رانا
محفلین
عثمان نے نیچے کی طرف گرتے ہوئے اِدھر اُدھر ہاتھ مارے تواس کے ہاتھ میں ایک گٹر کا پائپ آگیا (اس میں عثمان کا کوئی قصور نہیں ایسی صورت حال میں انسپکٹر جمشید کے بچوں سے لے کر ایکسٹو تک کے ہاتھ میں یہی آتا ہے) اور عثمان نے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اورکچھ نیچے تک گھسٹتا گیا لیکن آخر ایک کھڑکی کے چھجے کے پاس پہنچ کررک گیا اورچھجے سے پاؤں ٹکا کر واچ ٹرانسمیٹرپررانا کی فریکونسی ڈائل کی دوسری طرف سے رانا کی آواز آئی ہیلو رانا اسپیکنگ اوور۔ رانا کے بچے یہ رسی کھینچنے کی کیا تک تھی مجھے تو تیری سیکرٹ ایجنٹ والی ڈگری بھی جعلی لگتی ہے اوور۔ یار تم نے ہی تو کہا تھا کہ جب میں صحیح کھڑکی کی طرف جانے لگوں تو جھٹکا دینا تاکہ مجھے پتہ لگ جائے کہ میں ٹھیک نشانے پر جارہا ہوں اب مجھے کیا پتہ تھا کہ تو ہلکا سا جھٹکا بھی نہیں سہارسکے گا۔ خیر اب میں ان کے کمرے میں جارہا ہوں اگر پندرہ منٹ تک کوئی جواب نہ آئے تو سمجھ لینا کسی مشکل میں پھنس گیا ہوں اوور اینڈ آل۔ اب رانا نے سامنے کی بلڈنگ کی چھت پر کنڈا پھینکا جو ٹھیک نشانے پر جالگا۔ کے ای ایس سی زندہ باد کنڈا لگانے میں تو ایکسپرٹ کردیا بجلی والوں نے۔ رانا نے خوشی سے نعرہ لگایا۔ اور رسی سے لٹک کرسامنے کی کھڑکی کا نشانہ ذہن میں رکھتے ہوئے بیک وقت فلمی اور ناولی انداز میں چھلانگ لگا دی اور سیدھا کھڑکی کے شیشے سے جاٹکرایا۔ لیکن کھڑکی کے شیشوں نے فلمی انداز میں ٹوٹ کر چور چور ہونے سے انکار کردیا نتیجتاً رانا کے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے اور وہ دھپ سے نیچے کی کھڑکی کے چھجے پر جاگرا۔ اوپر کھڑکی کے ٹکرانے سے جو زوردار آواز پیدا ہوئی تو زیک نے کھڑکی سے باہر جھانکا لیکن نچلی کھڑکی پر رانا سمٹ گیا اور نظر نہ آیا۔ زیک نے اپنا وہم سمجھتے ہوئے سر جھٹکا (یہ سر جھٹکننے کی روایت ابن صفی سے بھی پہلے کی چلی آرہی ہے)۔ اب رانا نے برابرسے گزرتے ہوئے سیوریج کے پائپ کا سہارا لے کراٹھنے کی کوشش کی لیکن شومئی قسمت کہ پائپ کے جوائنٹ زنگ لگنے سے گل چکے تھے رانا کا بوجھ نہ سہار سکے نتیجتآ پوری بلڈنگ کے مسترد شدہ پانی نے رانا کا استقبال کیا۔ اتنے میں نیچے سے عثمان بھی رانا کے قریب پہنچ چکا تھا لہذا اس نے بھی اس تبرک سے بھرپورحصہ لیا اور بھنا کر رانا کو بے نقط کی سنائی جو رانا نے خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ اب عثمان نے ہمت کی اور برابر کی گیلری میں اتر گیا۔ ساتھ ہی اردو ویب کے منتظمین کے فلیٹ کا دروازہ تھا جہاں ایوارڈ میٹنگ ہورہی تھی۔ ابھی عثمان دروازے کا لاک کھولنے کا طریقہ ہی سوچ رہا تھا کہ اوپر سیڑھیوں سے ایک خاتون اترتی دکھائی دیں انہوں نے جو عثمان کو گٹرکے لوازمات سے لبریز دیکھا تو ناک پر ہاتھ رکھ کر تنک کر بولیں "میرے فلیٹ کا بھی گٹر بند ہے یہاں سے فارغ ہوجاؤ تو اوپرمیرے فلیٹ پرآجانا ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک بھنگی سے کھلوایا تھا پھر بند ہوگیا تم لوگ آخر کام طریقے سے کیوں نہیں کرتے؟"