ٹیکسوں کیخلاف آج شٹر ڈاؤن ہڑتال، بعض تاجرتنظیموں کا اظہارلاتعلقی

جاسم محمد

محفلین
تاجر حکومت کے ساتھ: آپ نے ٹیکس بہت زیادہ لگا دیا ہے اس لئے ہم اپنے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لا سکتے۔
تاجر گاہک کے ساتھ: حکومت نے ٹیکس لگا کر مہنگائی بہت زیادہ کر دی ہے اس لئے ہم اپنے ریٹس کم نہیں کر سکتے۔
تاجر اللہ کے ساتھ: واللہ خیرالرازقین
 

آصف اثر

معطل
میرا موقف رجسٹریشن نہیں بلکہ ٹیکس کے نفاذ کا طریقہ کار ہے۔ اتنے زیادہ ٹیکسز اور پھر ہر شے پر ٹیکسز، یہ عوام کو تباہ کرکے رکھے گا۔
اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہےکہ آئی ایم ایف کو اپنے پیسے چاہیے، چاہے وہ عوام کو نچوڑا جائے، تاجروں سے وصول ہو یا حکومت کے جیب سے جائے۔ اور اس کھیل میں شبرزیدی جیسے مہرے بہت اہم ہے۔ ٹیکسز لگانے کا آئیڈیا شبرزیدی کا ہے ہی نہیں، یہ آئی ایم ایف کا دیا گیا پروسیجر ہے۔ شبرزیدی صرف نمائندگی کررہاہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہےکہ آئی ایم ایف کو اپنے پیسے چاہیے، چاہے وہ عوام کو نچوڑا جائے، تاجروں سے وصول ہو یا حکومت کے جیب سے جائے۔ اور اس کھیل میں شبرزیدی جیسے مہرے بہت اہم ہے۔ ٹیکسز لگانے کا آئیڈیا شبرزیدی کا ہے ہی نہیں، یہ آئی ایم ایف کا دیا گیا پروسیجر ہے۔ شبرزیدی صرف نمائندگی کررہاہے۔
ظاہر ہے جب آپ کے جمہوری لیڈران عوامی خواہشات (سستا ڈالر، کم ٹیکس، بے لگام درآمداد) پر عمل کرتے ہوئے ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک لے کر جائیں گے تو ان کی وصولی بھی ایک دن ہو کر رہے گی۔
There are no free lunches
یہی آپ تاجر حضرات مشرف دور میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کرنے کی بجائے پورا ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیتے تو آج 10 سال بعد اس حکومت کو اتنی سختی نہ کرنی پڑتی۔
 

آصف اثر

معطل
ظاہر ہے جب آپ کے جمہوری لیڈران عوامی خواہشات (سستا ڈالر، کم ٹیکس، بے لگام درآمداد) پر عمل کرتے ہوئے ملک کا قرضہ 6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب تک لے کر جائیں گے تو ان کی وصولی بھی ایک دن ہو کر رہے گی۔
There are no free lunches
یہی آپ تاجر حضرات مشرف دور میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کرنے کی بجائے پورا ٹیکس ادا کرنا شروع کر دیتے تو آج 10 سال بعد اس حکومت کو اتنی سختی نہ کرنی پڑتی۔
یہ پیسا اگر تاجر کے جیب سے نکالا جائے تو شائد کسی کو اعتراض نہ ہو، لیکن عوام کا خون نچوڑنے پر تالیاں بجانے والے سمجھ سے باہر ہیں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ موجودہ مہنگائی پر صرف تین قسم کے لوگ خوش ہیں:
باپ کا کھانے والے،
حرام کھانے والے،
اور ضرورت سے زیادہ کمانے والے۔
اب تالیاں بجانے والے کس کیٹیگری میں ہے، جھانکنے کی دیر ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ پیسا اگر تاجر کے جیب سے نکالا جائے تو شائد کسی کو اعتراض نہ ہو، لیکن عوام کا خون نچوڑنے پر تالیاں بجانے والے سمجھ سے باہر ہیں۔
حکومت دراصل ایک تیر سے دو شکار کرنے کے چکر میں ہے۔
ایک طرف تاجروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے کاروبار رجسٹر کر کے انفارمل معیشت کا حصہ بنیں۔
تو دوسری طرف سیلز ٹیکس بڑھا رہی ہے۔
میرے خیال میں فی الحال صرف اول الذکر پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ اہداف حاصل ہو جائیں تو پرانے ریٹ پر بھی سیلز ٹیکس کی وصولی بڑھ جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
66643509_10156709755109527_7679933332393558016_n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم، اس کا کیا علاج کہ تاجر اس وقت سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
تاجر برادری ہر دور میں ایسا ہی کرتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں ایسا کوئی دور نہیں جب سیاسی استحکام زیادہ دیر موجود رہا ہو۔
 

