پاکستانی موسیقار شیراز اپل موسیقی سے تائب

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سویدا

محفلین
بہت خوب دلیل دی آپ نے یعنی
موسیقی میں اس لیے ہدایت ہے کہ غیر مسلم نصرت فتح علی خان کے کلام کو سن کر جھوم اٹھے
میرا نفس بھی جھوم اٹھا :battingeyelashes:
 

arifkarim

معطل
یہاں آپ حضرت داود علیہ السلام کی توہین کر رہے ہیں ۔
جونہی کوئی بات آپکے مدرسے کے اسلام سے مخالف ہوتی تو آپ دوسروں پر توہین کا لیبل لگانا شروع کر دیتی ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو جو الٰہی کتاب دی گئی اسکا نام زبور ہے جسکو عبرانی میں زمرا یعنی موسیقی یا گاکر خدا کی حمد بیان کرنا کہتا ہیں۔ چونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو خداداد موسیقی کا تحفہ حاصل تھا یوں انہوں نے گا کر خدا کی ساری عمر عبادت کی۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_view_of_David#The_Book_of_David

بہت خوب دلیل دی آپ نے یعنی
موسیقی میں اس لیے ہدایت ہے کہ غیر مسلم نصرت فتح علی خان کے کلام کو سن کر جھوم اٹھے
میرا نفس بھی جھوم اٹھا :battingeyelashes:

میں نے ہدایت کی نہیں روح کی غذا کی بات کی ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور ہر انسان کیلئے یکساں ہے۔ اچھی آواز میں تلات کرنا، حمد گانا، نعتیں پڑھنا، اسپر تو کسی کو اعتراض نہیں۔ لیکن اگر یہی آواز کسی گانے میں نکالی جائے تو فوراً فتوے لگ جاتے ہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
 
جونہی کوئی بات آپکے مدرسے کے اسلام سے مخالف ہوتی تو آپ دوسروں پر توہین کا لیبل لگانا شروع کر دیتی ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو جو الٰہی کتاب دی گئی اسکا نام زبور ہے جسکو عبرانی میں زمرا یعنی موسیقی یا گاکر خدا کی حمد بیان کرنا کہتا ہیں۔ چونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کو خداداد موسیقی کا تحفہ حاصل تھا یوں انہوں نے گا کر خدا کی ساری عمر عبادت کی۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Islamic_view_of_David#The_Book_of_David
میں نے ہدایت کی نہیں روح کی غذا کی بات کی ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور ہر انسان کیلئے یکساں ہے۔ اچھی آواز میں تلات کرنا، حمد گانا، نعتیں پڑھنا، اسپر تو کسی کو اعتراض نہیں۔ لیکن اگر یہی آواز کسی گانے میں نکالی جائے تو فوراً فتوے لگ جاتے ہیں؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
آپ اپنی عبرانی تحریفات اپنے پاس رکھیں ۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کے مکرم نبی علیہ السلام تھے ۔ گا کر نہیں محراب میں صلاۃ سے اللہ کی عبادت کرتے تھے، اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ ہم انبیاء کرام کے بارے میں عبرانی ، اسرائیلی اور قادیانی تحقیقات پر یقین نہیں رکھتے ۔ قرآن وحدیث میں بیان کردہ تفصیلات پر یقین رکھتے ہیں ۔ہمارے سچے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ اچھے لحن میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے تھے ، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے حبیب ﷺ کی تلاوت چپکے چپکے کفار بھی سنا کرتے تھے اور بالکل اسی طرح جیسے مسلمان قارئ قرآن خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کرتے ہیں ۔

ترجمہ آیات سورۃ ص : آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت واﻻ تھا، یقیناً وه بہت رجوع کرنے واﻻ تھا (17)
انَّا سَخَّرْ‌نَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَ‌اقِ
ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں (18) اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے (19) اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا (20)
وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُ‌وا الْمِحْرَ‌ابَ ﴿٢١﴾ إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ
اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وه دیوار پھاند کر محراب میں آگئے (21) جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے،۔۔ الخ
ہم بھی انبیاءکرام کے بارے میں ان فضول باتوں کو رد کرتے ہیں اور ان ہفوات پر صبر کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے رب عرش کریم کا ان آیات بینات میں حکم ہے ۔
ایک زمانے میں لوگ قرآن کو شاعری کی کتاب ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے اب ویسے ہی لوگ آیات اللہ کی تلاوت کو گانا بنانے پر تلے ہیں ۔نہ وہ کامیاب ہوئے نہ یہ ہو سکیں گے کہ جھوٹ کو کبھی دوام نصیب نہیں ہوتا ۔
 
مریم یوآنے رڈلی کا ایک آرٹیکل :​
Pop Culture in the Name of Islam
Eminent scholars throughout history have often opined that music is haram, and I don't recall reading anything about the Sahaba whooping it up to the sound of music. Don't get me wrong. I'm all for people letting off steam, but in a dignified manner and one which is appropriate to their surroundings.]
 

arifkarim

معطل
آپ اپنی عبرانی تحریفات اپنے پاس رکھیں ۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کے مکرم نبی علیہ السلام تھے ۔ گا کر نہیں محراب میں صلاۃ سے اللہ کی عبادت کرتے تھے، اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ ہم انبیاء کرام کے بارے میں عبرانی ، اسرائیلی اور قادیانی تحقیقات پر یقین نہیں رکھتے ۔
محراب میں صلاۃ تو اسلام کیساتھ آئی ہے۔ اس سے پہلے مذاہب میں تو اسکا کوئی تصور نہیں تھا۔ کیا آج کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کی طرح نماز ادا کرتے دیکھا ہے؟ یہاں بات محض آنکھیں بند یقین کی ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے مابین تعلیمات کی بھی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم آپؑ کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ قرآن پاک سے جو تشریح آپ حضرت داؤدؑ کے بارہ میں کر رہی ہیں ’’وہی‘‘ درست ہو۔ واللہ اعلم!
 

محمد امین

لائبریرین
محراب میں صلاۃ تو اسلام کیساتھ آئی ہے۔ اس سے پہلے مذاہب میں تو اسکا کوئی تصور نہیں تھا۔ کیا آج کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کی طرح نماز ادا کرتے دیکھا ہے؟ یہاں بات محض آنکھیں بند یقین کی ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے مابین تعلیمات کی بھی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم آپؑ کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ قرآن پاک سے جو تشریح آپ حضرت داؤدؑ کے بارہ میں کر رہی ہیں ’’وہی‘‘ درست ہو۔ واللہ اعلم!

او بھائی۔۔۔۔کدھر کی باتیں کرتے ہو :D اسلام کو دینِ ابراہیمی کہتے ہیں۔۔۔کبھی سنا نہیں کیا؟ حضور سے پہلے تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا بس احکامات اور صحائف کا فرق تھا۔۔۔
 
میرے خیال ہے موسیقی کے لیے حضرت داؤد کو مثال بنانے کی بجائے اگر احادیث اور صحابہ کے واقعات پیش کیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا اور حضرت داؤد کی شخصیت بھی زیر بحث آنے سے محفوظ رہے گی۔

کئی واقعات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی موسیقی کا اہتمام ہوا اور اس پر آپ کے کئی رد عمل ہیں ۔ ان واقعات کو زیر بحث لایا جائے تو وہ اسلام سے بھی میل کھائیں گے اور اس پر بات بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
 
