پاکستانی فوج کے کاروباری مفادات

پاکستانی

محفلین
کاروباری معاملات میں فوج کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جنتی خود سیاسی امور میں اس کی مداخلت کی۔ تاہم فوج کے کاروباری مفادات سے متعلق مستند مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کی کتاب ’سٹیٹ آف مارشل رُول‘ اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ فوج کے سیاسی کردار اور اس سے متعلق دیگر امور کا بخوبی محاکمہ کرتی ہیں لیکن فوج کے مالی مفادات کا موضوع ہمیشہ سے تشنہ رہا ہے۔

فوجی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریٹڈ: انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی‘ اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کاوش نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات معیشت کے تینوں سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ مفادات ادارہ جاتی سطع پر پائے جاتے ہیں جیسے نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں جہاں کاروباری ادارے براہِ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

دوسری صورت فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہے جو براہِ راست فوج کے زیر انتظام تو نہیں لیکن فوج کے ایسے اداروں سے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔



مزید
 

مہوش علی

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:
کاروباری معاملات میں فوج کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جنتی خود سیاسی امور میں اس کی مداخلت کی۔ تاہم فوج کے کاروباری مفادات سے متعلق مستند مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کی کتاب ’سٹیٹ آف مارشل رُول‘ اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ فوج کے سیاسی کردار اور اس سے متعلق دیگر امور کا بخوبی محاکمہ کرتی ہیں لیکن فوج کے مالی مفادات کا موضوع ہمیشہ سے تشنہ رہا ہے۔

فوجی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریٹڈ: انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی‘ اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کاوش نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات معیشت کے تینوں سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ مفادات ادارہ جاتی سطع پر پائے جاتے ہیں جیسے نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں جہاں کاروباری ادارے براہِ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

دوسری صورت فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہے جو براہِ راست فوج کے زیر انتظام تو نہیں لیکن فوج کے ایسے اداروں سے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔



مزید

مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اعتدال میں نہیں رہ سکتے اور جب کسی کے خلاف ہوتے ہیں تو اتنے خلاف ہو جاتے ہیں کہ اس کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر نظر آنے لگتا ہے۔

بے شک ضیاء، یحیی خان، جنرل فضل حق، آئی ایس آئی۔۔۔ وغیرہ نے ماضی میں آرمی کو غلط کاموں کے لیے استعمال کیا، مگر اس کی وجہ سے پوری کی پوری فوج اپنے کل، آج اور مستقبل کے کل کے لیے "مستقل" گنہگار نہیں بن گئی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

مختصر جوابات:

بی بی سی:
تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔

بی بی سی کے ہی مطابق مشرف صاحب کے دور میں ایسے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی تعداد زیادہ سے زیادہ 285 ہے۔

اگر ہر افسر کو 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے تنخواہ ماہانہ ملتی ہے تب ان 285 افسران کی "کُل" ماہانہ تنخواہ زیادہ سے زیادہ 1 کڑوڑ سے لیکر ڈیڑھ کڑوڑ بنتی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ آپکے اس پسندیدہ جمہوری نظام میں ایک کرپٹ سیاستدان کئی کئی ارب روپے اکیلا ہی کھا جاتا ہے۔ اور نیب نے ایسے ہی کئی ارب روپے باہر نکلوائے۔

تو اب صرف فوج دشمنی کی بنیاد پر ہی یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملازمتیں دینا اس لیے ہے کہ فوج کو "نوازا" جائے۔ (جبکہ "نوازنے" کے لیے غیر قانونی طور پر "کئی ارب روپے" اِدھر سے اُدھر آسانی سے کیے جا سکتے ہیں)۔

تو بات یہ ہے کہ سول سیاستدانوں سے ملک تو چلتا نہیں۔ یہی نواز شریف اور بے نظیر کی سول حکومتیں تھیں اور اپنے ادوار میں اپنے پارٹی جانبازوں کو ان مناصب پر ملازمتیں دیتی تھیں اور کرپشن موجودہ دور سے کہیں زیادہ تھی۔

اور سٹیل مل تو مستقل طور پر آپکی سول حکومتوں کے دور میں خسارے میں رہی حتی کہ انہیں سول حکومتوں کو ریٹائرڈ فوجی "جنرل قمر صبیح الزمان" کا سہارا لینا پڑا اور یہ وہ جنرل تھا جس نے آ کر پہلی مرتبہ سٹیل مل کو خسارے سے نکالا۔

تو ماہانہ ایک تا دو کڑوڑ روپے کچھ اتنی بڑی رقم نہیں کہ جس کے لیے آپ لوگ فوج پر یہ الزام لگائیں کہ وہ "نوازی" جا رہی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران بھی پاکستانی شہری ہیں اور اگر ان میں ٹیلنٹ ہے تو ہر لحاظ سے انہیں حق ہے کہ وہ ان مناصب پر فائز ہو کر بہتر طور پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

باقی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر مفصل تبصرہ بعد میں۔ مگر مختصرا یہ عرض کر دوں کہ فوج اگر کچھ کاروباری ادارے چلا رہی ہے تو یہ ہرگز غیر قانونی نہیں اور بہت سے ایسے ممالک (کہ جہاں فوج کبھی سیاست میں ملوث نہیں ہوئی) ادھر بھی فوج ایسے کاروباری ادارے چلا رہی ہے۔

تو یہ بات نوٹ کریں کہ فوج کے پاس پاکستان کے کل کاروبار کا شاید 2 تا 5 فیصد حصہ ہی ہو اور باقی کاروباری صنعتیں مکمل طور پر سویلین کے ہاتھوں میں ہیں۔ (مثلا ٹیکسٹائل صنعت میں ایک بھی فوجی ادارہ ملوث نہیں، کیمیکل ادارے، دوائیاں بنانے والے ادارے۔۔۔۔ غرض بے تحاشہ ادارے ایسے ہیں جہاں آپ کو فوج کا نام و نشان تک نہیں ملے گا)

تو پہلے تو میں یہ دیکھنا چاہوں گی کہ آپ لوگوں کو فوج کے ان کاروباری اداروں پر کیا اعتراضات ہیں، اور اس کے بعد گفتگو جاری رکھیں گے۔ (کیونکہ اگر یہ اعتراضات صرف کسی حسد کی بنیاد پر ہیں، تو بات چیت کرنا بیکار ہے)۔

والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ان ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کے متعلق مختصر حکومتی موقف

قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات میں بیلم حسنین کے سوال پر اسٹیبلشمینٹ ڈویژن کے پیش کردہ تحریر جواب میں بتایا گیا کہ مختلف وزارتوں اور ان سے منسلک کارپوریشنز یا نیم خود مختار اداروں میں دو سو چون اہم سویلین عہدوں پر فوجی افسران تعینات کیے گئے۔

حکومت نے اپنے تحریری جواب میں بتایا کہ انتیس حاضر سروس فوجی افسروں کو اپنے کوٹہ کے مطابق سول سروسز میں ضم کیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بتایا کہ ایک سو سولہ حاضر سروس فوجی افسران کو ڈیپوٹیشن یا سیکنڈ مینٹ پر مختلف وزارتوں کے اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

جبکہ حکومت کے مطابق تینوں مسلح افواج کے مختلف عہدوں سے ریٹائر ہونے والے ایک سو نو افسران کو مختلف وزارتوں میں کانٹریکٹ پر تعینات کیا گیا۔

حکومت کے مطابق مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ سول سروسز کے گریڈ سترہ کے عہدوں کے لیے دس فیصد کوٹہ حاضر سروس فوجی افسران کے لیے مختص ہے۔

ان عہدوں پر تعیناتی کے لیے نامزد فوجی افسران کا فیڈرل پبلک سروس کمیشن ٹیسٹ لیتا ہے اور انہیں سویلین عہدوں پر مستقل تعینات کرتا ہے۔

حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا نو وزارتوں میں دس فیصد کوٹہ ہے اور اس پر تعیناتی کے لیے ڈیفنس سروس آفیسرز سلیکشن بورڈ سفارش کرتا ہے۔

حکومتی جواب میں کانٹریکٹ پر تعینات ایک سو نو فوجی افسران اور ڈیپوٹیشن اور سیکنڈمنٹ پر تعینات ایک سو سولہ فوجی افسران کے بارے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا کوئی کوٹہ ہے یا کہ صوابدیدی اختیار کے تحت انہیں مقرر کیا گیا ہے۔


مکمل آرٹیکل میرا پاکستان پر پڑھئیے
 

زیک

مسافر
مہوش علی نے کہا:
فوج اگر کچھ کاروباری ادارے چلا رہی ہے تو یہ ہرگز غیر قانونی نہیں اور بہت سے ایسے ممالک (کہ جہاں فوج کبھی سیاست میں ملوث نہیں ہوئی) ادھر بھی فوج ایسے کاروباری ادارے چلا رہی ہے۔

مثالیں؟
 
مہوش علی نے کہا:
پاکستانی نے کہا:
کاروباری معاملات میں فوج کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جنتی خود سیاسی امور میں اس کی مداخلت کی۔ تاہم فوج کے کاروباری مفادات سے متعلق مستند مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کی کتاب ’سٹیٹ آف مارشل رُول‘ اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ فوج کے سیاسی کردار اور اس سے متعلق دیگر امور کا بخوبی محاکمہ کرتی ہیں لیکن فوج کے مالی مفادات کا موضوع ہمیشہ سے تشنہ رہا ہے۔

فوجی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریٹڈ: انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی‘ اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کاوش نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات معیشت کے تینوں سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ مفادات ادارہ جاتی سطع پر پائے جاتے ہیں جیسے نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں جہاں کاروباری ادارے براہِ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

دوسری صورت فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہے جو براہِ راست فوج کے زیر انتظام تو نہیں لیکن فوج کے ایسے اداروں سے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔



مزید

مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اعتدال میں نہیں رہ سکتے اور جب کسی کے خلاف ہوتے ہیں تو اتنے خلاف ہو جاتے ہیں کہ اس کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر نظر آنے لگتا ہے۔

بے شک ضیاء، یحیی خان، جنرل فضل حق، آئی ایس آئی۔۔۔ وغیرہ نے ماضی میں آرمی کو غلط کاموں کے لیے استعمال کیا، مگر اس کی وجہ سے پوری کی پوری فوج اپنے کل، آج اور مستقبل کے کل کے لیے "مستقل" گنہگار نہیں بن گئی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

مختصر جوابات:

بی بی سی:
تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔

بی بی سی کے ہی مطابق مشرف صاحب کے دور میں ایسے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی تعداد زیادہ سے زیادہ 285 ہے۔

اگر ہر افسر کو 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے تنخواہ ماہانہ ملتی ہے تب ان 285 افسران کی "کُل" ماہانہ تنخواہ زیادہ سے زیادہ 1 کڑوڑ سے لیکر ڈیڑھ کڑوڑ بنتی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ آپکے اس پسندیدہ جمہوری نظام میں ایک کرپٹ سیاستدان کئی کئی ارب روپے اکیلا ہی کھا جاتا ہے۔ اور نیب نے ایسے ہی کئی ارب روپے باہر نکلوائے۔

تو اب صرف فوج دشمنی کی بنیاد پر ہی یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملازمتیں دینا اس لیے ہے کہ فوج کو "نوازا" جائے۔ (جبکہ "نوازنے" کے لیے غیر قانونی طور پر "کئی ارب روپے" اِدھر سے اُدھر آسانی سے کیے جا سکتے ہیں)۔

تو بات یہ ہے کہ سول سیاستدانوں سے ملک تو چلتا نہیں۔ یہی نواز شریف اور بے نظیر کی سول حکومتیں تھیں اور اپنے ادوار میں اپنے پارٹی جانبازوں کو ان مناصب پر ملازمتیں دیتی تھیں اور کرپشن موجودہ دور سے کہیں زیادہ تھی۔

اور سٹیل مل تو مستقل طور پر آپکی سول حکومتوں کے دور میں خسارے میں رہی حتی کہ انہیں سول حکومتوں کو ریٹائرڈ فوجی "جنرل قمر صبیح الزمان" کا سہارا لینا پڑا اور یہ وہ جنرل تھا جس نے آ کر پہلی مرتبہ سٹیل مل کو خسارے سے نکالا۔

تو ماہانہ ایک تا دو کڑوڑ روپے کچھ اتنی بڑی رقم نہیں کہ جس کے لیے آپ لوگ فوج پر یہ الزام لگائیں کہ وہ "نوازی" جا رہی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران بھی پاکستانی شہری ہیں اور اگر ان میں ٹیلنٹ ہے تو ہر لحاظ سے انہیں حق ہے کہ وہ ان مناصب پر فائز ہو کر بہتر طور پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

باقی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر مفصل تبصرہ بعد میں۔ مگر مختصرا یہ عرض کر دوں کہ فوج اگر کچھ کاروباری ادارے چلا رہی ہے تو یہ ہرگز غیر قانونی نہیں اور بہت سے ایسے ممالک (کہ جہاں فوج کبھی سیاست میں ملوث نہیں ہوئی) ادھر بھی فوج ایسے کاروباری ادارے چلا رہی ہے۔

تو یہ بات نوٹ کریں کہ فوج کے پاس پاکستان کے کل کاروبار کا شاید 2 تا 5 فیصد حصہ ہی ہو اور باقی کاروباری صنعتیں مکمل طور پر سویلین کے ہاتھوں میں ہیں۔ (مثلا ٹیکسٹائل صنعت میں ایک بھی فوجی ادارہ ملوث نہیں، کیمیکل ادارے، دوائیاں بنانے والے ادارے۔۔۔۔ غرض بے تحاشہ ادارے ایسے ہیں جہاں آپ کو فوج کا نام و نشان تک نہیں ملے گا)

تو پہلے تو میں یہ دیکھنا چاہوں گی کہ آپ لوگوں کو فوج کے ان کاروباری اداروں پر کیا اعتراضات ہیں، اور اس کے بعد گفتگو جاری رکھیں گے۔ (کیونکہ اگر یہ اعتراضات صرف کسی حسد کی بنیاد پر ہیں، تو بات چیت کرنا بیکار ہے)۔

والسلام۔

مہوش آپ باقی سب کو تو اعتدال سے گزرنے جانے کی نوید سنا رہی ہیں مگر خود یہی کام اتنی شد و مد کے ساتھ کر رہی ہیں کہ اب تو حیرت کو بھی سکتہ ہوگیا۔

فوج اور سیاستدان، یقینا مشرف کے آنے سے پہلے سیاستدانوں کا ریکارڈ کرپشن میں شاندار تھا مگر فوج نے جو اندھیر اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے اس کے بعد سیاستدان ‘معصوم‘ اور ‘بیچارے‘ نظر آتے ہیں۔ صرف چند مثالیں پیش کروں گا جس میں کرپشن کی اگلی پچھلی حدیں توڑ دیں ہیں فوج نے اور یہ وہ مثالیں ہیں جو آنکھوں کے سامنے کی ہیں۔

ڈیفنس لاہور کے کور کمانڈرز نے ڈیفنس میں کروڑوں اربوں کے نہیں کھربوں کے گھپلے کیے ، کھلی فائلوں کی قیمت ایک دو لاکھ سے شروع کروا کر 40 ، 40 لاکھ تک لے کر گئے اور لاکھوں لوگوں کا پیسہ لوٹ کر اپنی جیبیں بھر لیں اور فائلوں کی قیمتیں دوبارہ دو چار لاکھ پر آ گئییں۔
رینجرز سوسائٹی ، پارک ایوینو کو بزور بازو ڈیفنس میں شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے اربوں روپے کمائے گئے۔