آصف اثر

معطل
ایک بہت اچھا اور متوازن کالم

ٹیکس کی رقم کہاں جارہی ہے؟

وجیہ احمد صدیقی، روزنامہ امت۔

موجودہ حکومت میں مالیاتی نظام مکمل طور پر ٹیکنوکریٹس کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ حفیظ شیخ مشیرخزانہ ہیں تو ڈاکٹر عشرت حسین ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں اور اسٹیٹ بینک کی ایک اور سابق سربراہ ڈاکٹر شمشاد اختر وزیراعظم کی معاون خصوصی مقررکر دی گئی ہیں۔ اگر یہ لوگ اقتصادی اصلاحات میں ناکام ہوگئے تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی ۔ ان لوگوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے ٹیکسوں کی تعداد اور شرح دونوں میں کی کرنا ہوگی۔ ٹیکسوں کے پیچیدہ نظام کو آسان بنانا ہوگا تاکہ ٹیکس کی شرح نہیں، بلکہ وصولیوں میں اضافہ ہو۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی شرح ظالمانہ حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ حکمران ہوں یا عوام، تا جر کو سب ہی گالیاں دے رہے ہیں۔ کراچی کےتاجر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بھتہ دے دیتا ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا۔
اسی طرح اسلام آباد، لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں کے تاجروں کے بارے میں بھی یہی رائے ہے کہ وہ ٹیکس چور ہیں۔ ہمیں اس رائے سے اتفاق ہے لیکن تاجرکوٹیکس چورکس نے بنایا ؟ ٹیکس جمع کرنے والے عملے نے ایف بی آر اور یونیوڈپارٹمنٹ کے افسران نے اور ان تاجر سیاست دانوں نے جو اقتدار میں آئے اور اپنی ہی تجارت کو فروغ دیا۔ ان تاجروں نے ٹیکس وصول کرنے کا طریقہ نکالا کہ انکم ٹیکس جمع کرنے کے بجائے ہر چیز پر سیلزٹیکس لگا دیا لیکن کیا یہ سیلزٹیکس مکمل طور پر قومی خزانے میں جمع ہوتا رہاہے؟
اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین ہیں۔ ان میں سے ایک اوسط اندازے کے مطابق کم ازکم 8 کروڑ صارفین روزانہ 100 روپے کا وقت خریدتے ہیں جس میں سے 28 روپے حکومت پاکستان کو بیس کی مد میں جاتے ہیں، یعنی ایک دن میں صرف موبائل فون کے صارفین سے حکومت کوکم از کم 2 ارب 24 کروڑ روپے حاصل ہوتے ہیں۔ اس آمدنی کی پورے مہینے اور پورے سال سے ضرب د ے تو اندازہ ہوگا کہ یہ رقم تو شاید پاکستان کے بجٹ کے لیے کافی ہوگی ۔ لیکن آپ حکومت سے پوچھیں گے تو وہ موبائل فون سے حاصل ہونے کے معاملے کی رقم کو نہایت ہی کم بتائیں گے۔ جب سپریم کورٹ نے حکومت کو موبائل فون سے ٹیکس جمع کرنے سے روک دیا تھا توحکومت نے ٹیکس بحال کروانے کے لیے کہا تھا کہ اس پابندی سے حکومت کو 80 ارب روپے سالان کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ یہ رقم تو ایک مہینے میں حاصل ہوتی ہوگی ۔ اسی طرح بجلی کے بلوں پرٹیکس، گیس کے بلوں پرٹیکس، ٹیلی فون کے بلوں پرٹیکس کی رقوم کوجمع کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ رقم قومی خزانے تک نہیں پوچھ رہی ہے۔روزانہ کم از کم 5کروڑ افرادکم ازکم ایک لیٹر پیٹرول تو استعمال کرتے ہوں گے۔ ایک لیٹر پیٹرول میں کم ازکم 50 روپے حکومتی ٹیکس ہوتا ہے۔ اس کا انداز ہ لگا لیجیے کہ کتنی رقم خورد برد ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کی اسی سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے اہلکاروں کی تنخواہوں میں ان کی کارکردگی کو مشروط کر کے اضافہ کیا گیا ہے، تاکہ ٹیکس جمع کرنے کی شرح میں اضافہ ہو لیکن کرپٹ افسران نے اپنے رشوت کے نرخوں میں اضافہ کرلیا۔ حکومت کی کوشش ہے ٹیکس جمع کرنے کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہو لیکن اس کے بجائے رشوت کی شرح میں 30 فیصد اضافہ ہو گیا۔ پاکستان میں روزانہ رشوت کی مد میں کتنی رقم خرچ ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانامشکل ہے لیکن کئی اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم 20 سے 22 ارب روپے رشوت کی مد میں کمائے جاتے ہیں ۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ پولیس میں رشوت، عدالتوں میں رشوت اورٹیکس کی بھاری شرح لوگوں کو رشوت دینے پر مجبور کرتی ہے۔ یادر ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ایک اجلاس میں ارکان کو بتایا گیا تھا کہ ایف بی آر میں کرپشن کے سبب سالانہ پانچ سے چھ سو ارب روپے ٹیکسوں کی رقم ضائع ہورہی ہے۔ یعنی یہ رقم وصول تو ہوتی ہے لیکن قومی خزانے میں نہیں پہنچتی۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ ہمارے موجودہ ٹیکس نظام میں ایک سو روپے میں سے 65 روپے ضائع ہورہے ہیں۔ اس لئے کوئی بھی نیا ٹیکس لگائے بغیر مز ید محاصل اکٹھا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
اقتصادی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان میں ٹیکس نظام کی ایک اور سب سے بڑی خامی بالواسط ٹیکسز ہیں، پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام لاگو ہے، اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ 60 فیصد ٹیکس جو ہیں وہ بالواسط ٹیکس کی مد میں اکٹھے کیے جاتے ہیں اور 40فیصد براہ راست ٹیکسز ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ کی آمدن کم ہوتی جاتی ہے۔ اس ٹیکس کا آپ پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے ٹیکس سسٹم یہ کررہا ہے کہ پورے پاکستان کی حکومت چلانے کا خرچ ملک کے کم آمدن والے طبقے پر بڑھاتا جارہا ہے۔ یہ یہی سیلزٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اگر حکومت کو اپنی ٹیکس کی آمدنی بڑھانی ہے تو ٹیکسوں کی شرح میں کمی کرنا ہوگی۔ ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، جب شرح کم ہوگی تو ہرشخص ٹیکس دینے کے لیے تیار ہوگا، رشوت دینے کے لیے ہیں ۔ لیکن یہاں 100 فیصد اور 250 فیصد ڈیوٹی عائد کر کے رشوت کا ہی راستے کھولا جاتا ہے۔
اس لیے جوٹیکس عائد کیے گئے ہیں، ان کی شرح کم کی جائے اور ان کی وصولی کا نظام وضع کیا جائے۔ پاکستان میں انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے کہا جاتا ہے کہ 20 لاکھ ہیں، لیکن ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق ان کی تعداد 50لاکھ ہے، جومختلف اقسام کے ٹیکس دیتے ہیں لیکن پھر بھی ٹیکس بیورو کریٹ ہی طعنہ دیتے ہیں کہ پاکستانی عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال ایف بی آر نے اپنا ہدف رکھا تھا کہ وہ 4.4 کھرب روپےٹیکس جمع کرے گا لیکن وہ صرف 3.82 کھرب روپے ہی جمع کر سکا۔ باقی رقم رشوت کی مد میں وصول کی گئی ہوگی ۔ پی ڈی پی کی شرح کے مقابلے میں ٹیکس وصولی کی شرح 9.9 فیصد ہے۔ امریکہ میں پیشرح27 فیصد، برطانیہ میں 34.4 فیصد ، چین میں 20.1 فیصد ہے، جبکہ ترکی میں 24.9 فیصد اور بھارت میں 16.8 فیصد ہے۔ یہ شرح لوگوں کے ٹیکس وصول کرنے والوں پر عوام کے اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسی طرح بجلی کے بلوں پرٹیکس، گیس کے بلوں پرٹیکس، ٹیلی فون کے بلوں پرٹیکس کی رقوم کوجمع کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ رقم قومی خزانے تک نہیں پوچھ رہی ہے۔روزانہ کم از کم 5کروڑ افرادکم ازکم ایک لیٹر پیٹرول تو استعمال کرتے ہوں گے۔ ایک لیٹر پیٹرول میں کم ازکم 50 روپے حکومتی ٹیکس ہوتا ہے۔ اس کا انداز ہ لگا لیجیے کہ کتنی رقم خورد برد ہوتی ہے۔
زبردست کالم۔ میرا بھی یہی موقف ہے کہ ٹیکس بڑھادینے سے سرکاری خزانہ میں اضافہ نہیں ہوگابلکہ پہلے کے لگے ہوئے ٹیکسز کی زیادہ سے زیادہ وصولی قومی خزانہ تک پہنچانے سے اصل ہدف حاصل ہوگا۔
 

