پانچویں سالگرہ پانچویں سالگرہ کے ایوارڈز کی خفیہ میٹنگ منظر عام پر

رانا

محفلین
عثمان نے نیچے کی طرف گرتے ہوئے اِدھر اُدھر ہاتھ مارے تواس کے ہاتھ میں ایک گٹر کا پائپ آگیا (اس میں عثمان کا کوئی قصور نہیں ایسی صورت حال میں انسپکٹر جمشید کے بچوں سے لے کر ایکسٹو تک کے ہاتھ میں یہی آتا ہے) اور عثمان نے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی اورکچھ نیچے تک گھسٹتا گیا لیکن آخر ایک کھڑکی کے چھجے کے پاس پہنچ کررک گیا اورچھجے سے پاؤں ٹکا کر واچ ٹرانسمیٹرپررانا کی فریکونسی ڈائل کی دوسری طرف سے رانا کی آواز آئی ہیلو رانا اسپیکنگ اوور۔ رانا کے بچے یہ رسی کھینچنے کی کیا تک تھی مجھے تو تیری سیکرٹ ایجنٹ والی ڈگری بھی جعلی لگتی ہے اوور۔ یار تم نے ہی تو کہا تھا کہ جب میں صحیح کھڑکی کی طرف جانے لگوں تو جھٹکا دینا تاکہ مجھے پتہ لگ جائے کہ میں ٹھیک نشانے پر جارہا ہوں اب مجھے کیا پتہ تھا کہ تو ہلکا سا جھٹکا بھی نہیں سہارسکے گا۔ خیر اب میں ان کے کمرے میں جارہا ہوں اگر پندرہ منٹ تک کوئی جواب نہ آئے تو سمجھ لینا کسی مشکل میں پھنس گیا ہوں اوور اینڈ آل۔ اب رانا نے سامنے کی بلڈنگ کی چھت پر کنڈا پھینکا جو ٹھیک نشانے پر جالگا۔ کے ای ایس سی زندہ باد کنڈا لگانے میں تو ایکسپرٹ کردیا بجلی والوں نے۔ رانا نے خوشی سے نعرہ لگایا۔ اور رسی سے لٹک کرسامنے کی کھڑکی کا نشانہ ذہن میں رکھتے ہوئے بیک وقت فلمی اور ناولی انداز میں چھلانگ لگا دی اور سیدھا کھڑکی کے شیشے سے جاٹکرایا۔ لیکن کھڑکی کے شیشوں نے فلمی انداز میں ٹوٹ کر چور چور ہونے سے انکار کردیا نتیجتاً رانا کے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے اور وہ دھپ سے نیچے کی کھڑکی کے چھجے پر جاگرا۔ اوپر کھڑکی کے ٹکرانے سے جو زوردار آواز پیدا ہوئی تو زیک نے کھڑکی سے باہر جھانکا لیکن نچلی کھڑکی پر رانا سمٹ گیا اور نظر نہ آیا۔ زیک نے اپنا وہم سمجھتے ہوئے سر جھٹکا (یہ سر جھٹکننے کی روایت ابن صفی سے بھی پہلے کی چلی آرہی ہے)۔ اب رانا نے برابرسے گزرتے ہوئے سیوریج کے پائپ کا سہارا لے کراٹھنے کی کوشش کی لیکن شومئی قسمت کہ پائپ کے جوائنٹ زنگ لگنے سے گل چکے تھے رانا کا بوجھ نہ سہار سکے نتیجتآ پوری بلڈنگ کے مسترد شدہ پانی نے رانا کا استقبال کیا۔ اتنے میں نیچے سے عثمان بھی رانا کے قریب پہنچ چکا تھا لہذا اس نے بھی اس تبرک سے بھرپورحصہ لیا اور بھنا کر رانا کو بے نقط کی سنائی جو رانا نے خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ اب عثمان نے ہمت کی اور برابر کی گیلری میں اتر گیا۔ ساتھ ہی اردو ویب کے منتظمین کے فلیٹ کا دروازہ تھا جہاں ایوارڈ میٹنگ ہورہی تھی۔ ابھی عثمان دروازے کا لاک کھولنے کا طریقہ ہی سوچ رہا تھا کہ اوپر سیڑھیوں سے ایک خاتون اترتی دکھائی دیں انہوں نے جو عثمان کو گٹرکے لوازمات سے لبریز دیکھا تو ناک پر ہاتھ رکھ کر تنک کر بولیں "میرے فلیٹ کا بھی گٹر بند ہے یہاں سے فارغ ہوجاؤ تو اوپرمیرے فلیٹ پرآجانا ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک بھنگی سے کھلوایا تھا پھر بند ہوگیا تم لوگ آخر کام طریقے سے کیوں نہیں کرتے؟"
 

