اوریا مقبول جان لکھتے ہیں:
گھر کا کونساکونہ ہے جو ان کی خطاطی سے آراستہ نہیں ہے، زندگی کا کونسا ایسا مرحلہ ہے کہ جس پر ان کی تحریر کی مہر ثبت نہیں۔ دروازے پر لگی نام کی تختی سے لے کر علامہ اقبالؒ کے میرے دو پسندیدہ اشعار، جو انہوں نے ہیروں کی طرح جگمگ قطعات کی صورت تحریر کیے تھے، پہلے دفتر میں آویزاں رہتے تھے اور اب اس کمرے کی دیوار ان سے روشن ہے ،جہاں بیٹھ کر میں پڑھتا ہوا، کالم لکھتا ہوں، کیمرے کے سامنے گفتگو کرتا ہوں۔میری شاعری کی کتاب ’’قامت‘‘ کا سرورق جمیل نقش مرحوم نے بنایا تھا، ایسے بڑے مصّور کے شایانِ شان، خطاط ’’خورشیدگوہرِ قلم‘‘ ہی توتھے۔
کوئٹہ کی علمدار روڈ پر رہتے تھے، ان کے سامنے کتاب اور سرورق کی پینٹنگ لے کر حاضر ہوا، یوں ملے جیسے مدتوں سے جانتے ہوں۔ سرورق پر ’’قامت‘‘ اور میرا نام انہیں کا تحریر کردہ ہے۔ یہ 1988ء تھا اور آج بتیس سال کا یہ رشتہ زمین کا رزق ہوگیا۔
’’ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘۔
ان بتیس سالوں میں ان کی خطاطی میرے اظہارِ فن کی علامت بنی رہی۔ میرے کالموں کی کتاب ’’حرفِ راز‘‘ کا سرورق ہویا دونوں بیٹیوں کی شادیوں کے کارڈ پر جو رخصتی کے اشعار میں نے لکھے تھے ،ان سب کو حسن ان کی خطاطی نے بخشا۔
پنجاب سے استادوں کی ایک نسل تھی، جو برسوں بلوچستان کے دور دراز بے آب و گیاہ اور ویران علاقوں میں بلوچ، براہوی اور پشتون بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی تھی۔ عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ بنے تو یہ ’’پنجابی استاد‘‘ جن سے بلوچوں کی نسلیں علم حاصل کرتی رہی تھیں، ایک دن پنجاب روانہ کر دیئے گئے۔ کچھ سخت جان ایسے تھے جنہیں کوئٹہ کی محبت نے جکڑ لیا اور وہ نفرت و تعصب کے ماحول میں بھی وہاں سے نہ نکلے، خورشیدعالم گوہرِ قلم ان میں سے ایک تھے۔
ایک ایسا گوہرِ نایاب کہ جوصرف پاکستان ہی نہیں جہاں جہاں اردو، فارسی اور عربی، حسن و آرائش سے لکھی جاتی ہے، وہاں اس عظیم انسان کا نام زندہ رہے گا۔
ہم ایک ایسے زمانے کے سکولوں میں پڑھتے رہے جب استاد خود بھی خوش نویس ہوتا تھا اورہمیں بھی تختی پر لکھنے کی مشق کرواتا تھا۔ اس دور میں آسمانِ خطاطی پر دو بڑے نام تھے، ’’استاد اسماعیل دہلوی‘‘ اور ’’حافظ یوسف سدیدی‘‘۔ خورشید گوہرِ قلم نے ان دونوں کے سامنے زنوائے تلمذ طے کیا اور ان کے تمام جواہر اپنے فن میں سمولیے۔
کوئٹہ میں علم و فن کے تین مراکز تھے، ایک آرٹس کونسل اور دوسرا ریڈیواور تیسراپاکستان ٹیلی ویژن کا سنٹر ۔
یہ وہ دور تھا جب ٹیلی ویژن علم و ادب کی ترویج کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ سجاد احمد بلا کا گوہر شناس پروڈیوسر تھا، اور خورشید گوہرِ قلم کا پڑوسی بھی ۔ دونوں ٹیلی ویژن پر اکٹھے ہوئے تو