’’اسلام اور موسیقی‘‘ کے زیر عنوان مارچ ۲۰۰۴ کے ’’اشراق‘‘ میں ہم نے ایک مفصل مضمون تحریر کیا تھا۔ یہ مضمون استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کے افادات پر مبنی تھااور اس میں یہ نقطۂ نظر پیش کیا گیا تھا کہ غنا یاموسیقی مباحات فطرت میں سے ہے۔ اسلامی شریعت اسے ہرگزحرام قرار نہیں دیتی۔ لوگ چاہیں تو حمد، نعت، غزل، گیت، یا دیگر المیہ، طربیہ اور رزمیہ اصناف شاعری میں فن موسیقی کو استعمال کر سکتے ہیں۔شعر و ادب کی ان اصناف میں اگر شرک و الحاد اور فسق و فجور جیسے نفس انسانی کو آلودہ کرنے والے مضامین پائے جاتے ہوں تو یہ، بہرحال مذموم اور شنیع ہیں۔ اس شناعت کا باعث ظاہر ہے کہ نفس مضمون ہے۔نفس مضمون اگر دین و اخلاق کی روسے جائز ہے تو نظم ، نثر ، تقریر، تحریر، صدا کاری یا موسیقی کی صورت میں اس کے تمام ذرائع ابلاغ مباح ہیں، لیکن اس کے اندر اگر کوئی اخلاقی قباحت موجود ہے تو اس کی حامل مخصوص چیزوں کولازماً لغو قرار دیا جائے گا ۔چنانچہ مثال کے طور پر اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تواس نعت کی شاعری ناجائز سمجھی جائے گی ، صنف نعت ہی کو غلط نہیں کہا جائے گا ۔ اسی طرح اگر کوئی نغمہ فحش شاعری پر مشتمل ہو تواس کے اشعار ہی لائق مذمت ٹھہریں گے، نہ کہ اصناف شعر و نغمہ کو مذموم تصور کیا جائے گا۔ تاہم، کسی موقع پر اگر کوئی اخلاقی برائی کسی مباح چیز کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر لے تو سد ذریعہ کے اصول کے تحت اسے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا جا سکتاہے۔
یہ نقطۂ نظرہم نے اپنے فہم کے مطابق دینی نصوص کی روشنی میں اختیار کیا تھا۔ چنانچہ اس پر استدلال کے لیے ہم نے قرآن مجیدکے حوالے سے یہ بیان کیا تھا کہ موسیقی کے بارے میںیہ کتاب اصلاً خاموش ہے۔ اس کے اندر کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے بارے میں کسی حکم کو بیان کر رہی ہو۔ البتہ ، اس میں بعض ایسے اشارات ضرور موجود ہیں جن سے موسیقی کے جواز کی تائید ہوتی ہے۔مثال کے طور پر اس کی آیات میں قوافی کے التزام کی بنا پر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس میں صوتی آہنگ کی رعایت کی گئی ہے۔مزید براں اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام جب اللہ کی حمد و ثنا کرتے تو اللہ کے اذن سے پہاڑ اور پرندے ان کے ہم نوا ہو جاتے تھے، جبکہ قدیم صحائف سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ساز و سرود کے ساتھ کرتے تھے۔ یہ اور اس نوعیت کے بعض دوسرے اشارات کی بنا پر قرآن سے موسیقی کے جواز کا یقینی حکم اخذ کرناتو بلا شبہ، کلام کے اصل مدعاسے تجاوز ہو گا، لیکن بالبداہت واضح ہے کہ ان کی موجودگی میں اس کے عدم جواز کا حکم بھی کسی صورت میں اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
بائیبل کے حوالے سے ہم نے لکھا تھا کہ اس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکر متعدد مقامات پر موجود ہے۔ ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات موسیقی کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ بیش تر مقامات پراللہ کی حمد و ثنا کے لیے موسیقی کے استعمال کا ذکر آیاہے۔ چنانچہ یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام نہایت خوش الحان تھے اورگیتوں کی صورت میں اللہ کی حمد و ثنا کرتے تھے۔آپ پر نازل ہونے والی کتاب ’’زبور‘‘ ان الہامی گیتوں کا مجموعہ ہے جو آپ نے بربط پر گائے تھے۔ اس کے علاوہ خوشی، غمی اورجنگی مواقع کے حوالے سے بھی موسیقی کا ذکر مثبت انداز سے آیا ہے۔اس کتاب مقدس میں بعض مقامات پرموسیقی کا ذکر شراب نوشی اور فحاشی کے مظاہر کے ساتھ آیا ہے ۔ ان سے بادی النظر میں اس کی شناعت کا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے، مگرسیاق و سباق اور اسلوب بیان سے واضح ہے کہ ان جگہوں پرموسیقی کی نہیں،بلکہ رذائل اخلاق کی شناعت بیان ہوئی ہے۔ان کی بنا پر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ موسیقی کی جو صورتیں اخلاقی قباحتوں کے ساتھ ملحق ہوں، وہ شنیع قرار دی جا سکتی ہیں۔
احادیث نبوی کے ضمن میں ہماری رائے یہ تھی کہ ان کے مجموعوں میں صحیح اور حسن کے درجے کی متعدد روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جوازپر دلالت کرتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے ایک موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گانا سنا؛ شادی کی ایک تقریب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوگانے کی ترغیب دی اور مثبت طور پر اس بات کا اظہار فرمایا کہ انصار گانے کوپسند کرتے ہیں؛ہجرت کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے دف بجا کراستقبالیہ گیت گائے اور آپ نے انھیں پسند فرمایا؛ ایک مغنیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپناگانا سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے سیدہ عائشہ کو اس کا گانا سنوایا؛ سفروں میں آپ نے صحرائی نغموں کی معروف قسم حدی خوانی کو نہ صرف پسند فرمایا، بلکہ اپنے اونٹوں کے لیے ایک خوش آواز حدی خوان بھی مقرر کیا اور اعلان نکاح کے لیے آپ نے آلۂ موسیقی دف بجانے کی تاکید فرمائی۔موسیقی کے جواز کی روایتوں کے علاوہ اس کی ممانعت کی روایتیں بھی حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں، مگر ان میں سے بیش تر کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم، ان کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا سبب ان کی بعض صورتوں کا شراب نوشی، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے ۔
قرآن، بائیبل اور احادیث کی روشنی میں اس بات کوپیش کرنے کے بعد کہ اسلام نے موسیقی کی علی الاطلاق حرمت کا حکم ہر گز صادر نہیں کیا ہے، ہم نے ’’موسیقی کی شناعت کے بعض پہلو‘‘ کے زیر عنوان اس بات کی تصریح کی تھی کہ اسلام کی رو سے موسیقی کی وہ اصناف لازماً شنیع قرار پائیں گی جن سے منکرات و فواحش وابستہ ہو جائیں یا جو انسان کے اندر ہیجان پیدا کرنے اور سفلی اور شہوانی جذبات کو انگیخت کرنے کا باعث بنیں ۔اس کا سبب ہم نے یہ بیان کیا تھا کہ دین کا مقصد چونکہ تزکیۂ نفس ہے اور وہ انسانوں سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو فکر و عمل کی مختلف آلایشوں سے پاک کر کے جنت کے مستحق بن جائیں، لہٰذا وہ انھیں ان اعمال کی ترغیب دیتا ہے جو نفس انسانی کے لیے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنیں اور ان سے روکتا ہے جو اسے آلودہ کرنے کا باعث ہوں ۔
ہمارا مضمون اسی نقطۂ نظرکی تفصیل اور اسی استدلال کی توضیح پر مبنی تھا۔ اس مضمون پر مسلک اہل حدیث کے ترجمان ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘لاہور نے ۱۱ اقساط پر مشتمل ایک مفصل تنقیدی مقالہ شائع کیا ہے جس میں ہمارے نقطۂ نظر اور اس کی بناے استدلال کو صریح طور پر غلط قرار دیا گیاہے۔اس میں شبہ نہیں کہ کسی مضمون پر تنقید اصلاًایک مثبت عمل ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں علم و دانش کے نئے دریچے کھلتے ہیں۔اگر کوئی بات مصنف کے سہو یا سوے فہم کے نتیجے میں غلط طور پر بیان ہو گئی ہوتو اس کا امکان ہوتا ہے کہ وہ تنقید کی روشنی میں اپنی تالیف پر نظر ثانی کرے گا۔ چنانچہ یہ بات بالکل بجا ہے کہ تنقید وہ زینہ ہے جس پر علم اپنے ارتقا کی منزلیں طے کرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علمی ارتقا کی خدمت کا فریضہ صرف اور صرف وہی تنقید انجام دیتی ہے جس میں مصنف کا نقطۂ نظر تعصب سے بالاتر ہو کر پوری دیانت داری سے سمجھا گیا ہو اور بے کم وکاست بیان کیا گیا ہو،جس میں مصنف کے محرکات طے کر کے انھیں ہدف تنقید بنانے کے بجائے اس کے استدلال کے نکات کو متعین کر کے ان پر تنقید کی گئی ہو، جس میں ضمنیات کو نمایاں کر کے ان پرمباحث لکھنے کے بجائے اساسات کو بنیاد بنا کر ان پر بحث کی گئی ہو اورجس میں الزام تراشی، دروغ گوئی اور دشنام طرازی کے بجائے سنجیدہ اور شایستہ اسلوب بیان میں اپنی بات سمجھائی گئی ہو۔ اگر کوئی تنقید ان معیارات پر پوری نہیں اترتی تو صاف واضح ہے کہ وہ علم کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی۔علم کی دنیا میں اس کی حیثیت محض رطب و یابس کی ہوتی ہے اور اصحاب علم و دانش اس سے اعتنا برتنے کو بھی غیر علمی رویے پر محمول کرتے ہیں۔
ہمارے لیے یہ بات باعث تاسف ہے کہ ’’الاعتصام‘‘ کی مذکورہ تنقید ان معیارات پر پوری اترتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ اہل دانش ہمارے اسے در خور اعتنا سمجھنے کو دانش مندی کے منافی قرار دیں،مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ دو گزارشات سننے کے بعد ہمارے اس طرز عمل کی تائید کریں گے : اولاً، مذکورہ تنقید میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے، اس میں چونکہ بظاہر علمی استدلال کا طریقہ اختیارکیا گیاہے، اس لیے اس کا اندیشہ ہے کہ بعض قارئین اس کی بنا پرکسی قسم کے انتشار فہم میں مبتلا ہو جائیں، لہٰذا ضروری توضیحات ناگزیر ہیں۔ثانیاً، خدمت دین کی ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے کی بنا پر یہ ہماری برادرانہ ذمہ داری ہے کہ معاصر جریدے کی تلخ نوائی سے صرف نظر کرتے ہوئے، اس کی مخاطبت کا جواب دیں۔چنانچہ مضمون کی ترتیب سے ’’الاعتصام ‘‘کی تنقیدات پر ہمارا تبصرہ پیش خدمت ہے۔
ہمارے مضمون کے پہلے باب کا عنوان ’’قرآن اور موسیقی‘‘، دوسرے کا ’’بائیبل اور موسیقی‘‘ اور تیسرے کا ’’احادیث اور موسیقی‘‘ تھا ۔ ’’الاعتصام‘‘ نے پہلے دو ابواب پر کوئی تبصرہ کیے بغیر تیسرے باب سے اپنی تنقید کا آغاز کیا ہے۔ ابتدائی دو ابواب کے مباحث پر ان کی خاموشی کو ہم خاموشی نیم رضا کے مقولے پر محمول کر کے آگے بڑھتے ہیں اور ’’احادیث اور موسیقی‘‘ کے باب پر ان کی تنقیدات کا ملاحظہ کرتے ہیں۔
عید پر موسیقی

’’عید پر موسیقی‘‘ کے زیر عنوان ہم نے بخاری کی روایت رقم۹۰۷سے موسیقی کے جواز پر استدلال کیا تھا۔ اس روایت میں سیدہ عائشہ نے بیان کیا ہے کہ عید کے دن ان کے گھر پر ’جاریتان‘(دو لونڈیاں، لڑکیاں) جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ اسی اثنا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنا رخ دوسری جانب کر کے بستر پر دراز ہو گئے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق آئے اورسیدہ کوسرزنش کرتے ہوئے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی سازکیوں بجائے جا رہے ہیں؟ نبی کریم یہ سن کر متوجہ ہوئے اور فرمایاکہ انھیں کرنے دو۔ پھرجب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں مشغول ہوئے تو سیدہ نے ’جاریتان‘کو جانے کا اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے ہم نے بیان کیا تھا کہ اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کے موقع پر موسیقی کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔ام المومنین سیدہ عائشہ کاآپ کی موجودگی میں گانا سننا ، آپ کااس پرنہ پابندی عائد کرنا اور نہ کسی ناراضی کا اظہار فرمانا، بلکہ سیدنا ابوبکر کو بھی مداخلت سے روک دینا، یہ سب باتیں موسیقی کے مباح ہونے ہی کو بیان کر رہی ہیں۔
لفظ ’جاریتان‘کے مفہوم کے حوالے سے حاشیے میں ہم نے یہ تصریح کی تھی کہ اس سے بعض لوگوں نے ’’بچیاں‘‘ مراد لیاہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ’ جاریۃ‘ کا اطلاق ’’بچی ‘‘ پر بھی کیا جا سکتا ہے، مگر یہاں لازم ہے کہ اس سے ’’لونڈیاں‘‘ ہی مراد لیا جائے اور لونڈیاں بھی وہ جو ماہر فن مغنیات کی حیثیت سے معروف تھیں۔ روایت کے اسلوب بیان کے علاوہ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسی روایت کے دوسرے طریق: بخاری، رقم ۳۷۱۶میں ’جاریتان‘ کے بجائے ’قینتان‘ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں اور ’ قینۃ ‘کامعلوم و معروف معنی ’’ پیشہ ور مغنیہ ‘‘ہے۔
ہمارے اس استدلال پر ’’الاعتصام‘‘ کی تنقید کا خلاصہ یہ ہے کہ بخاری ہی میں درج اس روایت کے ایک اور طریق: رقم۹۵۲میں گانے والیوں کے بارے میں سیدہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ ’لیستا بمغنیتین‘ یعنی وہ مغنیہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انھیں مغنیہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید براں ’جاریتان‘کا معنی لونڈی کرنا اور اس سے ’قینتان‘ والے طریق کی روشنی میں مغنیات مراد لینا درست نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً، ’جاریۃ‘کے لفظ کا اطلاق عموماً بچی اور نابالغ لڑکی پر ہوتا ہے، اس لیے اس سے بچیاں ہی مراد لینا چاہیے ۔ ثانیاً،مذکورہ روایت کے چار طرق میں سے تین میں’جاریتان‘ کا لفظ آیا ہے، جبکہ صرف ایک طریق یعنی امام شعبہ کے طریق میں ’قینتان‘ کا لفظ آیا ہے، لہٰذا یہاں ’جاریۃ‘ کا اطلاق ہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ ثالثاً، اگر ’قینتان‘والے طریق کو من و عن قبول بھی کر لیا جائے تب بھی اس سے مغنیات مراد لینا درست نہیں ہے، کیونکہ ’قینۃ ‘کے معنی فقط پیشہ ور مغنیہ قرار دینا لغوی طور پر غلط ہے۔ جہاں تک ان کے غنا کا تعلق ہے تو اس سے وہ غنا مراد نہیں ہے جو اہل لہو و لعب کے نزدیک معروف ہے، بلکہ سادہ طریقے سے اشعار پڑھنا مراد ہے۔
درج بالا خلاصہ’’ الاعتصام‘‘ کے جن متون پر مبنی ہے، ان میں چونکہ الفاظ اور ان کے معانی کو زیر بحث لایا گیا ہے، لغات سے مراجعت کی گئی ہے، روایتوں کی اسنادپر جرح کی گئی ہے اور شارحین حدیث کے حوالے نقل کیے گئے ہیں، اس لیے بادی النظر میں یہ علمی بحث وتمحیص کا تاثر دیتے ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان میں ہمارے اصل استدلال کو زیربحث ہی نہیں لایا گیا ۔چنانچہ اس سے پہلے کہ ان نکات پر اپنا نقطۂ نظر پیش کریں ، ہم اہل الاعتصام سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ہماری تحریر کا مطالعہ فرما لیں، ہمیں امید ہے کہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ اس حدیث کے حوالے سے ہماری بناے استدلال اصلاً نہ ’جاریتان ‘(دو لڑکیاں؍لونڈیاں) کے الفاظ ہیں اورنہ ’قینتان‘ (دوگانے والیاں؍لونڈیاں) کے، بلکہ یہ واقعہ ہے کہ دولڑکیوں یا لونڈیوں نے گیت گایا، سیدہ نے اسے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ گانے والیوں کو گانے سے روکااور نہ سیدہ کو گانے کی سماعت سے منع فرمایا۔ یہی نقطۂ نظر ہے جسے ہم نے اس روایت کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
چنانچہ بر سبیل تنزل ’’الاعتصام ‘‘کے مذکورہ نکات کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی ہماری بناے استدلال میں ادنیٰ تغیر واقع نہیں ہو تا۔ہماری یہ بناے استدلال صرف اور صرف اسی صورت میں ختم ہوگی ، جب اہل الاعتصام درج بالا حدیث کے حوالے سے حسب ذیل نکات کی تردید کریں گے:
۱۔ سیدہ عائشہ نے غنا سنا۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دوران میں تشریف لائے ، مگر آپ نے سیدہ کو غنا سننے سے منع نہیں فرمایا۔
۳۔ سیدنا ابوبکر نے جب سیدہ کوغنا سننے سے روکنا چاہاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں روکنے سے منع فرما دیا۔
وہ اگر ان نکات کی تردید کرنا چاہتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے توقف کر کے یہ ضرور سوچ لیں کہ اس تردید کو کوئی شخص انکار حدیث سے بھی تعبیر کر سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس حدیث کا پاس کریںیا نہ کریں، کم سے کم اس دعوے کا پاس ضرور کریں گے جو ’’مسلک اہل حدیث کا داعی اور ترجمان‘‘ کے الفاظ میں ’’الاعتصام ‘‘کے سرورق پرہمیشہ سے رقم رہا ہے۔
اس وضاحت کے بعد آئیے اب ان کی تنقید کا جائزہ لیتے ہیں:
’لیستا بمغنیتین‘ کا جملہ
’’الاعتصام ‘‘نے لکھا ہے:
’’بڑے وثوق سے فرمایا گیا ہے کہ گانے والیاں ’’ماہر فن مغنیات‘‘ اور ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ تھیں اور یہ اس لیے کہ ایک روایت میں’ ’جاریتان‘‘کی بجائے ’’قینتان‘‘کا لفظ ہے۔
بڑے ہی افسوس سے عرض ہے کہ غامدی صاحب کو بخاری کی ایک روایت میں...’’قینتان‘‘ کا لفظ تو نظر آ گیا۔ مگر... بخاری ہی کی ایک روایت رقم ۹۵۲ میں خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی یہ وضاحت نظر نہ آئی کہ’ ’قالت ولیستا بمغنیتین‘‘ انھوں نے فرمایا وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں... حضرت عائشہ صدیقہ کی اس وضاحت کے بعدکہ وہ دونوں ’’مغنیہ‘‘ نہ تھیں، پھر بھی یہ ضد کرنا اور اس پر اڑنا کہ وہ ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ اور ’’ماہر فن مغنیہ‘‘ تھیں، علم کی کون سی معراج ہے؟ یہ ضدکسی ضدی ، نافہم بچے کی تو ہو سکتی ہے، کسی صاحب علم اور بالغ نظر محقق سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔‘‘(۷؍۵۷:۲۰)