آصف اثر

معطل
شبرزیدی کے حوالے سے راقم کے ساتھ آمنہ مفتی بھی۔
گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری!

ملکِ عزیز میں زبان بندی، ٹیکس گردی اور ہڑتالوں کا موسم جاری ہے۔ سنیچر کو ہونے والی ہڑتال کامیاب تھی۔ یہ ہڑتال اپوزیشن کی کال پر نہیں ہوئی۔ اپوزیشن کو اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں ہی ابو بچاؤ مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم سکون سے ٹوئٹر پر سسیلیئن مافیا کو کوس رہے ہیں اور جواب میں مریم نواز انھیں میٹھے میٹھے طعنے دے رہی ہیں۔

جولائی کی گرمی میں اپنی دکانیں بند کیے چوکوں پر بیٹھے تاجروں کی کسی کو پروا نہیں۔ بابو نگری میں آئی ایم ایف کی جادو کی چھڑی سے پیسے بنانے کی ترکیب ایجاد ہوئی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو جادو کا ڈنڈا تھما کر کہا گیا کہ جائیے اور ان ٹیکس چوروں کی ہڈیوں سے ٹیکس نکال لائیے۔

شبر زیدی نظام کے پرزے ہیں، جب نظام کو ہانکنے والے وہ لوگ ہوں جنھیں کبھی گدھے ہانکنے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو تو جو صورت حال آج سامنے ہے ایسے ہی حالات پیدا ہوتے ہیں۔

ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو نہایت نازیبا زبان میں دھمکی آمیز نوٹس موصول ہوئے جس میں مقررہ وقت پر ٹیکس ادا نہ کرنے پر گرفتاری کی دھمکی بھی دی گئی۔
دوسری کارروائی یہ کی گئی کہ صنعتوں، تاجروں، زراعت وغیرہ پر نہ صرف ٹیکس بڑھائے گئے بلکہ کچھ ایسے قدامات بھی کیے گئے جو ناقابلِ قبول ہیں۔

تاجروں اور حکومت کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ ہونے ہی تھے۔ بابو نگری میں جو دو جمع دو چار ہوتے ہیں وہ عام دنیا میں چار نہیں ہوتے۔ منشی گیری کے علاوہ اگر یہ لوگ طبیعات بھی پڑھ لیتے تو انھیں علم ہو جاتا کہ دنیا میں ایک ان پٹ کا آؤٹ پٹ کبھی ایک نہیں ہوتا۔ ایک سے کم ہی ہوتا ہے۔

سال بھر پہلے جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی تو اندازہ نہ تھا کہ سال کے اندر اندر حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے۔ کئی صنعتوں کو تالا لگ چکا ہے، سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ رہا ہے ڈالر کی عمودی پرواز سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔
ہنڈا اور ٹویوٹا نے اپنے یونٹ قریبا بند کر دیے ہیں۔ گیس اور بجلی خون کی قیمت پر ملنے کی خوشخبری ہے۔ آزادیِ اظہار پر پابندی ہے۔ معیشت منہ کے بل گری پڑی ہے اور وزیر اعظم چلا چلا کر کہہ رہے ہیں یہ سسیلیئن مافیا ہے، یہ سسیلیئن مافیا ہے۔

اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا انجام یہ ہوا کہ آج کسی بھی سیاسی لیڈر کی غیر موجودگی کے باوجود نہایت منظم ہڑتال ہوئی۔ جو اکا دکا دکانیں کھلی بھی تھیں ان کے شٹر بھی علامتی طور پر نصف بند تھے۔

خدا کے فضل و کرم سے ہمارے وزیراعظم کو نہ کبھی کوئی کاروبار کرنے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی نوکری جیسی خفت اٹھانا پڑی۔ اس بات کا اظہار وہ اکثر اپنے محبوب ترین انداز میں کرتے ہیں جسے حاسد تکبر کہتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے یہ سب کرنے کی، میرے پاس تو سب کچھ ہے۔

بالکل بجا فرماتے ہیں، ایچی سن کالج کے کالونیل ماحول میں انھوں نے کہاں ان بچوں کو دیکھا ہو گا جو سکول میں خر دماغ ماسٹر سے پٹ کر گھر آنے کے بعد، تندور سے گرم گرم روٹی لے کے کھاتے ہیں۔ تو بڑی عیاشی یہ ہی ہوتی ہے کہ دائی دوسرے پیڑے سے ذرا سا آٹا توڑ کے روٹی بھاری کر دے ایسی روٹی کو ’بوٹی والی روٹی‘ کہا جاتا ہے۔

