فرخ منظور
لائبریرین
ٹیکسٹ بک کا استبداد
تحریر: ڈاکٹر ساجد علی
کوئی ایک عشرہ قبل لاہور میں ایک پرائیو یٹ یونیورسٹی نے مجھے کمپیوٹر سائنس کے طلبہ کو فلسفے کا ایک ابتدائی کورس پڑھانے کی دعوت دی۔ کورس آؤٹ لائن پر گفتگو کرنے کے لیے جب میں ڈین صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں کون سی ٹیکسٹ بک استعمال کروں گا۔ میرا جواب تھا کہ فلسفے میں ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی۔ یہ جواب ان کے لیے کسی حد تک صدمہ انگیز تھا۔ کہنے لگے کہ کسی مضمون کو ٹیکسٹ بک کے بغیر کس طرح پڑھایا جا سکتا ہے۔ خیر کچھ دیر تبادلہ خیال کے بعد وہ میرے موقف کے تو شاید قائل نہ ہوئے مگر بادل نخواستہ انہوں نے مجھے اپنی مرضی سے کورس پڑھانے کی اجازت دے دی۔
میرا موقف تھا کہ ٹیکسٹ بک کا تصور اصلاً ایک مذہبی تصور ہے ۔ اور فلسفے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اجمال کسی قدر تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔
انسانی معاشروں میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر معاشرے میں تعلیم پر اہل مذہب کا اجارہ رہا ہے۔ مذہبی عقائد مسلمات پر مبنی ہوتے ہیں جن میں کسی چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر معاملے پر ایک قطعی اور دو ٹوک رائے ہوتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے۔ تمام امور طے شدہ ہوتے ہیں اور ان پر نہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ان کے جواز پر کوئی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ عام لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر ایسی کتابیں تحریر کی جاتی ہیں جن میں صرف مصدقہ عقائد درج کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں مخالف مذاہب کے گمراہ کن عقائد کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ بھٹکنے نہ پائیں۔ صحیح عقائد کو بیان کرنے کے لیے سوالاً جواباً کتابیں بھی تحریر کی جاتی تھیں۔ گاؤں میں ہمارے گھر کے پاس جو مسجد تھی اس کے امام صاحب باقاعدہ تعلیم یافتہ نہ تھے مگر اردو پڑھ لیتے تھے۔ جب کبھی جامع مسجد کے امام حاضر نہ ہوتے تو انہیں جمعہ پڑھانے کے لیے کہا جاتا۔ ان کے پاس پنجابی نظم میں ایک کتاب ہوتی تھی جس کا انداز کچھ یوں ہوتا تھا: جے کوئی پچھے۔۔۔تے توں آکھیں۔ اب مجھے یہ یاد نہیں کہ اس کتاب کا نام کیا تھا۔
مذہبی فکر میں صرف مستند بات کو قبول کیا جاتا ہے اس لیے دوسرے فرقوں اور مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ ہمیں اردو کے مشہور نقاد مرحوم محمد حسن عسکری صاحب کے ہاں ملتا ہے۔ گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں الہٰ آباد کے معروف نقاد شمس الرحمان فاروقی نے حسن عسکری صاحب کو ایک خط میں [حمید الدین] فراہی صاحب کی کوئی کتاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا تو عسکری صاحب نے 10 جون 1968 ءکو جواب میں لکھا: مجھے علم دین تو حاصل نہیں اس لیے میں ایسی کتابیں بالکل نہیں پڑھتاجو سو فیصد پکی نہ ہوں۔ فراہی صاحب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ ان کے عقائد کچھ گڑبڑ تھے۔ مجھے تحقیق کرنے کی تو فرصت نہیں، میرے جیسے لوگوں کے لیے تو ایسی چیزوں سے دور رہنا ہی اچھا ہے۔ (عسکری بنام فاروقی۔ روایت، کتابی سلسلہ نمبر ۱، مرتبہ محمد سہیل عمر، ص 87)
عسکری صاحب نے مذہبی رویے کو بہت اچھی طرح بیان کر دیا ہے کہ یہاں صرف سو فیصد پکی کتابیں ہی پڑھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ رواں صدی کے دوسرے یا تیسرے برس پنجاب یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے طلبہ کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں لاہور کے بہت نامور مذہبی گھرانے کے ایک فرد بھی موجود تھے جو اسلامیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے تھے۔ گفتگو کے دوران میں کسی طالب علم نے خلق قرآن کے مسئلے پر کوئی بات کر دی تو ان صاحب نے بہت غصے کے عالم میں کہا کہ طے شدہ امور پر ہرگز کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اب میں حیران تھا کہ اگر تمام امور طے شدہ ہیں تو وہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ کس موضوع پر تحریر کریں گے۔