یہ ’’الاعتصام ‘‘کی تنقید کا پہلا نکتہ ہے اور اسی پر ان کی تمام تر تنقید کا انحصار ہے۔ ’قالت ولیستا بمغنیتین‘(انھوں نے کہا کہ وہ مغنیات نہیں تھیں)کے جملے کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ درحقیت سیدہ عائشہ کاقول ہی نہیں ہے۔ یہ بعد کے راویوں کا اپنا قیاس ہے جسے انھوں نے روایت کے متن میں شامل کر دیا ہے۔ اس ضمن میں مدیر ’’الشریعہ‘‘ اور ’’المورد ‘‘ میں ہمارے رفیق عمار خان صاحب ناصر کی تحقیق حسب ذیل ہے:
’’روایت کے تمام طرق جمع کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اس واقعے کی اصل اور مرکزی راوی ہیں۔ ان سے یہ واقعہ ان کے بھانجے عروہ بن زبیر نے نقل کیا ہے اور عروہ سے ان کے یہ چار شاگرد اس کو روایت کرتے ہیں:
۱۔ ابوالاسود بمطابق بخاری، رقم ۲۶۹۱۔
۲۔ ابن شہاب زہری بمطابق بخاری، رقم ۹۳۴۔
۳۔ محمد بن عبدالرحمن الاسدی بمطابق بخاری، رقم ۸۹۷۔
۴۔ ہشام بن عروہ بمطابق بخاری، رقم ۸۹۹۔
ان میں سے پہلے تین شاگردوںیعنی ابوالاسود، ابن شہاب زہری اور محمد بن عبدالرحمن الاسدی کے طرق میں ’قالت ولیستا بمغنیتین‘ کا جملہ موجود نہیں ہے۔ یہ صرف ہشام بن عروہ ہیں جن کے طریق میں یہ جملہ نقل ہوا ہے۔ اصول روایت کی رو سے یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ایک استاد کے چار شاگردوں میں سے تین شاگردایک جملہ نقل کرنا بھول گئے ہوں اور صرف ایک کو یاد رہاہو۔
ہشام بن عروہ کے اس واحد طریق کی جس میں مذکورہ جملہ نقل ہوا ہے، تفصیلات جمع کرنے سے مزید یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خود ہشام بن عروہ کی طرف بھی اس جملے کی روایت کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھیے، اس واقعے کو ہشام سے ان کے ان پانچ شاگردوں نے نقل کیا ہے:
۱۔ شعبہ بمطابق بخاری، رقم ۳۶۳۸۔
۲۔ حماد بن سلمہ بمطابق مسند احمد، رقم ۲۳۸۷۹۔
۳۔ عبداللہ بن نمیر بمطابق المعجم الکبیر، رقم ۲۸۸۔
۴۔ ابو معاویہ بمطابق مسند اسحاق بن راہویہ ۲؍۲۷۲، رقم ۷۸۰۔
۵۔ ابو اسامہ بمطابق بخاری، رقم ۸۹۹۔
ان پانچ میں سے پہلے چار شاگردوں کے طرق میں اس جملے کا کوئی وجود نہیں ہے۔ صرف آخری شاگرد ابو اسامہ کی روایت میں اس جملے کا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ قرار دینا خلاف قیاس ہو گا کہ ہشام کے چار شاگردیہ جملہ بیان کرنا بھول گئے اور صرف ابو اسامہ نے اس کو یاد رکھا۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ جملہ اصل روایت کا حصہ نہیں ہے اور نہ اسے ام المومنین کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔‘‘
’جاریتان‘ کا معنی اور مصداق
’’الاعتصام ‘‘نے لکھا ہے:
’’حدیث میں ’’جاریتان‘ ‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اور’ ’جاریۃ‘ ‘کا عموماً اطلاق بچی اور نابالغ لڑکی پر ہوتا ہے، اور اس کا اعتراف گو غامدی صاحب کو بھی ہے کہ’ ’جاریۃ‘ ‘کا لفظ بچی کے معنی میں بھی آتا ہے ۔اس اعتبار سے اس حدیث سے بالغ عورتوں کے لیے گانے بجانے کا جواز ڈھونڈنااندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی کا مصداق ہے۔... یہی وجہ ہے کہ شارحین حدیث نے انھیں نابالغ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ عینی رقم طراز ہیں: الجاریۃ فی النساء کالغلام فی الرجال ویقال علی من دون البلوغ۔(عمدۃالقاری۶؍۲۶۸):’’ جاریہ کا اطلاق عورتوں میں اسی طرح ہے جس طرح غلام کا اطلاق مردوں میں ہے اور جاریہ اسے کہتے ہیں جو ابھی بالغ نہ ہو۔‘‘ ‘‘(۸؍۵۷:۱۷)
یہ بات درست نہیں ہے کہ ’’جاریہ کا عموماً اطلاق بچی اور نابالغ لڑکی پر ہوتا ہے۔‘‘ تمام اہل لغت بلا استثنا یہ کہتے ہیں کہ جاریہ کا لفظ لڑکی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور لونڈی کے لیے بھی۔ پہلے معنی میں اس کا اطلاق کم سن بچی سے لے کر نوجوان دوشیزہ تک، ہر عمر کی لڑکی پر ہو سکتا ہے اور دوسرے معنی میںیہ ہر عمر کی لونڈی کے لیے مستعمل ہے۔ صاحب ’’لسان العرب‘‘ لکھتے ہیں:
الجاریۃ: الفتیۃ من النساء.(۱۴/ ۱۴۳)
’’جاریہ جوان عورت کو کہتے ہیں۔‘‘
’’تاج العروس‘‘ میں ہے:
الجاریۃ فتیۃ النساء .(۱۰/۷۲)
’’جاریہ جوان عورت کو کہتے ہیں۔‘‘
’’المعجم الوسیط‘‘ میں درج ہے :
الجاریۃ: الامۃ وان کانت عجوزا. والفتیۃ من النساء.(۱/۱۱۹)
’’جاریہ کے معنی لونڈی کے ہیں خواہ وہ بوڑھی ہو۔ اور جوان عورت کو بھی کہتے ہیں۔‘‘
’’الرائد‘‘ میں بیان ہوا ہے:
الجاریۃ: ج :جوار. الفتاۃ. الامۃ.
’’جاریہ کی جمع جوار ہے اس کے معنی جوان عورت،
العبدۃ . الخادمۃ.(۱/۴۹۴)
لونڈی اور خادمہ کے ہیں ۔‘‘
درج بالا لغات کی بنا پر یہ دعویٰ صریح طور پر غلط ثابت ہوگیا ہے کہ ’’جاریہ کا عموماً اطلاق بچی اور نابالغ لڑکی پر ہوتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ یہ لفظ لونڈی اور لڑکی کے دو مختلف معنوں کا حامل ہے ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ لفظ جب کسی کلام میں استعمال ہو گاتو اس کا فیصلہ کہ یہاں اس سے مراد لونڈی ہے یا لڑکی، مجرد طور پر نہیں، بلکہ سیاق کلام اور دیگر قرائن کی بنا پر کیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک روایت کے حسب ذیل داخلی اور خارجی شواہد کی بنا پر یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہاں اس سے لونڈی مراد لیا جائے:
۱۔’ جاریتان ‘کے ساتھ’ تغنیان ‘کا فعل آیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دونوں گا رہی تھیں۔ یہ بات معلوم و معروف ہے کہ اس زمانے میں عرب میں گانے یا غنا کا پیشہ بالعموم لونڈیوں ہی سے وابستہ تھا۔ وہ تہواروں کے موقع پراور خوشی کی تقریبات میں اس کا مظاہرہ کرتی رہتی تھیں۔آزاد عورتیں اورلڑکیاں نہ اس فن کو سیکھتی تھیں اور نہ اس کا مظاہرہ کرتی تھیں۔
۲۔ روایت میں مذکور سیدنا ابو بکر کے تبصرے’مزمار الشیطان عند النبی‘ سے بھی یہی تاثر ہوتا ہے کہ گانے والیاں بچیاں نہیں تھیں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ چھوٹی بچیاں ہوتیں تو محض ان کے کھیل پر سیدنا ابوبکر’’شیطانی ساز‘‘ کے الفاظ میں سرزنش نہ کرتے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی عید کے موقعے کا حوالہ دیے بغیر سیدنا ابوبکر کو مداخلت سے روکتے۔
۳۔ اسی روایت کے ایک اور طریق: بخاری، رقم۳۷۱۶ میں’جاریتان ‘کے بجائے ’قینتان ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔’ قینۃ‘ کے معنی مغنیہ یا گانے والی لونڈی کے ہیں۔