یقیناً خان صاحب کو میلے کچیلے، بھنکتے غریب لوگوں کی اس واحد عیاشی کا علم نہیں۔ یہ وہی روٹی ہے، جس کے نام پر پیپلز پارٹی نے سالوں پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا۔ یہ ہی سستی روٹی تھی جس کی آڑ میں خادم اعلیٰ اتنے سال حکومت کر گئے۔

شاید تاجر رام ہو جائیں گے، شاید صنعت کار مان جائیں گے، ممکن ہے ہائی کورٹ زرعی ٹیکس پر سٹے واپس لے لے لیکن جب لوگوں کو کھانے کو روٹی نہیں ملے گی، جب آٹھ بچوں کا باپ جو 500 روپے یومیہ کماتا ہے، 20 روٹیاں 300 کی خرید کر گھر لائے گا تو اس کی آہ یقیناً آپ کو لے ڈوبے گی۔
بہت ممکن ہے اس سوال کے جواب میں آپ کل ٹویٹ کریں کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔

عرض فقط یہ ہے کہ یہ ڈائیلاگ، تاریخ میں ایک کردار پہلے ہی ادا کر چکا ہے۔ امریکہ کے دورے پر جاتے ہوئے ذرا اس کا انجام پڑھ لیجیے گا اور ہاں، فرات کے کنارے کتا بھوکا نہیں ہے خان صاحب، لیکن 15 روپے کی روٹی بہت مہنگی ہے۔ کتوں سے پہلے انسانوں پر ترس کھا لیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ وہی روٹی ہے، جس کے نام پر پیپلز پارٹی نے سالوں پاکستانیوں کو بے وقوف بنایا۔ یہ ہی سستی روٹی تھی جس کی آڑ میں خادم اعلیٰ اتنے سال حکومت کر گئے۔
یعنی غریب عوام کو سستی روٹی (سبسڈی) دیتے رہیں اور یوں شریفوں اور زرداریوں کی طرح عوام کو بیوقوف بنا کر سکون سے حکومت کریں۔
کیا مشورہ دیا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
گبر اور ٹیکس دینے سے انکاری تاجر
14/07/2019 عدنان خان کاکڑ


حکومت ڈنڈے کے زور پر ہماری غیر تحریری معیشت کو یکلخت ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور تاجر ملک گیر ہڑتالیں کر کے اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف بھی یہ کوشش کر چکے ہیں مگر جب ملک کی معیشت اچانک جامد ہو گئی اور سرمایہ دار ملک سے بھاگ کر کینیڈا، دبئی اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اپنا کاروبار منتقل کرنے لگا تو پھر جنرل مشرف نے اپنی مہم ترک کی۔ گبر سنگھ کے انداز میں حکومت ایک دو مرتبہ تو ٹیکس وصول کر سکتی ہے، مگر نتیجہ یہ ہو گا کہ سرمایہ دار کسی ایسے ملک کا رخ کرے گا جہاں گبر سنگھ نہ ہو خواہ ٹیکس کی شرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا نتیجہ معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

معاملہ یہ ہے کہ کام کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ یکلخت انقلابی تبدیلی تباہی لاتی ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے لئے ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پہلے ٹیکس سسٹم کو مکمل اوور ہال کرنے اور ٹیکس پیئر فرینڈلی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ بابو فرینڈلی ہے اور ٹیکس پیئر کو اتنی مشکل میں گرفتار کرتا ہے کہ بابو اس سے رشوت لے سکے۔ ٹیکس سسٹم اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ کاروباری آدمی چاہے جتنی ایمانداری سے بھی ٹیکس دے رہا ہوں، اس کے کاغذات میں سقم نکل آئے گا۔

میں دہائیوں سے نہایت ایمانداری سے اپنا ٹیکس دینے اور اس بات پر جلنے کڑھنے کے باوجود کہ مجھ سے بہت زیادہ امیر کاروباری افراد ٹیکس کیوں نہیں دیتے، اس وقت تاجروں کے موقف کو زیادہ درست سمجھتا ہوں۔

پہلے ٹیکس سسٹم کی چند مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ تاجروں کے لئے یہ مشکلات اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اگر آپ بلڈنگ شیئر کر رہے ہیں اور کرایہ نامہ آپ کی چھوٹی سی کمپنی کے نام پر نہیں ہے تو آپ ایف بی آر میں رجسٹر ہو کر اپنا ٹیکس نمبر نہیں لے سکتے؟ جبکہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو تو آپ اپنی کمپنی کے پتے کی تصدیق کے لئے محض بجلی گیس وغیرہ کا بل دے کر اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔ بعد میں بینک کورئیر کے ذریعے ایک خط اس پتے پر بھیج کر دہری تصدیق کر لیتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا تو آسان ہے لیکن ٹیکس نمبر لینا مشکل؟ اچھا آپ یہ سوچتے ہیں کہ چلو میں اپنے رہائشی گھر کے پتے پر ٹیکس میں رجسٹر ہو جاتا ہوں۔ اب آپ کو علم ہوتا ہے کہ ایف بی آر والے مکان کی رجسٹری اور اگر مکان پر کوئی قرضہ ہے تو اس کے مکمل کاغذات لئے بغیر آپ کو ٹیکس سسٹم میں رجسٹر کرنے سے انکاری ہیں۔ پھر این ٹی این لیتے وقت آپ کی پانچ چھوٹی چھوٹی سی کمپنیاں رجسٹر ہیں تو آپ کو اپنے ذاتی ٹیکس نمبر سمیت چھے فون سمز چاہئیں ورنہ آپ ٹیکس کے لئے رجسٹر نہیں ہو سکتے۔

