پاکستانی افواج

خرم

محفلین
پاکستان کی فوج کی تاریخ جب کھنگالی جاتی ہے تو اس کی ابتداء آزادی کے فوراَ بعد 1948 میں‌کشمیر کی آزادی کی جنگ سے ہوتی ہے۔ اس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم نہ مانتے ہوئے فوج کو کشمیر پر چڑھائی کا حکم دینے سے انکار کردیا اور اس طرح پاکستان میں حکومت احکامات پر فوجی من مانی کی برتری کی روایت ڈالی۔ ان کی اس حرکت نے ہی پاکستان میں پہلی فوجی بغاوت کی کوشش کو جنم دیا جس کے سرغنہ اس وقت کے بریگیڈیئر بعد کے میجر جرنل اکبر خان تھے۔ یہ ناکام بغاوت "راولپنڈی سازش" کے نام سے موسوم ہوئی۔ اکبر کی اس سازش کا محرک یہ یقین تھا کہ کشمیر میں فوجیں نہ بھیج کر اور بعد میں سیز فائر قبول کرکے حکومت پاکستان نے ایک سنہری موقع گنوا دیا ہے اور یہ کہ اس وقت کی سیاسی اور فوجی قیادت ملک کے اس کاز کے ساتھ مخلص نہیں تھیں۔ غالباَ یہی سازش بنیاد بنی اس حقیقت کی اس کے بعد پاکستان میں اعلٰی فوجی عہدوں پر ترقیاں اہلیت کی بجائے خالصتاَ سیاست اور شاہ سے وفاداری کی بنیاد پر کی جانے لگیں۔ اسی بنا پر ایک انتہائی نکمے فوجی افسر ایوب خان کو چوم چاٹ کر پاکستان آرمی کا پہلا پاکستانی کمانڈر انچیف بنایا گیا۔ بعد میں سکندر مرزا نےا پنے دوست ایوب خان کے ساتھ مل کر اس وقت کے گورنر جرنل غلام محمد کو اقتدار سے باہر نکال پھینکا اور خود پاکستان کے گورنر جنرل اور بعد میں پہلے صدر بن بیٹھے۔ شاہ سے وفاداری کا یہی یقین تھا کہ ایوب خان کو تمام فوجی روایات سے قطع نظر پاکستان کا وزیر دفاع بھی بنایا گیا۔ قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی وفات کے بعد گزرنے والے دس برسوں میں ہمارے سیاستدانوں نے موقع پرستی، اقرباء پروری، محلاتی سازشوں اور قانون شکنی کی ان روایات کی داغ بیل ڈالی جن کے پھل سے آج قوم مستفید ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ سکندر مرزا اور دیگر سیاستدانوں کے اقتدار کو کاندھا دینے کے بعد جرنل ایوب نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اوروں‌کا آلہ کار بننے کی بجائے خود ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی جائے؟ اس طرح 1958 میں پہلی بار پاکستان فوج کے قبضہ میں گیا۔ اس دوران پاکستان کی فوج نے امریکی مدد سے اعلٰی ہتھیاروں تک اپنی رسائی ممکن بنا لی تھی خاص طور پر پاکستان فضائیہ جو ہمیشہ ہی روایتی طور پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے الگ رہی تھی، اس نے اپنے جدید طیاروں کے استعمال میں خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔
 

