پاکستان میں جتنی بھی پارٹیاں ہیں وہ ہمارے معاشرے کی عکاس ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے کوئی بھی ایسی پارٹی نظر نہیں آتی جس پر میں فخر کر سکوں۔ سیاست ہمارے ملک میں خدمت کے لئے نہیں کاروبار کے لئے کی جاتی ہے۔
آپ کو ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ملیں گے جو واقعتاً شریف بھی ہوں اور سیاست میں حصہ لینا بھی چاہتے ہوں۔
البتہ پچھلے کچھ سالوں اس ماحول میں نسبتاً کچھ بہتری آئی ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ پاکستان نے حقیقی جمہوریت کی طرف کچھ قدم بڑھا لئے ہیں۔
اس کی ایک اچھی مثال 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد کا ووٹ ڈالنے کے لئے نکلنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اب جمہوریت میں اعتبار کرنے لگے ہیں۔
دوسرا روائتی حریف پارٹیوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کی پالیسی ترک کردی ہے اور ایک دوسرے کو کام کرنے کا موقع دینے کا رویہ اپنایا ہے۔ یاد رہے کہ 1988 سے لیکر 1999 تک ان دونوں جماعتوں کی آپس کی شدید لڑائی کی وجہ سے وقت سے پہلے حکومت گرنے کی وجہ ان کے اچھے کام بھی مکمل نہیں ہوتے تھے اور نقصان ملکی معیشت کا ہوتا تھا۔ اب زیادہ تر سیاستدان تہذیب کے دائرے میں رہ کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں صرف عمران اور طاہرالقادری ہی ابھی تک اس سبق کو نہیں سیکھ سکے کہ سیاست تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ عمران نے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو سیاست میں حصہ لینے کا راستہ دکھایا ہے اور اپنی پارٹی میں انتخابات کراکر اچھی جمہوری روایات شروع کی ہیں۔
المختصر یہ کہ پاکستانی سیاست میں آہستہ آہستہ بہتری آ رہی ہے لیکن ابھی بھی اس میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ بہتر ہوتی جائے گی اگر جمہوریت چلتی رہی تو۔