کیا آپ نے ایف بی آر یا پی آر اے کی سائٹ پر جا کر اپنا سالانہ یا ماہانہ ٹیکس خود فائل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کر کے دیکھیں۔ بہت کچھ پتہ چلے گا۔ میں اکاونٹنگ سے واقف ہونے اور کمپیوٹر ایکسپرٹ ہونے کے باوجود اپنا ٹیکس خود فائل نہیں کر سکتا ہوں۔ حالانکہ میری انکم ٹرانزیکشن بہت سادہ ہوتی ہیں اور سال میں بہت کم۔ اس آن لائن فارم کو سادہ کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟

میں نہایت ایمانداری سے پورا ٹیکس 1996 سے ادا کر رہا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ایماندار آدمی کے لئے ٹیکس سسٹم عذاب ہے۔ کاغذ پورے کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ میں ایک سادہ اور ایماندار آدمی کی حیثیت سے سوچتا ہوں کہ چلو مجھے سہولتیں نہ ملیں خیر ہے۔ میں ٹیکس کو ملک کے غریبوں کے لئے صدقہ خیرات یا ملک کے لئے اپنی فرض وغیرہ سمجھ کر ادا کرنے کے لئے راضی خوشی تیار ہوں۔ ایسے میں میں کیسے کسی کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہو جاؤ؟

مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر ایمانداری کے باوجود جب مجھے سال میں دو مہینے مفت کی ٹینشن رہتی ہے اور اپنا کام چھوڑ کر جب مجھے ٹیکس کے کاغذ تیار کرنے پڑتے ہیں اور پھر عجیب و غریب چیزیں بھگتنی پڑتی ہیں تو پھر میں اس سے تنگ آتا ہوں۔ مجھے چپ کر کے سکون سے اپنا کام کرنے دیں اور میرے لئے ٹیکس ادا کرنا آسان بنائیں۔ مجھے اچھی بھلی رقم اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کو ادا کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود مفت کی ٹینشنیں سر پر سوار ہوتی ہیں۔ پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آدمی ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہی نہ ہو۔ چار پیسے بھی بچیں گے اور بندہ سکون سے اپنا کام بھی کرے گا؟ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے تاجروں کا یہی موقف اور خوف ہے کہ وہ ایک چنگل میں پھنس جائیں گے اور پھر اپنے کاروبار کی بجائے اس کی ٹینشن زیادہ لیں گے۔

حکومت کا پہلا ہدف ہی سسٹم کو سادہ کرنا ہونچا چاہیے تاکہ ٹیکس پیئر کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اتنا سادہ کہ ایک عام آدمی سہولت سے بے خوف ہو کر ریٹرن جمع کروا سکے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ جو رجسٹر ہو جاتے ہیں ٹیکس سسٹم ان کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور ان سے کسی بھی طریقے سے مزید رقم نکلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک خاص حد سے کم آمدنی والے فرد یا کمپنی کا تو آڈٹ کال ہی نہیں ہونا چاہیے اور کاغذات کی ریکوائرمنٹ سادہ ترین ہونی چاہیے جو پوری کرنا آسان ہو۔

کیا آپ کو علم ہے کہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، خواہ اس کا سالانہ ٹرن اوور ایک لاکھ سے بھی کم ہو، پندرہ ہزار سے اوپر رقم ادا کرتے وقت چیک استعمال کرنے اور ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کی پابند ہے۔ چیک مارکیٹ میں ظاہر ہے قبول نہیں کیا جاتا۔ اب وہ کمپنی مجبور ہو کر 20 ہزار کیش دے گی اور ٹیکس والوں کا پھر جرمانہ بھگتے گی کہ میاں چیک سے پیمنٹ کیوں نہیں کی؟

کتنی چھوٹی کمپنیاں ہیں جو سال کے دس لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ تک کماتی ہیں۔ کیا ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ تیس چالیس ہزار ماہانہ والا ایک اکاونٹنٹ رکھیں اور ٹیکس کنسلٹنٹ اس کے علاوہ ہو؟ کیا ان کے لئے سلیب بنا کر سسٹم کو سادہ نہیں کیا جا سکتا؟ جو کمپنی جتنا زیادہ کماتی ہے اس کے لئے ریکوائرمنٹ سخت کرتے جائیں لیکن چھوٹے کاروبار کے لئے جتنی ممکن ہو آسانیاں فراہم کریں۔ ان کا معیشت میں یہ حصہ ہی بہت ہے کہ وہ لوگوں کو ملازمتیں دے کر بہت سے گھروں کے چولہے روشن رکھتی ہیں۔

شناختی کارڈ کی شرط سے میں متفق ہوں اور عرصے سے اس کا حامی ہوں۔ میں کسی کو پیمنٹ کرتے وقت اس کا ودہولڈنگ ٹیکس کیوں کاٹوں؟ اسے اس کی نیٹ پیمنٹ کروں اور اس سے شناختی کارڈ والی رسید لوں۔ آگے ایف بی آر اس سے ٹیکس لے۔ اب اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ میں دفتر کے مالک کو کرایہ ادا کرتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ ٹیکس میں آپ رجسٹر ہیں اور یہ آپ کا مسئلہ ہے آپ خود بھگتیں، سو اس کا ودہولڈنگ ٹیکس بھی مجھے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ یا میں جب بازار سے کوئی چیز خریدتا ہوں تو پھر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر میرے پاس رسید پر ان کا شناختی کارڈ نمبر ہو گا تو دوسرے لوگوں کا انکم ٹیکس مجھے نہیں دینا پڑے گا۔ لیکن شناختی کارڈ کی شرط کو لاگو کرتے وقت یہ تو اطمینان دلایا جائے کہ آپ سے صرف ٹیکس لیں گے، آپ کی زندگی کو اتنا عذاب نہیں کریں گے کہ آپ کاروبار کرنے کی بجائے کاغذ پورے کرتے رہیں۔