گوادر کے اندر زمین کوڑیوں کے مول خرید کر فووجی افسران میں بانٹی گئی جسے انہوں نے اربوں میں بیچا ہے اور یہ مسئلہ اب تک چل رہاہے۔

سٹیل مل کا مشہور سکینڈل تو کسی کی نظر سے چھپا نہیں جس میں 200 ارب سے زائد کی جائداد کو صرف 22 ارب میں بیچا جا رہا تھا۔

واپڈا کا چئیر مین ‘جنرل ذوالفقار‘ کو بنایا گیا اور واپڈا کا خسارہ اب 22 ارب سے بڑھ کر 80 ارب ہو چکا ہے اور مزید بڑھ رہا ہے۔

پی آئی اے کی کرپشن کا تازہ سکینڈل بھی منظر عام پر ہے اور خسارہ بھی ریکارڈ حد تک ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ پی آئی اے کے طیاروں پر پابندی ہے۔

بجلی کا بحران بد سے بد تر ہو چکا ہے اور آٹھ سال کی طویل مدت میں ایک بھی منصوبہ پورا نہیں ہوا جس سے بجلی پیدا ہو۔

ٹرانسپرینسی انٹر نیشنل کی رپورٹ‌کے مطابق پچھلے تین سال میں ملک میں کرپشن تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

افراط زر 8 فیصد ہے ، مہنگائی دو فیصد بڑھ چکی ہے ، انصاف کے لیے خود چیف جسٹس سوالی ہے۔


سیاہ و سفید کا مالک ہو کر بھی اگر ملک چلانا اس کو کہتے ہیں تو پھر بدقسمتی کس کو کہتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
پاکستانی نے کہا:
کاروباری معاملات میں فوج کی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جنتی خود سیاسی امور میں اس کی مداخلت کی۔ تاہم فوج کے کاروباری مفادات سے متعلق مستند مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ جلال کی کتاب ’سٹیٹ آف مارشل رُول‘ اور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی ’ملٹری، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان‘ فوج کے سیاسی کردار اور اس سے متعلق دیگر امور کا بخوبی محاکمہ کرتی ہیں لیکن فوج کے مالی مفادات کا موضوع ہمیشہ سے تشنہ رہا ہے۔

فوجی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریٹڈ: انسائیڈ پاکستانز ملٹری اکانومی‘ اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کاوش نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق پاک فوج کے کاروباری مفادات معیشت کے تینوں سیکٹرز زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض صورتوں میں یہ مفادات ادارہ جاتی سطع پر پائے جاتے ہیں جیسے نیشنل لاجسٹک سیل اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں جہاں کاروباری ادارے براہِ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہیں۔

دوسری صورت فوجی فاؤنڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن جیسے اداروں کی ہے جو براہِ راست فوج کے زیر انتظام تو نہیں لیکن فوج کے ایسے اداروں سے گہرے مالی مفادات وابستہ ہیں۔

تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔



مزید

مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگ اعتدال میں نہیں رہ سکتے اور جب کسی کے خلاف ہوتے ہیں تو اتنے خلاف ہو جاتے ہیں کہ اس کی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر نظر آنے لگتا ہے۔

بے شک ضیاء، یحیی خان، جنرل فضل حق، آئی ایس آئی۔۔۔ وغیرہ نے ماضی میں آرمی کو غلط کاموں کے لیے استعمال کیا، مگر اس کی وجہ سے پوری کی پوری فوج اپنے کل، آج اور مستقبل کے کل کے لیے "مستقل" گنہگار نہیں بن گئی۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

مختصر جوابات:

بی بی سی:
تیسری صورت فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو حاصل ہونے والے مالی مفادات کی ہے جو انہیں سویلین اداروں میں ملازمتوں اور اِسی نوعیت کے دیگر طریقوں سے پہنچائے جاتے ہیں۔

بی بی سی کے ہی مطابق مشرف صاحب کے دور میں ایسے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی تعداد زیادہ سے زیادہ 285 ہے۔

اگر ہر افسر کو 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے تنخواہ ماہانہ ملتی ہے تب ان 285 افسران کی "کُل" ماہانہ تنخواہ زیادہ سے زیادہ 1 کڑوڑ سے لیکر ڈیڑھ کڑوڑ بنتی ہے۔

تو عرض یہ ہے کہ آپکے اس پسندیدہ جمہوری نظام میں ایک کرپٹ سیاستدان کئی کئی ارب روپے اکیلا ہی کھا جاتا ہے۔ اور نیب نے ایسے ہی کئی ارب روپے باہر نکلوائے۔

تو اب صرف فوج دشمنی کی بنیاد پر ہی یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملازمتیں دینا اس لیے ہے کہ فوج کو "نوازا" جائے۔ (جبکہ "نوازنے" کے لیے غیر قانونی طور پر "کئی ارب روپے" اِدھر سے اُدھر آسانی سے کیے جا سکتے ہیں)۔

تو بات یہ ہے کہ سول سیاستدانوں سے ملک تو چلتا نہیں۔ یہی نواز شریف اور بے نظیر کی سول حکومتیں تھیں اور اپنے ادوار میں اپنے پارٹی جانبازوں کو ان مناصب پر ملازمتیں دیتی تھیں اور کرپشن موجودہ دور سے کہیں زیادہ تھی۔

اور سٹیل مل تو مستقل طور پر آپکی سول حکومتوں کے دور میں خسارے میں رہی حتی کہ انہیں سول حکومتوں کو ریٹائرڈ فوجی "جنرل قمر صبیح الزمان" کا سہارا لینا پڑا اور یہ وہ جنرل تھا جس نے آ کر پہلی مرتبہ سٹیل مل کو خسارے سے نکالا۔

تو ماہانہ ایک تا دو کڑوڑ روپے کچھ اتنی بڑی رقم نہیں کہ جس کے لیے آپ لوگ فوج پر یہ الزام لگائیں کہ وہ "نوازی" جا رہی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران بھی پاکستانی شہری ہیں اور اگر ان میں ٹیلنٹ ہے تو ہر لحاظ سے انہیں حق ہے کہ وہ ان مناصب پر فائز ہو کر بہتر طور پر ملک و قوم کی خدمت کریں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

باقی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب پر مفصل تبصرہ بعد میں۔ مگر مختصرا یہ عرض کر دوں کہ فوج اگر کچھ کاروباری ادارے چلا رہی ہے تو یہ ہرگز غیر قانونی نہیں اور بہت سے ایسے ممالک (کہ جہاں فوج کبھی سیاست میں ملوث نہیں ہوئی) ادھر بھی فوج ایسے کاروباری ادارے چلا رہی ہے۔

تو یہ بات نوٹ کریں کہ فوج کے پاس پاکستان کے کل کاروبار کا شاید 2 تا 5 فیصد حصہ ہی ہو اور باقی کاروباری صنعتیں مکمل طور پر سویلین کے ہاتھوں میں ہیں۔ (مثلا ٹیکسٹائل صنعت میں ایک بھی فوجی ادارہ ملوث نہیں، کیمیکل ادارے، دوائیاں بنانے والے ادارے۔۔۔۔ غرض بے تحاشہ ادارے ایسے ہیں جہاں آپ کو فوج کا نام و نشان تک نہیں ملے گا)

تو پہلے تو میں یہ دیکھنا چاہوں گی کہ آپ لوگوں کو فوج کے ان کاروباری اداروں پر کیا اعتراضات ہیں، اور اس کے بعد گفتگو جاری رکھیں گے۔ (کیونکہ اگر یہ اعتراضات صرف کسی حسد کی بنیاد پر ہیں، تو بات چیت کرنا بیکار ہے)۔

