انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قوم کے بچوں کی جان بچانے والی کو ہی شہید کر دیا گیا
ہمارے ہاں پڑھے لکھے مڈل یا اپر کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو ایک خاص پروگرام کے تحت ڈاکٹر سے ویکسینز لگواتے ہیں۔ انہیں بڑے ہوکر بھی اپنا ویکسینیشن کارڈ دکھانا پڑتا ہے۔ ان پڑھ طبقے کی بات البتہ دوسری ہے۔ انہیں امریکیوں کی سازشوں کا بخوبی ادراک ہے۔ وہ یہود و ہنود کے سازشی ذہن کو ناکام بنانے کے لیے ہر لمحہ متحرک رہتے ہیں۔ کیا ہوا جو پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا اور پاکستانی و افغانستان میں نہ ہوسکا! یہی تو ہماری جیت اور امریکہ بہادر کی ہار ہے۔پاکستان والوں سے ایک سوال: کیا وہاں لوگ (خاص طور پر پڑھے لکھے اور مڈل یا اپر کلاس کے) اپنے بچوں کو شیڈول کے مطابق ڈاکٹر کے پاس لے جا کر مختلف ویکسین نہیں لگواتے؟ کیا یہ طریقہ ابھی بھی عام نہیں ہے؟
میرا بھی یہی خیال تھا کہ چیچک کے ٹیکے مجھے گھر آ کر کسی نے نہ لگائے تھے۔ لیکن یہاں اکثر گفتگو سے ایسے لگا جیسے ایسا کم ہی لوگوں کا تجربہ ہے۔ہمارے ہاں پڑھے لکھے مڈل یا اپر کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو ایک خاص پروگرام کے تحت ڈاکٹر سے ویکسینز لگواتے ہیں۔
ہمیں تو اب تک چیچک کے ٹیکے یاد ہیں۔ ایک گول دائرے میں نوکیں نکلی ہوتی تھیں جسے بازو میں کھبو کر گھمادیا جاتا تھا۔ نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ بہت عرصے تک بازو کے اوپری حصے پر اس کا نشان رہتا تھا۔میرا بھی یہی خیال تھا کہ چیچک کے ٹیکے مجھے گھر آ کر کسی نے نہ لگائے تھے۔ لیکن یہاں اکثر گفتگو سے ایسے لگا جیسے ایسا کم ہی لوگوں کا تجربہ ہے۔
یاد رہے کہ چیچک کا خاتمہ میرے بچپن میں ہوا تھا
میرے سب بچوں کے کارڈ بنے ہوئے ہیں اور انھیں تمام سرکاری ویکسینیشن بھی کروائی ہوئی ہے۔ البتہ یہ کام ڈاکٹر نہیں بلکہ قطرے پلانے کے مراکز میں موجود پیرامیڈیکل سٹاف سرانجام دیتا ہے۔پاکستان والوں سے ایک سوال: کیا وہاں لوگ (خاص طور پر پڑھے لکھے اور مڈل یا اپر کلاس کے) اپنے بچوں کو شیڈول کے مطابق ڈاکٹر کے پاس لے جا کر مختلف ویکسین نہیں لگواتے؟ کیا یہ طریقہ ابھی بھی عام نہیں ہے؟
میرے سب بچوں کے کارڈ بنے ہوئے ہیں اور انھیں تمام سرکاری ویکسینیشن بھی کروائی ہوئی ہے۔ البتہ یہ کام ڈاکٹر نہیں بلکہ حفاظتی ٹیکوں/ قطرے پلانے کے مراکز میں موجود پیرامیڈیکل سٹاف سرانجام دیتا ہے۔پاکستان والوں سے ایک سوال: کیا وہاں لوگ (خاص طور پر پڑھے لکھے اور مڈل یا اپر کلاس کے) اپنے بچوں کو شیڈول کے مطابق ڈاکٹر کے پاس لے جا کر مختلف ویکسین نہیں لگواتے؟ کیا یہ طریقہ ابھی بھی عام نہیں ہے؟
الحمدللہ! یہ کلچر تو پنپ رہا ہے تاہم پولیو کے معاملے میں بوجوہ مزاحمت پائی جاتی ہے۔ نہایت افسوس ناک رجحان ہے بعض علاقوں میں، ابھی تک ۔۔۔!پاکستان والوں سے ایک سوال: کیا وہاں لوگ (خاص طور پر پڑھے لکھے اور مڈل یا اپر کلاس کے) اپنے بچوں کو شیڈول کے مطابق ڈاکٹر کے پاس لے جا کر مختلف ویکسین نہیں لگواتے؟ کیا یہ طریقہ ابھی بھی عام نہیں ہے؟
یہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ اس کے لیے زرخیز مٹی اسامہ بن لادن نے فراہم کی تھی ۔روٹ لیول پہ جمہوریت کی ریپریزینٹیشن نہ ہونے کے باعث یہ خلا محلے کے مولوی، وڈیرے، امراء یا رئیس پر کرتے ہیں جس کے باعث وہ معاشرے کی سمت طے کرتے ہیں۔ پولیو کے قطرے نہ پلانا تقریباً ایک مذہبی مسئلہ بن چکا ہے۔
ہائے ہائےہمیں تو اب تک چیچک کے ٹیکے یاد ہیں۔ ایک گول دائرے میں نوکیں نکلی ہوتی تھیں جسے بازو میں کھبو کر گھمادیا جاتا تھا۔ نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہوا کرتا تھا۔ بہت عرصے تک بازو کے اوپری حصے پر اس کا نشان رہتا تھا۔
یہاں بہرصورت یہی اوپینین لیڈرز ہیں؛ انہیں ساتھ ملا کر ہی اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔روٹ لیول پہ جمہوریت کی ریپریزینٹیشن نہ ہونے کے باعث یہ خلا محلے کے مولوی، وڈیرے، امراء یا رئیس پر کرتے ہیں جس کے باعث وہ معاشرے کی سمت طے کرتے ہیں۔
واقعی یہ بہت عجیب قومی رویہ ہے۔ جہاں دیگر بیماریوں کی ویکسین پلانے پر کوئی مزاہمت نہیں وہاں پولیو پر کیونکر تکلیف ہے ۔ یہ سچ ہے کہ امریکی سازشیوں نے ویکسینیشن مہم کے ذریعہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگایا تھا۔ مگر وہ صاحب تو ماضی کا قصہ ہو گئے۔ اس بنیاد پر آئندہ آنے والی نسلوں کو کیوں تباہ کیا جائے؟الحمدللہ! یہ کلچر تو پنپ رہا ہے تاہم پولیو کے معاملے میں بوجوہ مزاحمت پائی جاتی ہے۔ نہایت افسوس ناک رجحان ہے بعض علاقوں میں، ابھی تک ۔۔۔!
متفق۔ یہی معاملہ ہے۔ اس واقعہ سے قبل پولیو کے قطرے متنازعہ نہیں تھےیہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے ۔ اس کے لیے زرخیز مٹی اسامہ بن لادن نے فراہم کی تھی ۔
ایک تصحیح ضروری ہے، وہ یہ کہ اسامہ بن لادن کے واقعے سے قبل بھی پولیو ڈراپس کے حوالے سے مختلف طبقات میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے تھے ۔۔۔!واقعی یہ بہت عجیب قومی رویہ ہے۔ جہاں دیگر بیماریوں کی ویکسین پلانے پر کوئی مزاہمت نہیں وہاں پولیو پر کیونکر تکلیف ہے ۔ یہ سچ ہے کہ امریکی سازشیوں نے پولیو مہم کے ذریعہ اسامہ بن لادن کا سراغ لگایا تھا۔ مگر وہ صاحب تو ماضی کا قصہ ہو گئے۔ اس بنیاد پر آئندہ آنے والی نسلوں کو کیوں تباہ کیا جائے؟
اس سے شک پیدا ہوسکتا ہے کہ ضرور کوئی بات ہے!!!امریکہ میں او پی وی کیوں نہیں استعمال کرائی جاتی؟؟؟
ایک اور تصحیح: ڈاکٹر شکیل کی ٹیم، جس نے اسامہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی، نے ہیپیٹائٹس ویکسین کی آڑ میں ڈی این اے سیمپل لئے تھے۔ پولیو ویکسین کا اس سازش میں بھی عمل دخل نہیں ہے۔ایک تصحیح ضروری ہے، وہ یہ کہ اسامہ بن لادن کے واقعے سے قبل بھی پولیو ڈراپس کے حوالے سے مختلف طبقات میں کئی طرح کے خدشات پائے جاتے تھے ۔۔۔!
شدت پسند ذہنیت۔آئندہ سے پولیو کے قطرے فوج کی نگرانی میں پلائے جائیں۔ اور کوئی حل نہیں ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے۔