سعود الحسن
محفلین
آج کے جنگ کی ایک خبر
آئینی اصلاحات کمیٹی نے مسودہ تیار کرلیا، 16 مارچ کو پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اسلام آباد (جنگ نیوز) آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے سفارشات کاابتدائی مسودہ تیار کرلیا ہے جسے 16 مارچ تک حتمی شکل دیدی جائیگی‘ صوبوں نے صوبائی خودمختاری کیلئے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں۔ چھوٹی جماعتوں نے خارجہ ‘دفاع‘کرنسی اور مواصلات مرکز کے پاس رہنے دینے اور باقی اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ آئینی اصلاحاتی کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ممبران نے بھی شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں صوبوں کو خودمختاری دینے کے امور پر غور کیا گیا اور تمام جماعتوں کے نمائندوں نے صوبائی خودمختاری پر اصولی اتفاق کیا تاہم اس کی تفصیلات پر اتفاق رائے ہونا ابھی باقی ہے ۔ایم کیو ایم‘ جمعیت علماء اسلام ‘بی این پی (عوامی) ‘جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے خارجہ ‘دفاع‘کرنسی اور مواصلات مرکز کو جبکہ باقی اختیارات صوبوں کو دینے کی تجویز دی ۔
اس ہی موضوع پر آج کے جنگ میں ایک کالم
آئینی اصلاحات کی کمیٹی کی خدمت میں گزارشات...عرض حال…نذیر لغاری --جنگ ایک زمانہ تھا جب مختلف براعظموں میں پوری دنیا کو ہلادینے والے واقعات رونما ہورہے تھے۔ امریکہ میں براعظمی افواج کے کمانڈر انچیف جارج واشنگٹن کی قیادت میں جنگ آزادی لڑی جارہی تھی۔ فرانس میں پتھروں کو پیسنے والی انقلاب کی مشین جاگیرداری کے گھن اور گیہوں کو پیس رہی تھی۔ جنوبی ایشیاء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج پلاسی کے معرکہ میں کامیابی کے بعد میسور میں سلطان فتح علی خان ٹیپو کی افواج سے نبرد آزما تھیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے 4 جولائی 1776ء کو اعلان آزادی کے ساتھ نوآبادیاتی افواج کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی۔ امریکہ ابھی نوآبادی تھا اور نوآبادکار امریکی دولت لوٹ رہے تھے۔ اعلان آزادی سے 8 ماہ قبل 29 نومبر 1775ء کو تھامس جیفرسن نے امریکی نوآبادیاتی ایوان میں تقریر کرتے ہوئے تاریخی جملے کہے تھے۔
”جناب عالی! یقین کیجئے سلطنت برطانیہ میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو مجھ سے زیادہ برطانیہ کے ساتھ یونین ہونے سے محبت کرتا ہو مگر خدا کی قسم جس نے مجھے پیدا کیا میں برطانیہ کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے سبب اس کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر زندگی پر موت کو ترجیح دوں گا اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ محض میرے جذبات نہیں یہ پورے امریکہ کے جذبات ہیں“۔
برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں کے حقوق کا اعلان کیا تھا جسے امریکی عوام نے مسترد کردیا تھا۔ برطانوی تجاویز کو مسترد کرنے والوں میں یورپ کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے نوآبادگاروں کی اکثریت شامل تھی۔ ان تجاویز کے ذریعے برطانیہ کی طرف سے امریکی نوآبادیوں پر شوگر ایکٹ ‘ اسٹیمپ ایکٹ‘ چائے ایکٹ‘ نیویارک کی قانون ساز اسمبلی کو معطل کرنے کا ایکٹ‘ امریکہ میں کوئی جرم کرنے والوں پر برطانیہ میں مقدمہ چلانے کا ایکٹ‘ بوسٹن کی بندرگاہ کا بل اور امریکی ریاست میسا چوسٹس کی حکومت کو قواعد کے مطابق چلانے کا ایکٹ اور دیگر قوانین تشکیل دیئے گئے تھے۔انقلاب فرانس اور امریکی آزادی ایک ہی سال 1789ء کے واقعات ہیں۔ اپریل 1789 ء میں امریکہ آزاد ہوا اور جارج واشنگٹن کی سربراہی میں اس کی پہلی باضابطہ حکومت قائم ہوئی جب کہ مئی میں انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔ جارج واشنگٹن نے ایک فوجی جرنیل کی حیثیت سے جنگ آزادی کی قیادت کی تھی مگر صدر منتخب ہونے سے پہلے انہوں نے فوجی عہدہ چھوڑدیا۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی آزادی سے دو سال قبل ہی جنگ آزادی کی قیادت کرنے والوں نے امریکی آئین مرتب کرلیا تھا۔ پھر جب آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا تو شہری آزادیوں کو یقینی بنانے کے لئے حقوق کا بل لایا گیا ۔ شہری آزادیوں کا یہ بل امریکہ کی ترقی‘ استحکام ‘ خوشحالی اور ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے لئے سنگ میل بن گیا۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم ریاست یا ریاستی اداروں کو اختیار ات دینے کے لئے نہیں تھی بلکہ ریاست کے ایک ستون کانگریس پر پابندی لگانے کے لئے تھی۔ گویا کانگریس نے خود اپنے آپ پر بعض پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم ایک ہی جملے میں بیان کی گئی ہے‘ مگر یہ عوام کو اس قدر طاقتور بناتی ہے کہ عوام اس ترمیم کے ذریعے ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور بن جاتے ہیں۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔
”کانگریس مذہب کے (سرکاری حیثیت میں) قیام یا اس پر عمل کرنے پر پابندی یاآزادی اظہار یا پریس یا لوگوں کے پرامن طور پر جمع ہونے اور حکومت کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے پٹیشن دائر کرنے پر پابندی کے سلسلے میں کوئی قانون نہیں بنائے گی“۔اس ترمیم میں امن یا جنگ کی کوئی شرط نہیں‘ خواہ کیسے بھی حالات ہوں‘ کانگریس کسی مذہب کو سرکاری حیثیت نہیں دے سکتی۔ کسی مذہب کی پیروی میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ کانگریس آزادی اظہار اور پریس کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔کانگریس لوگوں کے اجتماع منعقد کرنے اور حکومت کو اپنی شکایات پیش کرنے کے حق پر کوئی پابندی نہیں کرسکتی۔امریکی آئین کی اس پہلی ترمیم کے ذریعے ریاست اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئی۔ دنیا کے تمام آئین ساز ادارے ‘ پارلیمان‘ اسمبلیاں اور قانون ساز ادارے ہرطرح کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں مطلق العنان حکمران شاہی فرمان یا مارشل لا کے ضوابط جاری کرسکتے ہیں مگر امریکی کانگریس اس پہلی ترمیم سمیت مجموعی طور پر 10 ترامیم کے ذریعے اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئی مثلاً دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ عوام کے اسلحہ رکھنے کے حق کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی۔
تیسری ترمیم میں کیا گیا ہے کہ کوئی فوجی جنگ یا امن کی حالت میں کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کرسکے گا بلکہ وہ قانون کے مطابق گھر حاصل کرے گا۔ چوتھی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے گھروں اور دستاویزات کی بلاوجہ تلاشی اور اُن پر قبضہ نہیں کیا جاسکے گا۔ کسی معقول وجہ کے بغیر وارنٹ جاری نہیں ہوسکے گا اور وارنٹ کے اجراء سے قبل ایک حلف نامہ دینا ہوگا جس میں گھر اور مطلوبہ دستاویزکی تفصیل دینا ہوگی۔
