عتیق نے کہا:
السلام و علیکم!
تبصرے کافی دلچسپ اور معنی خیز ۔۔۔ اس وجہ سے کیوں پیچھے رہا جا ئے۔
جناب بات کچھ یوں ہے کہ جب آپ نے کسی بھی کلاس کے لئے نصاب ترتیب دینا ہو تو بہت سی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور یہ بھی جانا جاتا ہے کہ کون سی چیز کس تناسب سے نصاب میں شامل کی جائے ۔۔۔۔ اور پھر بات ہوتی ہے کہاں سے شامل کی جائے ۔۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیم خود کہ رہا ہے کہ یہ نظم غلطی سے انٹر نیٹ پر سرچ کر کے شامل کر دی گئی ۔۔۔۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ۔۔۔۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ نظم جان بوجھ کر شامل نہیں کی گئی بلکہ کسی کی شازش تھی تو پھر تو اللہ ہی حافظ ۔۔۔۔ اگر کوئی آپ کی جگہ پر قبضہ کر لے تو لڑ کر لی جا سکتی ہے ۔۔۔ اور اس کے اصول ہمیں ہماری تعلیم ہی دیتی ہے ۔۔۔ مگر اگر کوئی تعلیمی نظام پر قبضہ کر لے تو پھر ۔۔۔۔۔۔ کون آپ کو کہے گا کہ اس میں سے یہ نکال دیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔
لیکن آخر ی بات کہ اگر گلاس خالی ہو تو اسے خالی کیوں نا کہیں ۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم
عتیق برادر، آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔
اس پوسٹ کے پیچھے میرے مقاصد یہ تھے کہ اگر گلاس آدھا خالی ہے تو اُسے آدھا خالی ہی کہا جائے، نہ کہ پورا خالی۔ کیونکہ بقیہ آدھے بھرے ہوئے گلاس کو یکسر نظر انداز کر دینا قرینِ انصاف نہیں۔
دوسرا یہ کہ میڈیا جو ہمیں تصویر پیش کرے اُسے من و عن قبول کرنے کی بجائے بات کی تہہ میں پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ میڈیا پروپیگنڈہ ہمیں ہانک کر غلط راہ میں لے جائے گا۔
تیسرا یہ کہ کوئی بھی فیصلہ اُس وقت تک نہ کیا جائے جب تک فریقِ مخالف کا بیان بھی پورے طریقے سے سامنے نہ آ جائے (یعنی اُس کو صفائی پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے)۔
ذرا اب ذیل کی خبر کو ملاحظہ فرمائیں۔
عطا الحق قاسمی از جنگ اخبار نے کہا:
جنگ اخبار،
ٖ
http://209.41.165.188/urdu/archive/details.asp?nid=85446
عطاء الحق قاسمی
ایک وضاحتی خط گیارھویں جماعت کی انگریزی کتاب میں امریکی صدر جارج بش کا جو قصیدہ شائع ہوا تھا، اس کے فاضل مرتبین نے میرے نام ایک وضاحتی خط لکھا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نصاب میں اس نظمکی شمولیت کسی بدنیتی پر مبنی نہیں تھی بلکہ یہ کام لاعلمی میں ہوا، خط درج ذیل ہے: جناب قاسمی صاحب! السلام علیکم۔ تلخی کی معذرت۔ دعاؤں کی درخواست۔ فیڈرل کالجزکی فرسٹ ایئر کی انگلش کی کتاب میں بش کے بارے میں نظم کے بارے میں اصلی صورتحال یہ ہے۔ پروفیسر ہمدانی کی عمر اس وقت 76برس سے زائد ہے۔ انہوں نے بش کی تعریف کرکے کیا لینا ہے۔ بش اگر ہزاروں مسلمانوں کا قاتل نہ بھی ہوتا تو بھی کسی مسلمان کا ہیرو کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمدانی صاحب نے انٹرنیٹ سے نظم اتاری اور بیس عدد نظمیں ایجوکیشن منسٹری کو پیش کی گئیں۔ پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور فیڈرل کالجزسے انتہائی تجربہ کار انگلش کے پروفیسر صاحبان پر مشتمل کمیٹی نے دس نظمیں منتخب کیں جن میں ایک نظم یہ بھی تھی۔ کتاب دوبارہ سلیکٹ کمیٹی کو اس درخواست کے ساتھ بھیجی گئی کہ جو دس نظمیں منظور نہیں کی گئیں ان میں سے چند نظمیں شامل کرکے گمنام شاعروں کی نظمیں نکال دی جائیں۔ مزید دی گئی نظمیں یہ تھی ان میں کوئی نظم گمنام شاعر کی بھی نہیں اور سب کلاسیکل نظمیں ہیں۔ 1- Dream a World by Langston Hughes(1902-1967) 2-The Perfect Life by Ben Jonson (1574-1637) -3Ring Out Wild Bells by Lord Tennyson (1809-1892) 4-Up-Hill by Chiristina Rossetti(1803-1882) 5-The Snare by James Stephens (1882-1950) 6-Exceeior by H.W Longfellow(1807-1882) -7God's Grandeur by G.M Mookins (1844-1889) 8- Lord of All Being by OW. Holmes (1809- 1894) 9-Auguries of Innpacence by William Blake (1757-1827) 10- Soul's Search for God by Thomas Heywood (Died 1850) سلیکٹ کمیٹی نے نہ جانے کیوں مرتبین کی درخواست قبول نہ کی۔ بہرحال مرتبین اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ کتاب میں یہ نظم دینے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے جملہ ارباب اختیار، ایجوکیشن منسٹری کے کسی افسر نیشنل ریویو کمیٹی کے کسی ممبر یا خود ان کے علم میں یہ نہیں تھا کہ اس نظم کے پہلے پہلے حروف کو ملا کر جارج بش کا نام بنتا ہے۔ معروف معنوں میں بش تو اپنی قوم کا لیڈر بھی نہیں اور نہ ہی کسی ملک کا صدر لیڈر ہوتا ہے۔ وہ چند سال کے لئے صدر رہتا ہے اور پھر کوئی اور صدر بن جاتا ہے۔ لیڈر ہمیشہ کے لئے لیڈر ہوتا ہے جیسے ہمارے لیڈر حضرت قائداعظم ہی
ں۔ بش توہماری داڑھیاں دیکھ لے تو ہمیں گولی مروائے گا۔ م۔ ح ہمدانی۔ محمد اسلم گوندل
صورتحال جو صاف ہو کر اب سامنے آئی ہے، اُس کےمطابق یہ نظم صدرِ پاکستان کا قصیدہ گانے کے لیے بھی نہیں شامل کی گئی، بلکہ اپنی ناعلمی میں تعلیمی بورڈ کے ارکان اسے قائدِ اعظم پر فٹ کرنا چاہ رہے تھے۔
دوسرا یہ کہ تعلیمی بورڈ کے یہ رُکن ماشاء اللہ باریش (داڑھی والے) ہیں، اور جارج بُش کے انتہائی مخالفین میں سے دکھائی دے رہے ہیں۔ جبکہ غلط فہمی کی وجہ سے میڈیا نے ہمیں جو تصویر پیش کی تھی، اُس کے مطابق ان صاحبان نے جارج بُش سے متاثر ہو کر یہ نظم نصاب میں شامل کی تھی اور یہ موجودہ حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت کی عکاسی تھی۔
والسلام۔