خرم

محفلین
پاکستان کی فوجی قیادت کی پہلی آزمائش 1962 میں ہوئی جب چین نے بھارت سے جنگ کے وقت رات کو جگا کر صدر ایوب خان کو مطلع کیا کہ اس وقت پاکستان کے پاس کشمیر حاصل کرنے کا موقع ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی کہ "جی حضوریے" ایوب خان کی کانپتی ٹانگیں اس فیصلہ کن ساعت کا بوجھ برداشت نہ کرسکیں اور قسمت نے پاکستان کو جو موقع عطا کیا تھا وہ ہاتھ سے نکل گیا۔ اس لمحہ کی بزدلی جب چھپانا ممکن نہ رہا تو غالباَ ایوب کی تحریک پر اسوقت کے پرنسپل سٹاف افسروں نے کشمیر پر قبضہ کے لئے منصوبہ بندی کا آغاز کیا۔ رن آف کچھ کی جھڑپ کے دوران پاکستان کی خوش قسمتی کہ اس کی فوج کے چند پیشہ ور افسر اس وقت درست جگہ پر متعین تھے سو اس جھڑپ میں کامیابی نے صدر ایوب کی کمزور ٹانگوں کو تھوڑی قوت دی اور اپنی ناپید خوداعتمادی کو توانا کرنے کے لئے انہوں نے یہ مفروضہ گھڑا کہ "ہندو بزدل قوم ہیں اور لڑائی نہیں لڑ سکتے"۔
اس مفروضہ اور "اسلامی اخوت" کی بنیاد پر "آپریشن جبرالٹر" کے خدوخال مرتب کئے گئے۔ خیال یہ تھا کہ قریباَ چالیس ہزار پاکستانی "مجاہدین" اور کمانڈوز مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے اور کشمیری مسلمانوں کی مکمل حمایت کے ساتھ بھارتی افواج کا ناک میں‌دم کر دیں گے اور کیونکہ "ہندو لڑ نہیں سکتا" اس لئے بھارت مجبور ہوجائے گا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے مذاکرات کی میز پر آئے اور کشمیر پاکستان کے حوالے کردے (کچھ سُنا سُنا سا محسوس ہوتا ہے نا یہ سب؟ اس پر بعد میں بات کریں گے انشاء اللہ)
اگست سن انیس سو پینسٹھ میں‌یہ آپریشن شروع ہوا لیکن چار اضلاع کے سوا باقی تمام مقبوضہ کشمیر میں ہمارے کشمیری بھائیوں نے پاکستانی فوجیوں‌کی مخبری کر کے سینکڑوں (ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں سینکڑوں) روپے کمائے۔ نتیجتاَ بھارتی فوج نے سیز فائر لائن کے پار زبردست حملہ کیا اور حاجی پیر پاس کی اہم چوکی پاکستان سے چھین لی۔ آپریشن جبرالٹر نہ صرف ناکام ہو چکا تھا بلکہ بھارت پاکستان کے اندر (معمولی ہی سہی) پیش قدمی کرنے میں بھی کامیاب ہو چُکا تھا۔
 