تاجروں اور کاروباری افراد سے مل کر ایسا سسٹم بنایا جانا چاہیے جو ان کے لئے آسان ہو، بجائے اس کے کہ وہ ٹیکس اور اکاونٹنگ کے ماہرین کا کام آسان کرے۔ ٹیکس کولیکٹر کو اپنے کاغذوں پر محنت کرنے دیں، وہ اس کی اچھی تنخواہ لیتے ہیں، ٹیکس پیئر کی ریٹرن کو آسان بنا کر اسے سکون سے اپنے کاروبار پر فوکس کرنے دیں۔

سیلز ٹیکس کا سسٹم بھی بہت عجیب و غریب ہے۔ سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے 30 جنوری کو اپنے کلائنٹ کو انوائس دی ہے تو آپ 10 فروری تک اسے فائل کریں اور 15 فروری تک اس انوائس پر جو بھی ٹیکس بنا ہے وہ جمع کروائیں۔ سروسز میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ نے آج جو انوائس دی ہے اس کی ادائیگی تین چار مہینے بعد ہو گی۔ یعنی اس انوائس کے بدلے آپ کو رقم نہیں ملی مگر آپ نے اس کا ٹیکس جمع کروانا ہے۔ اب اگر ایک سروسز والے شخص کے پاس جیب میں فالتو پیسے نہیں ہیں تو وہ یہ ایڈوانس سیلز ٹیکس ادا نہیں کر سکتا اور جرمانے اور پیشیاں بھگتے گا۔ ورنہ وہ دس لاکھ کی انوائیس دینے سے پہلے کہیں سے ادھار پکڑ کر یہ یقینی بنائے کہ اس کے پاس ایک لاکھ ساٹھ ہزار موجود ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہے کہ انوائس کی تاریخ کی بجائے ادائیگی کی تاریخ کے حساب سے یہ سیلز ٹیکس ادا کیا جائے؟

یہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی بات تھی۔ تاجروں کے مسائل اس سے بہت زیادہ ہیں۔ انہیں سٹاک، سیلز پرچیز اور نہ جانے کس کس پر کیا کیا پیچیدگی بھگتنی پڑتی ہے۔ مجھے بھی بہت غصہ چڑھتا ہے کہ اچھرے یا اعظم کلاتھ مارکیٹ میں ایک چھوٹے سے کھوکھے والا مہینے کا ایک لاکھ کرایہ ادا کر دیتا ہے مگر ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ مگر مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کی بددیانتی کے علاوہ اس کے ٹیکس ادا نہ کرنے میں سسٹم کی پیچیدگی کا کتنا حصہ ہو سکتا ہے۔

پہلے قدم کے طور پر ہنگامی بنیادوں پر کاروباری افراد کی مشاورت سے ٹیکس سسٹم کو اتنا سادہ بنائیں کہ ٹیکس دہندہ آسانی سے اس کا حصہ بن سکے۔ اس کے بعد جو لوگ حصہ نہیں بنتے انہیں پکڑا جائے۔ ٹیکس سسٹم میں کاغذات کی ریکوائرمنٹ پانچ سے دس سال کے عرصے میں بڑھاتے رہیں مگر شروع کے دو چار سال انہیں کم سے کم رکھیں۔ یہ پانچ سے دس سال میں کرنے والا کام ہے جو ایک مہینے میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور معیشت کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔

پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال آتا ہے کہ جب ہمارے ملک کے وزرائے اعظم، وزرا اور اراکین اسمبلی شاہانہ طرز زندگی گزارنے کے باوجود یا تو ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے یا اتنا کم کرتے ہیں کہ ایک مڈل کلاس کا شخص بھی اس سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتا ہے، تو ایسی حکومتوں کے کہنے پر کون ٹیکس دینے کو تیار ہو گا؟ سب سے پہلے اراکین پارلیمنٹ سے تو ٹیکس لینا شروع کریں، اس کے بعد عام شہریوں سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت اچھی لگے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
گبر اور ٹیکس دینے سے انکاری تاجر
14/07/2019 عدنان خان کاکڑ


حکومت ڈنڈے کے زور پر ہماری غیر تحریری معیشت کو یکلخت ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور تاجر ملک گیر ہڑتالیں کر کے اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف بھی یہ کوشش کر چکے ہیں مگر جب ملک کی معیشت اچانک جامد ہو گئی اور سرمایہ دار ملک سے بھاگ کر کینیڈا، دبئی اور بنگلہ دیش وغیرہ میں اپنا کاروبار منتقل کرنے لگا تو پھر جنرل مشرف نے اپنی مہم ترک کی۔ گبر سنگھ کے انداز میں حکومت ایک دو مرتبہ تو ٹیکس وصول کر سکتی ہے، مگر نتیجہ یہ ہو گا کہ سرمایہ دار کسی ایسے ملک کا رخ کرے گا جہاں گبر سنگھ نہ ہو خواہ ٹیکس کی شرح زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا نتیجہ معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

معاملہ یہ ہے کہ کام کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ یکلخت انقلابی تبدیلی تباہی لاتی ہے۔ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے کے لئے ارتقائی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پہلے ٹیکس سسٹم کو مکمل اوور ہال کرنے اور ٹیکس پیئر فرینڈلی بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ بابو فرینڈلی ہے اور ٹیکس پیئر کو اتنی مشکل میں گرفتار کرتا ہے کہ بابو اس سے رشوت لے سکے۔ ٹیکس سسٹم اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ کاروباری آدمی چاہے جتنی ایمانداری سے بھی ٹیکس دے رہا ہوں، اس کے کاغذات میں سقم نکل آئے گا۔

میں دہائیوں سے نہایت ایمانداری سے اپنا ٹیکس دینے اور اس بات پر جلنے کڑھنے کے باوجود کہ مجھ سے بہت زیادہ امیر کاروباری افراد ٹیکس کیوں نہیں دیتے، اس وقت تاجروں کے موقف کو زیادہ درست سمجھتا ہوں۔