میں ان 10 ترامیم کی تفصیل بیان کرکے آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں آٹھویں اور 10 ویں ترمیم کا حوالے دینا چاہتا ہوں آٹھویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ زیادتی ‘ زور ‘ زبردستی کے لئے کوئی ضمانت حاصل نہیں کی جاسکے گی اور نہ ہی زیادتی کے حامل جرمانے لگائے جاسکیں گے اور نہ ہی ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں دی جاسکیں گی۔10 ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاستوں اور امریکی عوام کو حاصل شدہ اختیارات آئین کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ کو منتقل نہیں ہوسکیں گی۔ان دنوں سینیٹر میاں رضا ربانی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات کی کمیٹی 1973ء کے آئین میں اصلاحات کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے۔
مجھے میاں رضا ربانی اور کمیٹی کے دیگر ارکان کی دانش پر کوئی شبہ نہیں مگر میں حقیقت حال ان کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ پاکستان کا وفاق ایک غیر منصفانہ ‘ غیر مساویانہ اورغیر حقیقت پسندانہ وفاق ہے۔ اس وفاق کی اکائیاں نہ قومی وحدتیں ہیں اور نہ انتظامی یونٹ ہیں ۔ یہاں پر سرائیکی ‘ پوٹھوہاری‘ اور ہندکو عوام کی اپنی قومی وحدتیں نہیں ہیں، ایک منصفانہ وفاق کے لئے آئین میں ہر قومی وحدت کے لئے ایک یونٹ کی ضمانت دینا ضروری ہے۔ وفاق کو صوبوں‘ یونٹوں اور وحدتوں کا اتحاد مان کر تمام وحدتوں کو مکمل خودمختاری دینے کی ضرورت ہے۔ صوبوں کی تشکیل نو اور صوبوں کو خودمختاری دینے کی ضرورت ہے اگر آج یہ مسائل طے نہیں ہوتے تو پھر شاید انہیں طے کرنے کے لئے وقت کا تعین عوام کی جدوجہد اور ان کی قربانیاں کریں گی۔
جہاں تک دیگر معاملات کا تعلق ہے ان میں میثاق جمہوریت ایک قابل قدر دستاویز ہے۔ آئینی کمیٹی بہت سی تجاویز پر غور کررہی ہوگی، اس کے سامنے دساتیر عالم ہوں گے، اُس کے سامنے میثاق مدینہ سے لے کر جدید دستوری تاریخ کے کئی روشنی کے مینار ہوں گے اور دوسری طرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ان گنت خواہشات ہوں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ میاں رضا ربانی کی کمیٹی کس قدر دانش ‘ حکمت‘ بے خوفی اور کروڑوں عوام کی خواہشات کی آئینہ دار اصلاحات تجویز کرتی ہے۔
آئینی اصلاحات کمیٹی نے مسودہ تیار کرلیا، 16 مارچ کو پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اسلام آباد (جنگ نیوز) آئینی اصلاحاتی کمیٹی نے سفارشات کاابتدائی مسودہ تیار کرلیا ہے جسے 16 مارچ تک حتمی شکل دیدی جائیگی‘ صوبوں نے صوبائی خودمختاری کیلئے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر اپنی تجاویز پیش کر دی ہیں۔ چھوٹی جماعتوں نے خارجہ ‘دفاع‘کرنسی اور مواصلات مرکز کے پاس رہنے دینے اور باقی اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ آئینی اصلاحاتی کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ممبران نے بھی شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں صوبوں کو خودمختاری دینے کے امور پر غور کیا گیا اور تمام جماعتوں کے نمائندوں نے صوبائی خودمختاری پر اصولی اتفاق کیا تاہم اس کی تفصیلات پر اتفاق رائے ہونا ابھی باقی ہے ۔ایم کیو ایم‘ جمعیت علماء اسلام ‘بی این پی (عوامی) ‘جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے خارجہ ‘دفاع‘کرنسی اور مواصلات مرکز کو جبکہ باقی اختیارات صوبوں کو دینے کی تجویز دی ۔
اس ہی موضوع پر آج کے جنگ میں ایک کالم