خواجہ طلحہ

محفلین
اور اس ناول کا نام ہے۔۔۔ گٹر مشن!
:cool:
اچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ا :rolleyes:تو آپ لوگ اس بی بی کے پرنالے کا پائپ کھولتے کھولتے گٹر تک پہنچ گئے، یار تم لوگوں کو بھیجا کس کام تھا، اور لگ کس کام گئے ہو۔ یہ بتاو میٹنگ روم تک پہنچنے میں کامیابی ملی کے نہیں؟
اور ہاں ایک بات اور بتادوں کہ اگر وہ بی بی پردے میں تھی تو اسی تھریڈ کے دوسرے صفحہ پر نظر ڈال لو، وہ بی بی نہیں م م صاحب تھے،:sick:
 

رانا

محفلین

انتظارکریں شائد کوئی اورآگے کی کہانی بتادے۔ اگر کسی اور نے نہ بتایا تو پھر میں شام کو آکر بتاؤں گا ابھی تو کام سے جارہا ہوں۔ لیکن اگر یہیں سے آگے بڑھایا تو پھر خطرناک انداز میں آگے بڑھے گا۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
پہلے تو عثمان اور رانا نے اس دلربا کی بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا کہ اس کے فلیٹ کا گڑ پائپ دیکھنا ہے۔ اچانک رانا کی نظر نیچے سڑک پر پڑی تو اسے ایک پولیس انسپکٹر اور تین عدد سپاہی اسی عمارت کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ اس نے عثمان کو ٹہوکا دیتے ہوئے ان کی طرف اشارہ کیا تو عثمان کی تو گھگی بندھ گئی۔ انہوں نے عافیت اسی میں جانی کہ اس سیاہ پوش حسینہ کے فلیٹ میں عارضی پناہ لی جائے۔ عثمان نے بھی رانا کی تجویز سے اتفاق کیا۔ پھر اس سے پہلے کہ پولیس اوپر والی منزل پر پہنچتی، دونوں بھاگم بھاگ اس سے اوپر والی منزل پر پہنچ کر مائی صاحبہ کے دروازے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ دروازہ کھلا اور رانا اور عثمان دروازہ کھولنے والے کو دیکھ کر بیہوش ہوتے ہوتے بچے۔

باقی آئندہ ۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
ٹررن ٹررن۔۔۔۔فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
"شم شاد"۔۔۔فون اٹھاتے ہی دوسری طرف سے مخصوص آواز سنائی دی۔
"رپورٹ کرو!"۔۔۔شم شاد نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
"باس گٹر مکمل طور پر بند تھا۔ نئی پائپ کا انتظام کرنا پڑا"۔۔۔عثمان نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
"اراکین محفل کا کیا بنا؟"۔۔۔شم شاد نے بات کاٹتے ہوئےکہا۔
"جناب اراکین کا توپتا نہیں البتہ ایک خوبرو حسینہ ہمارے قبضے میں ہے۔ امید ہے کہ ان سے کچھ امید ہوگی"۔۔۔عثمان نے معنی خیز انداز میں کہا۔
"خوبرو حسینہ؟"۔۔۔۔شم شاد نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
"رانا کو فون دو۔۔۔"
"مم مگر باس"۔۔۔۔عثمان نے گھگیاتے ہوئے کہنے کی کچھ کوشش کی۔
"بکو مت۔۔"
"رانے کو فون دو"۔۔۔ شمشاد نے سرد لہجے میں کہا۔
"یس باس"۔۔۔رانے نے ریسور تھامتے ہوئے پوچھا۔
"خوبرو حسینہ کو فوراً اردو محفل پہنچادو۔ "
"لیکن باس آپ تو شادی شدہ ہیں؟"۔۔۔رانا نے چونک کر کہا۔
"بکو مت۔۔۔یہ سوچنا تمھارا کام نہیں۔۔۔جتنا کہا گیا ہے اتنا کرو۔"۔۔۔شم شاد نے بھنا کر کہا۔
"اوکے!"۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی رابطہ منقطع ہوگیا۔ رانا حسینہ کو لے کر اردو محفل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جبکہ عثمان ادھر ہی گٹر کے پاس کچھ دیر سوچتا رہا کہ اگلا مرحلہ کیا ہوسکتا ہے۔ اسی دوران سٹک سٹک کی آواز گونجی۔ اس سے پہلے کہ عثمان صورتحال کو بھانپ سکتا۔۔۔۔۔اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔
 

