ہے کہ اچھرے یا اعظم کلاتھ مارکیٹ میں ایک چھوٹے سے کھوکھے والا مہینے کا ایک لاکھ کرایہ ادا کر دیتا ہے مگر ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ مگر مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کی بددیانتی کے علاوہ اس کے ٹیکس ادا نہ کرنے میں سسٹم کی پیچیدگی کا کتنا حصہ ہو سکتا ہے۔
پہلے قدم کے طور پر ہنگامی بنیادوں پر کاروباری افراد کی مشاورت سے ٹیکس سسٹم کو اتنا سادہ بنائیں کہ ٹیکس دہندہ آسانی سے اس کا حصہ بن سکے۔ اس کے بعد جو لوگ حصہ نہیں بنتے انہیں پکڑا جائے۔ ٹیکس سسٹم میں کاغذات کی ریکوائرمنٹ پانچ سے دس سال کے عرصے میں بڑھاتے رہیں مگر شروع کے دو چار سال انہیں کم سے کم رکھیں۔ یہ پانچ سے دس سال میں کرنے والا کام ہے جو ایک مہینے میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور معیشت کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔
پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال آتا ہے کہ جب ہمارے ملک کے وزرائے اعظم، وزرا اور اراکین اسمبلی شاہانہ طرز زندگی گزارنے کے باوجود یا تو ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے یا اتنا کم کرتے ہیں کہ ایک مڈل کلاس کا شخص بھی اس سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتا ہے، تو ایسی حکومتوں کے کہنے پر کون ٹیکس دینے کو تیار ہو گا؟ سب سے پہلے اراکین پارلیمنٹ سے تو ٹیکس لینا شروع کریں، اس کے بعد عام شہریوں سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت اچھی لگے گی۔