والسلام۔

مہوش آپ باقی سب کو تو اعتدال سے گزرنے جانے کی نوید سنا رہی ہیں مگر خود یہی کام اتنی شد و مد کے ساتھ کر رہی ہیں کہ اب تو حیرت کو بھی سکتہ ہوگیا۔

فوج اور سیاستدان، یقینا مشرف کے آنے سے پہلے سیاستدانوں کا ریکارڈ کرپشن میں شاندار تھا مگر فوج نے جو اندھیر اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے اس کے بعد سیاستدان ‘معصوم‘ اور ‘بیچارے‘ نظر آتے ہیں۔ صرف چند مثالیں پیش کروں گا جس میں کرپشن کی اگلی پچھلی حدیں توڑ دیں ہیں فوج نے اور یہ وہ مثالیں ہیں جو آنکھوں کے سامنے کی ہیں۔

ڈیفنس لاہور کے کور کمانڈرز نے ڈیفنس میں کروڑوں اربوں کے نہیں کھربوں کے گھپلے کیے ، کھلی فائلوں کی قیمت ایک دو لاکھ سے شروع کروا کر 40 ، 40 لاکھ تک لے کر گئے اور لاکھوں لوگوں کا پیسہ لوٹ کر اپنی جیبیں بھر لیں اور فائلوں کی قیمتیں دوبارہ دو چار لاکھ پر آ گئییں۔
رینجرز سوسائٹی ، پارک ایوینو کو بزور بازو ڈیفنس میں شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے اربوں روپے کمائے گئے۔

گوادر کے اندر زمین کوڑیوں کے مول خرید کر فووجی افسران میں بانٹی گئی جسے انہوں نے اربوں میں بیچا ہے اور یہ مسئلہ اب تک چل رہاہے۔

سٹیل مل کا مشہور سکینڈل تو کسی کی نظر سے چھپا نہیں جس میں 200 ارب سے زائد کی جائداد کو صرف 22 ارب میں بیچا جا رہا تھا۔

واپڈا کا چئیر مین ‘جنرل ذوالفقار‘ کو بنایا گیا اور واپڈا کا خسارہ اب 22 ارب سے بڑھ کر 80 ارب ہو چکا ہے اور مزید بڑھ رہا ہے۔

پی آئی اے کی کرپشن کا تازہ سکینڈل بھی منظر عام پر ہے اور خسارہ بھی ریکارڈ حد تک ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ پی آئی اے کے طیاروں پر پابندی ہے۔

بجلی کا بحران بد سے بد تر ہو چکا ہے اور آٹھ سال کی طویل مدت میں ایک بھی منصوبہ پورا نہیں ہوا جس سے بجلی پیدا ہو۔

ٹرانسپرینسی انٹر نیشنل کی رپورٹ‌کے مطابق پچھلے تین سال میں ملک میں کرپشن تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

افراط زر 8 فیصد ہے ، مہنگائی دو فیصد بڑھ چکی ہے ، انصاف کے لیے خود چیف جسٹس سوالی ہے۔


سیاہ و سفید کا مالک ہو کر بھی اگر ملک چلانا اس کو کہتے ہیں تو پھر بدقسمتی کس کو کہتے ہیں۔

محب،

کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ حکومت پر کرپشن کے ان الزامات کو نئے ڈورے پر منتقل کر دیں اور یہاں ہم صرف عائشہ صدیقہ کی اس کتاب کے حوالے سے گفتگو کریں؟


اور آپ نے لکھا ہے:


سیاہ و سفید کا مالک ہو کر بھی اگر ملک چلانا اس کو کہتے ہیں تو پھر بدقسمتی کس کو کہتے ہیں

تو (میرے مطابق) بدقسمتی اسکو کہتے ہیں کہ سیاہ و سفید کا مالک ہونے کا الزام دینے سے پہلے وہ وقت یاد کر لیا جاتا جب صدرِ پاکستان مشرف صاحب ڈیمز بنانے کے لیے رو رہے تھے مگر یہ آپکی جمہوری جماعتیں تھیں تو ڈیمز پر سیاست کر رہی تھیں اور اتنا رونا رونے کے باوجود ہاتھ باندھ کر رکھ دیے۔

جب آپ نے خود مشرف صاحب کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود کرپٹ سیاستدانوں کے بل بوتے پر ہی حکومت چلائیں اور اس لنگڑی لولی جمہوریت کو اسی طرح سے جاری و ساری رکھیں۔۔۔۔ تو پھر مشرف صاحب پر سیاہ و سفید کا مالک ہونے کا الزام دینا میرے نزدیک زیادتی ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
مہوش! آپکی کچھ باتوں سے اختلاف کروں گا۔ آپ نے کہا کہ فوج کیمیکل کے بزنس میں نہیں شامل۔ فوجی فرٹیلائزر کمپنی ایک بہت بڑا نام ہے جو صرف فرٹیلائزر ہی نہیں بلکہ دوسرے کیمیکلز کا کام بھی کرتا ہے۔ آپ نے ان ممالک کی مثال بھی نہیں دی جہاں فوج ایسے کاروبار کرتی ہے۔ چین میں بیشک فوج کی کاروبار سے وابستگی ہے لیکن وہ چیک اینڈ بیلنس کی حد تک ہے۔ وہاں ریٹائرڈ جنرلوں کو بھی دوسری جگہ سرکاری کھاتے میں “سیٹل“ نہیں کیا جاتا۔
جہانتک ڈیمز بنانے کا معاملہ ہے تو جنرل صاحب کبھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں تھے اور نہ ہونگے۔ ڈیم کا شوشہ اس وقت چھوڑا گیا جب کسی دوسرے معاملے سے عوام کی توجہ ہٹانا مطلوب تھا۔ بقول آپکے سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی۔ میرا سوال ہے کہ جب افغانستان کے معاملے میں جنرل صیب نے پورے ملک کی مخالفت مول لیکر امریکہ کے مفادات پورے کیے تو وہ ان روڑے اٹکانے والی جماعتوں سے کیوں نہیں نمٹ سکے؟ یہ وہ جماعتیں ہیں جنکی سیاسی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھاشا ڈیم جو قدرے غیر متنازعہ تھا کالاباغ کے مقابلے میں، مجھے بتائیے وہ کہاں ہے اسوقت اس پر کتنا کام ہوا ہے؟ صرف چند دنوں کیلیے ڈیم کی سائٹ پر جاکر اور زنگ آلودہ مشینری صاف کرکے کونسا سنجیدہ قدم اُٹھایا گیا؟ اس کی فربیلٹی رپورٹ بننے میں اور کتنے عشرے لگیں گے؟
میں جمبہوری نظام حکومت کا حامی نہیں لیکن پھر بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ لولی لنگڑی جمبہوریت خوشنما آمریت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔چوہدری، ٹوانے، باجوے اور لوٹوں کو ساتھ ملا کر مشرف کونسی جمبہوریت کھڑی کرنا چاہتے تھے؟ اور جب وہ خود ایک جمبہوری صدر نہیں تو کیا یہ ڈرامہ نہیں تھا؟ ایک ڈرامہ اپنی اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے اور اس طویل کرنے کا؟ کیا سولہ کروڑ عوام میں ایسا کوئی بھی نہیں تھا جو بے داغ ریکارڈ کیساتھ شوکت عزیز یا چوہدری شجاعت کی جگہ لے سکتا؟
دوسری سیاسی پارٹیوں کے متعلق میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں کہ وہ لٹیروں سے بڑھ کر کچھ نہیں تھے۔ کم لوٹ مار کی سیدھی سادھی یہی وجہ ہے کہ اسوقت لوٹنے کیلیے اتنی دولت نہیں تھی۔
کتاب کی متعلق کیا بحث کی جائے کہ جب ہماری مقدس گائے سے تنقید برداشت ہی نہیں ہوتی۔ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ پورے اسلام آبادکے قابل ذکر بک شاپس پر کتاب کے اشتہاری بینر تو لگے ہوئے ہیں لیکن کتاب ندارد۔ شاید اب بینر بھی ہٹوا لیے گئے ہوں۔ ایسی کتابوں سے تو چور ہی گھبراتا ہے اب چور کون ہے؟ کتاب پڑھیں تو پتہ چلے۔ اب انتظار کریں کہیں اقتباسات چھپیں۔
آخری بات اگر کوئی بات بُری لگے تو معذرت۔ اور سب بہن بھائیوں سے درخواست کہ اختلافات ضرور تحریر کریں لیکن مخالفت سے پرہیز کریں۔ نبیل بھائی! آپ سے درخواست ہے کہ سیاست کے موضوع کیلیے کوئی الگ تفصیلی قواعد و ضوابط وضع کریں۔ ارکان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے اس معاملے پر یہاں پھڈے ہو چکے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
فرٹیلائزر کی بات آپ نے بالکل صحیح کی ہے اور واقعی یہ میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔ بہرحال FFC and FFBL نامی یہ دو فرٹیلائزر ا ادارے ا چھا کام کر رہے ہیں۔

بہرحال کیمیکل انڈسٹری بہت بڑی صنعت ہے۔

فی الحال میری معلومات کے مطابق چین کے علاوہ بنگلہ دیش اور ویت نام میں بھی فوج کے پاس ایسے چند ادارے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے۔ مثلا ا گر کوئی کہے کہ واپڈا اور نیس پاک جیسے اداروں کو تو اپنے ورکرز کے لیے ہاؤسنگ سکیمز بنانے کی اجازت ہے، مگر فوج اگر یہ کام کرے تو وہ مورد الزام ہے۔۔۔۔ تو یہ ایک حسد کے تحت کہی گئی بات ہو گی۔

جس طرح این جی اوز کو پیسا دیا جاتا ہے کہ وہ ویلفیئر کے کاموں کے لیے پراجیکٹ لگائیں اورانکی آمدنی کو ویلفیئر کاموں پر خرچ کر سکیں، اسی طرح فوجی فاؤنڈیشن اور شاہین فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ وغیرہ کام کر رہے ہیں۔ اور سول اداروں کو ان سے مقابلے کی کھلی اجازت ہے۔ تو میرے خیال میں اس چیز کو کیا واقعی آرمی کے خلاف ایشو بنایا جانا چاہیے؟

مثلا عسکری بینک موجود ہے تو باقی بے تحاشہ سول بینکوں کو بھی مقابلے کی کھلی اجازت ہے۔
اگر آرمی کے فرٹیلائزر ہیں تو دیگر سول لوگوں کو بھی فرٹیلائزر لگانے کی پوری اجازت ہے۔
اگر آرمی کا اپنا کارگو سسٹم ہے، تو سول سوسائٹی کو بھی اپنا کارگو سسٹم بنانے کی اجازت ہے۔۔۔۔
 
سیاہ و سفید کے لیے جن اختیارات اور طاقت کی ضرورت ہے وہ مشرف کی ذات میں جمع ہیں۔ صدر ہیں ، چیف آف آرمی سٹاف ہیں اور ہر بڑا فیصلہ کابینہ نہیں مشرف صاحب خود کرتے ہیں اور کابینہ کو بعد میں بریفنگ دی جاتی ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا کرنا ہے۔ ڈیمز بنانے کے لیے نہ تو مشرف صاحب کبھی سنجیدہ تھے اور نہ ہیں ، کالا باغ ڈیم کی بات کی اور پھر نہ اس پر بحث چھیڑی اور نہ اسے آگے بڑھایا، بھاشا ڈیم اور جانے کتنے اور ڈیمز کا منصوبہ سنتے رہے مگر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی صرف ڈھکوسلوں سے کام لیتے رہے اور کن سیاستدانوں سے ڈر رہے ہیں مشرف۔ مسلم لیگ (ن) سے جو خود اس ڈیم کی سب سے بڑی حامی ہے ، پیپلز پارٹی سے جن سے ان کا اپنی ڈیل چل رہی ہے ، متحدہ مجلس عمل سے جو ان کے ساتھ بلوچستان میں حلیف ہے یا ایم کیو ایم سے جو ہر اول دستہ ہے یا مسلم لیگ (ق) سے جو سرکاری جماعت ہے۔ انرجی کرائسس پر کتنی سنجیدہ کوششیں ہوئی ہیں ذرا اپنے ایمان سے بتائیں ، کتنی توجہ دی ہے مشرف صاحب نے اس انتہائی اہم اور گھمبیر مسئلے پر جس پر ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ، کتنے متبادل ذرائع پر سوچا گیا ہے ، کتنے مباحثے کروائے گئے ہیں ، پاکستان کے پاس دنیا کا دوسرا بڑا کوئلہ کے ذخائر ہیں مگر صرف دو فیصد بجلی ان سے پیدا ہو رہی ہے کتنا سوچا اس پر حکومت نے۔ بیان بازی اور بہانے بازیاں تو پچھلی حکومتیں بھی کرتی رہی تھیں مگر مشرف صاحب نے تو چند دفعہ بات کی مگر جب دیکھا کہ ان کے اپنے اقتدار کے لیے زیادہ سودمند نہیں تو مڑ کر نام بھی نہ لیا۔
اس کے برعکس بلوچستان میں آپریشن کرتے ہوئے انہیں کسی سیاستدان کی مجبوری نہ روک سکی اور پورے ملک کی چیخ پکار کو نظر انداز کرکے انہوں نے طاقت کے زور پر ہی فیصلہ کیا اور لوگوں سے جھوٹے وعدے کرکے اور بھی مخالف کیا، بہت شور مچایا کہ بلوچستان میں عوام کو نوکریاں دی جائیں گی انہی کے لوگوں کو بسایا جائے گا بہت ترقیاتی کام ہوں گے مگر ہوا وہی جس کا بیچارے بلوچی عوام کو خظرہ تھا اپنے منظور نظر لوگوں کو وہاں لگایا اور عوام کے لیے کچھ نہ کیا البتہ پنجاب کو بدنام کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات ضرور کر لیے وفاق سے لوگوں کو وہاں پر لے جا کر نوکریاں دے کر۔
اس کے بعد وانا اور وزیرستان میں آپریشن کے وقت بھی قوم سے پوچھنے ، سیاستدانوں کی مجبوریاں اور کسی کا صائب مشورہ نظر نہ آیا اور چڑھائی کرکے نہ صرف اپنے ہی عوام کا خون بہایا بلکہ بہت سے فوجی جوان بھی شہید کروائے اور بالآخر قبائل کو ہی آگے کرنا پڑا اور اب بھی قبائل کے ہی ذریعہ مسائل حل ہو رہے ہیں ۔ طاقت کے اس اندھا دھند استعمال نے ملک میں جو امن و امان کی صورتحال پیدا کردی ہے وہ شاید ملک سے باہر رہتے ہوئے محسوس نہ ہو مگر ملک میں رہنے والے ہر پل اس امن امان کی بگڑتی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی پریشانی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

آخری بات مشرف صاحب کو پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت کو چلانے کا آخر اتنا شوق ہی کیوں ہے اور کیوں ان کا مسلسل اصرار ہے کہ میں ہی اس ملک کو ٹھیک کر سکتا ہوں اور میں ہی ملک کا واحد دیانتدار اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہوں۔ اس پر جب ان سے وردی اتارنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہاں ان کے پر جلنے لگتے ہیں کیونکہ اپنی ‘بے پناہ‘ مقبولیت کا انہیں بخوبی اندازہ ہے اور منصفانہ انتخابات میں ان کی اور ان کی حلیف جماعتوں کا جو حال ہو گا وہ بھی خوب جانتے ہیں۔
 
مہوش

میں اس دھاگے پر ناظم نہیں ہوں گو کہ اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ہونا چاہیے :) اس لیے میں دھاگوں کو منتقل نہیں کر سکتا ۔

