پاکستانیوں کو نیا وزیرِ اعظم مبارک ہو۔۔

کاشفی

محفلین
فوج سیاستدانوں کوکنٹرول کرنے کی پالیسی ختم کرے،عمران خان
واشنگٹن‘ لاہور (ایجنسیاں)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہناہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاک فوج اپنی آئینی حدودمیں رہتے ہوئے سیاستدانوں کو پتلیوں کی طرح کنٹرول کرنے کی پالیسی ختم کرے،ان خیالات کااظہارانہوں نے الجزیرہ ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے کیا،عمران خان نے امریکا کے دورے پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر اہم امریکی عہدیداروں سے ملاقا تیں کی ہیں ‘ معلوم ہوا ہے کہ عمران خان نے اہم امریکی عہدیداروں سے ملاقاتوں کے بعد اپنی پارٹی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی امریکہ بلا لیا ہے اور ان کی آئندہ دو تین روز میں یہاں آمد متوقع ہے ۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کے اس اہم دورہ امریکا کا مقصد پاک امریکا تعلقات سمیت بعض اہم ایشوز خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبان کے حوالے سے موقف کے بارے میں امریکیوں میں پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنا ہے۔
ماخد: جنگ
 

عسکری

معطل
اس میں نیا کیا ہے؟ پہلے سیاستدان اس قابل تو بنیں نا۔ میمو سے ان کی اوقات کا پتا چلتا ہے ۔ ایسے کئی ہزرا راز آئی ایس آئی کے پاس ہیں ۔ سیاستدان کیا ہیں ہم سب جانتے ہیں اس لیے عمران خان پہلے سیاستدانوں کو کسی عام پاکستانی کے برابر پیٹریاٹ تو بنائیں۔ کون اس ملک میں سیاستدانوں کی اوقات نہیں جانتا؟
 

کاشفی

محفلین
شمشاد بھائی میرا پوائنٹ آف ویو اَنڈراسٹینڈ کرنے کے لیئے شکریہ۔۔۔ خان صاحب کی امریکہ کی یہ پہلی یاترا ہے۔۔۔ یا یہ کہہ لیں حکومتی حج اب شروع ہے۔۔
لیکن عمران خان صاحب بھول گئے کہ عظیم بہادر ریاست امریکہ :) اُنگلی پکڑ کر اقتدار میں لاتا ہے۔۔۔لیکن اس کے مفادات کو نقصان پہنچا تو کان پکڑ کر باہر بھی نکال دیتا ہے۔۔
مبروک مبروک ۔
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں تک میرا خیال ہے۔ ابھی خان صاحب کو بہت لمبا سفر کرنا ہے۔ ابھی صرف بڑھکوں پر گزارہ کریں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اس کا مطلب ہم جو دیکھ سن سمجھ اور سوچ رہے ہیں وہ تصویر کا پہلا رخ ہے، دوسرا رخ کچھ اور ہی ہے، یعنی پرانی تصویروں !
 

شمشاد

لائبریرین
راجا صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کی سیاستدان جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہوتے ہیں؟ ہاہاہاہاہا
 

مغزل

محفلین
اگر یہ بریکنگ نیوز ہے تو ایک بریکنگ نیوز میری طرف سے :
متحدہ قومی مومنٹ کو نیا قائد بھی مبارک ، عنقریب آفاق میاں کی خلیجی ریاستوں کے ذریعے لندن یاترا بھی مبارک ۔۔۔
(اختلاف آپ کا حق ہے ۔۔ مگر تیل دیکھیے تیل کی دھار دیکھئے۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
ایم کیو ایم کو نیا قائد نہیں مل سکتا جب تک وہ پہلے والے سے نجات نہ حاصل کر لیں۔
 