خرم

محفلین
آپریشن گرینڈ سلام
اس موقعہ پر پاکستان کی فوج نے اپنے جیتے ہونے کا ثبوت پیش کیا اور آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا۔ اس آپریشن کا مقصد یہ تھا کہ اکھنور کو بقیہ بھارت سے کاٹ کر کشمیر میں اس کی فوج کا رابطہ باقی ملک سے کاٹ دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے پوری رازداری کے ساتھ ٹینک اور توپیں‌ملحقہ علاقے میں پہنچائی گئیں اور پہلی ستمبر انیس سو پینسٹھ کو آپریشن گرینڈ سلام کا آغاز ہوا۔
بھارت کی طرف سے اس علاقہ کے دفاع کی ذمہ داری ابتدائی طور پر 191 بریگیڈ کی تھی جس کے زیر کمان چار انفنٹری (پیادہ) بٹالین تھیں۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد ایک رسالہ (ٹینک) سکواڈرن (14 ٹینک) بھی اس بریگیڈ کے زیر کمان دے دیا گیا تھا۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے خیال میں پاکستانی حملہ کا زیادہ امکان نوشہرہ۔جھنگر محور پر تھا اور اسی وجہ سے "چھمب - جوڑیاں"‌محور پر ان کا دفاع زیادہ مضبوط نہ تھا۔ آپریشن جبرالٹر کے بعد بھارتی منصوبہ سازوں نے چھمب جوڑیاں سیکٹر کی حفاظت کی ذمہ داری کے لئے ایک ڈویژن تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لئے بھارتیوں نے ایک نیا ڈویژن "دس ڈویژن" کھڑا کیا جو گرینڈ سلام کے آغاز کے وقت بنگلور میں اپنی تشکیل کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ دس ڈویژن کو پندرہ دسمبر تک 191 بریگیڈ اور 80 بریگیڈ کی کمان سنبھالنی تھی۔ اٹھائیس اگست تک ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر اکھنور پہنچ چکا تھا لیکن یکم ستمبر تک اس نے اپنا مواصلاتی جال نہیں بچھایا تھا اور اس کی موجودی علامتی تھی۔ اس ڈویژن کے پاس صرف چودہ ٹینک تھے جو پھیلا کر ٹروپس (تین ٹینک) کی صورت میں تعینات کئے گئے تھے اور ان کے مابین کافی فاصلہ تھا۔ یہ ٹینک بھی AMX 13 قبیل کے ہلکے ٹینک تھے۔
اس کے برعکس پاکستان کی طرف سے گرینڈ سلام کی ذمہ داری بارہ ڈویژن کی تھی جس کا ہیڈ کوارٹر مری میں ہے اور اس کی کمان میجر جرنل اختر حسین ملک کے ہاتھ تھی۔ اس ڈویژن کی بنیادی ذمہ داری کشمیر کے محاذ پر پاکستانی سرحدوں کا دفاع تھی اور اس کے مقابل تین بھارتی ڈویژن اور دو خودمختار Independant بریگیڈ تعینات تھے۔ آپریشن گرینڈ سلام کے لئے اختر حسین ملک کو دو ٹینک رجمنٹ، ایک خودمختار آرٹلری بریگیڈ جو چار کور کا حصہ تھا، ایک اور آرٹلری بریگیڈ جو سات ڈویژن کا حصہ تھا، 10 انفینٹری بریگیڈ جو سات ڈویژن کا حصہ تھا، ایک بریگیڈ آزاد کشمیر رائفلز کا اور 102 بریگیڈ جو ان کے اپنے ڈویژن کا حصہ تھا، دیئے گئے۔ اٹھائیس اگست کی شام تک اختر حسین ملک کھاریاں پہنچ چکے تھے جہاں‌سے انہوں نے گرینڈ سلام کی قیادت کرنا تھی۔ پاکستان کا منصوبہ یہ تھا کہ دو انفنٹری بریگیڈ سے جن میں سے ہر ایک کو ایک ٹینک رجمنٹ کی مدد حاصل ہوگی، پہلے چھمب پر قبضہ کیا جائے اور اس کے بعد اکھنور پر قبضہ کیا جائے۔ چھمب پر قبضہ کے لئے آزاد کشمیر رائفلز کے بریگیڈ کو ذمہ داری سونپی گئی اور اکھنور پر قبضہ کی ذمہ داری دس بریگیڈ کو دی گئی۔ اکھنور پر قبضہ کے بعد 102 بریگیڈ نے آگے بڑھ کر اکھنور - جھنگر محور پر پاکستانی 25 بریگیڈ سے ملاپ کرنا تھا اور آخری مرحلہ کے طور پر راجوری پر قبضہ کرنا تھا جسے 1948 میں ایک بھارتی ٹینک سکواڈرن نے پاکستان سے چھین لیا تھا۔
 

خرم

محفلین
عمومی طور پر جب جنگوں کی تاریخ لکھی جاتی ہے تو اپنی تعداد کو گھٹا کر اور دشمن کی تعداد کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں یہ بیماری کچھ زیادہ ہے شائد۔ اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار سے آپکو کچھ اندازہ تو ہوگیا ہوگا لیکن چھمب جوڑیاں سیکٹر میں دونوں فوجوں کی تعداد کا موازنہ کچھ ایسا تھا۔
-------------------------------------------------------- پاکستان ---------------------------------------------------- بھارت
انفنٹری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8.25 بٹالین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 بٹالین
ٹینک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6 سکواڈرن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 سکواڈرن
توپخانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 18 بیٹریاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3.5 بیٹریاں

جنگی اصول کے مطابق جارح فوج کے پاس دفاعی فوج کی نسبت تین گنا طاقت کا ہونا لازم ہے کسی بھی آپریشن کی کامیابی کے لئے۔ جیسے کے اوپر دئے گئے جدول سے واضح ہے، گرینڈ سلام کے موقع پر پاکستانی افواج کو بھارتی افواج پر دو گنا سے چھ گنا برتری حاصل تھی اوربالخصوص ٹینکوں کے معاملہ میں یہ برتری اس لئے فیصلہ کن تھی کہ پاکستان کے پاس امریکی ساختہ پیٹن ٹینک تھے جن کا معیار بھارتی ٹینکوں سے بہت بہتر تھا۔
 

ساجداقبال

محفلین
میرے حساب سےتو افواج پاکستان کافی حد تک فارغ ہیں، اگر بیکیریوں اور پکوڑوں، پلاٹوں سے فارغ ہو کر کچھ جدیدیت پر توجہ دیں تو شاید کچھ بہتری آئے۔
کارکردگی تو ہم طالبان کیخلاف دیکھ ہی چکے ہیں۔
 

