مشال خان کا قتل، احسن اقبال پہ حملہ، خودکش حملے۔۔۔ یہ سیاسی اختلافات سے کچھ اوپر کی چیزیں ہیں بھائی۔
لیکن بہرحال آپ کو اپنی رائے دینے یا بات کہنے کا پورا پورا حق ہے، چاہے ہمیں وہ پسند آئے یا نہ آئے۔
خوش رہیں۔
سلجھے ہوئے ڈاکٹر رفیع نے بندوق کیوں اٹھائی؟
ریاض مسروربی بی سی اردو، سری نگر
Image captionسرینگر کے مشرقی ضلع گاندر بل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر رفیع غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک تھے
ڈاکٹر محمد رفیع بٹ چند روز قبل سلجھے ہوئے دانشور، مقبول پروفیسر اور بہترین محقق کے طور جانے جاتے تھے۔
انھوں نے پانچ مئی کی دوپہر کو کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات میں اپنا آخری لیکچر دیا اور روپوش ہو گئے۔ صرف 40 گھنٹے کے بعد حزب المجاہدین کے چار مسلح شدت پسندوں کے ہمراہ وہ جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں محصور ہو گئے اور مختصر تصادم کے بعد مارے گئے۔
ان کی نئی شناخت ان کی سابقہ اہلیتوں پر غالب آ گئی۔ لوگ اب انھیں ’مجاہد پروفیسر‘ کہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کشمیر: شوپیاں ’شدت پسندی‘ کا مرکز کیوں بن رہا ہے؟
لاپتہ انڈین فوجی کا ’حزب المجاہدین‘ میں شمولیت کا امکان
انڈین مسلم کشمیر کی تحریک میں کیوں؟
حاجن، 'کشمیر میں شدت پسندوں کا نیا گڑھ'
’کشمیر میں تشدد نے نوجوانوں کو نڈر کر دیا ہے‘
سری نگر کے مشرقی ضلع گاندر بل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر رفیع غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک تھے۔
انھوں نے سوشیالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد انڈیا کے قومی سطح کا امتحان نیشنل ایلیجیبلٹی ٹیسٹ دو مرتبہ پاس کیا اور اس کے لیے انھیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جانب سے فیلو شپ بھی ملی۔ انھوں نے بعد میں اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کیا اور گذشتہ برس ہی کشمیر یونیورسٹی کے سوشیالوجی شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے۔
ڈآکٹر رفیع کے اکثر طلبہ بات کرنے سے کتراتے ہیں اور جو بولنے پر آمادہ ہیں وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے چند طلبہ نے بتایا کہ ڈاکٹر رفیع کے بارے میں ایسا خواب و خیال میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا کہ وہ مسلح مزاحمت پر آمادہ ہیں۔
’وہ تو ہمیں تحفے میں کتابیں دیتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ مابعد جدیدیت پر مجھے ایک کتاب دیں گے۔ میرا دماغ پھٹ رہا ہے کہ یہ سب کیا ہوا اور کیوں ہوا؟‘
ڈاکٹر رفیع کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جب وہ میڈیا میں ہلاکتوں یا زیادتیوں کی تفصیلات دیکھتے تھے تو پریشان ہوجاتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کوئی اشارہ کبھی نہیں دیا کہ وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنا چاہتے ہیں۔
جموں کشمیر پولیس کے سربراہ شیش پال وید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رفیع کے دو کزن مارے گئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے وہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہو گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انتہا پسند رحجان بھی ڈاکٹر رفیع کے ذہنی ارتقا کا باعث ہو سکتا ہے۔
چند ماہ قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر منان وانی بھی روپوش ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہو گئے تھے تاہم ڈاکٹر رفیع پہلے پروفیسر ہیں جنھوں نے باقاعدہ مسلح گروپ میں شمولیت کی۔
30 سال قبل جب یہاں مسلح شورش شروع ہوئی تو کئی پروفیسر مسلح گروپوں کے حمایتی ہونے میں پراسرار حالات میں مارے گئے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالاحد گورو، پروفیسر عبدالاحد وانی، ڈاکٹر غلام قادر وانی اور ایڈوکیٹ جلیل اندرابی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
متعلقہ عنوانات