ٹیکسٹ بک کے تصور نے اگرچہ مذہبی مدارس میں جنم لیا مگر جدید درسگاہیں بھی اس تصور سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جدید دنیا میں جو یونیورسٹیاں ہیں وہ ابتداً مذہبی مدارس ہی تھے۔ یہ تو انقلاب فرانس تھا جس کے بعد تعلیم مذہبی تسلط سے آزاد ہوئی ہے۔ مغرب میں جب سائنسی انقلاب برپا ہوا تو وہ مذہب کے نہیں بلکہ مذہب کے فکری استبداد کے خلاف تھا۔ کوپرنیکس، کیپلر، گیلی لیو اور نیوٹن سمیت زیادہ تر لوگ کٹڑ مذہبی تھے لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری تھے کہ ہر بات کی بائبل سے یا چرچ سے تصدیق ضروری ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مذہبی استبداد سے آزاد ہونے کے باوجود تعلیم فکری استبداد سے آزاد نہ ہو سکی۔ کارل پوپر کا کہنا تھا کہ مغربی فکر کا سانچہ الٰہیاتی ہے۔ سائنسی انقلاب بھی ایک نئے سیکولر مذہب کا نقطہ آغاز تھا جس کا پیغمبر فرانسس بیکن تھا۔ اس انقلاب میں تبدیلی یہ آئی کہ مذہب میں جہاں خدا کا لفظ آتا تھا اس کی جگہ فطرت کا لفظ رکھ دیا گیا۔ خدائی قوانین کو قوانین فطرت، خدا کی قدرت کو فطرت کی طاقتوں سے بدل دیا گیا۔ ڈارون کے بعد خدا کے ڈیزائن کی جگہ طبعی انتخاب کو مل گئی۔ الٰہیاتی جبریت کو سائنسی جبریت کا نام دے دیا گیا۔ ان تمام تر تبدیلیوں کے باوجود فکری سانچے میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکا اور اس میں تحکم اور ادعا کا ہی غلبہ رہا۔
میری بدقسمتی ہے کہ میں کبھی سائنس کا طالب علم نہیں رہا اس لیے اس کے نصابات کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ البتہ سائنس پڑھنے والوں سے جب بھی کبھی گفتگو کا موقع ملا تو الا ماشاءاللہ میں نے انہیں کبھی مولویوں سے مختلف نہیں پایا۔ سائنس کے نصابات کے بارے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ ان میں جو بھی نظریہ بیان کیا جاتا ہے وہ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ وہ تازہ ترین سائنسی نظریات کے متعلق اسی جزم کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں جس طرح حنفی فقہ کے مدارس میں مولوی حضرات حنفی فقہ کے بارے میںکرتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ خود سائنس میں بعض بہت بڑے نام کچھ مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ طبیعیات میں کوانٹم فزکس نیلز بوہر کی تعبیر، جسے کوپن ہیگن تعبیر کہا جاتا ہے، کے مطابق پڑھائی جاتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں آئن سٹائن کی رائے کچھ اور تھی، ڈیوڈ بوہم بھی کوپن ہیگن تعبیر سے متفق نہیں تھا۔ کوئی دو دہائیاں قبل کچھ سائنس دان ریاضیاتی طور پر ڈیوڈ بوہم کے موقف کو درست ثابت کر چکے ہیں، اور آئن سٹائن کی تائید کرتے ہوئے کوپن ہیگن تعبیرکورد کر چکے ہیں۔ ڈیوڈ بوہم کے بارے میں یہ معلومات اس کتاب سے ماخوذ ہیں: (Paul R. Gross & Norman Levitt. Higher Supersition: The Academic Left and its Quarrels with Science ) میں اس لائق نہیں ہوں کہ اس نئی تعبیر پر کوئی رائے دے سکوں؛صرف اس خیال کا اظہار مقصود ہے کہ نہ یہ باتیں نصابی کتب میں جگہ پاتی ہیں اور نہ طالب علم ان سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اگر میں اپنے مضمون کا جائزہ لوں تو عجیب و غریب صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف فلسفیانہ مکاتب فکر اتنے ہی تنگ نظر ہیں جتنا کہ مذہبی یا نظریاتی گروہ۔ بیسویں صدی میں اگر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کارل پوپر کا نام شاید سرفہرست ہو۔ اگر کوئی Citation Index دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مختلف علوم میں جن فلسفیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں کارل پوپر کا نام سب سے اوپر ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کے بعد پوپر ہے جس نے استقرائی منطق (Inductive logic ) پر سب سے موثر تنقید کی ہے۔ اس کی تنقید کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کسی ابتدائی نصابی کتاب میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاتاکہ استقرائی استدلال منطقی صحت کا حامل ہوتا ہے بلکہ قوی اور ضعیف استقرا کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وٹگنسٹائن کے ایک شاگرد نے استقرائی منطق پر کتا ب لکھی تو پوپر کا کہیں نام لینا بھی مناسب نہیںسمجھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں فلسفے کے شعبوں پر وٹگنسٹائن کے پیروکاروں کا غلبہ ہو گیا اس لیے فلسفے کے نصابوں میں آج تک پوپر کو جگہ نہیں مل سکی۔ ترقی یافتہ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پوپر کے فلسفے پر کوئی کورس نہیں پڑھایا جاتا۔
تحلیلی فلسفے پر شائع ہونے والی ایک کتاب ( Companion to Analytic Philosophy, 2001) کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ فہرست مشمولات میں کارل پوپر کا نام دیکھ کر حیرت ہوئی مگر جن پروفیسر صاحب نے وہ مضمون لکھا تھا ان کا نام دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے کیا لکھا ہوگا۔ پروفیسر موصوف لکھتے ہیں کہ اینگلو سیکسن معیار کے مطابق پوپر فلسفی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پوپر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس بات سے انکار کہ سائنس دان استقرا پر عمل کرتے ہیں، بڑے حوصلے کی بات ہے۔ پروفیسر صاحب کو آکسفرڈ یونیورسٹی میں بیٹھ کر، پچاس برس بعد بھی یہ خبر نہیں ملی کہ زیادہ تر سائنس دان پوپر کی بات سے متفق ہو چکے ہیں۔ مدرسوں کی بات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ برٹرینڈ رسل کے بعد سب سے زیادہ پوپر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اس کی تمام تر کتابیں پیپر بیک میں دستیاب ہیں اور ان کے ایڈیشن مسلسل چھپ رہے ہیں۔
کچھ یہی حال معاشیات کے نصابات کا ہے۔ ابھی تک ہرجگہ کینز ( Keneys)کی معاشیات پڑھائی جا رہی ہے۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے بزرگ دوست، شیخ صلاح الدین صاحب، کو میں نے ایف۔ اے۔ ہائک کی کتاب[ Law, Legislation and Liberty] مطالعہ کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد جب میں شیخ صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ بہت حیران تھے کہ انہوں نے معاشیات کے کئی پروفیسروں سے پوچھا مگر کسی کو اس کا نام بھی معلوم نہیں۔ واضح رہے کہ سنہ 1974 ء میں ہائک کو اقتصادیات کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور وہ فری مارکیٹ اکانومی کا علمبردار پہلا ماہر اقتصادیات تھا جو نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرا تھا مگر اکنامکس کی درسی کتابوں میں آج تک اس کا نام جگہ نہیں پا سکا ۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ مطالعہءپاکستان اور تاریخ کی کتابوں میں غلط باتیں پڑھائی جاتی ہیں۔ تاریخ اور معاشرتی علوم تو خیر ایسے مضامین ہیں جو ہر ملک میں اپنے سرکاری اور قومی موقف کی تائید میں پڑھائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی کی شاید نوے کی دہائی میں امریکہ کے سکولوں میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ طالب علموں کی کثیر تعداد اس بات سے بے خبر تھی کہ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم امریکی حکومت نے گرائے تھے۔ اس بات کو میں کسی جواز میں پیش نہیں کر رہا بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جہاں معروضی حقائق کو ثابت کرنا ایک دشوار امر ہے۔ تاریخ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ تر درباری مصنفین نے لکھی ہے اور اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق لکھی گئی ہے یا پھر اس میں قومی مفادات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ برٹرینڈ رسل کہا کرتا تھا کہ تاریخ ہمیشہ کسی دوسری قوم کے فرد کو لکھنی چاہیے۔ مگر تعصب کا مسئلہ تو شاید پھر بھی حل نہ سکے۔ ایک برطانوی کے لیے فرانسیسی یا جرمن کی لکھی ہوئی تاریخ قابل قبول نہ ہو گی۔ امریکہ میں تو شمال اور جنوب کے اختلافات ابھی تک موجود ہیں۔ جنوب کے مورخین ابراہام لنکن کو ہیرو تسلیم کرنے سے آج بھی انکاری ہیں۔ان کے نزدیک وہ ایک جمہوری رہنما کے بجائے ایک آمر تھا ۔
