1972 میں سندھی پارلیمان نے ایک بل پاس کیا تھا جس میں اردو زبان کی جگہ سندھی کو اہمیت دی گئی تھی۔ یہ ایک ایسے وقت میں کہ جب بھٹو سملہ معاہدہ طے کررہا تھا ، پی پی پی کی طرف سے انتہائی غلط قدم تھا۔ اوپر سے زرد صحافت نے اسے جس رنگ میں پیش کیا تھا اسکے بعد سندھی-مہاجر فسادات ہونا لازمی بات تھی۔
جی ٹھیک اس بل پر بھی فسادات ہوئے ہیں،لیکن عمومی طور پر ان معاملات پر سندھی ،مہاجر فسادات کراچی میں کوئی معمول نہیں رہے ہیں،بلکہ ایوب خان کے کراچی سے ہارنے کے بعد گوہر ایوب کی قیادت میں باقاعدہ جس مار کٹائی کا آغاز کیا گیا تھا ،اس میں سندھیوں کا کوئی رول نہیں تھا ۔دوسرے ٨٦ میں کراچی میں نشتر پارک کے کامیاب جلسے کے بعد جب حیدرآباد میں ایسا ہی جلسہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں شرکت کے لیے جانے والوں کو سہراب گوٹھ پر نشانہ بنایا گیا،اور یہ سب کو معلوم ہے کہ سہراب گوٹھ سندھیوں کا علاقہ نہیں ہے،پھر ٨٦ میں ہی علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں جو کیا گیا،وہ بھی سندھیوں نے نہیں کیا ۔ان سب واقعات کے بعد اردو سپیکرز نے ہتھیار اٹھا لیے اور ایسے اٹھائے کہ پھر اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا.مہاجر ،سندھی تعصب تو یہاں دونوں طرف سے ہے،مگر منظم طریقہ سے دونوں میں فسادات نہیں ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے مجھے بھٹو اور ضیاءالحق کا ناسور والی بات پوری طرح ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔مزید اے.پی.ایم ایس ۔او بننے کے زمانے سے ہی ان کی سب سے زیادہ لڑائی جمیعت اور پھر جماعت اسلامی سے رہی ہے ،اور کراچی میں جماعت کے لوگ بھی اردو سپیکرز ہی ہیں