شمالی بھارت میں میرٹھ کی جس یونیورسٹی سے 67 کشمیری طلبہ کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت کرنے پر معطل کیا گیا تھا، وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے لیکن قصوروار طلبہ کہ خلاف ’تادیبی‘ کارروائی کی جائے گی۔
سو بھارتی یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ طلبہ کے خلاف الزامات کی انکوائری جاری ہے جس کی رپورٹ جلدی ہی آجائے گی لیکن ’کسی بھی طالب علم کی پڑھائی کا نقصان نہیں ہوگا۔۔۔اور یونیورسٹی ان کے لیے ایکسٹر کلاسز کا بھی انتظام کرے گی۔‘
ان طلبہ پر الزام ہے کہ دو مارچ کو جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایشیا کپ کا میچ ہو رہا تھا تو انھوں نے پاکستانی ٹیم کی حمایت کی تھی جس کے بعد طلبہ کے دو گروپوں میں ٹکراؤ ہوا۔ یونیورسٹی نے67 کشمیری طلبہ کو معطل کرکے رات میں ہی ہوسٹل خالی کرا لیے تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی قائم کیا تھا لیکن اس فیصلے پر سخت تنقید کے بعد اسے واپس لے لیاگیا۔ کشمیری طلبہ تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
اس سے پہلے اطلاعات تھیں کہ یونیورسٹی نے سبھی طلبہ کی معطلی منسوخ کر دی ہے لیکن مسٹر احمد نےکہا کہ حمتی فیصلہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد ہی کیا جائے گا۔ لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ قصوروار پائے جانے والے طلبہ اور ان کے والدین کو ایک حلف نامہ داخل کرنے ہوگا کہ ’وہ ایسی حرکت دوبارہ نہیں کریں گے۔ لیکن یہ طلبہ بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔‘
ان میں سے بہت سے طلبہ واپس کشمیر چلےگئے ہیں جہاں یونیورسٹی کے فیصلے پر سخت تنقید ہوئی ہے۔
مسٹر احمد کے مطابق طلبہ سے ہوسٹل خالی کرانے کا فیصلہ میرٹھ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی حساس نوعیت کے پیش نظر کیا گیا تھا جہاں گزشتہ اگست میں مذہبی فسادات ہوئے تھے جن میں تقریباً 60 لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ سے ہوسٹل خالی کراتے وقت بھی ان سے کہا گیا تھا کہ ’حالات بہتر ہوتے ہیں انہیں واپس بلا لیا جائے گا۔‘
یہ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے اور صرف کشمیری طلبہ کے خلاف کارروائی کیے جانے کی وجہ سے اس معاملے نے تنازع کی شکل اختیار کر لی تھی اور یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ لڑائی میں شامل دوسرے گروپ کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2014/03/140310_kash_students_fz.shtml