۴۔شارح بخاری علامہ ابن حجرعسقلانی نے بعض روایتوں کی بنا پر ان لونڈیوں کا تعین بھی کیا ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک لونڈی حضرت حسان بن ثابت کی مملوکہ تھی۔ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ یہ دونوں حضرت عبداللہ بن سلام کی لونڈیاں تھیں۔ایک گانے والی کا نام حمامہ بیان ہوا ہے اور دوسری کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ زینب تھی اور اسے شادی بیاہ کی تقریبات میں گانا گانے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سے فرمایا تھا کہ وہ گانے کے لیے زینب کو دلہن کے ساتھ بھیج دیں۔ فتح الباری میں ہے:
وللطبرانی من حدیث ام سلمۃ ان احداہما کانت لحسان بن ثابت وفی الاربعین للسلمی انہما کانتا لعبد اللّٰہ بن السلام، وفی العیدین لابن ابی الدنیا من طریق فلیح عن ہشام بن عروۃ ’وحمامۃ وصاحبتہا تغنیان‘ واسنادہ صحیح ، لم اقف علی تسمیۃ الاخری. لکن یحتمل ان یکون اسم الثانیۃ زینب وذکرہ فی کتاب النکاح.( ۴؍۴۴۰)
’’طبرانی میں ام سلمہ کی روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک حسان بن ثابت کی لونڈی تھی۔ سلمیٰ کی ’اربعین ‘ میں ہے کہ یہ دونوں حضرت عبد اللہ بن سلام کی لونڈیاں تھیں۔ ابن ابی الدنیا کی ’’العیدین‘‘میں ہے ہشام بن عروہ سے فلیح کی سند کے ساتھ بیان ہوا: ’حمامہ اور اس کی ساتھی گارہی تھیں‘۔ اس کی سند صحیح ہے۔ دوسری لونڈی کے نام سے میں واقف نہیں ہوں مگر احتمال یہی ہے کہ اس کا نام زینب ہے۔ اور اس کا ذکرکتاب النکاح میں آیاہے۔‘‘​
وفی حدیث جابر عند المحاملی ’ادرکیہا یا زینب‘ امراۃ کانت تغنی بالمدینۃ ویستفاد منہ تسمیۃ المغنیۃ الثانیۃ فی القصۃ التی وقعت فی حدیث عائشۃ الماضی
فی العیدین حیث جاء فیہ ’دخل علیہا وعندہا جاریتان تغنیان‘ وکنت ذکرت ہناک ان اسم احداہما حمامۃ کما ذکرہ ابن ابی الدنیا فی کتاب العیدین لہ باسناد حسن.(۹؍۲۲۶)
’’ محاملی کی ایک روایت جو حضرت جابر سے ہے، اس میں ’زینب اس (دلہن )کے پاس جاؤ ‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ(زینب ) مدینے میں گاتی تھی۔ اس روایت سے اس دوسری مغنیہ لونڈی کا نام جاننے میں مدد ملتی ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ کی اس روایت میں آیا ہے جو کتاب العیدین میں گزر چکی ہے اور جس کے الفاظ یہ ہیں کہ’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین کے پاس آئے ، جبکہ ان کے پاس دو لونڈیاں گا رہی تھیں۔‘ ایک کا نام تو ہم نے اس روایت کی شرح ہی میں حمامہ لکھا تھا،جیسا کہ ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب العیدین میں حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘​
امام ابن حجر نے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ میں بھی زینب کا ذکر اسی پہلو سے کیا ہے:
(زینب) الانصاریۃ...غیر منسوبۃ جاء انھا کانت تغنی بالمدینۃ فاخرج ابن طاہر فی کتاب الصفوۃ من طریق المحاملی... ان جمیلۃ اخبرتہ انھا سالت جابر بن عبد اللّٰہ عن الغناءفقال نکح بعض الانصار بعض اھل عائشۃ فاھدتھا الی قباء فقال لھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اھدیت عروسک قالت نعم قال فارسلت معھا بغناء فان الانصار یحبونہ قالت لا قال فادرکیہا بزینب امراۃ کانت تغنی بالمدینۃ. (۱۴؍ ۱۴۳)
’’(زینب) انصاری خاتون تھی...اس کی نسبت کسی کی طرف نہیں۔ یہ مدینہ میں گاتی تھی۔ ابن طاہر کتاب الصفوہ میں محاملی کی یہ روایت لائے ہیں کہ... جمیلہ نے انھیں بتایا کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ سے غنا کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بیان کیا کہ انصارکے ایک مرد نے سیدہ عائشہ کی ایک رشتہ دار خاتون سے نکاح کیا۔سیدہ نے اسے قبا کی طرف بھیج دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ سے پوچھا کہ کیا تم نے ان کی طرف دلہن کو رخصت کر دیا ہے؟ سیدہ نے اثبات میں جواب دیا۔آپ نے فرمایا کہ کیااس کے ساتھ غنا کا اہتمام بھی کیا ہے؟ کیونکہ انصار گانا پسند کرتے ہیں۔سیدہ نے فرمایا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زینب کو اس کے ساتھ بھیجو۔ زینب مدینے میں گاتی تھی۔‘‘​
’قینتان‘ کے معنی
’’الاعتصام ‘‘نے لکھا ہے:
’’ ’’ قینہ‘‘ کے معنی ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ ہی قرار دینا بجائے خود غلط ہے۔ ...علامہ زمخشری حضرت عائشہ کی یہی حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’القینہ لونڈی کو کہتے ہیں، وہ گانا گائے یا نہ گائے۔‘‘ (الفائق: ۲؍۱۹۰) اسی طرح علامہ جوہری رقم طراز ہیں: ’’القینہ کے معنی لونڈی ہے ، وہ گانے والی ہو خواہ نہ گانے والی ہو... ’’ابو عمرو نے کہا ہے کہ اہل عرب ہر غلام کو ’’قین‘‘ اور لونڈی کو ’’قینۃ‘‘ کہتے ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’القینۃ‘‘ خاص طور پر مغنیہ کو کہتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ (الصحاح ۶ ؍ ۲۱۸۶) غور فرمائیے ابو عمرو جس معنی کی تردید کر رہے ہیں، ہمارے یہ متجددین اسی معنی کی بنیاد پر ’’القینۃ‘‘ کے معنی ’’پیشہ ور مغنیہ‘‘ قرار دینے پرادھار کھائے بیٹھے ہیں۔دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا... علامہ ابن منظور نے بھی لسان العرب میں ابو عمرو کا مذکورہ قول ذکر کیا اور اس کے متصل بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی مذکورۃ الصدر روایت نقل کر کے وضاحت فرما دی کہ’’القینۃ‘‘ سے مراد لونڈی ہے وہ گانا گائے یا نہ گائے‘‘ (۷؍۵۷:۲۱)
مزید لکھتے ہیں:
’’یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے عروہ نے بیان کی ہے اور ان سے روایت کرنے والوں میں محمد بن عبدالرحمن ابو الاسودالاسدی، ہشام، ابن شہاب زہری تینوں کی روایت میں جاریتان کا لفظ ہے رقم، ۹۴۹، ۹۵۳، ۳۵۲۵۔ البتہ ہشام سے شعبہ کی روایت میں ’’قینتان‘‘ کا لفظ ہے،رقم۳۹۳۱۔ اور اسی روایت میں یہ شک بھی بیان ہوا ہے کہ یہ عیدالفطر کا دن تھا یا عیدالاضحیٰ کا۔... گویا صرف امام شعبہ کی روایت میں ’’قینتان‘‘ کا ذکر ہے اور اسی میں شک کا ایک اور پہلو بھی موجود ہے۔ باقی روایات میں’ ’جاریتان‘ ‘ہی کا لفظ ہے۔ بلکہ مسندامام احمد (ج۶ ص:۹۹)میں خود شعبہ کی روایت میں بھی ’’جاریتان‘‘ ہی کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام شعبہ نے بھی اگر ’’قینتان‘‘ کا لفظ ایک روایت میں بیان کیا ہے تو اس کے معنی بھی ’’جاریتان ‘‘ہی ہے۔ جیسا کہ اہل عرب کے ہاں معروف ہے۔ کہ’’ قینۃ‘‘ کے معنی جاریہ ہے۔ بایں طور بھی امام شعبہ کی ایک روایت کے مطابق ’’قینۃ‘‘ کے معنی پیشہ ور مغنیہ قرار دینا محض خواہش پرستی ہے، علم کی کوئی خدمت نہیں۔‘‘(۷؍۵۷:۲۱)