مغزل

محفلین
وہ جسے م۔م۔م صاحب سمجھا گیا تھا دراصل خاتون ہی تھی ۔۔ موصوفہ نے رخ سے نقاب الٹا تو سب کے سب چاروں شانے چت ہوگئے ۔ نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔ مگر ’’ یو فون ‘‘ کے اشتہار کے باوصف جب موصوفہ کی آواز سنائی دی تو یوں لگا جیسے صورِ اسرافیل پھونکا گیا۔ برقع نشین م۔م۔مغل صاحب ایک چلمن کی اوٹ سے اپنے بھائی بندو ں کو انٹا غفیل ہوتا دیکھ کر کھی کھی کر رہے تھے ۔۔ پردہ گرتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ارے جناب ابھی تو آپ کی entry ہوئی ہے اور ساتھ ہی آپ نے پردہ بھی گرا دیا۔

ابھی تو ابتدائے عشق ہے ۔۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
اسی دوران سٹک سٹک کی آواز گونجی۔ اس سے پہلے کہ عثمان صورتحال کو بھانپ سکتا۔۔۔۔۔اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔

رانا نے جوعثمان کو بے ہوش ہوتے دیکھا تو اس کے رخسار پرایک عدد ٹکا کر چماٹ رسید کیا۔ چماٹ کھاتے ہی عثمان کے ذہن کے چودہ طبق روشن ہوگئے اوراسے یاد آیا کہ وہ تو نقاب پوش حسینہ کے فلیٹ کا دروازہ بجا رہے تھے کہ عثمان نے دن میں خواب دیکھنا شروع کردیا اور خواب میں ہی بےہوش ہونے کا ابھی ارادہ ہی کیا تھا کہ رانا کے چماٹ نے تمام ارادے خاک میں ملادئیے۔ اب دونوں نے مل کرنقاب پوش حسینہ کا دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ اچانک دروازہ کھلا اور دونوں بے ہوش ہوتے ہوتے بچے کیونکہ دروازے میں م۔م۔مغل کھڑے تھے۔ رانا نے الٹے پاؤں بھاگنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ عثمان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ وہ انہیں پہچان نہیں سکے اس لئے دونوں نے اپنا پلان تھوڑا سا تبدیل کیا اور ان سے کہا کہ ہم آپ کا گٹر کھولنے آئے ہیں۔ م۔م نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ بھئی تم لوگوں کو غلط فہمی ہوگئی ہے مجھے کوئی قبض کی شکایت نہیں ہے۔ اب حیران ہونے کی باری ان دونوں کی تھی لیکن عثمان نے دوبارہ کہا کہ معاف کیجئے گا جناب مطلب یہ تھا کہ آپ کے فلیٹ کا گٹر کھولنے آئے ہیں۔ اچھاآآ تو یوں کہو نا۔ اندر آجاؤ۔ وہ سامنے کا گٹرکا بند ہے شروع ہوجاؤ۔ اور خود غائب ہوگئے۔ اب رانا نے عثمان سے کہا کہ یار قدرت خودبخود ہماری مدد کررہی ہے یہ فلیٹ اردو ویب کے منتظمین کے فلیٹ کے بالکل اوپر ہے ہم یہاں کی بالکنی سے نیچے والی بالکنی میں کودجاتے ہیں۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ پیچے وہی نقاب پوش حسینہ آکر کھڑی ہوگئی اور زور سے چیخی "ابھی تک گٹر نہیں کھلا تم لوگوں سے۔ کام چور کہیں کے۔ جلدی کرو" اب دونوں پریشان ہوگئے کہ یہ کام بھی زندگی میں کرنا تھا۔ اچانک رانا کے ذہن میں ایک خیال آیا اس نے اس نقاب پوش سے کہا کہ میں باہرجاکر چیک کرتا ہوں کہ شائد پائپ باہر سے بند نہ ہو عثمان تم اندر سے کھولنے کی کوشش کرو۔ نقاب پوش نے بھی اسکی تائید کی۔ اب عثمان اندر گٹر کھولنے میں مصروف ہوگیا اور رانا چپکے سے باہر جاتے جاتے بالکنی کی طرف مڑگیا اور نیچے والی بالکنی میں چھلانگ لگادی۔ سامنے ایک دروازہ تھا۔ رانا نے پہلے تو موبائل پر طلحہ اور خوشی کو پوری صورتحال سے آگاہ کیا اور کہا کہ فون پر عثمان کی خیریت معلوم کرتے رہیں میں میٹنگ روم کے دروازے پر ہوں اب مشن مکمل ہوا ہی چاہتا ہے۔ اور یہ کہہ کروہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر اندرداخل ہوگیا یہ ٹی وی لاؤنج تھا۔ سامنے ایک دروازے پر پردہ تنا ہوا تھا اوراردو ویب کے منتظمین کی بشمول م۔م کے آوازیں آرہی تھیں۔ رانا نے پردے تھوڑا سا کھسکا کر دیکھا تو کوئی اسکی طرف متوجہ نہیں تھا۔ رانا چپکے سے اندر داخل ہوا اور جس صوفے پر نبیل اور شمشاد بیٹھے تھے اسکے پیچھے دبک گیا۔ اب جو رانا کے کپڑوں سے گٹرکے تبرک کی خوشبوئیں اٹھیں تو نبیل نے شمشاد کو اٹھا کر سامنے والی کرسی پر دے مارا اور چلایا "اونہہ ہوںںںں۔ اتنی گندی بدبو۔ توبہ توبہ۔ شمشاد کے بچے گھر سے فارغ ہوکے آنا تھا نا۔ ناک سڑا کر رکھ دی تم نے چلو ابھی واش روم جاکر پہلے اپنا بوجھ ہلکا کرو پھر میٹنگ میں آکر بیٹھنا۔" شمشاد غصے سے اٹھا اور نبیل کی طرف لپکا "ارے واہ۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ میں نے تو صبح سے کچھ کھایا ہی نہیں۔ یہ کارنامہ تو مجھے لگتا ہے آپ ہی نے انجام دیا ہے۔ چلیں میٹنگ روم سے باہر۔ اور ائیر فریشنر کا پورا کارٹن لے کر آئیں ایک بوتل سےکچھ نہیں بننے کا۔" زیک نے کچھ سوچ کر اِدھر اُدھرسونگھتے ہوئے پرخیال انداز میں ہاتھ اٹھایا "خامووووش۔ یہ تم دونوںمیں سے کسی کی بدبو نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ قابل برداشت ہے۔" زیک کی یہ بات سن کر نبیل اور شمشاد نے تلملا کر زیک کو گھورا۔ زیک نے کہا "میرا خیال ہے فلیٹ میں کوئی دشمن گھس آیا ہے۔ سب کمروں میں دیکھو" زیک برابر والے کمرے میں گھس گیا۔ م۔م کچن کی طرف گیا اورنبیل ٹی وی لاؤنج کی طرف۔ کمرے میں صرف شمشاد رہ گیا۔ اب رانا صوفے کے پیچھے سے نکل کر اچانک شمشاد سے لپٹ گیا۔ رانا کا تو پورا وجود ہی اس وقت کلوروفام بنا ہوا تھا اس لئے شمشاد نے کوئی مزاحمت کئے بغیر بے ہوش ہوجانے میں ہی عافیت جانی اور پٹ سے کارپٹ پر گرگیا۔