آئینی اصلاحات کی کمیٹی کی خدمت میں گزارشات...عرض حال…نذیر لغاری --جنگ ایک زمانہ تھا جب مختلف براعظموں میں پوری دنیا کو ہلادینے والے واقعات رونما ہورہے تھے۔ امریکہ میں براعظمی افواج کے کمانڈر انچیف جارج واشنگٹن کی قیادت میں جنگ آزادی لڑی جارہی تھی۔ فرانس میں پتھروں کو پیسنے والی انقلاب کی مشین جاگیرداری کے گھن اور گیہوں کو پیس رہی تھی۔ جنوبی ایشیاء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج پلاسی کے معرکہ میں کامیابی کے بعد میسور میں سلطان فتح علی خان ٹیپو کی افواج سے نبرد آزما تھیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے 4 جولائی 1776ء کو اعلان آزادی کے ساتھ نوآبادیاتی افواج کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی۔ امریکہ ابھی نوآبادی تھا اور نوآبادکار امریکی دولت لوٹ رہے تھے۔ اعلان آزادی سے 8 ماہ قبل 29 نومبر 1775ء کو تھامس جیفرسن نے امریکی نوآبادیاتی ایوان میں تقریر کرتے ہوئے تاریخی جملے کہے تھے۔
”جناب عالی! یقین کیجئے سلطنت برطانیہ میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو مجھ سے زیادہ برطانیہ کے ساتھ یونین ہونے سے محبت کرتا ہو مگر خدا کی قسم جس نے مجھے پیدا کیا میں برطانیہ کی طرف سے عائد کردہ شرائط کے سبب اس کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر زندگی پر موت کو ترجیح دوں گا اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ محض میرے جذبات نہیں یہ پورے امریکہ کے جذبات ہیں“۔
برطانیہ نے اپنی نوآبادیوں کے حقوق کا اعلان کیا تھا جسے امریکی عوام نے مسترد کردیا تھا۔ برطانوی تجاویز کو مسترد کرنے والوں میں یورپ کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے نوآبادگاروں کی اکثریت شامل تھی۔ ان تجاویز کے ذریعے برطانیہ کی طرف سے امریکی نوآبادیوں پر شوگر ایکٹ ‘ اسٹیمپ ایکٹ‘ چائے ایکٹ‘ نیویارک کی قانون ساز اسمبلی کو معطل کرنے کا ایکٹ‘ امریکہ میں کوئی جرم کرنے والوں پر برطانیہ میں مقدمہ چلانے کا ایکٹ‘ بوسٹن کی بندرگاہ کا بل اور امریکی ریاست میسا چوسٹس کی حکومت کو قواعد کے مطابق چلانے کا ایکٹ اور دیگر قوانین تشکیل دیئے گئے تھے۔انقلاب فرانس اور امریکی آزادی ایک ہی سال 1789ء کے واقعات ہیں۔ اپریل 1789 ء میں امریکہ آزاد ہوا اور جارج واشنگٹن کی سربراہی میں اس کی پہلی باضابطہ حکومت قائم ہوئی جب کہ مئی میں انقلاب فرانس کا آغاز ہوا۔ جارج واشنگٹن نے ایک فوجی جرنیل کی حیثیت سے جنگ آزادی کی قیادت کی تھی مگر صدر منتخب ہونے سے پہلے انہوں نے فوجی عہدہ چھوڑدیا۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی آزادی سے دو سال قبل ہی جنگ آزادی کی قیادت کرنے والوں نے امریکی آئین مرتب کرلیا تھا۔ پھر جب آزاد حکومت کا قیام عمل میں آیا تو شہری آزادیوں کو یقینی بنانے کے لئے حقوق کا بل لایا گیا ۔ شہری آزادیوں کا یہ بل امریکہ کی ترقی‘ استحکام ‘ خوشحالی اور ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے لئے سنگ میل بن گیا۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم ریاست یا ریاستی اداروں کو اختیار ات دینے کے لئے نہیں تھی بلکہ ریاست کے ایک ستون کانگریس پر پابندی لگانے کے لئے تھی۔ گویا کانگریس نے خود اپنے آپ پر بعض پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم ایک ہی جملے میں بیان کی گئی ہے‘ مگر یہ عوام کو اس قدر طاقتور بناتی ہے کہ عوام اس ترمیم کے ذریعے ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور بن جاتے ہیں۔ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔
”کانگریس مذہب کے (سرکاری حیثیت میں) قیام یا اس پر عمل کرنے پر پابندی یاآزادی اظہار یا پریس یا لوگوں کے پرامن طور پر جمع ہونے اور حکومت کو اپنی شکایات کے ازالے کے لئے پٹیشن دائر کرنے پر پابندی کے سلسلے میں کوئی قانون نہیں بنائے گی“۔اس ترمیم میں امن یا جنگ کی کوئی شرط نہیں‘ خواہ کیسے بھی حالات ہوں‘ کانگریس کسی مذہب کو سرکاری حیثیت نہیں دے سکتی۔ کسی مذہب کی پیروی میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ کانگریس آزادی اظہار اور پریس کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگاسکتی۔کانگریس لوگوں کے اجتماع منعقد کرنے اور حکومت کو اپنی شکایات پیش کرنے کے حق پر کوئی پابندی نہیں کرسکتی۔امریکی آئین کی اس پہلی ترمیم کے ذریعے ریاست اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئی۔ دنیا کے تمام آئین ساز ادارے ‘ پارلیمان‘ اسمبلیاں اور قانون ساز ادارے ہرطرح کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں مطلق العنان حکمران شاہی فرمان یا مارشل لا کے ضوابط جاری کرسکتے ہیں مگر امریکی کانگریس اس پہلی ترمیم سمیت مجموعی طور پر 10 ترامیم کے ذریعے اپنے اختیارات سے دستبردار ہوئی مثلاً دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ عوام کے اسلحہ رکھنے کے حق کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی۔
تیسری ترمیم میں کیا گیا ہے کہ کوئی فوجی جنگ یا امن کی حالت میں کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کرسکے گا بلکہ وہ قانون کے مطابق گھر حاصل کرے گا۔ چوتھی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے گھروں اور دستاویزات کی بلاوجہ تلاشی اور اُن پر قبضہ نہیں کیا جاسکے گا۔ کسی معقول وجہ کے بغیر وارنٹ جاری نہیں ہوسکے گا اور وارنٹ کے اجراء سے قبل ایک حلف نامہ دینا ہوگا جس میں گھر اور مطلوبہ دستاویزکی تفصیل دینا ہوگی۔
میں ان 10 ترامیم کی تفصیل بیان کرکے آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں آٹھویں اور 10 ویں ترمیم کا حوالے دینا چاہتا ہوں آٹھویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ زیادتی ‘ زور ‘ زبردستی کے لئے کوئی ضمانت حاصل نہیں کی جاسکے گی اور نہ ہی زیادتی کے حامل جرمانے لگائے جاسکیں گے اور نہ ہی ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں دی جاسکیں گی۔10 ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاستوں اور امریکی عوام کو حاصل شدہ اختیارات آئین کے ذریعے ریاست ہائے متحدہ کو منتقل نہیں ہوسکیں گی۔ان دنوں سینیٹر میاں رضا ربانی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات کی کمیٹی 1973ء کے آئین میں اصلاحات کے لئے مسلسل کام کر رہی ہے۔
مجھے میاں رضا ربانی اور کمیٹی کے دیگر ارکان کی دانش پر کوئی شبہ نہیں مگر میں حقیقت حال ان کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ پاکستان کا وفاق ایک غیر منصفانہ ‘ غیر مساویانہ اورغیر حقیقت پسندانہ وفاق ہے۔ اس وفاق کی اکائیاں نہ قومی وحدتیں ہیں اور نہ انتظامی یونٹ ہیں ۔ یہاں پر سرائیکی ‘ پوٹھوہاری‘ اور ہندکو عوام کی اپنی قومی وحدتیں نہیں ہیں، ایک منصفانہ وفاق کے لئے آئین میں ہر قومی وحدت کے لئے ایک یونٹ کی ضمانت دینا ضروری ہے۔ وفاق کو صوبوں‘ یونٹوں اور وحدتوں کا اتحاد مان کر تمام وحدتوں کو مکمل خودمختاری دینے کی ضرورت ہے۔ صوبوں کی تشکیل نو اور صوبوں کو خودمختاری دینے کی ضرورت ہے اگر آج یہ مسائل طے نہیں ہوتے تو پھر شاید انہیں طے کرنے کے لئے وقت کا تعین عوام کی جدوجہد اور ان کی قربانیاں کریں گی۔
جہاں تک دیگر معاملات کا تعلق ہے ان میں میثاق جمہوریت ایک قابل قدر دستاویز ہے۔ آئینی کمیٹی بہت سی تجاویز پر غور کررہی ہوگی، اس کے سامنے دساتیر عالم ہوں گے، اُس کے سامنے میثاق مدینہ سے لے کر جدید دستوری تاریخ کے کئی روشنی کے مینار ہوں گے اور دوسری طرف سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ان گنت خواہشات ہوں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ میاں رضا ربانی کی کمیٹی کس قدر دانش ‘ حکمت‘ بے خوفی اور کروڑوں عوام کی خواہشات کی آئینہ دار اصلاحات تجویز کرتی ہے۔