........................... جاری ہے۔
source
 

محمد امین

لائبریرین
محراب میں صلاۃ تو اسلام کیساتھ آئی ہے۔ اس سے پہلے مذاہب میں تو اسکا کوئی تصور نہیں تھا۔ کیا آج کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کی طرح نماز ادا کرتے دیکھا ہے؟ یہاں بات محض آنکھیں بند یقین کی ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے مابین تعلیمات کی بھی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم آپؑ کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ قرآن پاک سے جو تشریح آپ حضرت داؤدؑ کے بارہ میں کر رہی ہیں ’’وہی‘‘ درست ہو۔ واللہ اعلم!
او بھائی۔۔۔ ۔کدھر کی باتیں کرتے ہو :D اسلام کو دینِ ابراہیمی کہتے ہیں۔۔۔ کبھی سنا نہیں کیا؟ حضور سے پہلے تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا بس احکامات اور صحائف کا فرق تھا۔۔۔

ابھی میں نے دیکھا تو اپنی بات مبہم لگی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تم نے لکھا "محراب اسلام کے ساتھ آئی"۔۔۔تو سوال یہ ہے کہ کیا اسلام حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ آیا تھا؟ پہلے کے پیغمبرانِ کرام بھی تو اسلام ہی لے کر آئے تھے۔۔۔
 

arifkarim

معطل
او بھائی۔۔۔ ۔کدھر کی باتیں کرتے ہو :D اسلام کو دینِ ابراہیمی کہتے ہیں۔۔۔ کبھی سنا نہیں کیا؟ حضور سے پہلے تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا بس احکامات اور صحائف کا فرق تھا۔۔۔
اچھا تو اگر اسلام دین ابراہیمی ہے تو پھر یہودیت اور عیسائیت بھی اسی کا گزشتہ حصہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک وقت میں موسیقی جائز ہو اور دین اسلام کی آمد کے بعد ناجائز! :)


میرے خیال ہے موسیقی کے لیے حضرت داؤد کو مثال بنانے کی بجائے اگر احادیث اور صحابہ کے واقعات پیش کیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا اور حضرت داؤد کی شخصیت بھی زیر بحث آنے سے محفوظ رہے گی۔

کئی واقعات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی موسیقی کا اہتمام ہوا اور اس پر آپ کے کئی رد عمل ہیں ۔ ان واقعات کو زیر بحث لایا جائے تو وہ اسلام سے بھی میل کھائیں گے اور اس پر بات بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
یہ ٹھیک رہے گا اوریوں شدت پسندوں کو یہ معلوم بھی ہو جائے گا کہ کہاں کہاں موسیقی جائز ہے اور کہاں ناجائز۔
 