پاکستان ٹیلی ویژن کی سکرین پر پندرہ اقساط پر مشتمل تاریخی خطاطی پر ’’ن۔والقلم‘‘ کے نام سے ایک ایسا پروگرام نشر ہوا جس کی مثال برصغیر پاک و ہند کے کسی دوسرے ٹیلی ویژن سٹیشن پر نہیں ملتی۔
ان دنوں میں ٹیلی ویژن کے لئے ڈرامے تحریرکیا کرتا تھا، یوں ان سے شناسائی، دوستی اور محبت کا رشتہ گہرا ہوتا چلا گیا۔
’’ن۔والقلم‘‘کے دوران ہی انہیں سپین میں ملتِ اسلامیہ کے زوال پر ڈرامہ لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ صاحب مطالعہ تو تھے ہی، ایک پوری سیریل ’’پکار‘‘ کے نام سے لکھ ڈالی جو یوسف بن تاشفین کے جاندار کردار کے گرد گھومتی تھی۔ اس قدر رجائیت پسند تھے کہ اس کی آخری قسط میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو پاکستان سے اُبھرتے ہوئے دکھایاگیا۔
پوچھا ایسا کیوں کیا، تو کہنے لگے
زوال کے بعد لوگوں کے دل میں امید ضرور جگانی چاہیے۔
اس ڈرامے کی پہلی قسط چلی تو پروڈیوسر سجاد احمد کو اسلام آباد طلب کر لیا گیا۔ بے نظیر کا دوسرا دورِ حکومت تھااور فرہادزیدی پی ٹی وی کے چیئرمین تھے۔ سیکولر، لبرل ازم کا نشہ چڑھا ہوا تھا۔ کہا گیا کہ جے سالک نے محترمہ کو شکایت کی ہے کہ ایک مولوی خورشید عالم نے عیسائیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے ڈرامہ لکھا ہے، جس سے بہت بے چینی ہے۔ ابھی تک پاکستان کے اربابِ حل وعقد میں صاحبانِ عقل و دانش پائے جاتے تھے۔ ایک لمبی بحث چلی اور آخرکار دوسری قسط چلانے کی اجازت ملی۔ کوئٹہ کی آرٹس کونسل میں بچوں کی خطاطی کی مسلسل کلاسیں لیا کرتے تھے۔ صادقین مرحوم کوئٹہ تشریف لائے تو دو افراد پر ان کی خصوصی نظرِ کرم رہی ایک اردو کے مشہور نقاد مجتبیٰ حسین اور دوسرے خورشید گوہرِقلم۔ اپنی آخری کتاب جو انہوں نے مجھے ہدیہ کی وہ ’’خطِ صادقین‘‘ تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے صادقین کو فنِ خطاطی کا ’’مجدد‘‘ اور عہد حاضر کا ’’محسن ‘‘قرار دیا ہے۔ میں نے صادقین کو جس محبت سے خورشید عالم سے گفتگو کرتے دیکھا ہے اس سے لگتا تھا وہ اس ’’گوہر‘‘ کا چاہنے والا ہے۔ اسی کتاب کے دیباچے میںخورشید گوہرِ قلم نے سیدالانبیاء ﷺ کہ یہ حدیث درج کی
’’جس نے ایمان کی حالت میں بسم اللہ لکھی وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے خطاطی کے فن کی مسلم تاریخ سیدنا علی ؓ کے عہد سے شروع کرتے ہوئے ان کے یہ اقوال درج کیے،
’’خطاطی علم کا باغ ہے‘‘ اور ’’خطاطی آدھا علم ہے‘‘ ۔