چنانچہ میرا موقف یہ ہے کہ تعلیمی نقطہ نظر سے ٹیکسٹ بک کی افادیت مشکوک ہے کیونکہ ہر ٹیکسٹ بک اپنے مضمون کی ایک غلط اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں مجادلہ افکار کہیں نظر نہیں آتا بلکہ مضمون کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جہاں سب کچھ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ ہر مضمون کی ٹیکسٹ بک اس مضمون کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لیے جو لوگ خود کو نصابی کتابوں کے مطالعے تک محدود کر لیتے ہیں ان میں جدت فکر کے آثار کبھی نمودار نہیں ہوتے۔ ان کتابوں کے گمراہ کن اثرات کے بارے میں ناصر کاظمی کا کیا خوبصورت تبصرہ ہے کہ ”درسی کتابوں کی چھت کے نیچے تو آسمان بھی نظر نہیں آتا۔“ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی ذہنی نشوو نما درست انداز میں ہو سکے اور وہ حیات اور کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو سکیں تو ہمیںان کے سروں سے درسی کتابوں کی چھت کو ہٹانا ہو گا۔ میں کتابوں پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں مگرمیرا خیال ہے کہ نصابی کتابوں کے قابل ضبطی ہونے میں کوئی ہرج نہیں ۔
اپنا تو بچپن سے وہ حال رہا ہے جسے یار عزیز باصر کاظمی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے:
ہم سے باصر کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شامل نصاب، کتاب
تحریر: ڈاکٹر ساجد علی
کوئی ایک عشرہ قبل لاہور میں ایک پرائیو یٹ یونیورسٹی نے مجھے کمپیوٹر سائنس کے طلبہ کو فلسفے کا ایک ابتدائی کورس پڑھانے کی دعوت دی۔ کورس آؤٹ لائن پر گفتگو کرنے کے لیے جب میں ڈین صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں کون سی ٹیکسٹ بک استعمال کروں گا۔ میرا جواب تھا کہ فلسفے میں ٹیکسٹ بک نہیں ہوتی۔ یہ جواب ان کے لیے کسی حد تک صدمہ انگیز تھا۔ کہنے لگے کہ کسی مضمون کو ٹیکسٹ بک کے بغیر کس طرح پڑھایا جا سکتا ہے۔ خیر کچھ دیر تبادلہ خیال کے بعد وہ میرے موقف کے تو شاید قائل نہ ہوئے مگر بادل نخواستہ انہوں نے مجھے اپنی مرضی سے کورس پڑھانے کی اجازت دے دی۔
میرا موقف تھا کہ ٹیکسٹ بک کا تصور اصلاً ایک مذہبی تصور ہے ۔ اور فلسفے میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ اجمال کسی قدر تفصیل کا تقاضا کرتا ہے۔
انسانی معاشروں میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ تقریباً ہر معاشرے میں تعلیم پر اہل مذہب کا اجارہ رہا ہے۔ مذہبی عقائد مسلمات پر مبنی ہوتے ہیں جن میں کسی چوں چرا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر معاملے پر ایک قطعی اور دو ٹوک رائے ہوتی ہے جس کو تسلیم کرنا ہر ایک پر لازم ہوتا ہے۔ تمام امور طے شدہ ہوتے ہیں اور ان پر نہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ان کے جواز پر کوئی دلیل طلب کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ عام لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر ایسی کتابیں تحریر کی جاتی ہیں جن میں صرف مصدقہ عقائد درج کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں مخالف مذاہب کے گمراہ کن عقائد کا بھی تذکرہ کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ بھٹکنے نہ پائیں۔ صحیح عقائد کو بیان کرنے کے لیے سوالاً جواباً کتابیں بھی تحریر کی جاتی تھیں۔ گاؤں میں ہمارے گھر کے پاس جو مسجد تھی اس کے امام صاحب باقاعدہ تعلیم یافتہ نہ تھے مگر اردو پڑھ لیتے تھے۔ جب کبھی جامع مسجد کے امام حاضر نہ ہوتے تو انہیں جمعہ پڑھانے کے لیے کہا جاتا۔ ان کے پاس پنجابی نظم میں ایک کتاب ہوتی تھی جس کا انداز کچھ یوں ہوتا تھا: جے کوئی پچھے۔۔۔تے توں آکھیں۔ اب مجھے یہ یاد نہیں کہ اس کتاب کا نام کیا تھا۔
