پاکستان کے نصاب میں صدر بش کی قصیدہ خوانی

جی مہوش، میں نے آپکی تحریر پڑھی ہے، آپ نےبہت مفصل لکھا ہے اورمجھے بہت اچھا لگا آپ کے دلائل پڑھ کر۔

اصل میں ایک عام آدمی سوچتا بھی عام سے انداز میں ہے۔ کسی کے کہنے سننےسے کیا ہوتا ہے۔ آخر سیاق وسباق بھی تو کوئی چیز ہیں۔ پہلے وزیر تعلیم اور مشرف صاحب بھی بیان دیتے رہے ہیں کہ نصاب میں روشن خیال تبدیلیاں ہوں۔ اور جب نصاب آتا ہے تو بش سے متعلقہ نظم، بیکن ہاوس اسکولوں میں مشرف کی والدہ کا انٹر ویو، کیوں؟ کیا صرف اس لئے کہ وہ مشرف کی والدہ ہیں۔ پاکستان بننے میں انکا کردار دیکھیں، تقسیم سے پہلے ادھر آن پہنچے وہ لوگ، اور چند ماہ بعد ترکی آ گئے، پھر بہت سال ادھر رہے۔ ( ماخذ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام)۔ نصاب میں شامل ہونے کا کیا کریٹیریا ہوا؟ صرف حکمران کی والدہ ہونا۔
اس سے تو اچھا تھا کہ اپنے چاچے “جیجے مہاجر“ کا انٹر ویو چھاپ دیتے جو پچھلے سال فوت ہوا، تقسیم پر ادھر آیا۔ 30 بیگھہ زمین، گھر بار بیوی بچے اور ماں باپ پاکستان پر قربان کرکے ادھر پہنچا اور ساری زندگی مہاجر کہلوایا۔

اگر ان لوگوں کو اسکا علم نہیں تھا کہ وہ کیا شامل کر رہےہیں تو بھی انکی نالائقی پر انکا فارغ کردینا چاہئے۔ غفلت کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ پر آپ ہر روز آنے والے نصاب کی روشن خیال تبدیلوں کو کسی خانہ میں فٹ کریں گے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم

آپ دونوں کا شکریہ۔

میرا پوسٹ کرنے کا مقصد یہ دعوت دینا تھا کہ کسی بھی خبر کے حوالے سے انصاف یہ ہے کہ اُسے اچھی طرح پرکھا جائے (سیاق و سباق کے حوالے سے بھی)۔ یہ نہ ہو کہ میڈیا پاور جہاں ہم کو دھکیلنا چاہے، ہم اُس کے اشارے پر ناچتے چلیں جائیں۔

اسی طرح کسی خبر سے انصاف اُس وقت بھی نہیں ہو سکتا جب ہم نتیجہ نکالتے وقت حکمران دشمنی یا ناپسندیدگی کے عنصر کو شامل رکھیں۔

ان خبروں کے حوالے سے میرے تاثرات یہ ہیں کہ:

1۔ یہ نظم صدرِ پاکستان یا وزیرِ پاکستان کے حکم سے نہیں چھپی ہے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی طرح بھی اُن کے امریکہ غلام ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ (اگرچہ کہ اس نظم کے علاوہ بہت سی دیگر چیزیں ہوں گی جو اُن کی امریکہ غلامانہ ذہنیت کو ثابت کریں)۔

2۔ محکمہ تعلیم کے جن افراد نے اس نظم کو شامل کیا ہے، میرا گمان ہے کہ وہ اسے صدر پاکستان پر چسپاں کرنا چاہتے تھے۔
بہرحال، یہ انتہائی حماقت تھی اور ہمارا نصاب موجودہ سیاسی کرداروں سے بالکل پاک ہونا چاہیے۔

3۔ بیکن ہاؤس میں صدرِ پاکستان کی والدہ کا انٹرویو شامل کرنا بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ صدرِ پاکستان جارج بش کے غلام ہیں۔
یہ ایک الگ بیماری ہے، جسے الگ نام دینا ہے (یعنی جارج بش کا غلام نہیں)

ہو سکتا ہے کہ بیکن ہاؤس کے مالک صدرِ پاکستان کے بہت بڑے مداح ہوں اس لیے انہوں نے یہ انٹرویو نصاب میں شامل کر دیا ہو۔ لیکن اس بات کو بنیاد بنا کر امریکہ سے تعلق جوڑ دینا میرے نزدیک قرینِ انصاف نہیں۔