پہلے ٹیکس سسٹم کی چند مشکلات کا ذکر کرتے ہیں۔ تاجروں کے لئے یہ مشکلات اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اگر آپ بلڈنگ شیئر کر رہے ہیں اور کرایہ نامہ آپ کی چھوٹی سی کمپنی کے نام پر نہیں ہے تو آپ ایف بی آر میں رجسٹر ہو کر اپنا ٹیکس نمبر نہیں لے سکتے؟ جبکہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا ہو تو آپ اپنی کمپنی کے پتے کی تصدیق کے لئے محض بجلی گیس وغیرہ کا بل دے کر اکاؤنٹ کھلوا سکتے ہیں۔ بعد میں بینک کورئیر کے ذریعے ایک خط اس پتے پر بھیج کر دہری تصدیق کر لیتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ بینک اکاؤنٹ کھلوانا تو آسان ہے لیکن ٹیکس نمبر لینا مشکل؟ اچھا آپ یہ سوچتے ہیں کہ چلو میں اپنے رہائشی گھر کے پتے پر ٹیکس میں رجسٹر ہو جاتا ہوں۔ اب آپ کو علم ہوتا ہے کہ ایف بی آر والے مکان کی رجسٹری اور اگر مکان پر کوئی قرضہ ہے تو اس کے مکمل کاغذات لئے بغیر آپ کو ٹیکس سسٹم میں رجسٹر کرنے سے انکاری ہیں۔ پھر این ٹی این لیتے وقت آپ کی پانچ چھوٹی چھوٹی سی کمپنیاں رجسٹر ہیں تو آپ کو اپنے ذاتی ٹیکس نمبر سمیت چھے فون سمز چاہئیں ورنہ آپ ٹیکس کے لئے رجسٹر نہیں ہو سکتے۔

کیا آپ نے ایف بی آر یا پی آر اے کی سائٹ پر جا کر اپنا سالانہ یا ماہانہ ٹیکس خود فائل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کر کے دیکھیں۔ بہت کچھ پتہ چلے گا۔ میں اکاونٹنگ سے واقف ہونے اور کمپیوٹر ایکسپرٹ ہونے کے باوجود اپنا ٹیکس خود فائل نہیں کر سکتا ہوں۔ حالانکہ میری انکم ٹرانزیکشن بہت سادہ ہوتی ہیں اور سال میں بہت کم۔ اس آن لائن فارم کو سادہ کیوں نہیں کیا جا سکتا ہے؟

میں نہایت ایمانداری سے پورا ٹیکس 1996 سے ادا کر رہا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ایماندار آدمی کے لئے ٹیکس سسٹم عذاب ہے۔ کاغذ پورے کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ میں ایک سادہ اور ایماندار آدمی کی حیثیت سے سوچتا ہوں کہ چلو مجھے سہولتیں نہ ملیں خیر ہے۔ میں ٹیکس کو ملک کے غریبوں کے لئے صدقہ خیرات یا ملک کے لئے اپنی فرض وغیرہ سمجھ کر ادا کرنے کے لئے راضی خوشی تیار ہوں۔ ایسے میں میں کیسے کسی کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہو جاؤ؟

مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر ایمانداری کے باوجود جب مجھے سال میں دو مہینے مفت کی ٹینشن رہتی ہے اور اپنا کام چھوڑ کر جب مجھے ٹیکس کے کاغذ تیار کرنے پڑتے ہیں اور پھر عجیب و غریب چیزیں بھگتنی پڑتی ہیں تو پھر میں اس سے تنگ آتا ہوں۔ مجھے چپ کر کے سکون سے اپنا کام کرنے دیں اور میرے لئے ٹیکس ادا کرنا آسان بنائیں۔ مجھے اچھی بھلی رقم اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ کو ادا کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود مفت کی ٹینشنیں سر پر سوار ہوتی ہیں۔ پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آدمی ٹیکس سسٹم میں رجسٹر ہی نہ ہو۔ چار پیسے بھی بچیں گے اور بندہ سکون سے اپنا کام بھی کرے گا؟ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے تاجروں کا یہی موقف اور خوف ہے کہ وہ ایک چنگل میں پھنس جائیں گے اور پھر اپنے کاروبار کی بجائے اس کی ٹینشن زیادہ لیں گے۔

حکومت کا پہلا ہدف ہی سسٹم کو سادہ کرنا ہونچا چاہیے تاکہ ٹیکس پیئر کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اتنا سادہ کہ ایک عام آدمی سہولت سے بے خوف ہو کر ریٹرن جمع کروا سکے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ جو رجسٹر ہو جاتے ہیں ٹیکس سسٹم ان کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور ان سے کسی بھی طریقے سے مزید رقم نکلوانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک خاص حد سے کم آمدنی والے فرد یا کمپنی کا تو آڈٹ کال ہی نہیں ہونا چاہیے اور کاغذات کی ریکوائرمنٹ سادہ ترین ہونی چاہیے جو پوری کرنا آسان ہو۔

کیا آپ کو علم ہے کہ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی، خواہ اس کا سالانہ ٹرن اوور ایک لاکھ سے بھی کم ہو، پندرہ ہزار سے اوپر رقم ادا کرتے وقت چیک استعمال کرنے اور ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کی پابند ہے۔ چیک مارکیٹ میں ظاہر ہے قبول نہیں کیا جاتا۔ اب وہ کمپنی مجبور ہو کر 20 ہزار کیش دے گی اور ٹیکس والوں کا پھر جرمانہ بھگتے گی کہ میاں چیک سے پیمنٹ کیوں نہیں کی؟

کتنی چھوٹی کمپنیاں ہیں جو سال کے دس لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ تک کماتی ہیں۔ کیا ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ تیس چالیس ہزار ماہانہ والا ایک اکاونٹنٹ رکھیں اور ٹیکس کنسلٹنٹ اس کے علاوہ ہو؟ کیا ان کے لئے سلیب بنا کر سسٹم کو سادہ نہیں کیا جا سکتا؟ جو کمپنی جتنا زیادہ کماتی ہے اس کے لئے ریکوائرمنٹ سخت کرتے جائیں لیکن چھوٹے کاروبار کے لئے جتنی ممکن ہو آسانیاں فراہم کریں۔ ان کا معیشت میں یہ حصہ ہی بہت ہے کہ وہ لوگوں کو ملازمتیں دے کر بہت سے گھروں کے چولہے روشن رکھتی ہیں۔