مذہبی فکر میں صرف مستند بات کو قبول کیا جاتا ہے اس لیے دوسرے فرقوں اور مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے کی سختی سے ممانعت کی جاتی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ ہمیں اردو کے مشہور نقاد مرحوم محمد حسن عسکری صاحب کے ہاں ملتا ہے۔ گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں الہٰ آباد کے معروف نقاد شمس الرحمان فاروقی نے حسن عسکری صاحب کو ایک خط میں [حمید الدین] فراہی صاحب کی کوئی کتاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا تو عسکری صاحب نے 10 جون 1968 ءکو جواب میں لکھا: مجھے علم دین تو حاصل نہیں اس لیے میں ایسی کتابیں بالکل نہیں پڑھتاجو سو فیصد پکی نہ ہوں۔ فراہی صاحب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ ان کے عقائد کچھ گڑبڑ تھے۔ مجھے تحقیق کرنے کی تو فرصت نہیں، میرے جیسے لوگوں کے لیے تو ایسی چیزوں سے دور رہنا ہی اچھا ہے۔ (عسکری بنام فاروقی۔ روایت، کتابی سلسلہ نمبر ۱، مرتبہ محمد سہیل عمر، ص 87)
عسکری صاحب نے مذہبی رویے کو بہت اچھی طرح بیان کر دیا ہے کہ یہاں صرف سو فیصد پکی کتابیں ہی پڑھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے۔ رواں صدی کے دوسرے یا تیسرے برس پنجاب یونیورسٹی میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے طلبہ کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس میں لاہور کے بہت نامور مذہبی گھرانے کے ایک فرد بھی موجود تھے جو اسلامیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے تھے۔ گفتگو کے دوران میں کسی طالب علم نے خلق قرآن کے مسئلے پر کوئی بات کر دی تو ان صاحب نے بہت غصے کے عالم میں کہا کہ طے شدہ امور پر ہرگز کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اب میں حیران تھا کہ اگر تمام امور طے شدہ ہیں تو وہ ڈاکٹریٹ کا مقالہ کس موضوع پر تحریر کریں گے۔
ٹیکسٹ بک کے تصور نے اگرچہ مذہبی مدارس میں جنم لیا مگر جدید درسگاہیں بھی اس تصور سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جدید دنیا میں جو یونیورسٹیاں ہیں وہ ابتداً مذہبی مدارس ہی تھے۔ یہ تو انقلاب فرانس تھا جس کے بعد تعلیم مذہبی تسلط سے آزاد ہوئی ہے۔ مغرب میں جب سائنسی انقلاب برپا ہوا تو وہ مذہب کے نہیں بلکہ مذہب کے فکری استبداد کے خلاف تھا۔ کوپرنیکس، کیپلر، گیلی لیو اور نیوٹن سمیت زیادہ تر لوگ کٹڑ مذہبی تھے لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری تھے کہ ہر بات کی بائبل سے یا چرچ سے تصدیق ضروری ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مذہبی استبداد سے آزاد ہونے کے باوجود تعلیم فکری استبداد سے آزاد نہ ہو سکی۔ کارل پوپر کا کہنا تھا کہ مغربی فکر کا سانچہ الٰہیاتی ہے۔ سائنسی انقلاب بھی ایک نئے سیکولر مذہب کا نقطہ آغاز تھا جس کا پیغمبر فرانسس بیکن تھا۔ اس انقلاب میں تبدیلی یہ آئی کہ مذہب میں جہاں خدا کا لفظ آتا تھا اس کی جگہ فطرت کا لفظ رکھ دیا گیا۔ خدائی قوانین کو قوانین فطرت، خدا کی قدرت کو فطرت کی طاقتوں سے بدل دیا گیا۔ ڈارون کے بعد خدا کے ڈیزائن کی جگہ طبعی انتخاب کو مل گئی۔ الٰہیاتی جبریت کو سائنسی جبریت کا نام دے دیا گیا۔ ان تمام تر تبدیلیوں کے باوجود فکری سانچے میں کوئی تغیر رونما نہیں ہو سکا اور اس میں تحکم اور ادعا کا ہی غلبہ رہا۔