اگر ایسی ہی بات ہے تو مجھے اس سوال کا جواب چاہیے کہ موجودہ حکمرانوں نے کیوں اے لیول اور او لیول کو ختم کر کے یکساں تعلیمی نصاب پورے پاکستان میں رائج کرنا چاہ رہے ہیں؟ (اس میں بیکن ہاؤس بھی شامل ہے)

والسلام۔
 

زیک

مسافر
مہوش: میرے خیال سے کسی نے جان بوجھ کر بش کی تعریف کے لئے نظم شامل نہیں کی تھی۔ لگتا ہے کہ کچھ پاکستانی “لیڈر“ کی خصوصیات سے بس مرعوب ہو گئے تھے۔ باقی ان کی نااہلی ہے کیونکہ نظم بالکل بیکار ہے۔

ویسے آپ پرویز مشرف کا قصیدہ بھی پڑھ لیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمیں اس کو نصاب میں شامل کرنے کی مہم چلانی چاہیئے۔ :idea:
 

مہوش علی

لائبریرین
زکریا نے کہا:
مہوش: میرے خیال سے کسی نے جان بوجھ کر بش کی تعریف کے لئے نظم شامل نہیں کی تھی۔ لگتا ہے کہ کچھ پاکستانی “لیڈر“ کی خصوصیات سے بس مرعوب ہو گئے تھے۔ باقی ان کی نااہلی ہے کیونکہ نظم بالکل بیکار ہے۔

ویسے آپ پرویز مشرف کا قصیدہ بھی پڑھ لیں۔ میرا تو خیال ہے کہ ہمیں اس کو نصاب میں شامل کرنے کی مہم چلانی چاہیئے۔ :idea:

جی زکریا، میرا بھی اس نظم کے متعلق یہی خیال ہے کہ یہ نظم پاکستانی لیڈر کی خصوصیات سےمتاثر ہو کر شامل کی گئی ہے، مگر نااہلی اتنی دکھائی گئی ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔
 
السلام و علیکم!
تبصرے کافی دلچسپ اور معنی خیز ۔۔۔ اس وجہ سے کیوں پیچھے رہا جا ئے۔
جناب بات کچھ یوں ہے کہ جب آپ نے کسی بھی کلاس کے لئے نصاب ترتیب دینا ہو تو بہت سی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور یہ بھی جانا جاتا ہے کہ کون سی چیز کس تناسب سے نصاب میں شامل کی جائے ۔۔۔۔ اور پھر بات ہوتی ہے کہاں سے شامل کی جائے ۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم خود کہ رہا ہے کہ یہ نظم غلطی سے انٹر نیٹ پر سرچ کر کے شامل کر دی گئی ۔۔۔۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ۔۔۔۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ نظم جان بوجھ کر شامل نہیں کی گئی بلکہ کسی کی شازش تھی تو پھر تو اللہ ہی حافظ ۔۔۔۔ اگر کوئی آپ کی جگہ پر قبضہ کر لے تو لڑ کر لی جا سکتی ہے ۔۔۔ اور اس کے اصول ہمیں ہماری تعلیم ہی دیتی ہے ۔۔۔ مگر اگر کوئی تعلیمی نظام پر قبضہ کر لے تو پھر ۔۔۔۔۔۔ کون آپ کو کہے گا کہ اس میں سے یہ نکال دیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔
لیکن آخر ی بات کہ اگر گلاس خالی ہو تو اسے خالی کیوں نا کہیں ۔۔۔۔۔۔
 
اور اگر دماغ خالی ہوتو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کزن ہیں ڈاکٹر ضیاء، انہوں نے انگریزی کی تعلیم کی نظامت میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے، اور پاکستان میں انکو مبلغ 12000 کی جاب ملی اب چھوڑ کر ولایت چلے گئے ہیں اور 6 ہزار پونڈ کی نوکری کررہےہیں، گھر، گاڑی کے علاوہ۔ بتا رہے تھے کہ یہ نصاب میں تبدیلی سراسر فراڈ ہے ۔ اور اسکا کوئی مثبت مقصد نہیں ہے۔ اوپر سے یہ انٹر نیٹ ڈاؤن لوڈ کی پُر از حماقت بیانات۔ :drama:
 