شناختی کارڈ کی شرط سے میں متفق ہوں اور عرصے سے اس کا حامی ہوں۔ میں کسی کو پیمنٹ کرتے وقت اس کا ودہولڈنگ ٹیکس کیوں کاٹوں؟ اسے اس کی نیٹ پیمنٹ کروں اور اس سے شناختی کارڈ والی رسید لوں۔ آگے ایف بی آر اس سے ٹیکس لے۔ اب اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ میں دفتر کے مالک کو کرایہ ادا کرتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ ٹیکس میں آپ رجسٹر ہیں اور یہ آپ کا مسئلہ ہے آپ خود بھگتیں، سو اس کا ودہولڈنگ ٹیکس بھی مجھے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ یا میں جب بازار سے کوئی چیز خریدتا ہوں تو پھر بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر میرے پاس رسید پر ان کا شناختی کارڈ نمبر ہو گا تو دوسرے لوگوں کا انکم ٹیکس مجھے نہیں دینا پڑے گا۔ لیکن شناختی کارڈ کی شرط کو لاگو کرتے وقت یہ تو اطمینان دلایا جائے کہ آپ سے صرف ٹیکس لیں گے، آپ کی زندگی کو اتنا عذاب نہیں کریں گے کہ آپ کاروبار کرنے کی بجائے کاغذ پورے کرتے رہیں۔

تاجروں اور کاروباری افراد سے مل کر ایسا سسٹم بنایا جانا چاہیے جو ان کے لئے آسان ہو، بجائے اس کے کہ وہ ٹیکس اور اکاونٹنگ کے ماہرین کا کام آسان کرے۔ ٹیکس کولیکٹر کو اپنے کاغذوں پر محنت کرنے دیں، وہ اس کی اچھی تنخواہ لیتے ہیں، ٹیکس پیئر کی ریٹرن کو آسان بنا کر اسے سکون سے اپنے کاروبار پر فوکس کرنے دیں۔

سیلز ٹیکس کا سسٹم بھی بہت عجیب و غریب ہے۔ سروسز پر سیلز ٹیکس کی شرط یہ ہے کہ اگر آپ نے 30 جنوری کو اپنے کلائنٹ کو انوائس دی ہے تو آپ 10 فروری تک اسے فائل کریں اور 15 فروری تک اس انوائس پر جو بھی ٹیکس بنا ہے وہ جمع کروائیں۔ سروسز میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ نے آج جو انوائس دی ہے اس کی ادائیگی تین چار مہینے بعد ہو گی۔ یعنی اس انوائس کے بدلے آپ کو رقم نہیں ملی مگر آپ نے اس کا ٹیکس جمع کروانا ہے۔ اب اگر ایک سروسز والے شخص کے پاس جیب میں فالتو پیسے نہیں ہیں تو وہ یہ ایڈوانس سیلز ٹیکس ادا نہیں کر سکتا اور جرمانے اور پیشیاں بھگتے گا۔ ورنہ وہ دس لاکھ کی انوائیس دینے سے پہلے کہیں سے ادھار پکڑ کر یہ یقینی بنائے کہ اس کے پاس ایک لاکھ ساٹھ ہزار موجود ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہے کہ انوائس کی تاریخ کی بجائے ادائیگی کی تاریخ کے حساب سے یہ سیلز ٹیکس ادا کیا جائے؟

یہ سروسز پر سیلز ٹیکس کی بات تھی۔ تاجروں کے مسائل اس سے بہت زیادہ ہیں۔ انہیں سٹاک، سیلز پرچیز اور نہ جانے کس کس پر کیا کیا پیچیدگی بھگتنی پڑتی ہے۔ مجھے بھی بہت غصہ چڑھتا ہے کہ اچھرے یا اعظم کلاتھ مارکیٹ میں ایک چھوٹے سے کھوکھے والا مہینے کا ایک لاکھ کرایہ ادا کر دیتا ہے مگر ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ مگر مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس کی بددیانتی کے علاوہ اس کے ٹیکس ادا نہ کرنے میں سسٹم کی پیچیدگی کا کتنا حصہ ہو سکتا ہے۔

پہلے قدم کے طور پر ہنگامی بنیادوں پر کاروباری افراد کی مشاورت سے ٹیکس سسٹم کو اتنا سادہ بنائیں کہ ٹیکس دہندہ آسانی سے اس کا حصہ بن سکے۔ اس کے بعد جو لوگ حصہ نہیں بنتے انہیں پکڑا جائے۔ ٹیکس سسٹم میں کاغذات کی ریکوائرمنٹ پانچ سے دس سال کے عرصے میں بڑھاتے رہیں مگر شروع کے دو چار سال انہیں کم سے کم رکھیں۔ یہ پانچ سے دس سال میں کرنے والا کام ہے جو ایک مہینے میں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور معیشت کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔

پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال آتا ہے کہ جب ہمارے ملک کے وزرائے اعظم، وزرا اور اراکین اسمبلی شاہانہ طرز زندگی گزارنے کے باوجود یا تو ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے یا اتنا کم کرتے ہیں کہ ایک مڈل کلاس کا شخص بھی اس سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتا ہے، تو ایسی حکومتوں کے کہنے پر کون ٹیکس دینے کو تیار ہو گا؟ سب سے پہلے اراکین پارلیمنٹ سے تو ٹیکس لینا شروع کریں، اس کے بعد عام شہریوں سے ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت اچھی لگے گی۔

یہ کالم حقیقت کی درست عکاسی کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ اشتہار جس نے بھی بنایا ہے وہ بس چغد ہی ہے۔

موجودہ بحٹ 19-2018 کا نہیں بلکہ 20-2019 کا ہے اور کل محصولات کا ہدف بھی 20-2019 کا ہے۔ 19-2018 میں تو اس سے آدھے ہی اکٹھے کر پائی ہے یہ حکومت، اور موجودہ ہدف پورا کرنے کے لیے شبر، گبر بنا ہوا ہے اور عوام 'کالیا'۔
 
Top