عین عین

لائبریرین
اربوں‌ کا دفاعی بجٹ۔ اور پھر خفیہ بجٹ ۔ یہ ادارہ کبھی بہت مستحکم رہا ہو گا لیکن اب ایسا نظر نہیں‌ آتا۔ طالبان دہشت گردی میں‌مصروف ہیں اور ہم ان سے باقاعدہ فوج رکھنے اور اس پر اربوں خرچ کرنے کے باوجود بھی معاہدے کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے حکم راں‌نہیں‌جانتے کہ ان کے پاس باقاعدہ فوج ہے جسے استعمال کرنا چاہیے۔ آخر یہ لوگ کس لیے ہیں؟ ریٹائر ہونے کے بعد بھی مراعات۔۔۔۔۔۔۔۔جو اپنے ملک مین چند جنگجوئوں‌سے ‌نہیں‌لڑ‌پا رہے وہ سرحدوں پر لڑنے کے اہل ہیں؟
 

خرم

محفلین
یکم ستمبر کی صبح ساڑھے تین بجے پاکستانی توپخانہ نے انتہائی شدید بمباری سے گرینڈ سلام کا آغاز کیا۔ روایت طور پر توپوں کی تنصیب اس طرح کی جاتی ہے کہ سب سے آگے فیلڈ گنز، پھر میڈیم گنز اور سب سے پیچھے ہیوی گنز لگائی جاتی ہیں۔ اس طرح بھاری اور درمیانہ توپخانہ کی حفاظت بھی بہتر ہوتی ہے اور فائر کو ایک جگہ پر مرتکز کرنا بھی ممکن ہوتا ہے۔ گرینڈ سلام کے لئے آرٹلری کے انچارج بریگیڈیئر امجد نے یہ ترتیب بدل کر درمیانہ اور بھاری توپخانہ فلیڈ گنز سے آگے متعین کردیا تاکہ آپریشن کے دوران توپخانہ کا فائر بوقت ضرورت ہر جگہ مہیا ہو سکے اور بڑی توپوں کو منتقل کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔ فوجی زبان میں یہ ایک "ماسٹر پیس" تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ کی ظالمانہ بمباری کے بعد یکم ستمبر کی صبح پانچ بجے پاکستانی پیادہ فوج اور ٹینکوں نے باقاعدہ حملہ کا آغاز کیا۔ پاکستانی ٹینک رجمنٹس جنہیں سکواڈرنز میں بانٹ دیا گیا تھا، کا آغاز اچھا نہ تھا اور گیارہ کیویلری کو بھارتی بیس لانسرز کے چھ ٹینکوں نے جنوب کی طرف سے روکا اور شمال کی طرف سے پیش قدمی کرتی ہوئی تیرہ لانسرز کو بھارتی بیس لانسرز کے ایک ٹروپ (تین ٹینک) اور ٹینک شکن توپوں‌کے انتہائی خوبصورت دفاع نے پیش قدمی سے باز رکھا۔ اس دن کی پہلی حماقت پاکستانی 102 بریگیڈ کے کمانڈر کی طرف سے ہوئی جب اس نے جنرل اختر ملک کی واضح ہدایات کے برعکس ایک معمولی اہمیت کے قصبہ برجیال پر قبضہ کرنے میں پورا دن لگا دیا جبکہ جرنل ملک کی واضح ہدایات تھیں کہ اس قصبہ کے پہلو سے نکل جایا جائے۔ تین بجے دوپہر کو آدھے 102 بریگیڈ اور تیرہ لانسرز کے ایک سکواڈرن نے برجیال پر قبضہ مکمل کر لیا۔ 102 بریگیڈ کے کمانڈر کے اس ایڈونچر کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستانی افواج طے کردہ منصوبہ کے مطابق یکم ستمبر کو دریائے توی کے پار نہیں جا سکیں۔ 102 بریگیڈ کے اپنی طاقت کو بکھیرنے کا نقصان یہ ہوا کہ توپخانہ کو بھی مختلف مقامات پر بکھرا ہوا فائر دینا پڑا اور اس کی تمام تر قوت ایک مقام پر مرتکز کرکے دشمن کی صفوں میں شگاف نہیں ڈالا جا سکا۔ پاکستانی 102 بریگیڈ کمانڈر کی حماقت کے باوجود اس روز شام تک بھارتی 191 بریگیڈ اپنی آخری سانسوں‌پر تھا اور اس کی اکلوتی فیلڈ رجمنٹ 161 فیلڈ رجمنٹ اپنی توپیں چھوڑ کر پسپا ہوچُکی تھی اور یکم ستمبر کی شام تک تیرہ لانسرز دریائے توی کے کنارے پہنچ چکی تھی لیکن اس نے اسے عبور کرنے کی کوشش نہ کی۔
