محبت اوراظہارِ محبت
کالم از خورشید ندیم
انٹرنیٹ ربط
محبت ایک فطری جذبہ ہے ۔یہ جذبہ اپنے اظہار کے لیے اسالیب بھی خود تلاش کر تا ہے۔تاہم یہ اسالیب عام طور پرسماجی پس منظر سے پھوٹتے ہیں۔میر کی اداسی،غالب کی شوخی، جگر کاترنم،یہ سب وہ سانچے ہیں جن میں، اس خطے میں جنم لینے والی محبت ڈھلتی رہی ہے۔اس محبت نے اپنے اظہار کے لیے کبھی موسموں کے تیور مستعار لیے،کبھی پھولوں کے رنگ ادھار لیے۔وہ موسم جو اس خطے میں اترتے ہیں اور وہ پھول جو ہمارے گلستانوں میں مہکتے ہیں۔ یہی نہیں، اس محبت نے تہذیب کے ان اطوار کو بھی قبول کیا جو ہمارے گھر کے آنگن میں پروان چڑھتے ہیں۔ان طریقوںکو اختیار کیاجو خاندان کے ادارے میں جنم لیتے ہیں۔ ان رشتوں میں پناہ لی جو ہماری چار دیواریوں میں دمکتے ہیں۔اس محبت نے مذہب کی روح کو پیشِ نظر رکھا۔تہذیب کا احترام کیا۔ان حدود کا لحاظ رکھا جن کاتعین سماج نے کیا۔اس محبت کے راستے میں مذہب، خاندان، سماج، روایت، نہیں معلوم کس کس کا نام لے کر کانٹے بچھائے گئے۔نام ان سب کا استعمال ہوا لیکن کسی نے ان سے نہیں پو چھا کہ وہ خود کیاکہتے ہیں۔ان کی ترجمانی مختلف گروہوں نے اپنے ذمہ لے لی۔محبت کے پاؤں سے لہو بہتا رہا لیکن اُس نے ان سے بغاوت نہیں کی۔کبھی موت کو گلے لگا یا اور کبھی عمر بھر کے روگ کو۔اس خطے کی محبت تو ایسی ہی ہے۔خاموش اور اپنی آگ میں سلگتی ہوئی ؎
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
میں نے کہا،مذہب اور روایت کا نام استعمال ہوا۔
مذہب نے کب پسند کی شادی سے منع کیا تھا؟کبھی نہیں۔اس نے ایجاب وقبول کونکاح کے لیے لازم قرار دیا۔یا پھر اعلانِ عام۔باقی سب زیبِ داستان ہے۔ایجاب و قبول جانے اور دیکھے بنا کیسے ہو سکتا ہے؟ہم نے لیکن کیا کیا؟متن کو نظر انداز کیا اور حواشی کو اہم جانا۔ شادی اور نکاح میں سب کچھ ہو تا ہے۔اگر نہیں ہو تا تو ایجاب وقبول نہیں ہوتا۔جو زیبِ داستان کے لیے تھا،وہ حاصلِ داستاں ٹھہرااور جومقصود تھا اس کا کہیں ذکر نہیں ہوا۔اگر کسی نے مقصود پر اصرار کیا تو اسے مذہب کا باغی ٹھہر ایا گیا۔ہم نے اپنے تعصبات کو مذہب کہا۔پانچ چھ سال کی لڑکی کے نکاح کوجائز ٹھہرایاجس میں ایجاب و قبول کا امکان ہی نہیںا ور اٹھارہ سال کی لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تو اسے ناجائز سمجھا۔مذہب کی خانہ ساز تعریف کو مذہب کا جوہر کہا اور اپنے تعصب کو غیرت اور روایت کا نام دیا۔قصور وار پھر بھی محبت ٹھہری۔
محبت پاکیزہ ہو تی ہے۔یہ خیال ہماری محبت کا محور رہا۔یہ جملہ لغت کے چند الفاظ کا مجموعہ نہیں،ایک شعوری بیان ہے۔اس جملے کی شرح کیجیے تو معلوم ہو تا ہے کہ اظہارِ محبت کے بعض اسالیب نکاح سے پہلے جائز نہیں ہیں۔یہ خیال محبت کرنے والے کے دماغ میں راسخ ہے۔وہ دل کو سمجھاتا ہے۔ جذبات پر پہرے لگا تا ہے۔ اپنی جان پر ہجر کی سختیاں سہتاہے۔وہ اپنے ہاتھوں سے ہوس اور محبت کے درمیان ایک پردہ تان دیتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ محبت کا مرکز جسم نہیں دل ہو تا ہے۔وہ ہجر میں شعر تو کہتا ہے ۔ وصال کی خواہش کو گیت کی صورت بیان تو کرتا ہے لیکن یہ جانتا ہے کہ ہجرکو وصال میں بدلنے کے لیے صرف خواہش کافی نہیں۔
شعراور ادب،گیت اور موسیقی،اظہارِ محبت کے ان سب اسالیب کو ہر تہذیب نے روا رکھا ہے۔یہ اسالیب ہر خطے کی تہذیبی چار دیواری میں پر وان چڑھتے ہیں۔انہیں کسی نے نا جائز نہیں کہا۔جذبہ کوئی ناجائز ہو تا ہے نہ اس کا اظہار۔اس کے عملی ظہورکی چند صورتیں ہیں جو ممنوع ہو سکتی ہیں۔اُن کے بارے میں دو آرا نہیں ہیں۔لیکن محبت کو بیان کر نا تو کسی صورت منع نہیں۔ہماری محبت تو یوں بھی اشاروں کنایوں میں بات کر تی ہے۔یہاں تو محبوب کا ذکرہمیشہ مذکر کے صیغے میں ہو تا ہے۔مجھے اس کی یہ توجیہ پسند ہے کہ ہماری روایت میں محبت کا اظہار مقصود ہے، محبوب کی شہرت نہیں۔ منیر نیازی تو اس میں ایک قدم آگے جاتے ہیں ؎
اسے دیکھا نہ اس سے بات ہوئی
ربط جتنا تھا غائبانہ تھا
محبت انسان کی فطری ضرورت ہے اور اس کا اظہار بھی فطری ہے۔اس کے راستے بند نہیں کیے جا سکتے۔جذبوں کی تہذیب کی جا سکتی ہے،ان کو بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا۔تہذیب اور تراش خراش کا کام سماج کرتا ہے۔وہ جذبات کے اظہار کے لیے راستوں کا تعین کرتا ہے۔۔فنونِ لطیفہ، ادب یہی راستے ہیں۔محبت کا تخلیقی جوہربہت لطیف ہے۔یہ اظہار کے لیے بھی ایسے ہی لطیف اسالیب چاہتا ہے۔اظہار کے ،شاعری اور موسیقی سے زیادہ لطیف انداز،شاید انسان آج تک دریافت نہیںکر پایا۔یہ شعر اور سُر کا پیرہن تھا جو محبت کے نازک بدن کو راس آیا۔لازم ہے کہ ہر دور میںمیر، غالب اور نصرت فتح علی خان موجود ہوں۔محبت شعر اور سر میں ڈھلتی رہے۔اس سے سماج میں لطافت زندہ رہتی ہے۔لطافت چھن جائے تو پھر سختی ہے۔شعر اور ُسر مرتے ہیں تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔دہشت گرد کون ہے؟ وہی جو احساسِ محبت سے محروم ہو جا ئے۔
ہم چاہیں یا نہ چاہیں، محبت سے سماج کبھی خالی نہیں ہوتا۔فطری مطالبات کے سامنے بند نہیں باندھے جا سکتے۔دنیا کا کوئی سماج محبت سے جب خالی نہیں رہا تو اظہار کے اسالیب بھی موجود رہے۔تاریخ میں کوئی ایسا معاشرہ کبھی وجود میں نہیں آیا جس کا اپنا آرٹ،ادب اور موسیقی نہ ہو۔سمجھ داران کی آبیاری کرتے ہیں،اس لیے کہ محبت کہیں مر نہ جا ئے۔محبت کے مرنے کا مطلب یہ ہے کہ سماج اپنی لطافت کھو دے۔عالمگیریت کے نام سے دنیا پر جو عذاب مسلط ہوا،اس نے غیر سرمایہ دارانہ یا غیر مغربی معاشروں سے اظہارِ محبت کے مقامی اسالیب چھین لیے۔عالمگیریت کے نام پر مغربیت کو فروغ ملا۔مادہ پرستی نے جب لذت کو شعار کیا تومحبت کو ہوس میں بدل ڈالا۔اس کے دھیمے پن کو ہیجان میں ڈھال دیا۔مغرب میں محبت نے دل سے نقل مکانی کی اور جسم میں آ بسیرا کیا۔دائمی رشتہ عارضی تعلق میں بدل گیا۔محبوب کا صرف صنفی پہلو باقی رہا۔کہاں محبوب کی ہمہ جہتی شخصیت خداشناسی کا دروازہ کھولتی تھی اور کہاں محبوب محض ایک جسم ہے،خدا شناسی تو دور کی بات خود شناسی کا امکان بھی بر باد ہو گیا۔
ویلنٹائن ڈے اسی عالمگیریت کا تحفہ ہے۔مغرب کو اس کی ضرورت ہے۔ سال میں کم ازکم ایک دن تولوگوں کو یاد دلا یا جائے کہ محبت بھی کوئی چیز ہو تی ہے۔ جیسے سال میں ایک وفعہ یاد دلا نا پڑتا ہے کہ ماں بھی کوئی رشتہ ہے۔باپ بھی کسی تعلق کا عنوان ہے۔وہاں ماں باپ کا رشتہ اپنی ساری لطافتوں سے محروم ہو کر محض ایک حیاتیاتی ربط کاثبوت بن گیا ہے۔اسی طرح محبوب بھی شب بھر کا ساتھی ہے۔ایسے لوگوں کو تو یاد دلانا چاہیے کہ رشتے پائیدار ہوں تو باقی رہتے ہیں۔
میری روایت میں محبت پر موت حرام ہے۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں،عمر بھر کا ساتھ ہے،ہجر کی صورت میں یا وصال کی شکل میں۔دونوں کی اپنی اپنی لذت ہے۔میرے ہاں تو محبوب کا متبادل نہیں ہو تا۔اس لیے ویلنٹائن ڈے میرے لیے ایک اجنبی تصور ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی۔اس سے پہلے کہ عالمگیریت ہمیں ہر روایت اور اظہار کے ہر جذبے سے محروم کر دے،ہمیں اپنے محبت کو بچا نا ہے اور اس کے اظہار کے اسالیب کو بھی۔ہمیں اظہار کے مقامی اسالیب کو زندہ کر نا ہے۔ہمیں انتظار حسین اور فاطمہ ثریا بجیا کا متبادل تلاش کر نا ہے۔ ویلنٹائن ڈے سے بچنے کی یہی ایک صورت ہے۔