مہوش علی

لائبریرین
عتیق نے کہا:
السلام و علیکم!
تبصرے کافی دلچسپ اور معنی خیز ۔۔۔ اس وجہ سے کیوں پیچھے رہا جا ئے۔
جناب بات کچھ یوں ہے کہ جب آپ نے کسی بھی کلاس کے لئے نصاب ترتیب دینا ہو تو بہت سی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور یہ بھی جانا جاتا ہے کہ کون سی چیز کس تناسب سے نصاب میں شامل کی جائے ۔۔۔۔ اور پھر بات ہوتی ہے کہاں سے شامل کی جائے ۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم خود کہ رہا ہے کہ یہ نظم غلطی سے انٹر نیٹ پر سرچ کر کے شامل کر دی گئی ۔۔۔۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ۔۔۔۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ نظم جان بوجھ کر شامل نہیں کی گئی بلکہ کسی کی شازش تھی تو پھر تو اللہ ہی حافظ ۔۔۔۔ اگر کوئی آپ کی جگہ پر قبضہ کر لے تو لڑ کر لی جا سکتی ہے ۔۔۔ اور اس کے اصول ہمیں ہماری تعلیم ہی دیتی ہے ۔۔۔ مگر اگر کوئی تعلیمی نظام پر قبضہ کر لے تو پھر ۔۔۔۔۔۔ کون آپ کو کہے گا کہ اس میں سے یہ نکال دیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔
لیکن آخر ی بات کہ اگر گلاس خالی ہو تو اسے خالی کیوں نا کہیں ۔۔۔۔۔۔

السلام علیکم
عتیق برادر، آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔

اس پوسٹ کے پیچھے میرے مقاصد یہ تھے کہ اگر گلاس آدھا خالی ہے تو اُسے آدھا خالی ہی کہا جائے، نہ کہ پورا خالی۔ کیونکہ بقیہ آدھے بھرے ہوئے گلاس کو یکسر نظر انداز کر دینا قرینِ انصاف نہیں۔

دوسرا یہ کہ میڈیا جو ہمیں تصویر پیش کرے اُسے من و عن قبول کرنے کی بجائے بات کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ میڈیا پروپیگنڈہ ہمیں ہانک کر غلط راہ میں لے جائے گا۔

تیسرا یہ کہ کوئی بھی فیصلہ اُس وقت تک نہ کیا جائے جب تک فریقِ مخالف کا بیان بھی پورے طریقے سے سامنے نہ آ جائے (یعنی اُس کو صفائی پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے)۔

ذرا اب ذیل کی خبر کو ملاحظہ فرمائیں۔
عطا الحق قاسمی از جنگ اخبار نے کہا:
جنگ اخبار،
ٖhttp://209.41.165.188/urdu/archive/details.asp?nid=85446
عطاء الحق قاسمی

ایک وضاحتی خط گیارھویں جماعت کی انگریزی کتاب میں امریکی صدر جارج بش کا جو قصیدہ شائع ہوا تھا، اس کے فاضل مرتبین نے میرے نام ایک وضاحتی خط لکھا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نصاب میں اس نظمکی شمولیت کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ یہ کام لاعلمی میں ہوا، خط درج ذیل ہے: جناب قاسمی صاحب! السلام علیکم۔ تلخی کی معذرت۔ دعاؤں کی درخواست۔ فیڈرل کالجزکی فرسٹ ایئر کی انگلش کی کتاب میں بش کے بارے میں نظم کے بارے میں اصلی صورتحال یہ ہے۔ پروفیسر ہمدانی کی عمر اس وقت 76برس سے زائد ہے۔ انہوں نے بش کی تعریف کرکے کیا لینا ہے۔ بش اگر ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نہ بھی ہوتا تو بھی کسی مسلمان کا ہیرو کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمدانی صاحب نے انٹرنیٹ سے نظم اتاری اور بیس عدد نظمیں ایجوکیشن منسٹری کو پیش کی گئیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور فیڈرل کالجزسے انتہائی تجربہ کار انگلش کے پروفیسر صاحبان پر مشتمل کمیٹی نے دس نظمیں منتخب کیں جن میں ایک نظم یہ بھی تھی۔ کتاب دوبارہ سلیکٹ کمیٹی کو اس درخواست کے ساتھ بھیجی گئی کہ جو دس نظمیں منظور نہیں کی گئیں ان میں سے چند نظمیں شامل کرکے گمنام شاعروں کی نظمیں نکال دی جائیں۔ مزید دی گئی نظمیں یہ تھی ان میں کوئی نظم گمنام شاعر کی بھی نہیں اور سب کلاسیکل نظمیں ہیں۔ 1- Dream a World by Langston Hughes(1902-1967) 2-The Perfect Life by Ben Jonson (1574-1637) -3Ring Out Wild Bells by Lord Tennyson (1809-1892) 4-Up-Hill by Chiristina Rossetti(1803-1882) 5-The Snare by James Stephens (1882-1950) 6-Exceeior by H.W Longfellow(1807-1882) -7God's Grandeur by G.M Mookins (1844-1889) 8- Lord of All Being by OW. Holmes (1809- 1894) 9-Auguries of Innpacence by William Blake (1757-1827) 10- Soul's Search for God by Thomas Heywood (Died 1850) سلیکٹ کمیٹی نے نہ جانے کیوں مرتبین کی درخواست قبول نہ کی۔ بہرحال مرتبین اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ کتاب میں یہ نظم دینے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے جملہ ارباب اختیار، ایجوکیشن منسٹری کے کسی افسر نیشنل ریویو کمیٹی کے کسی ممبر یا خود ان کے علم میں یہ نہیں تھا کہ اس نظم کے پہلے پہلے حروف کو ملا کر جارج بش کا نام بنتا ہے۔ معروف معنوں میں بش تو اپنی قوم کا لیڈر بھی نہیں اور نہ ہی کسی ملک کا صدر لیڈر ہوتا ہے۔ وہ چند سال کے لئے صدر رہتا ہے اور پھر کوئی اور صدر بن جاتا ہے۔ لیڈر ہمیشہ کے لئے لیڈر ہوتا ہے جیسے ہمارے لیڈر حضرت قائداعظم ہیں۔ بش توہماری داڑھیاں دیکھ لے تو ہمیں گولی مروائے گا۔ م۔ ح ہمدانی۔ محمد اسلم گوندل