ادھر بھارتی دس ڈویژن نے 191 بریگیڈ کو حکم دیا کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن چھوڑ کر اکھنور کا دفاع مضبوط بنائیں اور اکھنور کے دفاع پر مامور 41 پہاڑی بریگیڈ کو حکم دیا گیا کہ وہ جلد از جلد جوڑیاں-تروٹی محور پر جگہ سنبھال لیں۔ دو ستمبر 1965 کی صبح آٹھ بجے تک چھمب بھی پاکستانی افواج کے قبضہ میں آچکا تھا۔ اور پھر وہ ہوا جس کا ماتم آج بھی کیا جاتا ہے۔ گیارہ بجے صبح کمانڈ ان چیف جنرل موسٰی نے آپریشن کی کمانڈ جنرل اختر حسین ملک سے لے کر ایوب خان کے چہیتے جنرل یحیی خان کو سونپ دی تاکہ اکھنور کی فتح کا سہرا ایک "ناپسندیدہ" افسر کی بجائے ایک "چہیتے‌افسر" کے سر پر سجے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ کی اس "جنگی" چال نے دشمن کو بھی حیران کر دیا اور بھارتی فوجی مورخ لکھتا ہے کہ "اس مشکل کے وقت ایک عجیب بات ہوئی۔ دشمن ہماری مدد کو آیا اور ہمیں چوبیس گھنٹے دے دئے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے"۔ جنرل یحییٰ نے کمانڈ سنبھالنے کے بعد آرام سے اپنے ماتحتوں کا اجلاس اڑھائی بجے دوپہر طلب کیا اور رات کو دریائے توی پار کرنے کے احکامات دئے۔ بھارتی 191 بریگیڈ‌ پچھلی رات ہی وہ علاقہ خالی کر چکا تھا سو رات ساڑھے نو بجے تک دس بریگیڈ اور تیرہ لانسرز نے دریا کے دوسرے کنارے پر قبضہ کرلیا یعنی پورے ایک دن سے بھی بعد۔ تین ستمبر کی صبح یحیی خان نے دس بریگیڈ کو اس روز رات تک جوڑیاں پر قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت تک بھارتی 41 پہاڑی بریگیڈ مناسب انداز سے مورچہ زن ہو چُکا تھا اور دفاع کے لئے تیار تھا۔ اس وقت بھی بھارتی تیاری اس قدر نہیں تھی کہ وہ ایک مرتکز پاکستانی حملے کو روک سکے لیکن بھارتی جگہ کے عوض وقت خرید رہے تھے تاکہ وہ ایک متبادل محاذ کھول کر پاکستانی دباؤ کو کم کر سکیں۔
اسی اثنا میں بھارت نے بیس لانسرز کے دو سکواڈرن کے سوا باقی تمام یونٹ کو پٹھانکوٹ سے منتقل کرکے 41 بریگیڈ کی زیر کمان دے دیا۔ پاکستانی 10 بریگیڈ نے دو اطراف سے حملہ کا آغاز کیا۔ دوبٹالین پیادہ فوج اور ایک ٹینک سکواڈرن نے چھمب - اکھنور محور پر شمالی جانب سے حملہ کا آغاز کیا اور ایک بٹالین پیادہ فوج اور ایک سکواڈرن ٹینک نے جنوبی جانب سے نواں ہمیرپور کی طرف سے حملے سے آغاز کیا تاکہ دریائے توی کے شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دشمن کو اس کے عقب سے جالیں۔ ایک بجے دوپہر حملہ شروع ہوا اور علاقہ میں برساتی نالوں کی کثرت کی وجہ سے پیش قدمی کی رفتار سُست تھی۔ قریباَ پانچ بجے شام تیرہ لانسرز بھارتی دفاعی چوکیوں پر حملہ آور ہوئی جبکہ شام چھ بجے جنوبی حصۃ نواں ہمیر پور پہنچ گیا۔ اس وقت بھارتی اکھنور کے دفاع کے لئے اپنا تیسرا بریگیڈ (28 بریگیڈ) بھی میدان میں لے آئے اور اسے انہوں‌نے اکھنور سے قریباَ چار میل مغرب میں تعینات کر دیا۔ چار ستمبر کی صبح یحیی نے چھ بریگیڈ کو دریائے توی کے کنارے 102 بریگیڈ کی جگہ لینے کااور 102 بریگیڈ کو آگے آکر اکھنور پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی روز ساڑھے گیارہ بجھے دس بریگیڈ نے بھارتی 41 بریگیڈ پر حملے کا آغاز کیا۔ تیرہ لانسرز نے بھارتی چوکیوں کے عقب میں جانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوششوں کو بھارتی بیس لانسرز کے دو ٹینک ٹروپس نے زیادہ کامیاب نہیں ہونے دیا اور دن کی روشنی کے اختتام تک تیرہ لانسرز معمولی پیش قدمی ہی کرسکی تھی۔ بھارتی منصوبہ سازوں کو اس وقت تک علم ہو چُکا تھا کہ وہ 41 بریگیڈ کی موجودہ پوزیشن زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکیں گے اور چار اور پانچ ستمبر کی درمیانی رات انہوں نے 41 بریگیڈ‌کو اکھنور واپس بلا کر اس کے دفاع کی ذمہ داری دے دی۔
پانچ ستمبر کی صبح 102 بریگیڈ بھی اکھنور کے نواح میں پہنچ گیا اور تیرہ لانسرز بھارتی 28 بریگیڈ پر حملہ آور ہوئی جو اکھنور سے صرف چار میل کی دوری پر مورچہ زن تھا۔ تمام دن کے شدید لڑائی کے بعد اکھنور پر قبضہ ابھی باقی تھا جب چھ ستمبر کی صبح نے سب کچھ بدل دیا۔
کشمیر کو بیسویں صدی میں آزاد نہیں ہونا تھا۔
 

