سیما علی
لائبریرین
نیو یارک ٹیکس زدہ ہے ۔ہر قدم پر ادائیگی کرنی پڑتی ہے ۔ ائرپورٹ پر سامان رکھنے کے لئے ٹرالی درکار تھی ۔ وہ ایک لوہے کی راڈ سے بندھی تھی ۔ ہم نے اسے کھینچ کر نکالنے کی بہت کوشش کی ناکام ہوئے تب ایک امریکن نے بتایا ڈیڑھ ڈالر ڈالیں گے جب باہر نکلے گی ۔ ہم ڈالر کو روپے سے ضرب کر کے پریشان ہونے لگے ۔ لیکن کوئی اور راستہ نہ تھا ۔
نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے ۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا ، ٹرائی برو اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس ۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے ۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے ۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان با رعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے ۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا ۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی ۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے ، جنگلوں اورباغوں کی بہتات ۔ کئی جگہ " یہاں ہرن ہیں " لکھے دیکھا ۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے نہ کوئی اور جانور ۔ امریکی اگر " یہاں شیر ہے " کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا ۔
راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے ۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے ۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسی لیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا ۔ رفتار قابو میں آ جائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی ۔
یہ نظام ہمیں پسند آیا ۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔
آسمان پر بادل تھے ۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی ۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی ۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا ۔ ہم مرعوب ہو گئے ۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے ۔۔۔۔لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا ۔
گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی ۔ یہ ریسٹ ایریا تھا ۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا ۔ چائے ، کافی ، کولڈ ڈرنک ، چپس ، ڈونٹ ، برگر ڈالر کے بدلے ملتے تھے ۔ باتھ روم مفت تھے ۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا ۔
بھائی کے گھر ، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے ۔ نہ گردو غبار نے منہہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا ۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا ۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی ۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف ۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا ۔ بھاوج نے بتایا " نہاری پک رہی ہے " ۔ دوسرے دن پائے ، تیسرے دن حلیم پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے ، کلیجی ، مغز ، بریانی ، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا ۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص ، پائے محبت ، حلیم مہمان داری ، کو کیسے روکیں ؟
امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے ، پھلوں کا رس پئیں گے ۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے ۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری ، پائے سے مرعوب کر رہے تھے ۔
جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی ۔ دوسرے دن دس بجے ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا ۔ قربانی کے لئے ۔
ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا ۔
ہمارے بھائی نے کہا :
" قربانی کے لئے بکرا چاہیے "
اچانک مشین بند ہو گئی ۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا ۔
ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا ۔
مول تول ہونے لگا وہ اسی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا ۔بھائی ضد کرنے لگا ۔
قصاب بولا " میں کچھ اور دے دوں گا " ۔
اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا ۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی ، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا ۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا ۔اس میں ایک درجن انڈے تھے ۔
بھائی نے کہا صرف ایک درجن ، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا ۔ اور بولا۔۔" بس اب چپ رہنا "
بھائی نے اسی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا ۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی ۔
ہمیں ایک ڈر تھا ۔ یہ سارا گوشت ، پائے ، مغز ، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا ۔
" وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا ۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں "
شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں ۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے ۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض ۔
جارج لیک کا پروگرام بنا البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے ۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام ۔
پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے ۔ شوکت علی خان اپنی ائر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا ۔
شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا ۔
یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے ۔جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے ۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے ۔
ہم نے دریافت کیا ۔ " رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا "
جواب ملا " یہ اپنی صلاحیت اور ہمت پر ہے "
امریکہ مت جئیو ۔۔۔۔۔۔قمر علی عباسی
نیویارک سے باہر نکلنے کا بھی جرمانہ ہے ۔ شہر سے نکلتے ہی ایک پل آ گیا ، ٹرائی برو اسے پار کرنے کے ڈھائی ڈالر ٹیکس ۔ اس کا ٹوکن بھی ملتا ہے ۔ پل دیکھ کر حیران ہو گئے ۔ دریائے ہڈسن پر عظیم الشان با رعب ایسا کہ ہم بھی ڈھائی ڈالر ٹیکس دینے کو آمادہ ہو گئے ۔ ہائی وے پر آئے تو بھائی ساڑھے دس ڈالر ادا کر چکا تھا ۔ اتنی رقم دینے کے بعد جو سڑک نظر آئی وہ اچھی لگنی ضروری تھی ۔ دونوں طرف گھاس کے قطعے ، جنگلوں اورباغوں کی بہتات ۔ کئی جگہ " یہاں ہرن ہیں " لکھے دیکھا ۔ ہم بار بار اس ہائی وے سے گزرے لیکن ہم نے نہ ہرن دیکھے نہ کوئی اور جانور ۔ امریکی اگر " یہاں شیر ہے " کا بورڈ لگا دیتا تو بھی کوئی فرق نہ پڑتا ۔
راستے میں کئی جگہ ہم نے دیکھا پولیس کی گاڑی درختوں کے جھنڈ میں کھڑی ہے ۔ اس میں ریڈار لگا ہے رفتار چیک کرنے کا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عام گاڑیوں میں اینٹی ریڈار لگا ہے ۔ جہاں گاڑی پولیس والوں کے ریڈار رینج میں پہنچی اور وارننگ سگنل کی آواز آنے لگی اب ظاہر ہے ایکسی لیٹر پر پاؤں کا دباؤ کم ہوگا ۔ رفتار قابو میں آ جائے گی اور ٹکٹ سے بچت ہو گی ۔
یہ نظام ہمیں پسند آیا ۔ جمہوری ملک میں پکڑنے اور بچنے کے مواقع برابر ہونے چاہیں۔