ایک بات اور جس کی میں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ مشرف پر تنقید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں پچھلی حکومتوں کو درست سمجھتا ہوں ، جس حد تک ہو سکا انہوں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا اور مثبت کام نہ ہونے کے برابر کیے۔ عوام میں غم و غصہ تھا اس لیے فوج کے آنے پر لوگ ناراض نہیں ہوئے بلکہ خوشیاں منائیں مگر اب جو حال سیاستدان کیا کرتے تھے اس سے ابتر فوج نے کر دیا ، وہ تو پھر دو تین سال بعد چلے جایا کرتے تھے اور نئی حکومت کو عوام منتخب کر لیا کرتے تھے مگر یہاں تو یہ صورتحال بھی نہیں نظر آتی۔
 
محب علوی نے کہا:
ایک بات اور جس کی میں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ مشرف پر تنقید سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میں پچھلی حکومتوں کو درست سمجھتا ہوں ، جس حد تک ہو سکا انہوں نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کیے رکھا اور مثبت کام نہ ہونے کے برابر کیے۔ عوام میں غم و غصہ تھا اس لیے فوج کے آنے پر لوگ ناراض نہیں ہوئے بلکہ خوشیاں منائیں مگر اب جو حال سیاستدان کیا کرتے تھے اس سے ابتر فوج نے کر دیا ، وہ تو پھر دو تین سال بعد چلے جایا کرتے تھے اور نئی حکومت کو عوام منتخب کر لیا کرتے تھے مگر یہاں تو یہ صورتحال بھی نہیں نظر آتی۔
آج صبح سے میرے ذہن میں یہی بات آرہی تھی کہ کسی کے غلط کام کو دلیل بناکر وہی کام کرنا، یہ مزید غلط ہے۔ اگر ہم کسی غلط امر پر تنقید کریں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان سے اگلوں کی حامی ہیں۔ انہوں نے جو کام کیے، اس کی بھی ہزار مخالفت اور مذمت لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پچھلی حکومتوں کی غلطیوں کو دلیل بناکر موجودہ حکومت کو غلطیاں کرنی کی اجازت دے دی جائے۔
 

ساجداقبال

محفلین
دیکھیے! دو تین ممالک میں فوج کی معیشت میں شمولیت ہماری فوج کیلیے کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ چین کا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہاں فوج کا معیشت میں کردار کیا ہے۔ باقی بنگلہ دیش اور ویتنام میں اگر فوج کا معاشی کردار ہے بھی تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ دو ممالک معیشت کے لحاظ سے دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ برما کا ذکر تو آپ بھول ہی گئیں۔ وہ ملک جسکے دارالحکومت کی سڑکیں گرم پانی سے دھوئی جاتی تھیں، آج فوج کی بدولت معاشی طور پر تباہ ہوچکا ہے۔دوسری بات فوج کے معاشی کردار کا تعین بھی ہے۔ میرا نہیں خیال ان تینوں ممالک(چین،ویتنام،بنگلہ دیش) میں جنرل فلانا فلانا ان کے بجلی یا کسی اور ادارے کا سربراہ ہو۔ کم از کم میں نے کبھی نہیں سنا یا پڑھا۔
نیسکام اور واپڈا خالصتا اپنے ملازمین کیلیے یہ منصوبے چلاتے ہیں جبکہ بحریہ، فضائیہ اور فوجی فاؤنڈیشن والے بحریہ ٹاؤن، ترنول ہاؤسنگ سکیم اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر جو کاروبار کرتے ہیں اس کی کہانیاں ۔۔۔الامان الحفیظ۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج نے یہ کاروبار کس کے پیسے سے شروع کیے؟؟؟ بجٹ میں ایک بڑا حصہ جو فوج کو دفاعی اخراجات کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں کیا وہ ایسے کاروبار شروع کرنے کیلیے ہیں؟ کیا یہ کہہ کر جان چھڑوائی جاسکتی ہے کہ فوج نے محض چند ملین ڈالرز دفاعی برآمدات (جو چند سال پہلے ناپید تھیں)کر کے یہ کاروبار شروع کیے؟ پہلے یہ وضاحت ہونی چاہیے ، کاروباری مسابقت کی باتیں بعد کی ہیں۔
آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کی بجائے کاروبار کرتی پھرے۔ قائداعظم نے بارہا اپنی تقریروں میں افواج پاکستان کو اپنی اس اصل ذمہ داری کا احساس دلایا۔
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب میں اپنے شہر میں جا کر دیکھتا ہوں کہ فوجی حضرات بیکریوں میں کھڑے پکوڑے یا مٹھائیاں بیچ رہے ہوں۔ خود ہی بتائیے کیا یہ کام کسی فوجی کے شایان شان ہیں؟ کیا مہینوں ٹریننگ سے غیر حاضر رہ کر فوجیوں کی پیشہ ورانہ مہارت پر اثر نہیں پڑتا؟
 

مہوش علی

لائبریرین
محب،
مشرف صاحب اور آرمی پر کرپشن کے حوالے سے آپ نے جو اعتراضات کیے تھے، وہ میں نے پاکستان ڈیفنس فورم پر ایک ممبر کو ارسال کر دیے جو ان معاملات میں کافی معلومات رکھتا ہے۔
آج مجھے اسکا جواب ملا ہے اور اب یہ آپ کی خدمت میں:
During one discussion at www.urduweb.org , one member posted the following accusations against government of President Musharraf.

I would be very thankful if you could answer them and present the true picture.

Thanks and Regards.




فوج اور سیاستدان، یقینا مشرف کے آنے سے پہلے سیاستدانوں کا ریکارڈ کرپشن میں شاندار تھا مگر فوج نے جو اندھیر اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا ہے اس کے بعد سیاستدان ‘معصوم‘ اور ‘بیچارے‘ نظر آتے ہیں۔ صرف چند مثالیں پیش کروں گا جس میں کرپشن کی اگلی پچھلی حدیں توڑ دیں ہیں فوج نے اور یہ وہ مثالیں ہیں جو آنکھوں کے سامنے کی ہیں۔

ڈیفنس لاہور کے کور کمانڈرز نے ڈیفنس میں کروڑوں اربوں کے نہیں کھربوں کے گھپلے کیے ، کھلی فائلوں کی قیمت ایک دو لاکھ سے شروع کروا کر 40 ، 40 لاکھ تک لے کر گئے اور لاکھوں لوگوں کا پیسہ لوٹ کر اپنی جیبیں بھر لیں اور فائلوں کی قیمتیں دوبارہ دو چار لاکھ پر آ گئییں۔
رینجرز سوسائٹی ، پارک ایوینو کو بزور بازو ڈیفنس میں شامل کیا گیا اور اس کے ذریعے اربوں روپے کمائے گئے۔

گوادر کے اندر زمین کوڑیوں کے مول خرید کر فووجی افسران میں بانٹی گئی جسے انہوں نے اربوں میں بیچا ہے اور یہ مسئلہ اب تک چل رہاہے۔

سٹیل مل کا مشہور سکینڈل تو کسی کی نظر سے چھپا نہیں جس میں 200 ارب سے زائد کی جائداد کو صرف 22 ارب میں بیچا جا رہا تھا۔

واپڈا کا چئیر مین ‘جنرل ذوالفقار‘ کو بنایا گیا اور واپڈا کا خسارہ اب 22 ارب سے بڑھ کر 80 ارب ہو چکا ہے اور مزید بڑھ رہا ہے۔

پی آئی اے کی کرپشن کا تازہ سکینڈل بھی منظر عام پر ہے اور خسارہ بھی ریکارڈ حد تک ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ پی آئی اے کے طیاروں پر پابندی ہے۔

بجلی کا بحران بد سے بد تر ہو چکا ہے اور آٹھ سال کی طویل مدت میں ایک بھی منصوبہ پورا نہیں ہوا جس سے بجلی پیدا ہو۔

ٹرانسپرینسی انٹر نیشنل کی رپورٹ‌کے مطابق پچھلے تین سال میں ملک میں کرپشن تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

افراط زر 8 فیصد ہے ، مہنگائی دو فیصد بڑھ چکی ہے ، انصاف کے لیے خود چیف جسٹس سوالی ہے۔


سیاہ و سفید کا مالک ہو کر بھی اگر ملک چلانا اس کو کہتے ہیں تو پھر بدقسمتی کس کو کہتے ہیں۔

[/size]




Note:

You could reply in Urdu, and if not possible then English is OK too and I would myself translate.
[align=left:cde747f908]
Thanks dear that you considered me worthy for such help. I will try my best to provide you replies and references.