او بھائی۔۔۔ ۔کدھر کی باتیں کرتے ہو :D اسلام کو دینِ ابراہیمی کہتے ہیں۔۔۔ کبھی سنا نہیں کیا؟ حضور سے پہلے تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا بس احکامات اور صحائف کا فرق تھا۔۔۔
جزاک اللہ خیرا امین بھیا ۔ عارف کریم خود تو موسیقی کو جائز ثابت کرنے کے لیے زبور سے اسرائیلیات کے حوالے لاتے ہیں اور ہم قرآن سے تسبیح اور محراب کا ذکر کریں تو فرماتے ہیں کہ اس سے پچھلے ادیان میں اس کا کوئی تصور نہ تھا !
اگر تسبیح اور محراب کا پہلے مذاہب میں کوئی تصور نہیں تھا تو قرآن کریم نے کیوں ذکر کیا ہے ؟ ہم عارف کریم کی مانیں یا قرآن کریم کی ؟
محراب میں صلاۃ تو اسلام کیساتھ آئی ہے۔ اس سے پہلے مذاہب میں تو اسکا کوئی تصور نہیں تھا۔ کیا آج کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کی طرح نماز ادا کرتے دیکھا ہے؟ یہاں بات محض آنکھیں بند یقین کی ہی نہیں بلکہ مختلف مذاہب کے مابین تعلیمات کی بھی ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم آپؑ کو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور یہ ضروری بھی نہیں کہ قرآن پاک سے جو تشریح آپ حضرت داؤدؑ کے بارہ میں کر رہی ہیں ’’وہی‘‘ درست ہو۔ واللہ اعلم!
آیات کریمہ مع حوالہ قارئین کے سامنے ہیں اندازہ لگائیے کہ یہ جناب قرآنی آیات کو کس طرح جھٹلا رہے ہیں جن میں واضح ذکر ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کے ساتھ پرندے اور پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے اور وہ محراب میں عبادت میں مشغول تھے جب کچھ لوگ ان کے پاس آئے :
آپ اپنی عبرانی تحریفات اپنے پاس رکھیں ۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالی کے مکرم نبی علیہ السلام تھے ۔ گا کر نہیں محراب میں صلاۃ سے اللہ کی عبادت کرتے تھے، اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ ہم انبیاء کرام کے بارے میں عبرانی ، اسرائیلی اور قادیانی تحقیقات پر یقین نہیں رکھتے ۔ قرآن وحدیث میں بیان کردہ تفصیلات پر یقین رکھتے ہیں ۔ہمارے سچے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کی آواز بہت اچھی تھی اور وہ اچھے لحن میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے تھے ، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے حبیب ﷺ کی تلاوت چپکے چپکے کفار بھی سنا کرتے تھے اور بالکل اسی طرح جیسے مسلمان قارئ قرآن خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کرتے ہیں ۔
ترجمہ آیات سورۃ ص :
آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت واﻻ تھا، یقیناً وه بہت رجوع کرنے واﻻ تھا (17)
انَّا سَخَّرْ‌نَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَ‌اقِ
ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں (18) اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے (19) اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور اسے حکمت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا (20)
وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُ‌وا الْمِحْرَ‌ابَ ﴿٢١﴾ إِذْ دَخَلُوا عَلَىٰ دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ
اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وه دیوار پھاند کر محراب میں آگئے (21) جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے،۔۔ الخ
ہم بھی انبیاءکرام کے بارے میں ان فضول باتوں کو رد کرتے ہیں اور ان ہفوات پر صبر کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے رب عرش کریم کا ان آیات بینات میں حکم ہے ۔
ایک زمانے میں لوگ قرآن کو شاعری کی کتاب ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے اب ویسے ہی لوگ آیات اللہ کی تلاوت کو گانا بنانے پر تلے ہیں ۔نہ وہ کامیاب ہوئے نہ یہ ہو سکیں گے کہ جھوٹ کو کبھی دوام نصیب نہیں ہوتا ۔
عارف کریم قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں کر سکتے کہ حضرت داود علیہ السلام نعوذباللہ گاتے تھے ۔
 
اچھا تو اگر اسلام دین ابراہیمی ہے تو پھر یہودیت اور عیسائیت بھی اسی کا گزشتہ حصہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک وقت میں موسیقی جائز ہو اور دین اسلام کی آمد کے بعد ناجائز!:)
یہ ٹھیک رہے گا اوریوں شدت پسندوں کو یہ معلوم بھی ہو جائے گا کہ کہاں کہاں موسیقی جائز ہے اور کہاں ناجائز۔
پہلے موسیقی کے حامی شدت پسند یہ ثابت کریں کہ یہودیت اور عیسائیت میں موسیقی جائز تھی۔ ہم موجودہ تورات و زبور میں صرف اتنا ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کتابیں اللہ کی نازل کردہ ہیں لیکن اب ان میں تحریف ہو چکی ہے سو ہم ان کتابوں کی صرف ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جن کی قرآن مجید تصدیق کرے ۔
جو اضافی باتیں ہیں ان پر ہم خاموش رہیں گے ۔
جو قرآن مجید کے بر عکس ہیں ان کا ہم انکار کریں گے ۔
 

محمد امین

لائبریرین
اچھا تو اگر اسلام دین ابراہیمی ہے تو پھر یہودیت اور عیسائیت بھی اسی کا گزشتہ حصہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک وقت میں موسیقی جائز ہو اور دین اسلام کی آمد کے بعد ناجائز! :)



یہ ٹھیک رہے گا اوریوں شدت پسندوں کو یہ معلوم بھی ہو جائے گا کہ کہاں کہاں موسیقی جائز ہے اور کہاں ناجائز۔

اماں یار ۔۔۔ تمہارے اس جملے سے تو کہیں ثابت نہیں ہورہا کہ وہ عیسائیت اور یہودیت جو آج دنیا میں موجود ہے وہ وہی ادیان ہیں کہ جنہیں پیغمبرانِ اسلام نے دنیا میں پیش فرمایا۔ اور پھر اس موجودہ عیسائیت و یہودیت میں مجوزہ کسی بات کو ہم اسلام پر کیوں منطبق کر لیں؟؟؟ یوں بھی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی پچھلے انبیاء و مرسلین کے پیش کردہ احکامات منسوخ ہوچکے تھے، یا پھر ان کی تجدید کی گئی۔

اور اگر بالفرض شریعتِ داؤدی میں آلہ جاتِ موسیقی کا جواز تھا بھی تو حضورِ اکرم خاتم النبیین نے تو واضح الفاظ میں "غناء برائے تسکین" اور آلہ جاتِ موسیقی سے منع فرمایا۔۔۔ شریعتِ محمدی کے ہوتے ہوئے پچھلی شریعت یا باطل ادیان سے دلیل لینا نری اور سراسر بیوقوفی اور بچگانہ حرکت ہے۔۔۔ (آج کل مجھے سب کی باتیں بچگانہ پتا نہیں کیوں لگتی ہیں :D)...

ام نور العين آپی قرآن و حدیث کی رو سے تو آپ ہی جواب دے سکتی ہیں۔۔۔


اس میں عشقیہ غناء بھی شامل کرلیں۔۔۔
 

arifkarim

معطل
عارف کریم خود تو موسیقی کو جائز ثابت کرنے کے لیے زبور سے اسرائیلیات کے حوالے لاتے ہیں اور ہم قرآن سے تسبیح اور محراب کا ذکر کریں تو فرماتے ہیں کہ اس سے پچھلے ادیان میں اس کا کوئی تصور نہ تھا !
اگر تسبیح اور محراب کا پہلے مذاہب میں کوئی تصور نہیں تھا تو قرآن کریم نے کیوں ذکر کیا ہے ؟ ہم عارف کریم کی مانیں یا قرآن کریم کی ؟
آیات کریمہ مع حوالہ قارئین کے سامنے ہیں اندازہ لگائیے کہ یہ جناب قرآنی آیات کو کس طرح جھٹلا رہے ہیں جن میں واضح ذکر ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کے ساتھ پرندے اور پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے اور وہ محراب میں عبادت میں مشغول تھے جب کچھ لوگ ان کے پاس آئے :
عارف کریم قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت نہیں کر سکتے کہ حضرت داود علیہ السلام نعوذباللہ گاتے تھے ۔
میں نے کسی بھی چیز کو جائز ثابت کرنے یا نہ کرنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے جو باقی جھوٹے الزامات کی طرح آپکی طرف سے میرے پر لگایا جا رہا ہے۔ مجھے کسی کے بھی کچھ کرنے یا نہ کرنے پر بالکل کوئی بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کوئی شخص گانا چاہتا ہے تو آپ مدرسے والوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کا نام لگا کر اُسے روکیں، ٹوکیں یا منع کریں۔ اچھی آواز خدا کی دین ہے۔ اگر اچھی آواز میں تلاوت کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو اچھی آواز میں گانے میں کیا برائی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آواز صرف اپنی حمد کرنے کیلئے دی ہے؟ اس کو دیگر کاموں پر استعمال کرنا حرام کر دیا ہے؟ حد ہوتی ہے جہالت کی بھی!