خرم

محفلین
اوپر بیان کئے گئے واقعات سے واضح ہے کہ اگر پاکستانی فوج کی اعلٰی کمان انتہائی کم عقل، بزدل اور خوشامدیوں کے ٹولے پر مشتمل نہ ہوتی تو گرینڈ سلام کے دوران کشمیر کو باقی ہندوستان سے کاٹنے کا موقع یقینی تھا۔ اگر دو ستمبر کو پاکستانی فوج کی سیاست حملے کو ایک پورے دن کے لئے نہ روکتی تو نہ صرف کشمیر بھارت سے کٹ جاتا بلکہ پاکستان کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ اپنی فوجیں کسی ممکنہ بھارتی حملے سے بچنے کے لئے دوسرے محاذوں پر لگا سکتا اور اس طرح مسئلہ کشمیر کا حل بھارت پر مسلط کر سکتا۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ تین ستمبر کی رات تک اکھنور کے دفاع کے لئے بھارت کا صرف ایک بریگیڈ تھا جس کا زور لڑائی کے پہلے روز ہی ٹوٹ چُکا تھا اور دو ستمبر کو کیا جانے والا حملہ فیصلہ کُن ثابت ہوتا۔ پاکستانی جرنیلوں کی طرف سے کمان کی تبدیلی نے بھارتیوں کو اتنا موقع دیا کہ وہ اکھنور کے دفاع کو مضبوط بنا کر تین قیمتی روز تک اکھنور کو بچائے رکھ سکیں‌اور اسی اثنا میں اپنی فیصلہ کن قوت پاکستانی سرحد پر اکٹھی کرکے چھ ستمبر کو اپنی مرضی کے محاذ پر جنگ شروع کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب گرینڈ سلام کی کمان جرنل اختر حسین ملک سے لی گئی تو وہ اس روز پھوٹ‌پھوٹ کر روئے کہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اکھنور اب پاکستان کی پہنچ سے بہت دور چلا جائے گا۔ جنرل اختر نے ایک بار بعد میں کہا تھا "اگر تم میرا دل چیرو گے تو اس میں اکھنور لکھا پاؤ گے"۔ افسوس کہ پاکستان کی افواج کی کمان جنرل اختر جیسے کسی سپاہی کے ہاتھ نہیں‌بلکہ ایوب، موسٰی اور یحیی جیسے "جی حضوریوں" کے ہاتھ تھی۔ گرینڈ سلام وہ بہترین موقع تھا جو قدرت نے پاکستان کو عطا کیا لیکن یہ موقع ہماری فوجی قیادت کی نااہلی کی نظر ہوگیا۔
 