1. Defence Plots: Plot rates are market driven and no individula or body can decide the property rates all over. If someone announce specific rates of thier societies then they are allowed to do so and it is upto people to decide whether they are interested to buy or not. They can compare the prices with market rates and then their chioces. No one forces anyone to apply for a scheme and buy a plot. Every individual has this right to take their decision. Secondly in no defence phase plot rate are less then 30-40 lacs (1 canal plot). Phase seven is the latest phase and market price of plots are more then 30 lacs. We can not get a 1 canal plot in 3-4 lacs in old lahore in bazars or muhallas then how can any one think that defence plot is available for this price? This is pure nonsense. If some individual thinks that plot prices are over hyped and its not worth the cost then they should not buy it no one force them. Other phases in defence which have been developed (as phase 7 in under development), plot rates are in crores and anyone can confirm it. So no one can doubt the price value of defence that is why everyone die for a plot there.

2. If rangers society and park avenue have been taken by force then why dont their owners file a case? owners do not have any objection they are not filing any case but they are having some problem. Just give them a plot there and this writer will stop writing. Corts are open for any illegal steps. If one can not prove it and both parties are not going there then what the problem with this outsider? He is not a stake holder in defence or rangers society or park avenue and they all do not have any problem but this gentelman have.

3. First of all one objection are soldiers not from Pakistan army? are they not pakistani citizen? are they not allowed to purchase plots if they can get it in installments? Then whats the problem. If corruption exist then why not proven in the court yet? Then few people can not decide the prices of property in country or that city. They can simply decide rates of their own property or schemes and people are free to buy or sell if they think that price suiets them.

4. Steel mills was a bit unfair thing and we must accept it. But court was never able to establish that corruption existed. Unless and until it can not be proven then nothing can be done. President is not responsible for everything and cabinet alongwith privitization comission decide such things. There were lots of debts and other financial details involved behind this price which needs to be decided in order to better understand these details. For that total assets, their values, debts, depriciation on assets, manpower, capability, soft assets etc all should be provided here only then we can discuss. Court never decided the price and courts are not for this purpose to declare prices of assets. They objected on the process of privatization and they said it appears that things were done in haste which shed doubts over the transparency of this process. But they never said it was corruption. These prices are debateable and no one can claim that this is the actual price unless and untill complete info is not there. Secondly if there was any corruption then guilty should be punished but for that they need to be proven guilty.

5. http://www.thenews.com.pk/daily_detail.asp?id=58206
Chairman Wapda is Tariq Hameed and that information you mentioned is outdated.
"Tariq Hamid told the meeting that the WAPDA had collected Rs220.6 billion revenue during July 2006 to April 2007, an increase of about Rs19.6 billion compared to the corresponding period of 2005-06. However, there was delay in payments by some of the provinces, particularly the FATA and the KESC.
"
"The WAPDA chief disclosed that various development works worth Rs17 billion for improving the system were under way and hoped that after the completion of these schemes, the consumers would be getting electricity with better voltage and fewer interruptions.
"
WAPDA is not in loss anymore. efore discussing low revenue or loss one must understand the basics of evaluation. WAPDA is very quickly spreading its network and now they are roviding electricity in tousands of villages as compared to few hundered in 1999. They are also improving the existing system by upgrading it. Any duffer having some sence can understand that where this amount is comming? This is comming from and where is it going? The money being spend on WAPDA is actually improving the value of WAPDA. If for example WAPDA was worth 10 rupees in 99 now it is of 150-200 rupees now based on increased assets. How they providing electricity in so many villages? certainly by installing new polls and line and hiring more people. Where these comming from? and does it not cost?
Now Govt providing money to them in for of subsidy is different. Let me explain how. If single unit of electricity costs 2 rupee to WAPDA then certainly they will sell it at some price more then this cost (there are many factors behind it mostly our reliece on fuel and its prices in international market). Now if Govt thinks that people can not afford it and they should provide this at 1.50 rupee then they provide subsidy in form of relaxation of taxes. Thats it. This once again is for people and look how much subsidy Govt paying to save people
http://www.thenews.com.pk/top_story_detail.asp?Id=8139

6. NAB yesterday filed a case against PIA officials related to planes leasing. They were investigating it but it takes time to find evidence and then file a case so finally it is ther and any one can consult news for that.

7. Detailed posts related to transparency international and power sector problem and plans have been discussed in two threads. One is where i provided facts and figures, secondly Govt:corruption related to NAB. Transparency international report never reported corruption at top level rather they said it is at low level and for that we all need to correct ourselves. According to them our beloved judiciary and police are most corrupt followed by media and people. So do not just use index and use it against Govt. If Govt tries to take action against judiciary then they start crying, if they take action aainst media then they start crying for media freedom so what are solutions. These people are first ones to start such propaganda.

8. Pakistan improved or not can be seen through facts, look at foreign exchange reserves in 99 and now, look at stock market look at trade look at every sector and compare them in facts then say anything. We are growing at 7-8% rate highest after China in the world. Stats are showing something different and all international bodies neutral accept it. If everything is soo bad then how is this happenieng?
[/align:cde747f908]

محب،
اس ممبر نے بھی آپ سے وہی سوال پوچھا ہے جو میں شروع سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ اگر آپ کے مطابق مان لیا جائے کہ مشرف حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے کرپٹ ترین حکومت ہے تو یہ بتائیں کہ پھر اس دورِ حکومت میں اتنی ترقی کیسے ممکن ہوئی؟

پاکستان کو بنے ساٹھ سال ہونے کو آئے مگر اس پورے دور میں پاکستان میں کتنے "میگا پراجیکٹ" لگے؟ اگر آپ اب بھی مشرف حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت کہیں تو میں آپ سے اتفاق نہیں کر سکتی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ساجداقبال نے کہا:
دیکھیے! دو تین ممالک میں فوج کی معیشت میں شمولیت ہماری فوج کیلیے کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ چین کا میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہاں فوج کا معیشت میں کردار کیا ہے۔ باقی بنگلہ دیش اور ویتنام میں اگر فوج کا معاشی کردار ہے بھی تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ دو ممالک معیشت کے لحاظ سے دنیا کے کمزور ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ برما کا ذکر تو آپ بھول ہی گئیں۔ وہ ملک جسکے دارالحکومت کی سڑکیں گرم پانی سے دھوئی جاتی تھیں، آج فوج کی بدولت معاشی طور پر تباہ ہوچکا ہے۔دوسری بات فوج کے معاشی کردار کا تعین بھی ہے۔ میرا نہیں خیال ان تینوں ممالک(چین،ویتنام،بنگلہ دیش) میں جنرل فلانا فلانا ان کے بجلی یا کسی اور ادارے کا سربراہ ہو۔ کم از کم میں نے کبھی نہیں سنا یا پڑھا۔
نیسکام اور واپڈا خالصتا اپنے ملازمین کیلیے یہ منصوبے چلاتے ہیں جبکہ بحریہ، فضائیہ اور فوجی فاؤنڈیشن والے بحریہ ٹاؤن، ترنول ہاؤسنگ سکیم اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام پر جو کاروبار کرتے ہیں اس کی کہانیاں ۔۔۔الامان الحفیظ۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج نے یہ کاروبار کس کے پیسے سے شروع کیے؟؟؟ بجٹ میں ایک بڑا حصہ جو فوج کو دفاعی اخراجات کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں کیا وہ ایسے کاروبار شروع کرنے کیلیے ہیں؟ کیا یہ کہہ کر جان چھڑوائی جاسکتی ہے کہ فوج نے محض چند ملین ڈالرز دفاعی برآمدات (جو چند سال پہلے ناپید تھیں)کر کے یہ کاروبار شروع کیے؟ پہلے یہ وضاحت ہونی چاہیے ، کاروباری مسابقت کی باتیں بعد کی ہیں۔
آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ فوج سرحدوں کی حفاظت کی بجائے کاروبار کرتی پھرے۔ قائداعظم نے بارہا اپنی تقریروں میں افواج پاکستان کو اپنی اس اصل ذمہ داری کا احساس دلایا۔
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب میں اپنے شہر میں جا کر دیکھتا ہوں کہ فوجی حضرات بیکریوں میں کھڑے پکوڑے یا مٹھائیاں بیچ رہے ہوں۔ خود ہی بتائیے کیا یہ کام کسی فوجی کے شایان شان ہیں؟ کیا مہینوں ٹریننگ سے غیر حاضر رہ کر فوجیوں کی پیشہ ورانہ مہارت پر اثر نہیں پڑتا؟