میری بدقسمتی ہے کہ میں کبھی سائنس کا طالب علم نہیں رہا اس لیے اس کے نصابات کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ البتہ سائنس پڑھنے والوں سے جب بھی کبھی گفتگو کا موقع ملا تو الا ماشاءاللہ میں نے انہیں کبھی مولویوں سے مختلف نہیں پایا۔ سائنس کے نصابات کے بارے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ ان میں جو بھی نظریہ بیان کیا جاتا ہے وہ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ وہ تازہ ترین سائنسی نظریات کے متعلق اسی جزم کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں جس طرح حنفی فقہ کے مدارس میں مولوی حضرات حنفی فقہ کے بارے میںکرتے ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ خود سائنس میں بعض بہت بڑے نام کچھ مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ طبیعیات میں کوانٹم فزکس نیلز بوہر کی تعبیر، جسے کوپن ہیگن تعبیر کہا جاتا ہے، کے مطابق پڑھائی جاتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں آئن سٹائن کی رائے کچھ اور تھی، ڈیوڈ بوہم بھی کوپن ہیگن تعبیر سے متفق نہیں تھا۔ کوئی دو دہائیاں قبل کچھ سائنس دان ریاضیاتی طور پر ڈیوڈ بوہم کے موقف کو درست ثابت کر چکے ہیں، اور آئن سٹائن کی تائید کرتے ہوئے کوپن ہیگن تعبیرکورد کر چکے ہیں۔ ڈیوڈ بوہم کے بارے میں یہ معلومات اس کتاب سے ماخوذ ہیں: (Paul R. Gross & Norman Levitt. Higher Supersition: The Academic Left and its Quarrels with Science ) میں اس لائق نہیں ہوں کہ اس نئی تعبیر پر کوئی رائے دے سکوں؛صرف اس خیال کا اظہار مقصود ہے کہ نہ یہ باتیں نصابی کتب میں جگہ پاتی ہیں اور نہ طالب علم ان سے آگاہ ہوتے ہیں۔
اگر میں اپنے مضمون کا جائزہ لوں تو عجیب و غریب صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف فلسفیانہ مکاتب فکر اتنے ہی تنگ نظر ہیں جتنا کہ مذہبی یا نظریاتی گروہ۔ بیسویں صدی میں اگر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کارل پوپر کا نام شاید سرفہرست ہو۔ اگر کوئی Citation Index دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مختلف علوم میں جن فلسفیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں کارل پوپر کا نام سب سے اوپر ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کے بعد پوپر ہے جس نے استقرائی منطق (Inductive logic ) پر سب سے موثر تنقید کی ہے۔ اس کی تنقید کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کسی ابتدائی نصابی کتاب میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاتاکہ استقرائی استدلال منطقی صحت کا حامل ہوتا ہے بلکہ قوی اور ضعیف استقرا کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وٹگنسٹائن کے ایک شاگرد نے استقرائی منطق پر کتا ب لکھی تو پوپر کا کہیں نام لینا بھی مناسب نہیںسمجھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں فلسفے کے شعبوں پر وٹگنسٹائن کے پیروکاروں کا غلبہ ہو گیا اس لیے فلسفے کے نصابوں میں آج تک پوپر کو جگہ نہیں مل سکی۔ ترقی یافتہ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پوپر کے فلسفے پر کوئی کورس نہیں پڑھایا جاتا۔
تحلیلی فلسفے پر شائع ہونے والی ایک کتاب ( Companion to Analytic Philosophy, 2001) کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ فہرست مشمولات میں کارل پوپر کا نام دیکھ کر حیرت ہوئی مگر جن پروفیسر صاحب نے وہ مضمون لکھا تھا ان کا نام دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے کیا لکھا ہوگا۔ پروفیسر موصوف لکھتے ہیں کہ اینگلو سیکسن معیار کے مطابق پوپر فلسفی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پوپر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس بات سے انکار کہ سائنس دان استقرا پر عمل کرتے ہیں، بڑے حوصلے کی بات ہے۔ پروفیسر صاحب کو آکسفرڈ یونیورسٹی میں بیٹھ کر، پچاس برس بعد بھی یہ خبر نہیں ملی کہ زیادہ تر سائنس دان پوپر کی بات سے متفق ہو چکے ہیں۔ مدرسوں کی بات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ برٹرینڈ رسل کے بعد سب سے زیادہ پوپر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اس کی تمام تر کتابیں پیپر بیک میں دستیاب ہیں اور ان کے ایڈیشن مسلسل چھپ رہے ہیں۔
