ملک عدنان احمد
محفلین
شام کے کھانے پرکسی سے فون پہ بات ختم کرتے ہوئے فاروق نے مجھے بتایا کہ ہماری کام والی کے ہاں دو دن پہلے ہی پانچویں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ اس کا ایک بیٹا ہے لیکن وہ بھی معذور، نہ چل سکتا ہے نہ بول سکتا ہے نہ خود سے حرکت کر سکتا ہے۔ اس غریب کی حالت کا سوچ کر میرے دل سے بس ایک مصرعہ نکلا:
"اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کےسوا"
پھر کھانا ختم کر کے ہوٹل سے گھر تک آتے ہوئے سارا وقت ہم اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ سوچنے کی بات بھی ہے کہ ایک غریب کنبہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی کو بھی بمشکل کچھ بن پاتا ہوگا، وہ پانچ بیٹیوں کا جہیز کیسے بنائے گا۔ اور اگر بغیرجہیز کے بیٹیاں بیاہنے کو ہی لے لیا جائے تو اس بے حس معاشرے میں ایسی لڑکی کی جو بغیر جہیز کے بیاہی جائے، کیا وقعت ہوتی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔
آج کل ہمارے ہاں ایک رسم چل نکلی ہے "میلاد" کے نام سے۔ میں بحیثیتِ مسلمان نعت گوئی اور اسکی سماعت کو بہت بڑی سعادت مانتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی اس امر کا بھی خواہاں ہوں کہ میلاد کرائے جائیں تو ایک حد تک خرچ کر کے۔ اور جتنا اصراف ہم اس سب پہ کرتے ہیں اسے ایسے لوگوں پہ خرچ کیا جانا چاہیے جو مستحق ہیں اور ایک کثیر تعداد میں قریباَ ہر علاقے میں موجود ہیں۔
کیا آپکی نظر میں یہ زیادتی نہیں کہ میلاد میں نعت پڑھنے والا نعت خواں تو پراڈو مین آئے اور اس کو دس دس بیس بیس روپے ہدیہ دینے والے یتیم مسکین بچے، سعادت سمجھتے ہوئے اپنی دہاڑی میں سے حسب استطاعت اس نعت خواں اور میلاد کمیٹی کے اکاؤنٹ بھرنے میں دیتے ہوں؟
مسجدوں کو سجانا بھی یقیناِؐ ثواب کا کام ہے مگر کیا ہی بہتر ہو اگر اس رقم کو مسجد کے پڑوس میؔں رہنے والے محنت کش کی بیٹی کے نکاح کا معقول انتظام کرنے میں صرف کیا جائے؟
میلادوں اور جلسے جلوسوں میں عمرے کے ٹکٹ بانٹنے کے بجائے اگر اسی رقم کو اسی محفل یا جلسے میں موجود کسی یتیم و لاچار بچے کے روزگار کے اسباب پیدا کرنے میں لگا دیا جائے، تو وہ نیکی نہیں ہوگی؟
جس ہستی ﷺ کو ہم ان جلسے جلوسوں میں عقیدت کے نظرانے پیش کرنے جمع ہوتے ہیں انہوں نے تو انگلیوں کے اشارے سے قربت بتاتے ہوئے فرمایا کہ:
"انا وکافل الیتیم کھاتین فی الجنۃ"
یعنی میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں (قریب) ہونگے۔
اگر اس ہستیﷺ جس کے پیروں کی خاک بھی ہمارے انفاس سے ہزارہا درجے بہتر ہے، سے اس قدر قربت میسر آجائے تو اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوگیِ؟
ذرا سوچیے!
"اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کےسوا"
پھر کھانا ختم کر کے ہوٹل سے گھر تک آتے ہوئے سارا وقت ہم اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ سوچنے کی بات بھی ہے کہ ایک غریب کنبہ جس کے پاس دو وقت کی روٹی کو بھی بمشکل کچھ بن پاتا ہوگا، وہ پانچ بیٹیوں کا جہیز کیسے بنائے گا۔ اور اگر بغیرجہیز کے بیٹیاں بیاہنے کو ہی لے لیا جائے تو اس بے حس معاشرے میں ایسی لڑکی کی جو بغیر جہیز کے بیاہی جائے، کیا وقعت ہوتی ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔
آج کل ہمارے ہاں ایک رسم چل نکلی ہے "میلاد" کے نام سے۔ میں بحیثیتِ مسلمان نعت گوئی اور اسکی سماعت کو بہت بڑی سعادت مانتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی اس امر کا بھی خواہاں ہوں کہ میلاد کرائے جائیں تو ایک حد تک خرچ کر کے۔ اور جتنا اصراف ہم اس سب پہ کرتے ہیں اسے ایسے لوگوں پہ خرچ کیا جانا چاہیے جو مستحق ہیں اور ایک کثیر تعداد میں قریباَ ہر علاقے میں موجود ہیں۔
کیا آپکی نظر میں یہ زیادتی نہیں کہ میلاد میں نعت پڑھنے والا نعت خواں تو پراڈو مین آئے اور اس کو دس دس بیس بیس روپے ہدیہ دینے والے یتیم مسکین بچے، سعادت سمجھتے ہوئے اپنی دہاڑی میں سے حسب استطاعت اس نعت خواں اور میلاد کمیٹی کے اکاؤنٹ بھرنے میں دیتے ہوں؟
مسجدوں کو سجانا بھی یقیناِؐ ثواب کا کام ہے مگر کیا ہی بہتر ہو اگر اس رقم کو مسجد کے پڑوس میؔں رہنے والے محنت کش کی بیٹی کے نکاح کا معقول انتظام کرنے میں صرف کیا جائے؟
میلادوں اور جلسے جلوسوں میں عمرے کے ٹکٹ بانٹنے کے بجائے اگر اسی رقم کو اسی محفل یا جلسے میں موجود کسی یتیم و لاچار بچے کے روزگار کے اسباب پیدا کرنے میں لگا دیا جائے، تو وہ نیکی نہیں ہوگی؟
جس ہستی ﷺ کو ہم ان جلسے جلوسوں میں عقیدت کے نظرانے پیش کرنے جمع ہوتے ہیں انہوں نے تو انگلیوں کے اشارے سے قربت بتاتے ہوئے فرمایا کہ:
"انا وکافل الیتیم کھاتین فی الجنۃ"
یعنی میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں (قریب) ہونگے۔
اگر اس ہستیﷺ جس کے پیروں کی خاک بھی ہمارے انفاس سے ہزارہا درجے بہتر ہے، سے اس قدر قربت میسر آجائے تو اس سے بڑھ کر اور سعادت کیا ہوگیِ؟
ذرا سوچیے!