ساجد،
کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ملٹری ایسے رفاعی تجارتی ادارے نہیں بنا سکتی؟

اور یقین کریں اگر فوج فرٹیلائزر جیسی انڈسٹری چلا رہی ہے تو مجھے اس پر اعتراضات کی کوئی لاجک نظر نہیں آتی۔

دیکھیں، ہم خود غیر ملکی سرمایہ داروں کو دعوت دے دے کر بلا رہے ہیں کہ وہ انڈسٹری لگائیں۔ مگر جب فوج انڈسٹڑی لگا کر ملک کر ترقی میں کردار ادا کر رہی ہے تو اس پر اعتراضات؟؟؟

ایک اور سبق جو ہمیں یہاں سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا سول طبقہ انتہائی ناکارہ ہے۔ جب بھٹو حکومت نے صنعتوں کو قومیا لیا تو ان سول نمائندوں کی سرکردگی میں یہ تمام صنعتیں خسارے میں ہی جاتی رہیں۔ اور آپ کی پسندیدی جمہوریت کی دو سول حکومتوں کے پورے دور میں یہ سب گھاٹے میں رہیں۔

اسکے مقابلے میں ملٹری نے جو صنعتیں کھڑی کیں، وہ نہ صرف منافع میں ہیں، بلکہ بہت بہترین کام کر رہی ہیں۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ فوجی نظام زیادہ مربوط اور ہمارے سول اداروں سے بہت بہتر ہے۔


تو اگر غیر ملکیوں کو دعوت ہے کہ وہ آ کر صنعتیں کھڑی کریں، تو مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ فوج کی مذمت اس لیے کی جائے کہ اس نے ایسی صنتعیں قائم کر کے ملک کر ترقی اور خوشحالی میں کردار ادا کیا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ساجداقبال نے کہا:
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج نے یہ کاروبار کس کے پیسے سے شروع کیے؟؟؟ بجٹ میں ایک بڑا حصہ جو فوج کو دفاعی اخراجات کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں کیا وہ ایسے کاروبار شروع کرنے کیلیے ہیں؟ کیا یہ کہہ کر جان چھڑوائی جاسکتی ہے کہ فوج نے محض چند ملین ڈالرز دفاعی برآمدات (جو چند سال پہلے ناپید تھیں)کر کے یہ کاروبار شروع کیے؟ پہلے یہ وضاحت ہونی چاہیے ، کاروباری مسابقت کی باتیں بعد کی ہیں۔؟
مہوش! پہلے ان کا جواب دیجیے پھر میں آپکے سوالات کیطرف آتا ہوں۔ویسے میں نے تھوڑی تفصیلی تحقیق کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف مصر ہی واحد ملک ہے جسمیں آرمی ایک ہوٹل چلاتی ہے۔ دیگر ممالک(چین،بنگلہ دیش،برما،ویتنام) میں آرمی کی بزنس میں براہ راست کوئی مداخلت نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ساجد صاحب،

مجھے علم نہیں کہ فوج نے کس طرح یہ پراجیکٹ شروع کیے۔
مگر مجھے اتنا علم ہے کہ یہ چیزیں اتنی "ماضی بعید" میں ہوئی ہیں کہ اگر آج آپ انہیں چیزوں کا رونا لے کر بیٹھ جائیں گے تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا اور یہ ایک "کارِ بیکار" ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں اگر فوج کے یہ رفاعی ادارے صنعتیں لگا کر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اضافہ کر رہے ہیں تو انکو خوش آمدید۔
 

ساجداقبال

محفلین
مہوش صاحبہ!
آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں جو سالوں پہلے وقوع پذیر ہوئیں۔ ایسی ہی باتیں نظریہ ضرورت کو جنم دیتی ہیں جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان کا اصل آئین ہے۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہمارے اور دوسری قوموں کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ابھی تک 92ء کے بم دھماکوں کی تحقیقات کر رہا ہے۔ فرانس نے عشروں پہلے لاکربی میں تباہ ہونے والے طیارے کو معاوضہ لیبیا سے پچھلے سال(؟) نکلوایا۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ ہر مسئلے کی جڑ تک جانے کی بجائے “ابھی کا سوچو“ کی رٹ لگاتے ہیں۔
خیر آپ نے اس بات سے لاعلمی ظاہر کی ہے جو ایک اچھا جواب ہے کیونکہ لاعلمی ظاہر کرنا بھی آدھا علم ہے۔ کسی بات سے کسی بہن / بھائی کی دل آزاری ہو تو معذرت۔

ساجد،
کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان کے آئین میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ملٹری ایسے رفاعی تجارتی ادارے نہیں بنا سکتی؟
دراصل سوال تو میں نے آپ سے کیا تھا کہ کیافوج کو یہ حق ہے کہ وہ کاروبار کرتی پھرے؟ آئین کی شق 259میں فوج کا کردار یوں متعین کیا گیا ہے:
The Armed Forces shall, under the directions of the Federal Government, defend Pakistan against external aggression or threat of war, and, subject to law, act in aid of civil power when called upon to do so.
اب آپ ہی بتائیں اسمیں کہاں لکھا ہے کہ فوج بیکریاں چلائے۔ بالفرض ہم مان بھی لیں کہ اسمیں فوج کو کاروبار سے منع نہیں کیا گیا، تو پولیس کا کیا قصور ہے؟ وہ بھی بینک بنائیں، جنرل سٹورز اور سیمنٹ فیکٹریاں لگاتی پھرے۔ یہی نہیں بلکہ پھر تو ہر سلامتی سے متعلق ادارے اور سول اداروں کو پورا حق ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد کی بجائے کاروبار کرتے رہیں۔ اس شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوج جنگ جیسی (نازک) صورتحال میں (بھی)وفاق کیطرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ملکی دفاع کرے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا فوج نے کاروبار شروع کرنے سے پہلے وفاق سے اجازت لی؟

میری انگریزی کمزور ہے، برائے مہربانی وہ پاک ڈیفنس والے صاحب کی تحریر کا اردو ترجمہ کر دیں۔
 

زیک

مسافر
میرا خیال ہے کہ بہترین طریقہ یہی ہے کہ پاکستانی فوج ملک اور کاروبار چلائے اور سول طبقہ ملک کا دفاع کرے۔ اس سے پاکستان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے گا۔ :lol:

ویسے ایک کتاب سے بحث کا آغاز ہوا تھا مگر یہ انٹرنیٹ ہے یہاں ضروری نہیں کہ کتاب پر ڈسکشن کرنے سے پہلے اسے پڑھا بھی جائے۔
 

ساجداقبال

محفلین
1100198789-1.gif
 
Top