آسمان پر بادل تھے ۔ ذرا دیر میں رم جھم بارش ہونے لگی ۔ سیاہ سڑک پہلے ہی صاف ستھری تھی اب مزید دھل گئی ۔ یہ سب ہمیں متاثر کرنے کے لئے تھا ۔ ہم مرعوب ہو گئے ۔ ایک آدھ بار شک گزرا کہیں کسی حادثے کا شکار ہو کر جنت تو نہیں سدھار گئے ۔۔۔۔لیکن اعمال پر نظر گئی تو یہ خیال خام نکلا ۔
گاڑی ایک جگہ ٹہر گئی ۔ یہ ریسٹ ایریا تھا ۔ یہاں ریسٹورنٹ تھا ۔ چائے ، کافی ، کولڈ ڈرنک ، چپس ، ڈونٹ ، برگر ڈالر کے بدلے ملتے تھے ۔ باتھ روم مفت تھے ۔ ہم نے مال مفت پر حملہ کیا ۔
بھائی کے گھر ، لاوڈن ول میں جاگنگ کرتے دور نکل گئے ۔ نہ گردو غبار نے منہہ ڈھکا نہ تھکن کا احساس ہوا ۔ اس بات سے دل خوش نہیں ہوا ۔ برسوں کی عادت ایک دن میں کیسے جاتی ۔ دھول مٹی نہ ہو پھر کیا لطف ۔ تین میل کا چکر لگا کر واپس گھر آئے تو عجیب سی خوشبو نے استقبال کیا ۔ بھاوج نے بتایا " نہاری پک رہی ہے " ۔ دوسرے دن پائے ، تیسرے دن حلیم پھر جو دعوتوں کا سلسلہ چلا تو گردے ، کلیجی ، مغز ، بریانی ، فیرنی کے علاوہ کچھ نہ ملا ۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا ان لوگوں کے نہاری خلوص ، پائے محبت ، حلیم مہمان داری ، کو کیسے روکیں ؟
امریکہ جانے میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ سلاد کھائیں گے ، پھلوں کا رس پئیں گے ۔ ایک آدھ دبلا کرنے کی دوا استعمال کریں گے تو لوگ چہرے کی شادابی اور جسم کی فٹنس دیکھ کر حیران ہوں گے ۔ لیکن امریکہ میں پاکستانی ہمیں نہاری ، پائے سے مرعوب کر رہے تھے ۔
جس دن ہم امریکہ پہنچے اس کے دوسرے دن بقر عید تھی ۔ دوسرے دن دس بجے ہمیں گاڑی میں سوار کر کے ایک باڑے کی طرف چلا ۔ قربانی کے لئے ۔
ایک کمرے میں مشین پر گوشت کاٹتا قصائی کھڑا تھا ۔
ہمارے بھائی نے کہا :
" قربانی کے لئے بکرا چاہیے "
اچانک مشین بند ہو گئی ۔ اس نے برابر کے نل سے ہاتھ دھوئے اور جھٹ ہم سے ملا لیا ۔
ہمارا ہاتھ چھوڑ کر وہ اندر کے کمرے میں گیا اور ایک بکرے کو کان سے پکڑ لایا ۔
مول تول ہونے لگا وہ اسی ڈالر سے کم پر آمادہ نہ تھا ۔بھائی ضد کرنے لگا ۔
قصاب بولا " میں کچھ اور دے دوں گا " ۔
اتنے میں اندر سے ایک اور بکرا نمودار ہوا ۔ قصاب نے اس کی ٹانگ پکڑ لی ، ہم سمجھے کچھ اور میں اس کی ٹانگ کاٹ کر دے گا ۔ لیکن اس نے ٹانگ چھوڑ کر دائیں طرف سے ایک ڈبہ اٹھا کر دیا ۔اس میں ایک درجن انڈے تھے ۔
بھائی نے کہا صرف ایک درجن ، قصاب نے ایک ڈبہ اور پیش کر دیا ۔ اور بولا۔۔" بس اب چپ رہنا "
بھائی نے اسی ڈالر کا چیک کاٹ کر دیا ۔ اسی لمحے بکرے کو زمین پر لٹا کر چھری پھیر دی گئی ۔
ہمیں ایک ڈر تھا ۔ یہ سارا گوشت ، پائے ، مغز ، گردوں اور کلیجی کے ساتھ کھانا پڑے گا اور آنے والے دنوں میں ایسا ہی ہوا ۔
" وہ سارا گوشت ہمارے گوشت میں آ ملا ۔ اور اب ساتھ لئے پھرتے ہیں "
شوکت صاحب ہمارے بھائی کے سسر ہیں ۔ انہیں سیر و سیاحت کا شوق ہے ۔ اب پروگرام بننے لگا کہ کھلی فضا میں پکنک منائی جائے بھلا ہمیں کیا اعتراض ۔
جارج لیک کا پروگرام بنا البنی سے ایک گھنٹے کا سفر ہے ۔ اس کے لئے شوکت صاحب کے ہم نام شوکت علی خان کو فون کیا گیا کہ ٹرک لے کر آ جاؤ، ہم پریشان ہو گئے ۔ بھلا ٹرک کیا کام ۔
پھر اس میں کس طرح بیٹھیں گے ۔ شوکت علی خان اپنی ائر کنڈیشن ٹویوٹا ویگن لے آئے۔ یہ ٹرک تھا ۔
شوکت علی خان نے لیک ایک گھنٹے سے پہلے پہنچا دیا ۔
یہاں جھیل کی سیر کے لئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہاز تھے ۔جن میں ایک گھنٹے سے ساڑھے چار گھنٹے کی سیر شامل ہے ۔ اس میں جاز اور رقص شامل ہے ۔
ہم نے دریافت کیا ۔ " رقاصہ ساتھ لانی ہو گی یا جہاز مہیا کرے گا "
جواب ملا " یہ اپنی صلاحیت اور ہمت پر ہے "
امریکہ مت جئیو ۔۔۔۔۔۔قمر علی عباسی