یہ تب کی بات ہے جب خرم کی شادی ہوئی تھی۔ بارات پنڈی سے جہلم گئی تھی۔ واپسی پر بہت دیر ہو گئی۔ بنت شبیر، بنت صغیر اور سُندس صغیر کا تھکاؤٹ سے بُرا حال تھا۔ آتے ہی ایک کمرے میں ڈھیر ہو گئیں۔ نہ کپڑے بدلے، نہ مُنہ ہاتھ دھوئے۔ ابھی سوئے اور سدھ بدھ کھوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک جن آ گیا ان کےکمرے میں۔ جن کی ہاہاہا ہوہوہو سے بنت شبیر کی آنکھ کھل گئی۔ اب جو ڈر کے مارے اس نے بنت صغیر اور سُندس کو اتنی زور سے پکڑا کہ سانس بند ہونے کے خوف سے ان دونوں کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اب تینوں کا یہ حال کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ جن جن استادوں اور لوگوں کو ستایا کرتی تھیں وہ سب یاد آ گیا۔ گڑگڑا کر اللہ سے معافیاں مانگنے لگیں۔ جن قہقہے پر قہقہے لگا رہا تھا۔ دفعتہً شیبہ کو یاد آیا کہ ایک دفعہ شمشاد انکل نے نصحیت کی تھی کہ رات کو وضو کر کے سونا چاہیے۔ اس نے بنت صغیر اور سُندس کو بھی یہ بات بتائی۔ تینوں وضو کرنے چلی گئیں۔ جب اچھی طرح منہ دھو کر واپس آئیں تو جن انہیں دیکھ کر چیخیں مارتا ہوا واپس بھاگ گیا۔ اس کے بعد تینوں ہنسی خوشی سو گئیں۔