طالوت
محفلین
ایک اچھی لغت سے لیکر تاریخ اور سیاست کے بارے میں کسی ریڈی ریفرنس تک ہر طرح کا مواد یہاں ناپید نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔
عقیل عباس جعفری کا جِناتی کام جو بڑے سائز کے پورے ایک ہزاراسی صفحات پر محیط ہے، اس کمی کو بہت حد تک پورا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کرانیکل نامی اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے، پاکستان کا تاریخ وار عوامی انسائیکلوپیڈیا اور کتاب کھول کر اسکےصفحات پرایک سرسری سی نظر بھی دوڑائیے تویوضمنی عنوان حق بجانب معلوم ہوتا ہے۔
اس کتاب میں اگست سنہ انیس سو سینتالیس سے لیکر اپریل سنہ دو ہزار دس تک کے تمام اہم واقعات تحریری اور تصویری شکل میں موجود ہیں۔
زمانی تقسیم ماہ بہ ماہ کی گئی ہے اور سیاسی، سماجی، ثقافتی، تفریحی اور علمی و ادبی واقعات کے ساتھ ساتھ اہم شخصیات کی پیدائش اور اموات کا احوال بھی درج ہے اور اس طرح پرانے انداز کی جنتری اور ماڈرن سٹائل کے انسائیکلوپیڈیا کی تمام خوبیاں اس کتاب میں یکجا ہوگئی ہیں۔
قیامِ پاکستان اور اعلانِ پاکستان کے بارے میں برسوں سے جاری قضیے کا دو ٹوک فیصلہ اس کتاب کے مندرجات اور دستاویزی شہادتوں نے مستقل طور پر کردیا ہے۔
کتاب میں پندرہ اگست سنہ انیس سوسینتالیس کو پاکستان ٹائمزمیں شائع ہونے والی ایک خبر کا عکس شائع کیا گیا ہے جس کے مطابق ریڈیو پاکستان کا قیام چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب کو عمل میں آیا تھا۔
چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب لاہور، پشاوراور ڈھاکہ سٹیشنوں سے رات گیارہ بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری اعلان نشر کیا۔
بارہ بجے سے کچھ لمحے پہلے ریڈیو پاکستان کی شناختی دھن بجائی گئی اور انگریزی زبان میں فضا میں ایک اعلان گونجا کہ آدھی رات کے وقت پاکستان کی آزاد اور خودمختار مملکت معرضِ وجود میں آجائے گی۔
رات کے ٹھیک بارہ بجے ہزاروں سامعین کے کانوں میں یہ الفاظ گونجے’ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے‘ انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر نےاور اردو میں مصطفٰی علی ہمدانی نے کیا۔
اس خبر کے ساتھ ہی ظہور آذر کی ایک نایاب تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔
اسی صفحے پر پاکستان کی پہلی کابینہ کے ارکان کی ایک نادر تصویر بھی موجود ہے۔ اس طرح کی نادرو نایاب تصاویراس دستاویز میں کثرت سے موجود ہیں مثلاً پاکستان کے اولین گزٹ کا عکس جس میں مسٹر محمد علی جناح کو پاکستان کا گورنر جنرل مقرر کرنے کا حکم درج ہے۔
سردار عبدالقیوم خان کی نوجوانی کی ایک تصویر جس میں وہ ایک مسلح مجاہد کے روپ میں نظر آرہے ہیں۔
کراچی میں قیامِ پاکستان کے بعد ریلیز ہونے والی پہلی فلم کا پوسٹر، ہندو ستان کے ڈاک ٹکٹ جن پر پاکستان کی مہر لگا کر انہیں نئی سرکاری حیثیت دی گئی۔
جوناگڑھ کے آخری نواب مہابت خان جی کی شبیہ، معروف امریکی جر یدے ’لائف‘ کے پانچ جنوری سنہ انیس سواڑتالیس کے شمارے کا سرِ ورق جس پر قائدِاعظم کی تصویر ہے۔
روزنامہ امروز کی اولین اشاعت کے اِداریہ کا عکس، ماہِ نو کے پہلے شمارے کا سرِ ورق، حکیم محمد سعید کی جوانی کی تصویر۔
سنہ انیس سو اڑتالیس کے اولمپک کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ہاکی ٹیم کا گروپ فوٹو اور قائدِ اعظم کے لکھے ہوئے آخری خط کا عکس۔
لیکن یہ محض کتاب کے ابتدائی صفحوں سے چند مثالیں ہیں جبکہ کتاب کے ایک ہزار سے زیادہ صفحات ایسی ہی اہم اور کم یاب تصاویر سے مزیّن ہیں۔
جن لوگوں کو عالمی یا ملکی سیاست سے دلچسپی نہیں ہے، اُن کے لئے ثقافت، ادب، کھیل اور تفریحات کی پوری دنیا اپنے ارتقائی سفر کے ساتھ موجود ہے۔
پاکستان میں پہلی فلم کب کہاں اور کن حالات میں تیار ہوئی۔
اسلام آباد میں دارلحکومت بننے سے پہلے وہ علاقہ کسطرح ویرانی کا نقشہ پیش کرتا تھا۔
قائدِاعظم کے مقبرے کےلئے پہلے کون کونسا ڈیزائن تجویز ہوا تھا۔
لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کی لاش کا عکس۔
بے نظیر بھٹو نے پی ٹی وی کے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کی تھی۔
جنرل ضیاء کے مضحکہ خیز ریفرنڈم میں جو سوال پوچھے گئے تھے اُن کے کوپن کا عکس۔
تاہم اس مواد کی شمولیت کسی ڈائیجسٹ یا سنسنی خیز مواد والے کتابچے کی طرز پر نہیں ہے بلکہ عقیل جعفری نے مواد مرتب کرتے ہوئے ایک منجھے ہوئے صحافی اور اعتدال و توازن کا دامن تھام کے چلنے والے چوکنے محقق کا کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ و ثقافت کے بارے میں معلومات کا یہ ٹھوس ذخیرہ ہر تعلیمی اور خبر رساں ادارے میں حوالے کی کتاب کے طور پر استعمال ہونے کے لائق ہے۔
بڑی تقطیع کے عمدہ کاغذ پر اس کتاب کو فضلی سنز اور ورثہ کراچی نے شائع کیا ہے اور اسکی قیمت ڈھائی ہزار روپے مقرر کی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو