ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن پاکستانی ٹیم جس طرح سے ہارتی ہے تو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ میدان میں آنے سے قبل ہی ذہنی طور پر ہاری ہوئی ہوتی ہے۔ کیا کمال تھا جناب آسٹریلین بالنگ میں جس کے سامنے یہ کھُل کر نہ کھیل سکے؟۔ آسان بالز پر بھی جب دفاعی کھیل کھیلا جائے گا تو شکوک بھی سر اٹھائیں گے اور شائقین کو بُڈھے گھوڑوں کی بار بار شمولیت پر بھی غصہ آنا فطری بات ہے۔ اکمل برادران کے پاس نہ جانے کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ صفر کارکردگی کے باوجود آ ٹپکتے ہیں۔ بوم بوم اب ختم ہو چکا ہے۔ اس کی مسلسل ناقص کارکردگی کے باوجود اسے اس میچ میں شامل کرنا کہاں کی عقلمندی تھی؟۔ کیا اب پاکستان کی مٹی نے آل راؤنڈر پیدا کرنے بند کر دئے ہیں جو شاہد آفریدی کا ہار بار بار قوم کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ مصباح کو خود ہی اب کرکٹ کی جان چھوڑ دینی چاہیے ۔ انہی کی وجہ پاکستان ٹیم ماضی میں بھی اہم میچ گنوا چکی ہے۔
پاکستان میں جس طرح سے ہر ادارہ تباہ کیا گیا وہی حال کرکٹ کا بھی ہے۔ ورنہ ہم نے اپنے بچپن سے لے کر اب سے چند سال پہلے تک کی کرکٹ میں اس قدر ناکام کھلاڑیوں کو بار بار ٹیم میں رکھنے کا ڈرامہ نہیں دیکھا۔حتیٰ کہ جب کوئی اچھا کھلاڑی میں آؤٹ آف فارم ہو جاتا تھا تو اسے کچھ دیر کے لئے ٹیم سے نکال دیا جاتا اور کارکردگی میں بہتری پر اسے ٹیم میں دوبارہ شامل کی جاتا۔ میانداد ، عمران ، ظہیر عباس ، ماجد خان ، عبدالقادر ، وقار یونس اور دیگر کئی اعلی کھلاڑی اس اصول کی زد میں آئے۔ لیکن اب کیا ہو رہا ہے کہ جو مرضی ہو جائے چند بُڈھے ٹیم کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتے اور کچھ سفارشی کارکردگی کے بغیر بھی ٹیم میں شامل ہوتے ہیں۔