خرم
محفلین
پاکستان کی فوج کی تاریخ جب کھنگالی جاتی ہے تو اس کی ابتداء آزادی کے فوراَ بعد 1948 میںکشمیر کی آزادی کی جنگ سے ہوتی ہے۔ اس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم نہ مانتے ہوئے فوج کو کشمیر پر چڑھائی کا حکم دینے سے انکار کردیا اور اس طرح پاکستان میں حکومت احکامات پر فوجی من مانی کی برتری کی روایت ڈالی۔ ان کی اس حرکت نے ہی پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کی کوشش کو جنم دیا جس کے سرغنہ اس وقت کے بریگیڈیئر بعد کے میجر جرنل اکبر خان تھے۔ یہ ناکام بغاوت "راولپنڈی سازش" کے نام سے موسوم ہوئی۔ اکبر کی اس سازش کا محرک یہ یقین تھا کہ کشمیر میں فوجیں نہ بھیج کر اور بعد میں سیز فائر قبول کرکے حکومت پاکستان نے ایک سنہری موقع گنوا دیا ہے اور یہ کہ اس وقت کی سیاسی اور فوجی قیادت ملک کے اس کاز کے ساتھ مخلص نہیں تھیں۔ غالباَ یہی سازش بنیاد بنی اس حقیقت کی اس کے بعد پاکستان میں اعلٰی فوجی عہدوں پر ترقیاں اہلیت کی بجائے خالصتاَ سیاست اور شاہ سے وفاداری کی بنیاد پر کی جانے لگیں۔ اسی بنا پر ایک انتہائی نکمے فوجی افسر ایوب خان کو چوم چاٹ کر پاکستان آرمی کا پہلا پاکستانی کمانڈر انچیف بنایا گیا۔ بعد میں سکندر مرزا نےا پنے دوست ایوب خان کے ساتھ مل کر اس وقت کے گورنر جرنل غلام محمد کو اقتدار سے باہر نکال پھینکا اور خود پاکستان کے گورنر جنرل اور بعد میں پہلے صدر بن بیٹھے۔ شاہ سے وفاداری کا یہی یقین تھا کہ ایوب خان کو تمام فوجی روایات سے قطع نظر پاکستان کا وزیر دفاع بھی بنایا گیا۔ قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی وفات کے بعد گزرنے والے دس برسوں میں ہمارے سیاستدانوں نے موقع پرستی، اقرباء پروری، محلاتی سازشوں اور قانون شکنی کی ان روایات کی داغ بیل ڈالی جن کے پھل سے آج قوم مستفید ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ سکندر مرزا اور دیگر سیاستدانوں کے اقتدار کو کاندھا دینے کے بعد جرنل ایوب نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اوروںکا آلہ کار بننے کی بجائے خود ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی جائے؟ اس طرح 1958 میں پہلی بار پاکستان فوج کے قبضہ میں گیا۔ اس دوران پاکستان کی فوج نے امریکی مدد سے اعلٰی ہتھیاروں تک اپنی رسائی ممکن بنا لی تھی خاص طور پر پاکستان فضائیہ جو ہمیشہ ہی روایتی طور پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے الگ رہی تھی، اس نے اپنے جدید طیاروں کے استعمال میں خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