پہلے موسیقی کے حامی شدت پسند یہ ثابت کریں کہ یہودیت اور عیسائیت میں موسیقی جائز تھی۔ ہم موجودہ تورات و زبور میں صرف اتنا ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کتابیں اللہ کی نازل کردہ ہیں لیکن اب ان میں تحریف ہو چکی ہے سو ہم ان کتابوں کی صرف ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں جن کی قرآن مجید تصدیق کرے ۔
جو اضافی باتیں ہیں ان پر ہم خاموش رہیں گے ۔
جو قرآن مجید کے بر عکس ہیں ان کا ہم انکار کریں گے ۔
پہلے آپ شدت پسند یہ ثابت کریں کہ گزشتہ زمانہ کی مذہبی کتب میں تحریف ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو کسقدر ہوئی ہے؟ ہر جگہ ایمان اور یقین کا لیبل لگا کر زمینی اور تاریخی حقائق سے نہیں چھپا جا سکتا۔ کیا آپ بحیرہ مردار کے طومار کے بارہ میں جانتی جنسے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہود اور عیسائی بائیبل میں ابتک رونما ہونے والی تبدیلیاں بہت کم ہیں؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls#In_context_of_the_Canon_of_the_Bible

اور اگر بالفرض شریعتِ داؤدی میں آلہ جاتِ موسیقی کا جواز تھا بھی تو حضورِ اکرم خاتم النبیین نے تو واضح الفاظ میں "غناء برائے تسکین" اور آلہ جاتِ موسیقی سے منع فرمایا۔۔۔
لیکن ہجرت مدینہ کے وقت آپؐ نے ڈف بجاتی یثرب کی بچیوں کو کیوں منع نہیں فرمایا؟ کیا ڈف ایک موسیقائی آلہ نہیں؟ اب ہم پنجابی کیا اپنا ثقافتی ڈھول بجانا بھی بند کردیں کہ وہ مُلا کے اسلام میں حرام ہو چکا ہے؟ :)
 
لیکن ہجرت مدینہ کے وقت آپؐ نے ڈف بجاتی یثرب کی بچیوں کو کیوں منع نہیں فرمایا؟ کیا ڈف ایک موسیقائی آلہ نہیں؟ اب ہم پنجابی کیا اپنا ثقافتی ڈھول بجانا بھی بند کردیں کہ وہ مُلا کے اسلام میں حرام ہو چکا ہے؟ :)
آپ اس موضوع میں اب تک اپنی ڈفلی پر اپنا راگ ہی تو بجا رہے ہیں !
مسلمان اسلام کو بطور دین اس شرط پر قبول نہیں کرتے کہ وہ میری مادری ثقافت میں آڑے نہ آئے ، جو بھی چیز اسلامی احکام کے برعکس ہو گی مسلم کو وہ چھوڑنا پڑے گی ۔ مسلم کی ہر چیز اسلام کے تابع ہوتی ہے ۔اس کی ایک عمدہ مثال یہاں
 

arifkarim

معطل
آپ اس موضوع میں اب تک اپنی ڈفلی پر اپنا راگ ہی تو بجا رہے ہیں !
مسلمان اسلام کو بطور دین اس شرط پر قبول نہیں کرتے کہ وہ میری مادری ثقافت میں آڑے نہ آئے ، جو بھی چیز اسلامی احکام کے برعکس ہو گی مسلم کو وہ چھوڑنا پڑے گی ۔ مسلم کی ہر چیز اسلام کے تابع ہوتی ہے ۔اس کی ایک عمدہ مثال یہاں
تو گنبد اور مینار کونسی ’’اسلامی‘‘ مادری ثقافت ہے؟ آنحضورؐ کے دور میں جو مساجد تعمیر کی گئیں نہ ان میں گنبد تھے اور نہ ہی مینارے۔ یہ دونوں تعمیرات مسلمانوں نے فارسیوں، بازنطینیوں ، افریقی اور تُرکیوں کے اسلام کے زمانہ سے قبل تعمیری ثقافتی ورثہ سے حاصل کئے ہیں! یقین نہیں آتا؟ یہ پڑھ لیں:
ایرانی گنبدوں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dome#Persian_domes
رومی اور بازنطینی گنبدوں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dome#Roman_and_Byzantine_domes
تیونس کے میناروں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Minaret#History

عالم اسلام میں مسجد کیلئے پہلا مینارہ آپؐ کی وفات کے 80 سال کے بعد تعمیر کیا گیا!
اب بتائیں، چونکہ آپؐ نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی مینار بنایا اور نہ ہی گنبد تو آج جو ہزاروں اسلامی مساجد میں گنبد اور منارے موجود ہیں، انکو ’’غیر اسلامی‘‘ یا اسلام سے ’’قبل‘‘ کی ثقافت سمجھ کر گرا دیا جائے؟
 
آپ نے موضوع کا خیال کیے بغیر موسیقی کے حق میں کوئی نہ کوئی دلیل لاتے رہنا ہے چاہے وہ دلیل بنے یا نہ بنے ۔
پہلے یہ بتائیں مینار کے خلاف کوئی قرآنی آیت یا حدیث ہے ؟ جب کہ موسیقی کے خلاف ہے !
سمجھ تو آ چکی ہو گی لیکن ضد کا کوئی علاج نہیں ہوتا ۔
موسیقی سننے والے اپنے سنے ہوئے گانوں اور اپنے تعمیر کیے ہوئے میناروں کی فہرست پیش فرماتے تو بھی اچھا ہوتا ۔
اور ویکی پیڈیا کے ان حوالوں میں میناروں کے بارے میں ایک نہیں کئی غلطیاں ہیں ۔
تو گنبد اور مینار کونسی ’’اسلامی‘‘ مادری ثقافت ہے؟ آنحضورؐ کے دور میں جو مساجد تعمیر کی گئیں نہ ان میں گنبد تھے اور نہ ہی مینارے۔ یہ دونوں تعمیرات مسلمانوں نے فارسیوں، بازنطینیوں ، افریقی اور تُرکیوں کے اسلام کے زمانہ سے قبل تعمیری ثقافتی ورثہ سے حاصل کئے ہیں! یقین نہیں آتا؟ یہ پڑھ لیں:
ایرانی گنبدوں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dome#Persian_domes
رومی اور بازنطینی گنبدوں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dome#Roman_and_Byzantine_domes
تیونس کے میناروں کی تاریخ:
http://en.wikipedia.org/wiki/Minaret#History

عالم اسلام میں مسجد کیلئے پہلا مینارہ آپؐ کی وفات کے 80 سال کے بعد تعمیر کیا گیا!
اب بتائیں، چونکہ آپؐ نے اپنی زندگی میں نہ تو کوئی مینار بنایا اور نہ ہی گنبد تو آج جو ہزاروں اسلامی مساجد میں گنبد اور منارے موجود ہیں، انکو ’’غیر اسلامی‘‘ یا اسلام سے ’’قبل‘‘ کی ثقافت سمجھ کر گرا دیا جائے؟
 
میں نے کسی بھی چیز کو جائز ثابت کرنے یا نہ کرنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ سراسر ایک جھوٹا الزام ہے جو باقی جھوٹے الزامات کی طرح آپکی طرف سے میرے پر لگایا جا رہا ہے۔ مجھے کسی کے بھی کچھ کرنے یا نہ کرنے پر بالکل کوئی بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر کوئی شخص گانا چاہتا ہے تو آپ مدرسے والوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کا نام لگا کر اُسے روکیں، ٹوکیں یا منع کریں۔ اچھی آواز خدا کی دین ہے۔ اگر اچھی آواز میں تلاوت کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو اچھی آواز میں گانے میں کیا برائی ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ آواز صرف اپنی حمد کرنے کیلئے دی ہے؟ اس کو دیگر کاموں پر استعمال کرنا حرام کر دیا ہے؟ حد ہوتی ہے جہالت کی بھی!
جی ہاں کل کو آپ اسی طرز پر فرمائیں گے کہ : ’’انسان کو ارادہ بھی اللہ نے دیا ہے ، اب انسان اپنے ارادے کو قتل ، یا ڈاکے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے تو آپ پولیس والوں کا کوئی حق نہیں کہ اس کو روکیں ۔ ارادہ اللہ کی دین ہے ، اگر ارادتا حلال رزق کمانے میں کوئی برائی نہیں تو ارادتا ’اچھا سا ڈاکا‘ ڈالنے میں کیا برائی ہے ؟ حد ہوتی ہے جہالت کی بھی !‘‘
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top