کوئٹہ کی فضا تعصبات سے زہر آلود ہونا شروع ہوئی تو یہ عظیم فنکار بھی لاہور آگیا کہ شاید پاکستان کا یہ واحد شہر ہے جہاں سندھی، بلوچ، پختون، سرائیکی اور اردو بولنے والا بغیر کسی نفرت، تعصب اور گھٹن کے زندگی گذار سکتا ہے ، اپنے فن کو عروج پر پہنچاسکتا ہے اور اپنے کاروبار کو ترقی دے سکتا ہے ۔
لاہور نے خورشید گوہرِ قلم کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کوئٹہ کے آرٹس کونسل سے نکالے گئے تھے، مگر یہاں ادب و فن کے ہر ادارے نے انہیں اپنے لئے فخر سمجھا۔
برصغیر میں آرٹ کے معزز ترین ادارے ’’نیشنل کالج آف آرٹس‘‘ میں خطاطی سکھانے لگے اور میرا ان سے ایک اور تعلق استوار ہو گیا۔ وہ خطاطی کے لئے ایک بہت بڑے ادارے کا قیام چاہتے تھے۔ میں سیکرٹری ثقافت تھا۔ ہم اس پرمسلسل کام کر رہے تھے کہ شہبازشریف کو میری تلخ نوائی پسند نہ آئی اور میں وہاں سے تبدیل کردیا گیا۔ و
الڈ سٹی لاہور کا ڈائریکٹر جنرل بنا تو قدیم لاہور کی قدیم روایت کو زندہ کرنے کے لئے دو تجاویز پر کام شروع کیا، ایک ’’بُک سٹریٹ‘‘ یعنی کتابوں کی گلی اور دوسرا خطاطی سکھانے کا ادارہ۔ادارے کے لئے ایک قدیم حویلی منتخب کر لی گئی، لیکن ’’خوش خوراک‘‘ شریف برادران نے فیصلہ کیا کہ پہلے ’’فوڈ سٹریٹ‘‘ بنے گی۔ فوڈ سٹریٹ پر کام توشروع ہوگیا مگر میں ہمیشہ احتجاجاً’’ بُک سٹریٹ ’’اور’’ خطاطی کے ادارے‘‘ کی بات لے بیٹھتا۔ میرا یہ احتجاجی انداز ایک چیف سیکرٹری صاحب کو پسند نہ آیا، مجھے سٹاف کالج میں ٹریننگ کے لئے بھیج کر والڈ سٹی اتھارٹی سے تبدیل کر دیا گیا۔مگر خورشید گوہر قلم، کہاں ہمت ہارنے والے تھے۔ اپنے اس خطاطی کے ادارے کے لئے اقتدار کے گونگے، بہرے اور اندھے دروازے مسلسل کٹھکھٹاتے رہتے۔
فیروزپور روڈ پر ایک پرانے پلازہ کی پہلی منزل پر ایک چھوٹی سی دکان میں مسلم دنیا کا یہ عظیم خطاط مدتوں شاگردوں کو خطاطی کی تعلیم دیتا رہا۔ چاروں جانب فن پارے پڑے ہوتے، سامنے چند شاگرد اور مسند پر خورشید عالم گوہر قلم۔ یہ مسند آج یقینا خالی ہو چکی ہے اور کوئی اس مسند پر ویساخورشید اب جلوہ افروز ہوتا دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ان کے انتقال سے ایک دن قبل سیدنا علی ؓ کا یہ شعر ان سے لکھوانے کے لئے گھر سے روانہ ہوا کہ اگرمرنے کے بعد مجھے ایک ایسی قبرنصیب ہوگئی جس پر کتبہ لگ سکے تو یہ شعر اس پر لکھا جائے
رضَیَنٰا قِسمَۃِ الجَبَّارِ فٖیَنٰا لَنَا عِلِم’‘ وَلِلجھَالَ مَٰالُ
ترجمہ:’’میں اس جبار کی اس تقسیم پر راضی ہوں کہ اس نے ہمیں علم دیا اور جاہلوں کو مال‘‘۔
دیگر مصروفیات کی وجہ سے ان کے پاس حاضر نہ ہوسکا۔زندگی بھر جس کی خطاطی میرے ساتھ ساتھ رہی، موت نے اس شخص کو بھی جدا کیا اور میرے لوح مزارکو بھی اس کی خطاطی سے محروم کر دیا۔