پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کا سیکولرزم

تقسیم سے پہلے مسلمان ، معاشی طور پہ پسماندہ تر تھے۔ تقسیم کے بعدمغربی پنجاب کے متمول، متعلم اور حاکم طبقے کی مشرقی پنجاب ہجرت کر جانے سے، پنجابی مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور انہوں نے ہندو اور سکھوں کی جگہ لی۔ گو کہ پنجاب پاکستان بنانے کی دوڑ میں دیر سے شامل ہوا مگر تقسیم کے بعد نظریہ تقسیم پہ قائم رہا۔ سندھ میں متمول غیر مسلم شہری آبادی اور بیوروکریسی کہ جگہ مہاجروں نے لی اور ان کہ ہجرت تقسیم کے کئی سال بعد (۵۱) تک جاری رہی۔ یہ بھی قومیت کی تشکیل میں مذہب کے بنیاد ہونے پہ قائم رہے۔ مگر جوں جوں حکومت پہ بیوروکریسی سے زیادہ فوج کا قبضہ بڑھتا گیا، حاکم طبقہ میں مہاجروں کی نمائندگی میں کمی ہوتی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام پہ تین حرف بھیجے اور لسانی سیاست کا بیڑہ اٹھایا، تقسیم کو غلطی قرار دیا اور خود کو یقین دلایا کہ مغل تخت وہ پاکستان کی خاطر چھوڑ آئے، اور اس قربانی کا ان کو صلہ نہیں ملا۔ لیکن اس بات کو فراموش کر دیا گیا کہ صدیوں وہ ہندوستان میں ایک حاکم اقلیت رہے، اور اکثر و بیشتر ایران اور وسط ایشیا سے آئے تھے یا عرب سے۔ آزادی کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ ہندو اپنی عددی اور معاشی برتری کے باعث ان کا ڈنڈا ڈولی نہ کرتے، جیسا کہ ہو رہا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک ہونے ،یکجہتی ،محبت اور اخوت کی بات کریں جناب!آخر تان نفرتوں اور تفریق پہ ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟
 
ایک ہونے ،یکجہتی ،محبت اور اخوت کی بات کریں جناب!آخر تان نفرتوں اور تفریق پہ ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟
یہ تفریق میں نے پیدا نہیں کی، بلکہ موجود ہے، میرا ماننا ہے کہ ہر تحریک اور نظریہ ، کسی نہ کسی جبلی خواہش کی ترجمانی کرتا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ کی مجھے یہی سمجھ آئی۔ اگر دوسروں کا خیال کچھ اور ہے تو میں ضرور اس کو سمجھنا چاہوں گا، اگر مکالمہ منطقی ہو اور سطحی جذباتیت سے مبرا۔
 
بر صغیر کے مسلمان کہیں سے نہیں آئے۔ بہادر شاہ ظفر بھی تقریباً پورا ہندوستان ہی سے تھا
بیوروکریسی کا ایک بڑا حصہ معاشی مہاجروں پر مشتمل تھا، ایران، افغانستان، وسط ایشیا وغیرہ سے لوگ آ کر فوج، بیوروکریسی اور دربار میں نوکریاں حاصل کرتے تھے۔ غالب کے آبا و اجداد کی مثال لے لیں۔
بہادر شاہ ظفر بھی مغل تھا۔
 
مہاجر دشمنی اور تعصب صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ پاکستان اور اسلام کی بات کرتے ہیں۔ وہ تمام جہلا اور مسلم دشمن مہاجروں کے خلاف ہی ہونگے ۔ وہ مہاجر جنھوں نے مسلمانوں کی عظیم تعداد پر نسلوں تک احسان اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کیا ہے۔ مگرکم ظرف کم نصیب ان سے بھی دشمنی و تعصب کرتے ہیں۔
 
تقسیم سے پہلے مسلمان ، معاشی طور پہ پسماندہ تر تھے۔ تقسیم کے بعدمغربی پنجاب کے متمول، متعلم اور حاکم طبقے کی مشرقی پنجاب ہجرت کر جانے سے، پنجابی مسلمانوں کو فائدہ ہوا اور انہوں نے ہندو اور سکھوں کی جگہ لی۔ گو کہ پنجاب پاکستان بنانے کی دوڑ میں دیر سے شامل ہوا مگر تقسیم کے بعد نظریہ تقسیم پہ قائم رہا۔ سندھ میں متمول غیر مسلم شہری آبادی اور بیوروکریسی کہ جگہ مہاجروں نے لی اور ان کہ ہجرت تقسیم کے کئی سال بعد (۵۱) تک جاری رہی۔ یہ بھی قومیت کی تشکیل میں مذہب کے بنیاد ہونے پہ قائم رہے۔ مگر جوں جوں حکومت پہ بیوروکریسی سے زیادہ فوج کا قبضہ بڑھتا گیا، حاکم طبقہ میں مہاجروں کی نمائندگی میں کمی ہوتی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام پہ تین حرف بھیجے اور لسانی سیاست کا بیڑہ اٹھایا، تقسیم کو غلطی قرار دیا اور خود کو یقین دلایا کہ مغل تخت وہ پاکستان کی خاطر چھوڑ آئے، اور اس قربانی کا ان کو صلہ نہیں ملا۔ لیکن اس بات کو فراموش کر دیا گیا کہ صدیوں وہ ہندوستان میں ایک حاکم اقلیت رہے، اور اکثر و بیشتر ایران اور وسط ایشیا سے آئے تھے یا عرب سے۔ آزادی کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ ہندو اپنی عددی اور معاشی برتری کے باعث ان کا ڈنڈا ڈولی نہ کرتے، جیسا کہ ہو رہا ہے۔
آپ کا یہ مراسلہ پڑھ کر بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی، پاکستانیوں کو اتحاد اور تقسیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور آپ نے پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کے سیکولر ہونے پر کوئی ٹھوس دلیل بھی پیش نہیں کی۔
۔
 

سید عمران

محفلین
سب نے بالکل صحیح بات کی سوائے مصطفیٰ صاحب کے۔۔۔
مذہب پسند یا لادین ہونے کا قومیت سے نہیں صحبت سے تعلق ہے۔۔۔
 
مہاجر دشمنی اور تعصب صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ پاکستان اور اسلام کی بات کرتے ہیں۔ وہ تمام جہلا اور مسلم دشمن مہاجروں کے خلاف ہی ہونگے ۔ وہ مہاجر جنھوں نے مسلمانوں کی عظیم تعداد پر نسلوں تک احسان اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کیا ہے۔ مگرکم ظرف کم نصیب ان سے بھی دشمنی و تعصب کرتے ہیں۔
خاصی مضحکہ خیز بات ہے۔
مہاجروں کے کیا احسان ہیں؟
ہم ایک ایک کر کے ان پر بات کر سکتے ہیں۔
اس کے بر خلاف پاکستان کے ان پہ بہت احسان ہیں، ان کی زبان کو علاقائی زبانوں پہ ترجیح دی، اس کے وجہ سے مہاجر اب بھی ایسی اقلیت ہیں جو معاشی اور تعلیمی طور پہ باقیوں سے بہتر ہے۔ اس کی نسبت وہ لوگ جو انڈیا میں رہ گئے وہ پسماندہ ہیں۔
 
آپ کا یہ مراسلہ پڑھ کر بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی، پاکستانیوں کو اتحاد اور تقسیم ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور آپ نے پنجابیوں کی مذہب پسندی اور مہاجروں کے سیکولر ہونے پر کوئی ٹھوس دلیل بھی پیش نہیں کی۔
۔
میرا خیال ہے کہ تقسیم ختم کرنے کی جانب ایک قدم یہ بھی ہے کہ وہ تمام جھوٹا پروپیگنڈا جو فرقہ بند جماعتوں نے پھیلا رکھا ہے اس پہ بات کی جائے۔
مذہب پسندی اور سیکولرزم کی بات اس حوالے سے ہے کہ پنجابی دائیں بازو کی اور مہاجر بائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔
 
میرا خیال ہے کہ تقسیم ختم کرنے کی جانب ایک قدم یہ بھی ہے کہ وہ تمام جھوٹا پروپیگنڈا جو فرقہ بند جماعتوں نے پھیلا رکھا ہے اس پہ بات کی جائے۔
مذہب پسندی اور سیکولرزم کی بات اس حوالے سے ہے کہ پنجابی دائیں بازو کی اور مہاجر بائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ دیتے رہے ہیں۔
اگر کراچی کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو بات واضح ہوجائے گی کہ ایم کیو ایم سے پہلے کراچی میں مذہبی جماعتیں کافی مقبول تھیں اور اثرورسوخ رکھتی تھیں۔
 
Top