میں ابو یاسر کی بات کی تائید کرتا ہوں ۔ میری طرح ذرا محفلین میں نکاح کی منزل کو گلے لگانے والے دوست اس پر اظہار خیال کریں ۔ میں اپنے عزیزوں میں دیکھتا ہوں جنہوں نے پیار سے ایک دوسرے کو زندگی کا ساتھی چنا لیکن عملی زندگی میں وہ نباہ نہ چل پایا ۔
میرا خیال ہے کہ شہروں میں تو اب والدین بہت حد تک روکاوٹ بھی نہیں بنتے اولاد کے راستے میں ؛ ہاں حساس والدین یہ ضرور کہتے ہیں کہ اب جب فیصلہ خود کیا تو پھر بعد کے مسائل سے بھی خود نمٹنا ۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ اس صورت میں عورت کا استحصال ہوتا ہے ۔ عملی زندگی میں جب آٹے دال کے بھاؤ کا پتہ چلتا ہے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ لڑکا اپنے ”پیار“ سے زیادتی کرتا ہے اور لڑکی اس لیے سہتی ہے کہ والدین کے گھر کے دروازے خود بند کرلیے اور اگر اس کا ساتھ چھوٹتا ہے تو بھری دنیا میں عورت ذات کس طرح رہے گی۔ گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی صورتحال ہوتی ہے ۔
اس حوالے سے سنجیدہ دوست اپنا ”سنجیدہ“ حصہ ضرور ڈالیں ۔