ظہور احمد سولنگی
محفلین
پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے کہا ہے کہ ملک کے پرامن شہریوں کے لئے خطرے کا باعث اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کی ہر صورت سرکوبی کی جائے گی۔
19اپریل کو سوات میں مولانا صوفی محمد کی آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے حوالے سے قابل اعتراض تقریر اور اس کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی سوات سے ملحقہ ضلع بونیر کی طرف پیش قدمی کے تناظر میں بے یقینی کی جو فضاء پیدا ہوئی اور گزشتہ تین روز سے جس طرح امریکی وزیر خارجہ سمیت متعدد غیر ملکی رہنماﺅں اور ذرائع ابلاغ نے طالبان کی پیش قدمی اور پاکستان پر ان کے قبضے کے خدشات ظاہر کئے اس کے جواب میں جنرل ہیڈ کوارٹر میں آپریشن کمانڈرز کی طویل کانفرنس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے پرامن شہریوں کے لئے خطرے کا باعث اور ریاست اختیار کو چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کی ہر صورت سرکوبی کی جائے گی اور حکومت ان عناصر کو من مانی نہیں کرنے دے گی۔
جنرل کیانی نے امریکی وزیر خارجہ کے ہی بیان کی طرف بالواسطہ اشارے میں غیر ملکی قوتوں کی طرف سے پاکستان کے مستقبل پر شکوک و شبہات کے اظہار کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی قوم، جمہوری حکومت اور مسلح افواج ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپریشن کمانڈرز کانفرنس میں بونیر میں طالبان سرگرمیوں کے قلع قمع کے لئے جلد ہی فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا۔یہ تعیناتی آئندہ دو روز کے اندر اندر شروع ہونے کی توقع ہے۔
علاوہ ازیں سوات میں بھی عسکریت پسندوں کو امن معاہدے کے تحت اسلحہ پھینکنے اور تشدد سے تائب ہونے کے لئے دباﺅ ڈالا جائے گا تا کہ وہاں پر حکومت کے نامزد کردہ قاضیوں کی نگرانی میں نظام عدل ریگولیشن یعنی قاضی عدالتیں اپنا کام شروع کر سکیں۔
عسکری قیادت کے لب و لہجے اور کمانڈرز کانفرنس سے جنرل کیانی کے خطاب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فوجی حکام صورتحال پر قابو پانے کے حوالے سے کافی پراعتماد ہیں اور ان کے خیال میں بونیر شامزہ اور اس کے مضافات میں اہم چوکیوں کے قیام کے بعد عسکریت پسندوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ تاہم اس موقع پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا وہ قوتیں جو ملکی و غیر ملکی عناصر کے اشاروں پر عدم استحکام پھیلانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیا سوات امن جرگے اور اہم مقامات پر فوجی اور نیم فوجی چوکیوں کے قیام کے بعد اپنی کارروائیاں ترک کر دیں گے۔
امتیاز گل، اسلام آباد
بشکریہ صدائے جرمنی
19اپریل کو سوات میں مولانا صوفی محمد کی آئین پاکستان اور سپریم کورٹ کے حوالے سے قابل اعتراض تقریر اور اس کے ساتھ ہی عسکریت پسندوں کی سوات سے ملحقہ ضلع بونیر کی طرف پیش قدمی کے تناظر میں بے یقینی کی جو فضاء پیدا ہوئی اور گزشتہ تین روز سے جس طرح امریکی وزیر خارجہ سمیت متعدد غیر ملکی رہنماﺅں اور ذرائع ابلاغ نے طالبان کی پیش قدمی اور پاکستان پر ان کے قبضے کے خدشات ظاہر کئے اس کے جواب میں جنرل ہیڈ کوارٹر میں آپریشن کمانڈرز کی طویل کانفرنس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے پرامن شہریوں کے لئے خطرے کا باعث اور ریاست اختیار کو چیلنج کرنے والے عسکریت پسندوں کی ہر صورت سرکوبی کی جائے گی اور حکومت ان عناصر کو من مانی نہیں کرنے دے گی۔
جنرل کیانی نے امریکی وزیر خارجہ کے ہی بیان کی طرف بالواسطہ اشارے میں غیر ملکی قوتوں کی طرف سے پاکستان کے مستقبل پر شکوک و شبہات کے اظہار کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی قوم، جمہوری حکومت اور مسلح افواج ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپریشن کمانڈرز کانفرنس میں بونیر میں طالبان سرگرمیوں کے قلع قمع کے لئے جلد ہی فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا۔یہ تعیناتی آئندہ دو روز کے اندر اندر شروع ہونے کی توقع ہے۔
علاوہ ازیں سوات میں بھی عسکریت پسندوں کو امن معاہدے کے تحت اسلحہ پھینکنے اور تشدد سے تائب ہونے کے لئے دباﺅ ڈالا جائے گا تا کہ وہاں پر حکومت کے نامزد کردہ قاضیوں کی نگرانی میں نظام عدل ریگولیشن یعنی قاضی عدالتیں اپنا کام شروع کر سکیں۔
عسکری قیادت کے لب و لہجے اور کمانڈرز کانفرنس سے جنرل کیانی کے خطاب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ فوجی حکام صورتحال پر قابو پانے کے حوالے سے کافی پراعتماد ہیں اور ان کے خیال میں بونیر شامزہ اور اس کے مضافات میں اہم چوکیوں کے قیام کے بعد عسکریت پسندوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ تاہم اس موقع پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آیا وہ قوتیں جو ملکی و غیر ملکی عناصر کے اشاروں پر عدم استحکام پھیلانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیا سوات امن جرگے اور اہم مقامات پر فوجی اور نیم فوجی چوکیوں کے قیام کے بعد اپنی کارروائیاں ترک کر دیں گے۔
امتیاز گل، اسلام آباد
بشکریہ صدائے جرمنی