باقی آئندہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہوش میں آنے پر شمشاد نے دیکھا کہ کمرا خالی ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ زیک، م م اور نبیل دشمن کی تلاش میں کافی دور نکل گئے ہیں،عثمان تو پولیس کے ہتھے چڑھ گیا اور رانا کو میونسپل کمیٹی والے پکڑ کر لے گئے۔

شمشاد نے موقع غنیمت جانا اور تمام ایوارڈ لیکر اپنے گھرکو نکل لیا اور جاتے ہی اس نے وہ تمام ایوارڈز اپنے ملاقاتیوں پر رعب ڈالنے کے لیے اپنے ڈرائیننگ روم میں سجا دیے۔
 

رانا

محفلین
اچھاآآآآآآآآآ۔ تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپکا ایوارڈ شوکیس ہمارے ناکام مشن کا مرہون منت ہے۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے سوچا کہ کہانی کو اب کہاں تک کھینچیں گے، بہتر ہے یہاں پر ہی The End کر دوں۔ کیسا لگا آپ کو یہ The End؟
 

رانا

محفلین
بہت اچھا۔ لیکن عثمان کے ساتھ بڑی زیادتی کردی آپ نے۔:) اب اسے سالگرہ کی تقریبات میں شریک کرنے کے لئے ضمانت کا بندوبست بھی آپ ہی کریں۔:) میری خیر ہے میونسپل والوں کے دفتر سے بھاگنا کوئی مشکل کام تھوڑا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ضمانت دینے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تھانیدار اپنا دوست ہے۔ بس اسے واپس آنے دیں۔
 

عثمان

محفلین
یار یہ ایوارڈ وغیرہ کے لئے انتخابات ہورہے ہیں نا۔ ایک آدھ ایوارڈ مجھے بھی تھما دیں۔ کم از کم میں تو پولیس کو ادائیگی کر کے باہر نکلوں۔ :cool:
 
Top