کچھ یہی حال معاشیات کے نصابات کا ہے۔ ابھی تک ہرجگہ کینز ( Keneys)کی معاشیات پڑھائی جا رہی ہے۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے بزرگ دوست، شیخ صلاح الدین صاحب، کو میں نے ایف۔ اے۔ ہائک کی کتاب[ Law, Legislation and Liberty] مطالعہ کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد جب میں شیخ صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ بہت حیران تھے کہ انہوں نے معاشیات کے کئی پروفیسروں سے پوچھا مگر کسی کو اس کا نام بھی معلوم نہیں۔ واضح رہے کہ سنہ 1974 ء میں ہائک کو اقتصادیات کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور وہ فری مارکیٹ اکانومی کا علمبردار پہلا ماہر اقتصادیات تھا جو نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرا تھا مگر اکنامکس کی درسی کتابوں میں آج تک اس کا نام جگہ نہیں پا سکا ۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ مطالعہءپاکستان اور تاریخ کی کتابوں میں غلط باتیں پڑھائی جاتی ہیں۔ تاریخ اور معاشرتی علوم تو خیر ایسے مضامین ہیں جو ہر ملک میں اپنے سرکاری اور قومی موقف کی تائید میں پڑھائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی کی شاید نوے کی دہائی میں امریکہ کے سکولوں میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ طالب علموں کی کثیر تعداد اس بات سے بے خبر تھی کہ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم امریکی حکومت نے گرائے تھے۔ اس بات کو میں کسی جواز میں پیش نہیں کر رہا بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جہاں معروضی حقائق کو ثابت کرنا ایک دشوار امر ہے۔ تاریخ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ تر درباری مصنفین نے لکھی ہے اور اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق لکھی گئی ہے یا پھر اس میں قومی مفادات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ برٹرینڈ رسل کہا کرتا تھا کہ تاریخ ہمیشہ کسی دوسری قوم کے فرد کو لکھنی چاہیے۔ مگر تعصب کا مسئلہ تو شاید پھر بھی حل نہ سکے۔ ایک برطانوی کے لیے فرانسیسی یا جرمن کی لکھی ہوئی تاریخ قابل قبول نہ ہو گی۔ امریکہ میں تو شمال اور جنوب کے اختلافات ابھی تک موجود ہیں۔ جنوب کے مورخین ابراہام لنکن کو ہیرو تسلیم کرنے سے آج بھی انکاری ہیں۔ان کے نزدیک وہ ایک جمہوری رہنما کے بجائے ایک آمر تھا ۔
چنانچہ میرا موقف یہ ہے کہ تعلیمی نقطہ نظر سے ٹیکسٹ بک کی افادیت مشکوک ہے کیونکہ ہر ٹیکسٹ بک اپنے مضمون کی ایک غلط اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں مجادلہ افکار کہیں نظر نہیں آتا بلکہ مضمون کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جہاں سب کچھ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ ہر مضمون کی ٹیکسٹ بک اس مضمون کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لیے جو لوگ خود کو نصابی کتابوں کے مطالعے تک محدود کر لیتے ہیں ان میں جدت فکر کے آثار کبھی نمودار نہیں ہوتے۔ ان کتابوں کے گمراہ کن اثرات کے بارے میں ناصر کاظمی کا کیا خوبصورت تبصرہ ہے کہ ”درسی کتابوں کی چھت کے نیچے تو آسمان بھی نظر نہیں آتا۔“ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی ذہنی نشوو نما درست انداز میں ہو سکے اور وہ حیات اور کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو سکیں تو ہمیںان کے سروں سے درسی کتابوں کی چھت کو ہٹانا ہو گا۔ میں کتابوں پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں مگرمیرا خیال ہے کہ نصابی کتابوں کے قابل ضبطی ہونے میں کوئی ہرج نہیں ۔
اپنا تو بچپن سے وہ حال رہا ہے جسے یار عزیز باصر کاظمی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے:
ہم سے باصر کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شامل نصاب، کتاب