خرم

محفلین
ایک آفیشیل کتاب ہے "Pakistan Army War 1965" اور پھر آغا ہمایوں امین کے کالم سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برسوں‌میں جو کچھ پڑھا اور جو نتائج اخذ کئے ان کا بھی ذکر ہے۔
 

عسکری

معطل
پاکستانی افواج کا دھاگہ بھی کھل گیا چلو شکر ہے جہاں تک بات ہے افواج کی طاقت کی اور ہتھیاروں کی آرمی نیوی ائیر فورس کو مکمل حکومتی سپورٹ حاصل ہے اور ان کو کسی چیز کی کمی نہیں نا ہی ان کو کبھی کوئی مسئلہ ہوا اس بارے میں شک نہیں افوج پاکستان پروفیشنل اور تیار بہادر جوانوں اور افسرون پر مشتمل ہے اپنے ہتھیاروں کا بہت ہی موثر استمال جانتی ہے فرانس امریکہ چین بیلجئم سوئڈن اور پاکستان کے بنے بہترین ہتھیاروں سے لیس ہے پر پچھلے 15 سال سے پاکستانی افواج کا مورال گرتا جا رہا ہے اور عوام میں مقبولیت مین بے انتہا کمی ہوئی (جس کا مجھے بے حد افسوس ہے) پر یہ ایک طرفہ نہیں افواج کے افسران اور ھکومت کی طاقت استمال کرنے کی پالیسی سے بے چارے جوان شہید بھی ہوتے ہیں اور بدنام بھی جو سراسر ظلم ہے ارے بھائی لال مسجد میں شہید ہونے والے 10 ایس ایس جی والے تو آرڈر پر وہاں تھے اب وہ بھی اور لال مسجد کے شہدا بھی ہمارے لیے اپنے بھائی تھے پر لعن طعن کی گئی صرف افواج کو (اس پر بحث نہیں کنی مجھے) پر میرا خیسل ہے افواج کو اب بھی سیاست سے دور عوام سیاست دان رکھ سکتے ہیں اور ان کی وہ عزت اور مورال بحال کی جا سکتی ہے اور ان شا اللہ ایک دن ضرور ہو گی۔
 

خرم

محفلین
فوج صرف ہتھیاروں کا نام نہیں ہوتی عبداللہ بھیا۔ قوت ہتھیار میں نہیں اسے استعمال کرنے والے کے جذبہ و جاں میں ہوتی ہے۔ باقی لال مسجد والے فسادیوں کا ذکر تو اس دھاگہ کا موضوع ہی نہیں۔
 

عسکری

معطل
بجا فرمایا دوست پر 1973 کے بعد الیکٹرانک جنگ کا دور شروع ہوا ہے اب ہتھیار جزبے پر غالب ہیں کمپیوٹراز جنگ نے نقشہ بدل دیا ہے ایک بی وی آر لوڈڈ جیٹ 200 کلو میٹر سے مار کر سکتا ہے دشمن کو تو میزائیلوں اور جامرز نے کیا سے کیا بنا دیا پر جزبہ ایمانی حق پرستی اور مورال بھی بہرحال بے حد اہم ہے اور عوامی سپورٹ کے بغیر تو جنگ خود کشی ہے۔
 

خرم

محفلین
جی بھیا آلات حرب و ضرب میں‌ترقی کی کوشش کرتے رہنا حکم قرآنی ہے۔ اس سے تو چشم پوشی کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔ لیکن میدان جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ اللہ کی نصرت کے بعد جنگی منصوبہ سازوں کی حکمت عملی اور اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں سے کس قدر کام لیتے ہیں اور اپنے دشمن کو کس قدر نقصان پہنچاتے ہیں۔ دشمن جتنا چاہے مضبوط ہو، اس کی کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں۔ ایک دانا جنگی منصوبہ ساز اپنی طاقت کو ان کمزوریوں پر مرکوز کرکے دشمن کے قدم اکھاڑتا ہے اور فتح مند ہوتا ہے۔ خالد ابن ولید، سعد بن ابی وقاص، صلاح الدین ایوبی، سکندر اعظم، نپولین، رومل اور دیگر عظیم جرنیل تقریباَ ہمیشہ ایک کمزور فوج کو کمان کر رہے تھے لیکن ان کی جنگی چالوں نے میدان جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا۔
 
Top