کاشفی

محفلین
تیل مہنگا ہے۔۔ ٹاپک کا رُخ دوسری طرف نہیں موڑیں جناب محترم ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ کے دل میں کوئی بات ہے۔۔۔ جس کی وجہ کر کچھ کہہ لیتے ہیں آپ۔۔۔۔ کہیں جو بھی کہنا ہے۔۔۔ کھل کے کہیں۔۔۔ لیکن خوشی خوشی۔۔
متحدہ قومی مومنٹ ہو یا تحریکِ انصاف، نون لیگ ہو یا ق لیگ، پپلز پارٹی ہو یا آل پاکستان مسلم لیگ، اے این پی ہو یا بی این پی، جماعتِ اسلامی ہو یا متحدہ مجلس عمل، طالبان ہو یا امریکہ، بغضِ کراچی ہو یا حُبِ پشاور، کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہنا سب کا حق ہے۔۔
اختلاف تو سب کا حق ہے صرف میرا نہیں۔۔۔لیکن خوش رہنا آپ کا حق ہے۔۔ہمیشہ خوش رہیں۔ :)
 

ایم اے راجا

محفلین
پاکستانی پاگل نہیں ہیں راجا صاحب ۔ جذباتی ہیں۔۔ میں بھی تھا۔۔ اب احساس ہوتا ہے اپنی بیوقوفی کا۔ :)
جی شاید میں جذباتی اور پاگل کے درمیان پائے جانے والے لطیف فرق کو سمجھ نہیں پایا یا پھر سمجھنا نہیں چاہتا۔
 

Fawad -

محفلین
تو وہاں سے امریکہ کا اشیرواد لینے گئے ہوئے ہیں خان صاحب۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کچھ تجزيہ نگار اس حقیقت کا ادارک کيے بغير بے بنياد تھيورياں پيش کرنا شروع کر ديتے ہیں کہ سياسی قيادت اور امريکہ سميت کسی بھی ملک کے سفارتی عہديداروں کے درميان ملاقاتيں قواعد و ضوابط کے دائرے کے اندر اور سفارتی تعلقات کی روح کے عين مطابق ہے۔

اگر اہم حکومتی عہديداروں، سياست دانوں اور سفارت کاروں کے درميان ملاقاتيں سازش کے زمرے ميں آتی ہيں تو پھر اس اعتبار سے تو دنيا کے تمام سفارت کار ہی اس سازشی عمل کا حصہ ہيں۔

پاکستان سميت دنيا بھر سے سياست دانوں کی امريکی سفارت کاروں اور سياست دانوں سے ملاقاتيں معمول کا حصہ ہيں۔ امريکہ ميں شفاف حکومتی نظام اور مختلف حکومتی اداروں ميں ڈائيلاگ اور بات چيت پر مبنی جمہوری روايات کے سبب دنيا بھر سے آنے والے افراد کو يہ موقع ملتا ہے کہ وہ واشنگٹن ميں پاليسی مرتب کرنے والے افراد اور اداروں کے ساتھ نا صرف يہ کہ گفتگو کر سکيں بلکہ انھيں اپنے موقف سے بھی آگاہ کر سکيں۔ يہ ميل ملاپ اور گفتگو کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ ہرگز نہيں ہے جس کا مقصد دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں اپنی کٹھ پتلی تيار کرنا ہو۔ يہ سراسر غلط تاثر ہے۔ ميں ذاتی طور پر ايسی بے شمار ملاقاتوں اور سيمينارز ميں شامل رہا ہوں جہاں سرکردہ پاکستانی صحافيوں، سفارت کاروں، سياست دانوں اور اہل علم نے امريکيوں کے سامنے دو طرفہ دلچسپی کے امور پر اپنے متنوع نقطہ نظر اور رائے کا اظہار کيا ہے۔

اس جديد دور ميں جہاں ميڈيا سياست دانوں کی ہر حرکت اور بيان پر کڑی نظر رکھتا ہے، يہ دقيانوسی سوچ کہ معاشرے ميں ہر برائ کا ذمہ دار اور جڑ امريکہ ہے، اب خاصا غير منطقی ہو چکا ہے۔

امريکی حکومت کے لیے يہ ممکن اور قابل عمل نہيں ہے کہ وہ کسی بھی ملک ميں طرز حکومت کو کنٹرول کرے۔ اس طرح کی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے ليے امريکہ کے پاس نہ تو وسائل ہيں اور نہ ہی ايسی کوئ خواہش۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
چھوڑیں بھی ناں فواد صاحب۔ یہ حقیقت تو اظہر من الشمس کی طرح روشن ہے کہ ان ملاقاتوں کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔
 
Top