سید اسد محمود
محفلین
پاکستان میں عام انتخابات کے لیے تیاریاں زورشور سے جاری ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ملک کی نوجوان نسل ان انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ تاہم برٹش کونسل کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے بیشتر نوجوانوں کے خیال میں جمہوریت پاکستان کے لیے درست نظامِ حکومت نہیں۔ اس جائزے کے دوران اٹھارہ سے انتیس سال کی عمر کے پانچ ہزار نوجوانوں سے معلومات حاصل کی گئیں اور ان میں سے 90 فیصد سے زائد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ملک صحیح سمت میں نہیں جا رہا۔ بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیورین کے مطابق یہ جائزہ ایک قنوطی نسل کی تصویر کشی کرتا ہے جو پانچ سالہ جمہوری دور سے ذرا بھی خوش نہیں۔ سروے کے مطابق نصف سے زیادہ نوجوانوں نے کہا کہ جمہوریت ان کے اور ملک کے لیے اچھی نہیں رہی ہے۔ 94 فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان غلط سمت میں جا رہا ہے۔ دو ہزار سات میں کیے گئے سروے میں یہ شرح 50 فیصد تھی۔ بہترین سیاسی نظام کے بارے میں پوچھے جانے پر سب سے زیادہ افراد نے شرعی نظام کے حق میں ووٹ دیا جبکہ فوجی نظام دوسرے اور جمہوریت تیسرے درجے پر رہی۔ سروے میں شامل 70 فیصد نوجوانوں کو پاکستان کی فوج پر زیادہ اعتماد تھا اور جمہوری حکومت کے حق میں بولنے والوں کی تعداد صرف 13 فیصد رہی۔ پچیس فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ملک میں جاری تشدد سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں یا وہ کسی نہ کسی پرتشدد واقعے کے عینی شاہد رہے ہیں اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں یہ شرح 60 فیصد رہی۔ لیکن ان نوجوانوں کے لیے زیادہ قابلِ فکر کی بات مہنگائی اور بڑھتی قیمتیں تھیں نہ کہ دہشت گردی اور تقریباً 70 فیصد نے اس معاملے میں صورتحال کو پانچ برس قبل سے بدتر قرار دیا۔ مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ملک کی تیس برس سے کم عمر کی آبادی کا کردار اہم مانا جا رہا ہے جو کہ رجسٹرڈ ووٹروں کا تقریباً ایک تہائی ہیں لیکن سروے میں شامل نوجوانوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم نے کہا کہ وہ لازمی طور پر ووٹ ڈالنے جائیں گے۔