arifkarim
معطل
بڑے پیمانے پر خفیہ دستاویزات افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر کے چوٹی کے امیر اور طاقتور افراد اپنی دولت کیسے چھپاتے ہیں۔ یہ دستاویزات پاناما کی ایک لا فرم موساک فونسیکا سے افشا ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔
فائل سے معلوم چلتا ہے کہ کس طرح موساک فونسیکا کے گاہکوں نے کیسے منی لانڈرنگ کی، پابندیوں سے بچے اور ٹیکس چوری کی۔
ایک کیس میں اس لا کمپنی نے ایک امریکی لکھ پتی کو جعلی مالکی حقوق کے دستاویزات دیے تاکہ حکام سے دولت چھپا سکے۔ یہ بین الاقوامی ریگلولیشن کی خلاف ورزی ہے جو منی لانڈرنگ کو روکنے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ہے۔
ان پیپرز میں کن کا ذکر ہے؟
ان دستاویزات میں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت کے نام ہیں بشمول ان آمروں کے جن پر ملک کی دولت لوٹنے کے الزامات ہیں۔
ان دستاویزات کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 کے قریب رشتہ دار اور رفقا کے نام بھی آئے ہیں۔
فائلز میں روسی صدر پوتن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹینا کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد، اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ذکر ہے۔
ٹیکس چوری کیسے ہوتی ہے؟
اگرچہ ٹیکس سے بچنے کے قانونی طریقے ہیں لیکن زیادہ تر جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت کیسے حاصل کی اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینا۔
اہم الزامات میں سے چند یہ ہیں کہ شیل کمپنیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ ظاہری طور پر تو قانونی ہوتی ہیں لیکن یہ ایک کھوکھلی کمپنی ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں دولت کے مالک کی شناخت چھپاتی ہیں۔
ملوث افراد کیا کہتے ہیں؟
موساک فونسیکا کا کہنا ہے کہ وہ 40 برسوں سے بے داغ طریقے سے کام کر رہی ہے اور اس پر کبھی کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا الزام نہیں لگا۔
روسی صدر ویلادیمیر پوتن کے ترجمان دیمیتری پیسکوو نے کہا ہے ’پوتن فوبیا اس حد تک پہنچ چکا ہے جہاں روس یا اس کے کام یا روسی کامیابیوں پر بات کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو کچھ گھڑ لیا جائے۔ یہ واضح ہے۔‘
پاناما پیپرز کس نے لِیک کیے؟
ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار سودیوچے زیتنگ نے حاصل کیے، جس نے انھیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئر کیا۔
یہ کنسورشیم76 ملکوں کے 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مبنی ہے۔ اس میں برطانوی اخبار گارڈیئن بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگا۔
بی بی سی کو دستاویزات کو لیک کرنے کے ذرائع کی شناخت کا علم نہیں ہے۔
یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹے ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔
ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر 2015 دسمبر تک کی معلومات موجو ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
بی بی سی اردو
آخری تدوین: