سیما علی
لائبریرین
“ لڑکیاں سوانگ رچانے کی بے حد شوقین ہوتی ہیں۔ بچپن میں وہ پلنگ کھڑے کر کے ان کے پلنگ پوش کے پردے لگا کر گھر گھر کھیلتی ہیں۔ گھروندا سجا کر تصور کرتی ہیں یہ سچ مچ کا مکان ہے- ہنڈکلیا ان کے نزدیک بڑا اہم دعوتی کھانا ہوتا ہے۔ گڑیاں گڈے ان کے لئے جاندار انسان ہیں۔ جب ذرا بڑی ہوتی ہیں تو اپنا بناؤ سِنگھار کر کے کس قدر مسرور ہوتی ہیں۔ باہر جانے سے پہلے گھنٹہ بھر آئینے کے سامنے صرف کریں گی۔ جوتوں اور کپڑوں کا انتخاب ان کے لئے آفاقی اہمیت کا حامل ہے۔ سجنا بہروپ بھرنا ان کے لئے بے حد ضروری ہے۔ رادھا اور کرشن کا ناچ ناچتی ہیں تو تصور کرتی ہیں کہ واقعی ورندابن میں موجود ہیں۔ ساری عمر ان کی اپنی ایک نازک سی دنیا بسانے میں گزرتی ہے اور یہ دنیا بسا کر وہ بڑے اطمینان سے اس میں اپنے آپ کو پجارن یا کنیز کا درجہ تفویض کر دیتی ہیں۔ اوّل دن سے ان کے بہت چھوٹے بڑے دیوتا ہوتے ہیں جو ان کی رنگ بھوم کے سنگھاسن پر آرام سے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں۔ باپ، بھائی، شوہر، خدا، بھگوان، کرشن، بیٹے، پرستش ان کے مقدر میں لکھا ہے۔ جب رنگ بھوم کا ڈائریکٹر ان سے کہتا ہے کہ تم مہارانی ہو، دل کی ملکہ ہو، دنیا کی حسین ترین لڑکی ہو، روپ وتی ہو تو یہ بیچاریاں بہت خوش ہوتی ہیں......!!”
( قراۃ العین حیدر ۔ ناول “آگ کا دریا “ سے اقتباس )
( قراۃ العین حیدر ۔ ناول “آگ کا دریا “ سے اقتباس )