صورتحال جو صاف ہو کر اب سامنے آئی ہے، اُس کےمطابق یہ نظم صدرِ پاکستان کا قصیدہ گانے کے لیے بھی نہیں شامل کی گئی، بلکہ اپنی ناعلمی میں تعلیمی بورڈ کے ارکان اسے قائدِ اعظم پر فٹ کرنا چاہ رہے تھے۔

دوسرا یہ کہ تعلیمی بورڈ کے یہ رُکن ماشاء اللہ باریش (داڑھی والے) ہیں، اور جارج بُش کے انتہائی مخالفین میں سے دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ غلط فہمی کی وجہ سے میڈیا نے ہمیں جو تصویر پیش کی تھی، اُس کے مطابق ان صاحبان نے جارج بُش سے متاثر ہو کر یہ نظم نصاب میں شامل کی تھی اور یہ موجودہ حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی تھی۔

والسلام۔
 

جیسبادی

محفلین
محترمہ وزیرِ تعلیم کو پینٹاگان بلا کر ہدایت نامہ جاری ہؤا تھا۔ اب آپ پوچھو گے کہ "پینٹاگان"؟ جی، نہ کہ محکمہ تعلیم۔ زبیدہ جلال نام ہے شاید اس وزیر کا۔ امریکہ نے کچھ پیسے دینے کا وعدہ بھی کیا تھا نصاب "درست" کرنے کیلئے۔
 

زیک

مسافر
مہوش: کیا بات ہے۔ یہ لوگ تو اپنی نااہلی کا کھلے عام اعلان کر رہے ہیں۔ ڈنڈھورا پیٹ رہے ہیں کہ ہمیں انگریزی ادب کی الف بے بھی نہیں آتی۔ کس قسم کے انگریزی کے پروفیسر ہیں یہ؟ ان سے تو مجھے اپنے ایک انگریزی کے پروفیسر یاد آ گئے جو لیکچر کے آخر میں اگلے دن کے سبق کا ذکر ایسے کرتے تھے‎ "Yesterday we will study ..."‎

اب جب ان صاحبان نے اخبار میں خط لکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نصاب بنانے لائق نہیں ہیں تو کب استعفیٰ دے رہے ہیں؟
 

مہوش علی

لائبریرین
جیسبادی اور زکریا،

آپ کے اٹھائے گئے اعتراضات درست ہیں، مگر ان کا موجودہ زیرِ بحث نظم اور اُس سے متعلق حقیقت یا پروپیگنڈہ سے تعلق نہیں ہے۔

زکریا،

کیا آپ اپنے رویے میں کچھ سخت نہیں ہو رہے۔

میرے خیال میں غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔ اگر نصاب مرتب کرنے والوں کی نیتیں نیک ہیں تو میں تو انہیں ایک چانس دینے کی قائل ہوں۔
 
گستاخی کی معافی

مہوش علی نے کہا:
جیسبادی اور زکریا،

آپ کے اٹھائے گئے اعتراضات درست ہیں، مگر ان کا موجودہ زیرِ بحث نظم اور اُس سے متعلق حقیقت یا پروپیگنڈہ سے تعلق نہیں ہے۔

زکریا،

کیا آپ اپنے رویے میں کچھ سخت نہیں ہو رہے۔

میرے خیال میں غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔ اگر نصاب مرتب کرنے والوں کی نیتیں نیک ہیں تو میں تو انہیں ایک چانس دینے کی قائل ہوں۔

ارے ایک چانس نا! یہ غالباً ان کا تین سو پینتیسواں چانس ہے۔ :)

گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، نصاب کے ساتھ کھیل کچھ عرصے سے جاری ہے۔ جہاد کے موضوعات اور صحابہ کی زندگیوں پر مبنی مضامین کی کانٹ چھانٹ سب زیادہ دور کی بات نہیں۔

مزہ یہی ہے کہ مدرسے والے تو لازمی سائینس و کمپیوٹر پڑھیں، اور یہاں ہمارے کتنے ہی اسکولوں میں اسلامیات لازمی نہیں۔

میں ایک دفعہ پھر گستاخی کی معافی چاہتا ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش ویسے تو اس تھریڈ میں شغل ہی لگایا جا رہا تھا، ہم میں سے کسی نے یہ الزام نہیں لگایا تھا کہ یہ نظم صدر یا وزیر اعظم کے تحریری حکم پر نصاب میں شامل کی گئی تھی۔ پتا نہیں آپ کو ایسا کیوں لگا۔ جہاں تک اس معاملے کے ذمہ دار افراد کا تعلق ہے تو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ان میں سے کسی کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ یہاں تو ملک کے دولخت ہونے پر بھی کسی کے خلاف کوئی انکوائری یا کاروائی نہیں ہوئی تھی۔
 
نبیل آپ کی بات سے مجھے بھی ایک بات یاد آ گئی جو میں نے ایک میگزین میں پڑھی تھی ۔۔۔۔ ملاحظہ ہو ۔
“لال قلعے سے لالو کھیت تک“ ، “مزا غالب ، بندر روڑ پر “ اور “تعلیمِ بالغان“ جیسے لازوال ڈراموں کے خالق، خواجہ معین الدین مرحوم کے آخری برسوں میں کسی نے اُن کے ڈراموں کی تعریف کرتے ہوئے ان سے کہا “ جناب، آپ کے ڈرامے واقعی آفاقی ہوتے ہیں۔ بیس برس پہلے لکھا گیا ڈرامہ آج بھی دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کل ہی لکھا گیا ہو۔“
تعریف کا جواب دیتے ہوئے خواجہ معین الدین مرحوم نے نہایت عاجزی سے کہا “ میں کیا کروں اگر معاشرہ خود کو تبدیل کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ آپ معاشرے کا چال چلن بدل دیجئے، میرے ڈرامے خود بخود پرانے ہو جائیں گے۔ (اقتباص: گلوبل سائنس ۔۔۔ دسمبر 2005)
 

شعیب صفدر

محفلین
نبیل نے کہا:
مہوش ویسے تو اس تھریڈ میں شغل ہی لگایا جا رہا تھا، ہم میں سے کسی نے یہ الزام نہیں لگایا تھا کہ یہ نظم صدر یا وزیر اعظم کے تحریری حکم پر نصاب میں شامل کی گئی تھی۔ پتا نہیں آپ کو ایسا کیوں لگا۔ جہاں تک اس معاملے کے ذمہ دار افراد کا تعلق ہے تو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ان میں سے کسی کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ یہاں تو ملک کے دولخت ہونے پر بھی کسی کے خلاف کوئی انکوائری یا کاروائی نہیں ہوئی تھی۔
ترقی کا چانس تو مارا گیا نا!!!!
ستیا ناس ہو اس پریس والوں کا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیفی

محفلین
اس نظم کے جواب میں ایک دوست نے ایک نظم ای میل کی ہے۔
ہر سطر کے پہلے حرف سے اس نظم کا مخاطب مراد ہے۔۔۔باقی دروغ بر گردنِ راوی

 
Top